Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

...

....

وظائف

مختلف وظائف کے لیے کلک کریں

دار المطالعہ

اچھے اچھے عنوانات پر کالم پڑھنے کے لیے کلک کریں

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی صاحب کی خوبصورت تحریریں پڑھنے کے لیے کلک کریں

گوشہءِ غزل

بہت خوبصورت اردو غزلیں پڑھنے کے لیے کلک کریں

7/19/25

نصیحت میں اثر کیوں نہیں ہوتا؟ ایک اہم نفسیاتی اور دعوتی پہلو Win Hearts Before You Preach – The Prophetic & Sufi Approach to Effective Advice

بات میں اثر کیوں نہیں ہوتا؟ ایک قرآنی اور صوفیانہ راز

اچھی بات بھی کیوں بے اثر ہو جاتی ہے؟ جانئیے اصل وجہ

نصیحت میں اثر کیوں نہیں ہوتا؟ ایک اہم نفسیاتی اور دعوتی پہلو

اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ کوئی شخص کتنی ہی عمدہ، مدلل اور خیرخواہانہ نصیحت کیوں نہ کرے، مخاطب کے دل پر اس کا اثر نہیں ہوتا۔ بسا اوقات انسان سچی بات کہتا ہے، حق بات پر زور دیتا ہے، لیکن مخاطب کے دل میں وہ بات اُترتی نہیں، بلکہ کبھی الٹا ردعمل بھی سامنے آتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟

اس کی ایک بہت بڑی اور بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہم جس کو نصیحت کر رہے ہوتے ہیں، وہ ہماری ذات سے مانوس نہیں ہوتا، اس کے اور ہمارے درمیان کوئی تعلق، انسیت، یا اعتماد کا رشتہ موجود نہیں ہوتا۔ وہ ہمیں "مشورہ دینے والا" تو سمجھتا ہے، لیکن "خیرخواہ" نہیں سمجھتا، کیونکہ وہ ہمارے باطن سے واقف نہیں، وہ ہماری محبت کو محسوس نہیں کر پاتا۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری بات میں اثر پیدا نہیں ہوتا، چاہے وہ بات کتنی ہی عمدہ اور سچی کیوں نہ ہو۔

مانوسیت: نصیحت کی بنیاد

یہ ایک نفسیاتی حقیقت ہے کہ انسان سب سے پہلے بات سے زیادہ "بات کرنے والے" کو دیکھتا ہے۔ اگر بات کرنے والا اس کے لیے نیا، اجنبی، یا ناصح بن کر اچانک سامنے آ جائے، تو مخاطب کے دل میں ایک طرح کی مدافعت (defensiveness) پیدا ہو جاتی ہے۔ لیکن اگر وہی بات اس شخص کی طرف سے آئے جس سے دل میں محبت ہو، مانوسیت ہو، انسیت ہو، تو وہ بات دل میں اُتر جاتی ہے۔

اس لیے مؤثر نصیحت کا پہلا زینہ یہ ہے کہ انسان پہلے اپنی ذات کو مانوس بنائے۔ مخاطب کو یہ محسوس ہو کہ یہ شخص میری خیرخواہی چاہتا ہے، میری اصلاح کا سچا ارادہ رکھتا ہے، میری شخصیت کو رد نہیں کر رہا بلکہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔

نبوی حکمت: "لقد لبثت فیکم عمراً من قبلہ"

قرآنِ کریم کی آیت "لَقَدْ لَبِثْتُ فِیکُمْ عُمُرًا مِّن قَبْلِهِ" (القرآن، سورۃ یونس : 16) میں ایک گہری دعوتی حکمت چھپی ہے۔ جب رسول اللہ ﷺ نے توحید کا پیغام دیا تو قریش نے اعتراضات اٹھائے، تو آپ ﷺ نے فرمایا: "میں تو تمہارے درمیان ایک عمر تک رہا ہوں، اس سے پہلے (میں نے کوئی جھوٹ یا گمراہی کی بات نہیں کی)، تو تم کیوں نہیں سمجھتے؟"

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ حقیقت بیان فرمائی کہ نبی ﷺ کی بات میں اس لیے اثر تھا کہ وہ قوم آپ ﷺ سے پہلے سے مانوس تھی، آپ کی سچائی، دیانت، شرافت، اور حسنِ اخلاق سے واقف تھی۔ وہ جانتی تھی کہ یہ شخص کبھی جھوٹ نہیں بولتا، کبھی دھوکہ نہیں دیتا۔ اس لیے جب آپ ﷺ نے کلمۂ توحید پیش کیا تو اگرچہ ان کے مفادات کی وجہ سے انکار کیا، لیکن دلوں میں آپ کی سچائی کا اعتراف موجود تھا۔ یہی مانوسیت، یہی تعلق، دعوت کی کامیابی کی پہلی شرط ہے۔

