وَ اتَّقُوْا یَوْمًا لَّا تَجْزِیْ
نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْــٴًـا وَّ لَا یُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَّ لَا یُؤْخَذُ
مِنْهَا عَدْلٌ وَّ لَا هُمْ یُنْصَرُوْنَ(البقرۃ:48) ((کتھے
گئے تہاڈے بابے؟)) میں بتاتا ہوں کتھے گئے۔۔
اَلَا لِلّٰهِ الدِّیْنُ الْخَالِصُؕ-وَ
الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِهٖۤ اَوْلِیَآءَۘ-مَا نَعْبُدُهُمْ اِلَّا
لِیُقَرِّبُوْنَاۤ اِلَى اللّٰهِ زُلْفٰىؕ (سورۃ الزمر :3)
اس
آیت میں یہ ڈنڈی مارتے ہیں کہ وہ مشرک بھی بتوں کو اللہ پاک کے قرب کا ذریعہ
سمجھتے تھے تو اس طرح ان کا عقیدہ اور (اہل سنت )کا عقیدہ مشرکوں جیسا ہوا۔ تو
ڈنڈی یہ ہے کہ لوگ یہ نہیں بتاتے کہ وہ مشرک بتوں کی عبادت کرتے تھے اور عبادت اس
لیے کرتے تھے کہ یہ اللہ تعالی کے قرب کا ذریعہ ہیں ، اب بتائیں وہ کون سا مسلمان
ہے جو داتا علی ہجویری کی عبادت کرتا ہے ؟ کون ہے جو بابا فرید کی قبر کو سجدے
کرتا ہے؟ کون ہے جو خواجہ معین الدین چشتی کو اللہ مانتا ہے؟ کوئی بھی نہیں ، یہ
سب اللہ تعالی کے بندے اور مخلوق ہیں اور یقینا اللہ تعالی کو بہت پیارے ہیں انہیں
کے بارے میں فرمایا ہے کہ سنو متقی بن جاو اور ان سچے لوگوں کے ساتھ ہو جاؤ۔
أُولَـئِكَ الَّذِينَ يَدْعُونَ
يَبْتَغُونَ إِلَى رَبِّهِمُ الْوَسِيلَةَ أَيُّهُمْ أَقْرَبُ وَيَرْجُونَ
رَحْمَتَهُ وَيَخَافُونَ عَذَابَهُ إِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ كَانَ مَحْذُورًاO(سورۃ بنی اسرائیل:57)
یہاں
بھی اسی طرح کی ڈنڈی ماری جاتی ہے لیکن یہاں بھی وہی معاملہ ہے کہ وہ لوگ ان کی
عبادت کرتے تھے لیکن کوئی مسلمان کسی بھی ولی اللہ کی عبادت نہیں کرتا، اور یہ بات
آیات میں واضح ہے کہ اللہ تعالی کی مخالفت ان سے وسیلہ ماننے پر نہیں ہے بلکہ
اللہ تعالی ان کے خلاف اس لیے ہے کہ وہ ان کی عبادت کرتے تھے جبکہ عبادت کے لائق
صرف اللہ تعالی کی ذات ہے۔
وَ یَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ
اللّٰهِ مَا لَا یَضُرُّهُمْ وَ لَا یَنْفَعُهُمْ وَ یَقُوْلُوْنَ هٰۤؤُلَآءِ
شُفَعَآؤُنَا عِنْدَ اللّٰهِؕ (سورۃ یونس :18)
اس
آیت میں شفیع ماننے کے حوالے سے ڈنڈی مارتے ہیں کہ وہ مشرک بھی ان کو اللہ تعالی
کے ہاں سفارش کرنے والا سمجھتے تھے تو یاد رہے کہ یہاں دو باتیں غلط ہیں ایک یہ کہ
وہ ان بتوں کی عبادت کرتے تھے دوسرا وہ ان بتوں کو اللہ تعالی کے ہاں سفارشی
سمجھتے تھے ۔ پہلی بات کا جواب یہ کہ عبادت کے لائق صرف اللہ تعالی ہے اور دوسری
بات کا جواب یہ کہ سفارشی اللہ کے ہاں صرف اللہ کے رسول ، صالحین اور نیک اعمال
ہیں۔
اصل
دعوی یہ ہے کہ:
·
نہ
شفاعت قبول کی جائے گی
·
نہ
مدد کی جائے گی
(یعنی
یہ اللہ کے نیک بندے مدد نہیں کریں گے یہ تصور پایا جاتا ہے جو کہ قرآن و حدیث کے
خلاف ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ صالحین اللہ تعالی کی اجازت سے لوگوں کی سفارش بھی کریں گے
اور اللہ تعالی ان کی سفارش کو قبول بھی کرے گا اور قیامت کے دن مدد کرنا بھی اسی
سفارش کے ضمن میں آتا ہے)
دو
پہلووں سے اپنی بات کو واضح کروں گا :
·
اللہ
تعالی نے قرآن مجید میں قیامت کے دن کے حوالے سے سفارش اور شفاعت کو اپنے اذن سے مشروط کیا ہے،
یعنی جس کو اللہ تعالی اجازت دے گا وہ سفارش اور شفاعت کرے گا۔
·
اللہ
تعالی نے خود اپنے محبوب بندوں کے ساتھ تعلق جوڑنے کا حکم دیا ہے
اور پھر اس صحبت اور دوستی کی لازوال اور دائم حقیقت کی بھی سند عطا فرمائی ہے۔
اول الذکر: سفارش اور
شفاعت کو اپنے اذن سے مشروط کرنا
اس موضوع کے تحت چند آیات سماعت فرمائیں
مَنْ ذَا الَّذِیْ یَشْفَعُ
عِنْدَهٗۤ اِلَّا بِاِذْنِهٖؕ (سورۃ البقرۃ: 255)
مَا مِنْ شَفِیْعٍ اِلَّا مِنْۢ
بَعْدِ اِذْنِهٖؕ-ذٰلِكُمُ اللّٰهُ رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْهُؕ-اَفَلَا تَذَكَّرُوْنَ
(سورۃ یونس: 3)
یَوْمَىٕذٍ لَّا تَنْفَعُ
الشَّفَاعَةُ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَهُ الرَّحْمٰنُ وَ رَضِیَ لَهٗ قَوْلًا (سورۃ
طہ: 109)
وَ لَا تَنْفَعُ الشَّفَاعَةُ
عِنْدَهٗۤ اِلَّا لِمَنْ اَذِنَ لَهٗؕ-حَتّٰۤى اِذَا فُزِّعَ عَنْ قُلُوْبِهِمْ
قَالُوْا مَا ذَاۙ-قَالَ رَبُّكُمْؕ-قَالُوا الْحَقَّۚ-وَ هُوَ الْعَلِیُّ
الْكَبِیْرُ (سورۃ سبا: 23)
وَ كَمْ مِّنْ مَّلَكٍ فِی
السَّمٰوٰتِ لَا تُغْنِیْ شَفَاعَتُهُمْ شَیْــٴًـا اِلَّا مِنْۢ بَعْدِ اَنْ
یَّاْذَنَ اللّٰهُ لِمَنْ یَّشَآءُ وَ یَرْضٰى(سورۃ النجم :26)
یَوْمَ یَقُوْمُ الرُّوْحُ وَ
الْمَلٰٓىٕكَةُ صَفًّا ﯼ لَّا یَتَكَلَّمُوْنَ اِلَّا مَنْ اَذِنَ لَهُ
الرَّحْمٰنُ وَ قَالَ صَوَابًا (سورۃ النبا :38)
یہ بات تو طے ہو
گئی کہ اللہ تعالی کے کچھ نیک بندے ہوں گے جو اللہ تعالی کی اجازت سے لوگوں کی
سفارش اور شفاعت کریں گے
اب یہ کون بندے ہوں گے ؟
اس کا جواب دوسرے پہلو کی وضاحت کے بعد
اکٹھا ہی دیتا ہوں تا کہ یاد رکھنا آسان ہو جائے اور عقائد بھی اصلاح کے بعد
ہمیشہ کے لیے محفوظ ہو جائیں۔
موخر الذکر: اللہ تعالی
نے خود اپنے محبوب اور نیک لوگوں کے ساتھ تعلق جوڑنے کا حکم دیا
وَ اصْبِرْ نَفْسَكَ مَعَ
الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ
وَجْهَهٗ وَ لَا تَعْدُ عَیْنٰكَ عَنْهُمْۚ-تُرِیْدُ زِیْنَةَ الْحَیٰوةِ
الدُّنْیَاۚ (سورۃ الکھف:28)
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا
اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ(سورۃ التوبہ: 119)
ا ن آیات میں اپنے محبوب
اور نیک لوگوں کے ساتھ تعلق جوڑنے اور پختہ کرنے کا حکم دیاہے کیوں؟