نصیحت کا اثر کن پر ہوتا ہے؟

کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی شخص ہمیں جانتا تک نہیں، نہ ہم نے کبھی اسے دیکھا نہ اس سے کوئی سابقہ رہا، لیکن اس کی بات دل میں اُتر جاتی ہے، اس کی زبان میں عجب کشش ہوتی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہوتی ہے کہ وہ شخص عمومی طور پر لوگوں کے دلوں میں محبوب ہوتا ہے، اس کی شخصیت میں اخلاص، انکساری، حسنِ اخلاق، اور خیرخواہی کی جھلک ہوتی ہے۔ گویا وہ اپنی پوری زندگی سے لوگوں کے دلوں میں جگہ بنا چکا ہوتا ہے۔ تب اُس کی بات دلوں پر اثر ڈالتی ہے، اگرچہ سننے والا اُس سے مانوس نہ بھی ہو۔

یہی وجہ ہے کہ کچھ شخصیات کا صرف بولنا ہی نہیں، خاموش رہنا بھی متاثر کرتا ہے، کیونکہ ان کی شخصیت کی بنیاد اخلاص، محبت، اور سچائی پر قائم ہوتی ہے۔

دعوت و اصلاح کا اصل اصول

اسلامی دعوت کا اصول یہی ہے کہ پہلے تعلق بناؤ، دل میں جگہ پیدا کرو، اعتماد قائم کرو، پھر بات کرو۔ یہ ایک مسلسل عمل ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے 40 سالہ کردار سے اس اصول کو اپنایا۔ دعوت کے میدان میں کامیابی کی کنجی یہی ہے کہ انسان اپنے دل کو اتنا صاف کرے کہ دوسرے دل اس کی طرف مائل ہو جائیں۔ اسی حکمتِ عملی کی عظیم مثال ہمیں برصغیر (ہندوستان) میں آنے والے اولیاء اللہ اور صوفیاء کرام کی زندگیوں میں ملتی ہے۔ حضرت خواجہ معین الدین چشتیؒ، حضرت نظام الدین اولیاءؒ، حضرت بہاؤالدین زکریاؒ، حضرت لعل شہباز قلندرؒ، اور دیگر عظیم ہستیاں جب ہندوستان کے مختلف علاقوں میں آئیں تو انہوں نے براہِ راست وعظ و تلقین یا مناظروں سے دعوت نہیں دی، بلکہ پہلے اپنے کردار، اخلاق، سخاوت، محبت، اور عوام سے بے لوث تعلقات کے ذریعے دلوں میں جگہ بنائی۔ انہوں نے بھوکے کو کھانا دیا، بیمار کو دعا دی، مظلوم کے ساتھ کھڑے ہوئے، اور امیر و غریب سب سے شفقت و مساوات کا برتاؤ کیا۔

 یہی وہ مانوسیت تھی جس نے ہندوؤں، سکھوں، اور دوسرے مذاہب کے ماننے والوں کے دلوں کو نرم کیا اور انہیں سوچنے پر مجبور کیا کہ یہ کیسا دین ہے جس کے پیروکار صرف زبانی نہیں، عملی محبت دیتے ہیں۔ پھر جب ان صوفیاء کرام نے اسلامی دعوت پیش کی تو وہ دلوں میں اُتر گئی۔ یہی وجہ ہے کہ برصغیر میں اسلام کسی تلوار کے زور سے نہیں بلکہ اخلاق و انسیت کے ذریعے پھیلا۔

نصیحت تبھی مؤثر ہوتی ہے جب شخصیت محبوب ہو

نصیحت وہی مؤثر ہوتی ہے جس کے پیچھے اخلاص، خیرخواہی، محبت اور مانوسیت ہو۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ کی بات سنی جائے، اس پر غور ہو، اس سے فائدہ اٹھایا جائے، تو سب سے پہلے اپنی ذات کو قابلِ اعتماد بنائیں، اپنے اخلاق و معاملات کو سنواریں، لوگوں کے دکھ درد میں شریک ہوں، اُن سے محبت کریں، پھر اللہ تعالیٰ آپ کی زبان سے نکلی ہوئی باتوں میں تاثیر پیدا فرما دے گا۔

تحریر: محمد سہیل عارف معینیؔ (پی ایچ ڈی سکالر یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور)

Share:

7/17/25

Online Quran & Islamic Classes for Sisters and Brothers | Moeeni Educare Online Services

Online Quran & Islamic Classes for Sisters and Brothers

📖 Are you searching for online Quran classes with expert guidance and proper Tajweed?

Your search ends here! We offer Quran online classes, specially designed for sisters and brothers from all backgrounds. Whether you're just starting out or wish to enhance your recitation and understanding, we are here to help!

What We Offer:

Quran Tutor Online >> Learn from qualified teachers

Tajweed Classes >> Step-by-step improvement in recitation

Female Quran Teachers >>  For comfort and privacy of sisters

Islamic Classes >> Covering essential beliefs and daily practices

Flexible Timings >> Learn at your convenience

One-on-One & Group Sessions >> Based on your preference

Safe Online Environment >> Learn from home with peace of mind

🔍 Looking for “Tajweed classes near me” or a reliable Quran online teacher?

Join hundreds of students already learning with us!

📲 Contact Now to Join: 📞 WhatsApp: 0300-5262557

🌐 Website: Click Here to Contact
🕌 "The best among you are those who learn the Quran and teach it." – Prophet Muhammad

Start your journey of knowledge, faith, and transformation today

 

Share:

7/16/25

مکالمہ بین المذاہب | بنیادی اصول | Interfaith Dialogue

مکالمہ بین المذاہب  کو موثر بنانے کے لیے فقل تعالوا الی کلمۃ سواء کی روشنی میں دو اہم اصول:

·       مکالمہ شروع کرنے سے پہلے متعلقہ موضوع سے متعلق ایسے پہلووں کو زیر بحث لایا جائے اور ان پر اتفاق کیا جائے جو  فریقین کے ہاں مشترکہ اقدار پر مبنی ہوں۔

·       مختلف مکاتب فکر کے درمیان معاشرتی حوالے سے رواداری کی راہ تلاش کرنی ہو اور بقائے باہمی کے لیے رستہ ہموار کرنا ہو تو ایسے پہلو کو تلاش کرنے چاہئیں جو متفقہ اور مشترک ہوں

یہ دونوں نکات نہایت اہم، گہرے اور بین المذاہب یا بین المکاتب مکالمہ کی حکمت عملی کے اصولی خدوخال پر مبنی ہیں۔ ان نکات کو مفہوم، حکمت، اور تدریج کے پہلو سے درج ذیل تجزیے میں سمویا جا سکتا ہے:

 1. مشترکہ اقدار کو بنیاد بنانا: تدریجی حکمت کی علامت پہلے نکتے میں کہا گیا ہے کہ "مکالمہ شروع کرنے سے پہلے متعلقہ موضوع سے متعلق ایسے پہلووں کو زیر بحث لایا جائے اور ان پر اتفاق کیا جائے جو  فریقین کے ہاں مشترکہ اقدار پر مبنی ہوں۔" یہ نکتہ قرآن مجید کے اس عظیم اصول کی عملی شکل ہے جو آیت: "تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءِ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ" میں بیان ہوا ہے۔ اس اصول کی بنیاد "تدریج" (gradualism) پر ہے، جو کہ حکیمانہ مکالمہ کا بنیادی قاعدہ ہے۔ جب مختلف المذاہب یا المکاتب گروہ آپس میں بات چیت کرتے ہیں، تو سب سے پہلے انہیں وہ بات چیت شروع کرنی چاہیے جو نقاطِ اتفاق پر مبنی ہو۔ یہ اس لیے بھی ضروری ہے کہ مکالمہ تناؤ کے بجائے اعتماد اور احترام کی فضا میں شروع ہو، تاکہ کسی بھی پیچیدہ یا متنازع پہلو تک پہنچنے سے پہلے نفسیاتی قبولیت اور بنیادی فکری ہم آہنگی پیدا ہو جائے۔ یہ طریقہ محض فکری چال نہیں، بلکہ ایک تربیتی اسلوب ہے جو مخاطب کو نرمی، تدبر اور سچائی کے قریب لانے میں مدد دیتا ہے۔ یہی تدریج انبیاء کی سنت بھی رہی ہے۔