صحبت کے کچھ فائدے ہیں:
دنیوی اور اخروی
حضرت حنظلہ ( بن ربیع ) اسیدی رضی اللہ عنہ سے روایت کی
، انہوں نے کہا ۔۔۔ اور وہ رسول اللہ ﷺ کے کاتبوں میں سے تھے ۔۔۔ کہا : حضرت
ابوبکر رضی اللہ عنہ مجھ سے ملے اور دریافت کیا : حنظلہ ! آپ کیسے ہیں ؟ میں نے
کہا : حنظلہ منافق ہو گیا ہے ، ( حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ) کہا : سبحان اللہ
! تم کیا کہہ رہے ہو ؟ میں نے کہا : ہم رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوتے ہیں ،
آپ ہمیں جنت اور دوزخ کی یاد دلاتے ہیں حتی کہ ایسے لگتا ہے گویا ہم ( انہیں )
آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ، پھر جب ہم رسول اللہ ﷺ کے ہاں سے نکلتے ہیں تو بیویوں ،
بچوں اور کھیتی باڑی ( اور دوسرے کام کاج ) کو سنبھالنے میں لگ جاتے ہیں اور بہت سی
چیزیں بھول بھلا جاتے ہیں ۔ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا : اللہ کی قسم ! یہی
کچھ ہمیں بھی پیش آتا ہے ، پھر میں اور حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ چل پڑے اور رسول
اللہ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ میں نے عرض کی : اللہ کے رسول ! حنظلہ منافق ہو گیا
ہے ، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ وہ کیا معاملہ ہے ؟‘‘ میں نے عرض کی : اللہ کے
رسول ! ہم آپ کے پاس حاضر ہوتے ہیں ، آپ ہمیں جنت اور دوزخ کی یاد دلاتے ہیں ، تو
حالت یہ ہوتی ہے گویا ہم ( جنت اور دوزخ کو ) اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور جب
ہم آپ کے ہاں سے باہر نکلتے ہیں تو بیویوں ، بچوں اور کام کاج کی دیکھ بھال میں لگ
جاتے ہیں ۔۔۔ ہم بہت کچھ بھول جاتے ہیں ۔۔۔ اس پر رسول اللہ ﷺ نے تین بار ارشاد
فرمایا :’’ اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! اگر تم ہمیشہ اسی کیفیت میں
رہو جس طرح میرے پاس ہوتے ہو اور ذکر میں لگے رہو تو تمہارے بچھونوں پر اور تمہارے
راستوں میں فرشتے ( آ کر ) تمہارے ساتھ مصافحے کریں ، لیکن اے حنظلہ ! کوئی گھڑی
کسی طرح ہوتی ہے اور کوئی گھڑی کسی ( اور ) طرح ۔
(صحیح مسلم:2750)
مطلب صحبت کا اثر ہوتا ہے
کہ جب ان اللہ والوں کے پاس بیٹھے ہوں گے تو دل اللہ کی یاد سے منور رہے گا ۔
(چنگے بندے دی صحبت یارو وانگ دکان عطاراں ، سودا بھاویں مول نہ لئیے حلے آن
ہزاراں) طویل حدیث پاک اللہ کی رحمت کے
فرشتے اس محفل کو چادر کے نیچے کر کے کھڑے ہو جتے ہیں ۔۔۔۔ ایک بندہ جو کسی ذاکر
سے کام کی وجہ سے بیٹھا فرمایا : يَقُولُ:
مَلَكٌ مِنَ الْمَلَائِكَةِ: فِيهِمْ فُلَانٌ لَيْسَ مِنْهُمْ إِنَّمَا جَاءَ
لِحَاجَةٍ، قَالَ: هُمُ الْجُلَسَاءُ لَا يَشْقَى بِهِمْ جَلِيسُهُمْ"
(صحیح بخاری: 6408) یعنی ان لوگوں کی محفل میں بیٹھنے والا اپنی غرض سے بیٹھا ہو