 2. بقائے باہمی کے لیے مشترکہ نکات کی تلاش: رواداری کا عملی راستہ دوسرے نکتے میں فرمایا گیا: "اگر مختلف مکاتب فکر کے درمیان معاشرتی حوالے سے رواداری کی راہ تلاش کرنی ہو اور بقائے باہمی کے لیے رستہ ہموار کرنا ہو تو ایسے پہلو کو تلاش کرنے چاہئیں جو متفقہ اور مشترک ہوں۔" یہ نکتہ سماجی سطح پر مکالمے کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے۔ اس میں مقصود یہ ہے کہ ہم صرف نظریاتی گفتگو پر ہی نہ رکیں، بلکہ معاشرتی بقا اور پرامن بقائے باہمی کو بھی مدنظر رکھیں۔ اس کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ ہم پہلے سے موجود مشترکہ انسانی و اخلاقی اقدار جیسے:

·       انصاف

·       احترامِ انسانیت

·       آزادیِ مذہب و ضمیر

·       خدمتِ خلق

·       سماجی بھلائی

کو بنیاد بنائیں۔ جب کسی معاشرے میں یہ مشترک قدریں مشترکہ لائحہ عمل کی صورت میں سامنے آئیں، تو نہ صرف انتہا پسندی کم ہوتی ہے بلکہ بین المذاہب/بین الفرقہ رواداری کو پائیدار بنیاد بھی ملتی ہے۔


Share:

7/9/25

Nusrat Collection | Nusrat Fateh Ali Khan’s Timeless Qawwalis & Ghazals | A Journey into Soulful and Spiritual Music

🌟 نصرت فتح علی خان: صوفی موسیقی کا جاودانی سُر 🌟

نصرت فتح علی خان، ایک ایسا نام جو صوفیانہ موسیقی، قوالی، اور غزل کو بین الاقوامی شہرت کی بلندیوں پر لے گیا۔ ان کی آواز میں جو روحانیت، گہرائی اور جذب ہے، وہ آج بھی سننے والوں کے دلوں پر راج کرتی ہے۔ اس بلاگ میں ہم آپ کو پیش کر رہے ہیں ان کی مشہور اور دل کو چھو لینے والی قوالیوں اور غزلوں کا انتخاب، تصویروں کے ساتھ — جہاں ہر تصویر میں موجود لنک آپ کو براہِ راست اس موسیقی کے سحر میں لے جائے گا۔

Nusrat Fateh Ali Khan — a legendary name that brought Sufi music, Qawwali, and Ghazals to global recognition. His voice carries a rare depth, spiritual essence, and emotional intensity that continues to captivate hearts around the world. In this blog, we present a soulful selection of his most iconic Qawwalis and Ghazals, accompanied by visuals — each image containing a direct link that transports you into the mesmerizing world of his music.





































Share:

7/8/25

ادارہ معین الاسلام بیربل شریف، سرگودھا: ایک روحانی مرکز اور دسویں محرم کے نوافل کی منفرد روایت


ادارہ معین الاسلام بیربل شریف، سرگودھا: ایک روحانی مرکز اور دسویں محرم کے نوافل کی منفرد روایت

  تعارف:     ادارہ معین الاسلام، بیربل شریف، ضلع سرگودھا، پاکستان کا ایک روحانی، دینی اور علمی مرکز ہے جہاں علمِ دین، تزکیۂ نفس اور ذکرِ الٰہی کی محفلیں سال بھر جاری رہتی ہیں۔ یہ ادارہ صرف تعلیم کا مرکز ہی نہیں بلکہ ایک خانقاہی نظام کے تحت روحانی تربیت کا ذریعہ بھی ہے۔

پیر و مرشد کی علمی و روحانی شخصیت: اس خانقاہ کے سرپرست اور ہمارے پیر و مرشد (صاحبزادہ پروفیسر محبوب حسین چشتی زید مجدہ)  ایک جلیل القدر عالم دین اور صاحبِ سلوک ہستی ہیں جنہوں نے بے شمار مریدین کی اصلاح و تربیت فرمائی ہے۔ ان کی مجلسِ ارشاد میں قرآن و حدیث، فقہ، تصوف اور بین السطور روحانی نکات پر روشنی ڈالی جاتی ہے۔

 🕋 دسویں محرم اور شہدائے کربلا سے عقیدت:        محرم الحرام، بالخصوص دسویں محرم کا دن، اس خانقاہ میں انتہائی عقیدت، احترام اور روحانی وقار کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ ہر سال اس دن شہدائے کربلا کے ایصالِ ثواب کے لیے ایک عظیم عمل انجام دیا جاتا ہے، جو اس خانقاہ کی منفرد روحانی روایت ہے۔

بیس نوافل کی خاص ادائیگی:         دسویں محرم کے روز اس خانقاہ میں خصوصی بیس نوافل ادا کیے جاتے ہیں جو ایصالِ ثواب کے لیے وقف کیے جاتے ہیں۔ ان نوافل کے ذریعے شہدائے کربلا کی عظیم قربانیوں کو خراجِ عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔ ہر نماز مخصوص نیت اور دعا کے ساتھ پڑھی جاتی ہے جس کی تفصیل خانقاہ کے نظام کے تحت ہوتی ہے۔

نوافل کی ترتیب اور تعداد کے لیے تصویر دیکھیں:


 💬 زائرین و طلباء  کی روحانی کیفیت:          یہ موقع صرف نوافل تک محدود نہیں بلکہ زائرین و معتقدین کا ہجوم روحانی سرور اور گریہ و زاری کی فضا پیدا کر دیتا ہے۔ دلوں کو جھنجھوڑنے والی دعائیں، ذکرِ حسینؑ، اور اجتماعی نالہ و فریاد کی محفلیں اس دن کو ایک منفرد روحانی رنگ دیتی ہیں۔

 🌙 خانقاہی روایت کا تسلسل:       ادارہ معین الاسلام میں اس روحانی روایت کا تسلسل گزشتہ کئی دہائیوں سے قائم ہے۔ یہ عمل نہ صرف ایصالِ ثواب کا ذریعہ ہے بلکہ عوام الناس کو اہلِ بیت علیہم السلام سے محبت و عقیدت کے عملی مظاہرے کی ایک بابرکت صورت مہیا کرتا ہے۔




Share:

6/23/25

یہ ہے میکدہ یہاں رند ہیں یہاں سب کا ساقی امام ہے | جگر مرادآبادی | غزلیات


 

یہ ہے میکدہ یہاں رند ہیں یہاں سب کا ساقی امام ہے

یہ حرم نہیں ہے اے شیخ جی یہاں پارسائی حرام ہے

 

یہ جناب شیخ کا فلسفہ جو سمجھ میں میری نہ آ سکا

جو وہاں پیؤ تو حلال ہے جو یہاں پیؤ تو حرام ہے

 

جو ذرا سی پی کے بہک گیا اسے میکدے سے نکال دو

یہاں کم نظر کا گزر نہیں یہاں اہلِ ظرف کا کام ہے

 

کوئی مست ہے کوئی تشنہ لب تو کسی کے ہاتھ میں جام ہے

مگر اب اس میں کوئی کرے بھی کیا یہ تو میکدے کا نظام ہے

 

تجھے اپنے حُسن کا واسطہ میرے شوقِ دید پہ رحم کھا

ذرا مسکرا کر نقاب اُٹھا کہ نظر کو شوقِ سلام ہے

 

نہ سنا تو حور و قصور کی یہ حکایتیں مجھے واعظا

کوئی بات کر درِ یار کی درِ یار ہی سے تو کام ہے

 

نہ تو اعتکاف سے کچھ غرض نہ ثواب و زہد سے واسطہ

تیری دید ایسی نماز ہے نہ سجود ہے نہ قیام ہے

 

یہ درست کہ عیب ہے میکشی یہ بجا کہ بادہ حرام ہے

مگر اب سوال یہ آپڑا کہ تمھارے ہاتھ میں جام ہے

 

جو اٹھی تو صبحِ دوام تھی جو جھکی تو شام ہی شام تھی

تیری چشمِ مست میں ساقیا میری زندگی کا نظام ہے

 

میرا فرض ہے کہ پڑا رہوں تیری بارگاہ میں ساقیا

کوئی تشنہ لب ہے کہ سیر ہے یہی دیکھنا تیرا کام ہے

 

ابھی اس جہان میں اے جگر کوئی انقلاب اٹھے گا پھر

کہ بلند ہو کے بھی آدمی ابھی خواہشوں کا غلام ہے

جگر مرادآبادی

Share:

6/21/25

ہر دل میں اجالا ہے عثمان غنی تیرا | Manqabat Usman Ghani رضی اللہ عنہ


 ہر دل میں اجالا ہے عثمان غنی تیرا

کیا نام دوبالا ہے عثمان غنی تیرا

 