وہ بھی بد بخت نہیں رہتا تو جو ان سے محبت کرتے ہوئے بیٹھا ہو۔ (نکتہ: بات اللہ
تعالی کے ذکر کی ہو رہی تھی تو اللہ تعالی فرماتا کہ جو میرے ذکر کی محفل میں
آجائے وہ بد بخت نہیں رہتا لیکن یہ نہیں فرمایا بلکہ فرمایا سنو میرا ذکر کرتے
ہوئے میرے بندے میرے اتنے قریب ہو جاتے ہیں کہ میں ان کی نسبتوں کا حیا کرتا ہوں
ان کے قرب اور دوستی کا خیال رکھتا ہوں جو ان کا دوست ہوتا ہے جو ان کے پاس آ کر
بیٹھ جاتا ہے وہ بھی مقرب اور میرا محبوب بن جاتا ہے۔)
قرآن مجید کی آیت
پڑھوں؟۔۔۔۔
اَلْاَخِلَّآءُ یَوْمَىٕذٍۭ
بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِیْنَﭤ(سورۃ الزخرف:67)
اس لیے ان کے ساتھ ہو جاو
اور ان کے ساتھ دوستیاں بنا لو کیوں
کہ یہ لوگ صرف اس دنیا میں تمہارے
دوست نہیں ہوں گے بلکہ یہ لجپال ہوتے ہیں یہ قیامت کے دن بھی تمہارے دوست ہی رہیں
گے۔ اسی لیے تو فرمایا ہے کہ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا
اتَّقُوا اللّٰهَ وَ كُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ(سورۃ التوبہ: 119)
اے ایمان والو تقوی اختیار کرو اور ان سچوں کے ساتھ ہو جاو کیوں کہ قیامت کے دن
صرف متقین کی دوستیاں ہی قائم رہیں گی ۔۔۔۔ کیسے؟؟؟؟؟؟
فَمَا أَنْتُمْ بِأَشَدَّ لِي
مُنَاشَدَةً فِي الْحَقِّ قَدْ تَبَيَّنَ لَكُمْ مِنَ الْمُؤْمِنِ يَوْمَئِذٍ
لِلْجَبَّارِ ، وَإِذَا رَأَوْا أَنَّهُمْ قَدْ نَجَوْا فِي إِخْوَانِهِمْ ،
يَقُولُونَ : رَبَّنَا إِخْوَانُنَا كَانُوا يُصَلُّونَ مَعَنَا وَيَصُومُونَ
مَعَنَا وَيَعْمَلُونَ مَعَنَا ، فَيَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى : اذْهَبُوا فَمَنْ
وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ دِينَارٍ مِنْ إِيمَانٍ فَأَخْرِجُوهُ ،
وَيُحَرِّمُ اللَّهُ صُوَرَهُمْ عَلَى النَّارِ ، فَيَأْتُونَهُمْ وَبَعْضُهُمْ
قَدْ غَابَ فِي النَّارِ إِلَى قَدَمِهِ وَإِلَى أَنْصَافِ سَاقَيْهِ ،
فَيُخْرِجُونَ مَنْ عَرَفُوا ، ثُمَّ يَعُودُونَ ، فَيَقُولُ : اذْهَبُوا فَمَنْ
وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ نِصْفِ دِينَارٍ ، فَأَخْرِجُوهُ ،
فَيُخْرِجُونَ مَنْ عَرَفُوا ، ثُمَّ يَعُودُونَ ، فَيَقُولُ : اذْهَبُوا فَمَنْ
وَجَدْتُمْ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ مِنْ إِيمَانٍ ، فَأَخْرِجُوهُ ، فَيُخْرِجُونَ
مَنْ عَرَفُوا ، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ : فَإِنْ لَمْ تُصَدِّقُونِي ، فَاقْرَءُوا :
إِنَّ اللَّهَ لا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا
سورة النساء آية 40 فَيَشْفَعُ النَّبِيُّونَ وَالْمَلَائِكَةُ وَالْمُؤْمِنُونَ
(صحیح بخاری:7439)
ترجمہ : تم لوگ آج کے دن
اپنا حق لینے کے لیے جتنا تقاضا اور مطالبہ مجھ سے کرتے ہو اس سے زیادہ مسلمان لوگ