آنکھوں میں حیا تیری سینوں میں وفا تیری

ہر سر پہ دو شالا ہے عثمان غنی تیرا

 

بازار محبت میں جب مال غنا آیا

کیا دام نرالا ہے عثمان غنی تیرا

 

پھر کون بگاڑ سکے جب شاہ دو عالم نے

ہر کام سنبھالا ہے عثمان غنی تیرا

 

محبوب کے صدقے سے ہر جذبہ ایمانی

دیکھا اور بھالا ہے عثمان غنی تیرا

 

جنت بھی چمک اٹھی انوار عنائیت سے

رخ رحمتوں والا ہے عثمان غنی تیرا

Share:

یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا | Iran vs izrael war 2025 | Prof Dr Muhammad Shahbaz Manj

یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا

 تحریر: پروفیسر ڈاکٹرمحمد شہباز منج

 ایران ازرایل جنگ کے پہلے تین چار دنوں کی صورت حال یہ تھی کہ ایران کی جانب سے   کوئی بیچ کا راستہ نکال کر  سیز فائر  کرنے کی کئی بار درخواست کی گئی  مگر بدمعاش ریاستوں نے اس درخواست کو رعونت سے  ٹھکرا دیا۔ اب صورت حالات یکسر الٹ ہو چکی ہے، ازرائلی ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز اپنے ایرانی ہم منصب سے سیز فائر کی درخوست کرتے ہیں اور وہ آگے سے کہتے ہیں کہ اس مقصد کے لیے امریکی ڈائریکٹر جنرل ملٹری آپریشنز سے کہیں وہ ہم سے بات کریں۔ جنیوا میں ایرانی وزیر خارجہ کو امریکہ سے بات کا  کہا جاتاہے تو وہ کہتے ہیں امریکہ خود ہم سے بات کرے، ہم اس سے کیوں بات کریں! حالات  کا یہ پھیرجسے قرآن کی زبان میں ""تلک الایام نداولھا بین الناس" اور  "و مکروا و مکرا للہ واللہ خیر الماکرین"  "  کا مصداق کہا جا سکتا ہے،  زمین پر دنیاے اسباب میں کیسے رونما ہوا؟ آیے اس پر ایک نظر ڈالتے  ہیں: جنگ کے ابتدائی دنوں میں اسرائیل نے روایتی جنگی اصولوں کی بجائے ہائبرڈ وارفیئر (Hybrid Warfare) کے منصوبے کو اپناتے ہوئے ایران کو بے بس کرنے کی کوشش کی۔ میزائل حملوں کے ساتھ ساتھ موساد نے ایران کے اندرونی حلقوں میں اپنے ایجنٹس اور سہولت کاروں کی مدد سے ایسی خفیہ کارروائیاں انجام دیں جن کا مقصد ایران کی دفاعی کمان کو مفلوج کرنا تھا۔ان کارروائیوں میں خاص طور پر ایرانی پاسدارانِ انقلاب (IRGC) کے سینئر افسران، اسٹریٹجک مشیروں اور حساس ایٹمی تنصیبات میں کام کرنے والے سائنس دانوں کو ٹارگٹ  کیا گیا، جس  کے نتیجے میں متعدد اہم افسران اور سائنس دان شہید ہوئے۔ ایران کے سیکیورٹی اداروں نے تسلیم کیا کہ ان حملوں میں اندرونی معاونت بھی شامل تھی۔ ان حملوں  کے نتیجے میں ایک طرف بین الاقوامی میڈیا میں یہ بیانیہ مضبوط ہوا کہ ایران داخلی طور پر کمزور ہو چکا ہے، اور اسے میدانِ جنگ میں شکست دینا آسان ہو گا۔ دوسری طرف ایران  نے بھی خاصا دباؤ محسوس کیا۔ ان حالات میں ابتدائی تین چار دنوں میں دنیا کو لگا کہ ایران اس جنگ کو جاری نہیں رکھ پائے گا۔ ازرائیلی میڈیا اور امریکی تھنک ٹینکس کی رپورٹس میں یہ تاثر شدت سے اُبھارا گیا کہ ایران کا ڈھانچہ کمزور ہو چکا ہے اور اب صرف ایک آخری دھچکا باقی ہے۔ اسی تاثر کے تناظر میں ازرائل اور امریکہ  رعونت  اور تکبر کی انتہاؤں کو چھو رہے تھے۔ ٹرمپ  صاحب  ٹویٹ فرما رہے تھے کہ ہمیں  معلوم ہے خامنہ ای کہاں ہیں، لیکن ہم انھیں فی الحال مارنا نہیں چاہتے۔ ایران کی فضاؤں پر امریکہ کا مکمل کنٹرول ہے،  ایران کو" غیر مشروط سرنڈر" کرنا ہوگا۔ ان متکبرانہ دھمکیوں نے ایران پر واضح کر دیا کہ پسپائی کا نتیجہ مکمل تباہی ہے ۔  چناں چہ ایران نے تدبیر، صبر اور حکمت کے ساتھ جوابی حکمتِ عملی ترتیب دی۔ ازرائیل کے حساس مقامات پر مسلسل اور متواتر حملوں کے ذریعے ازرائیل  کودفاعی پوزیشن پر دھکیل دیا۔

 اسی دوران میں عالم اسباب میں کئی دیگر  اہم عوامل بھی کاررفرما ہوئے: روس نے اعلان کیا کہ اس کے کئی سو ماہرین ایرانی ایٹمی تنصیبات میں کام کر رہے ہیں، اور ان پر حملہ روس  پر حملہ تصور ہوگا۔ یہ بیان امریکہ اور اسرائیل کے لیے "ریڈ لائن" بن گیا۔ امریکہ میں امن پسند طبقات، لبرل میڈیا، اور ری پبلکنز سمیت کئی سینیٹرز نے کھلے عام ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسی پر تنقید کی اور کہا کہ ازرائیل کے لیے جنگ لڑنے کا مطلب امریکی عوام کو غیر ضروری تباہی میں دھکیلنا ہے۔ روس، چین اور کچھ یورپی آوازوں نے ایران کے خلاف جنگی عزائم کی مخالفت کی، جس سے ایران کو عالمی سفارتی سطح پر بھی اخلاقی برتری حاصل ہوئی۔ ان حالات نے جنگ کا پانسہ پلٹ دیا ہے۔ اور ابھی کل ہی  ٹرمپ  نے جو بیان دیا ہے کہ ہم دو ہفتے میں جنگ میں شامل ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کریں گے، یہ فی الواقع پسپائی اور  ازرائل کی مدد سے ہاتھ کھینچنے کے ساتھ ساتھ اس بات کا بھی واضح اشارہ ہے کہ امریکا براہ راست اس جنگ میں شریک نہیں ہوگا، اور اسے اور بھی دکھ ہیں زمانے میں ازرایل کی محبت کے سوا۔ اور اب  منظرنامہ، جیسا کہ میں نے ابتدا میں عرض کیا، یہ ہے کہ سیز فائر کی وہ درخواست، جو چند دن قبل ایران کر  رہا تھا، آج ازرائیل کی طرف سے آ رہی ہے۔ ازرائیل نہ صرف جنگی دباؤ میں ہے بلکہ اس کی عسکری اور خفیہ ناکامیاں اس کے بین الاقوامی  رعب و دبدبے کو بھی بری طرح مجروح کر رہی ہیں۔ از رایل کے لیے بہترین موقع تھا کہ وہ ایران کی کمزور شرائط پر سیز فائر کی درخواست مان لیتا ، لیکن اس نے اپنی حماقت اور ٹرمپ کی آشیرباد کے سہارے یہ موقع ضائع کر دیا، اور اپنی سخت شرائط پر سیز فائر پر اصرار کرتا رہا ۔دوسری طرف قدرت نے اسی کو ایران کے لیے ایک غیر معمولی اپرچونٹی بنا دیا، اب وہ اپنے حق میں پہلے سے بہت بہتر شرائط پر سیز فائر کی پوزیشن میں آ چکا ہے۔ وقت کی گردش دیکھیے وہی ٹرمپ جو چند دن قبل ایران کو "کچے کے ڈاکوؤں" کی طرح دھمکیاں دے رہا تھا،  اب ایک غیر جانب دار فریق کے لہجے میں کہہ رہا ہے  ہمار اس جنگ سے کوئی تعلق نہیں، ہم ثالثی سے اس مسئلے کو حل کرانا چاہتے ہیں، اور ان دعووں اور کو ششوں کے ذریعے اپنے نوبل امن انعام  کے خوابوں میں گم ہو رہا یے۔  ایسے ہی مواقع کے لیے کہتے ہیں: یہ وقت کس کی رعونت پہ خاک ڈال گیا یہ کون بول رہا تھا خدا کے لہجے میں۔



Share:

5/30/25

ایامِ تشریق کی تکبیرات — مکمل فضیلت، احادیث، اور اہمیت | ایام تشریق کا مسنون ذکر

ایامِ تشریق کی تکبیرات — مکمل رہنمائی اور احادیث مبارکہ

الحمد للہ!

اسلام میں اللہ تعالی کی بڑائی اور ذکر کے بے شمار مواقع ہیں، اور ایامِ تشریق ان میں سے خاص دن ہیں جن میں ہمیں تکبیرات کا خاص اہتمام کرنا چاہیے۔

 🌸 ایامِ تشریق کیا ہیں؟

 ایامِ تشریق ذوالحجہ کی 11، 12، 13 تاریخوں کو کہتے ہیں، جن میں حاجی منٰی میں قیام کرتے ہیں اور باقی مسلمان بھی سنت کے طور پر تکبیرات کہتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ قرآن میں فرماتا ہے:

 وَاذْكُرُوا اللّٰهَ فِي أَيَّامٍ مَّعْدُودَاتٍ 📘 [البقرہ: 203] یعنی ان گنتی کے دنوں میں اللہ کا ذکر کرو۔

🌸 تکبیراتِ تشریق کا مسنون طریقہ

ہر فرض نماز کے بعد بلند آواز سے کہنا:

 اللّٰهُ أَكْبَر، اللّٰهُ أَكْبَر، لَا إِلٰهَ إِلَّا اللّٰهُ، وَاللّٰهُ أَكْبَر، اللّٰهُ أَكْبَر، وَلِلّٰهِ الْحَمْد           یہ تکبیر عرفہ (9 ذوالحجہ) کی فجر سے لے کر 13 ذوالحجہ کی عصر تک پڑھی جاتی ہے۔

🌸 اہم احادیثِ مبارکہ

 1:      صحیح بخاری : كَانَ ابْنُ عُمَرَ وَأَبُو هُرَيْرَةَ يَخْرُجَانِ إِلَى السُّوقِ فِي أَيَّامِ الْعَشْرِ يُكَبِّرَانِ وَيُكَبِّرُ النَّاسُ بِتَكْبِيرِهِمَا۔ 📘 [صحيح البخاري، رقم: 970]

ترجمہ: ابن عمر اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہم دسویں دن (یعنی ایامِ تشریق میں) بازار کی طرف نکل جاتے اور وہ دونوں اللہ کی بڑائی کا اعلان کرتے (تکبیر پڑھتے) اور لوگ ان کی تکبیر کے ساتھ تکبیر کہتے۔

 2:    السنن الكبرى للبيهقي :عليٌّ رضي الله عنه كان يُكَبِّرُ مِنْ صَلَاةِ الفَجْرِ يَوْمَ عَرَفَةَ إِلَى العَصْرِ مِنْ آخِرِ أَيَّامِ التَّشْرِيقِ۔ 📘 [السنن الكبرى للبيهقي، رقم: 6240]

ترجمہ: علی رضی اللہ عنہ فجر کی نماز کے بعد (یوم عرفہ سے) شروع کر کے ایامِ تشریق کے آخری دن کے عصر تک تکبیر پڑھتے رہتے تھے۔

🌸 تکبیراتِ تشریق کی حکمت

یہ شعائر اللہ میں سے ہے، اللہ کی بڑائی کا اعلان اور شکر گزاری کا اظہار ہے۔ مرد اونچی آواز میں پڑھیں، عورتیں آہستہ، اور سب اس میں شامل ہوں — مسافر یا مقیم۔

🌸 آج کے دور میں ہماری ذمہ داری

 ہمیں چاہیے کہ اس سنت کو زندہ کریں، گھروں میں، مساجد میں، اور بچوں کو سکھائیں۔ اس سنت کو زندہ کرنا سنتِ نبوی ﷺ کی محبت کا اظہار ہے۔

🌸 دعا اَللّٰهُمَّ اجْعَلْنَا مِنَ الَّذِينَ يُعَظِّمُونَ شَعَائِرَكَ، وَيُكَبِّرُونَكَ حَقَّ تَكْبِيرِكَ، وَيَذْكُرُونَكَ فِي كُلِّ حِينٍ، آمِين


ایام تشریق, تکبیرات تشریق, ذوالحجہ کی تکبیرات, ایام تشریق کی فضیلت, احادیث ایام تشریق, تکبیرات کا مسنون طریقہ, اسلامی شعائر, سنت نبوی

Share:

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Online People

Blog Archive

Blog Archive