اللہ سے تقاضا اور مطالبہ کریں گے اور جب وہ دیکھیں گے کہ اپنے بھائیوں میں سے انہیں
نجات ملی ہے تو وہ کہیں گے کہ اے ہمارے رب ! ہمارے بھائی بھی ہمارے ساتھ نماز
پڑھتے تھے اور ہمارے ساتھ روزے رکھتے تھے اور ہمارے ساتھ دوسرے ( نیک ) اعمال کرتے
تھے ( ان کو بھی دوزخ سے نجات فرما ) چنانچہ اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ جاؤ اور جس
کے دل میں ایک اشرفی کے برابر بھی ایمان پاؤ اسے دوزخ سے نکال لو اور اللہ ان کے
چہروں کو دوزخ پر حرام کر دے گا ۔ چنانچہ وہ آئیں گے اور دیکھیں گے کہ بعض کا تو
جہنم میں قدم اور آدھی پنڈلی جلی ہوئی ہے ۔ چنانچہ جنہیں وہ پہچانیں گے انہیں دوزخ
سے نکالیں گے ، پھر واپس آئیں گے اور اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا کہ جاؤ اور جس
کے دل میں آدھی اشرفی کے برابر بھی ایمان ہو اسے بھی نکال لاؤ ۔ چنانچہ جن کو وہ
پہچانتے ہوں گے ان کو نکالیں گے ۔ پھر وہ واپس آئیں گے اور اللہ تعالیٰ فرمائے گا
کہ جاؤ اور جس کے دل میں ذرہ برابر ایمان ہو اسے بھی نکال لاؤ ۔ چنانچہ پہچانے
جانے والوں کو نکالیں گے ۔ ابوسعید رضی اللہ عنہ نے اس پر کہا کہ اگر تم میری تصدیق
نہیں کرتے تو یہ آیت پڑھو ” اللہ تعالیٰ ذرہ برابر بھی کسی پر ظلم نہیں کرتا ۔“
اگر نیکی ہے تو اسے بڑھاتا ہے ۔ پھر انبیاء اور مومنین اور فرشتے شفاعت کریں گے۔
اب آخر میں نصیحت : اللہ
تعالی کے محبوب بندے اور ولی سے عداوت کا انجام اور ولی اللہ کی شان
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ
قَالَ:" مَنْ عَادَى لِي وَلِيًّا فَقَدْ آذَنْتُهُ بِالْحَرْبِ، وَمَا
تَقَرَّبَ إِلَيَّ عَبْدِي بِشَيْءٍ أَحَبَّ إِلَيَّ مِمَّا افْتَرَضْتُ عَلَيْهِ،
وَمَا يَزَالُ عَبْدِي يَتَقَرَّبُ إِلَيَّ بِالنَّوَافِلِ حَتَّى أُحِبَّهُ،
فَإِذَا أَحْبَبْتُهُ كُنْتُ سَمْعَهُ الَّذِي يَسْمَعُ بِهِ، وَبَصَرَهُ الَّذِي
يُبْصِرُ بِهِ، وَيَدَهُ الَّتِي يَبْطِشُ بِهَا، وَرِجْلَهُ الَّتِي يَمْشِي
بِهَا، وَإِنْ سَأَلَنِي لَأُعْطِيَنَّهُ، وَلَئِنْ اسْتَعَاذَنِي لَأُعِيذَنَّهُ،
وَمَا تَرَدَّدْتُ عَنْ شَيْءٍ أَنَا فَاعِلُهُ تَرَدُّدِي عَنْ نَفْسِ
الْمُؤْمِنِ يَكْرَهُ الْمَوْتَ، وَأَنَا أَكْرَهُ مَسَاءَتَهُ".(صحیح
بخاری:6502)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے
بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس
نے میرے کسی ولی سے دشمنی کی اسے میری طرف سے اعلان جنگ ہے اور میرا بندہ جن جن
عبادتوں سے میرا قرب حاصل کرتا ہے اور کوئی عبادت مجھ کو اس سے زیادہ پسند نہیں ہے
جو میں نے اس پر فرض کی ہے (یعنی فرائض مجھ کو بہت پسند ہیں جیسے نماز، روزہ، حج،
زکوٰۃ) اور میرا بندہ فرض ادا کرنے کے بعد نفل عبادتیں کر کے مجھ سے اتنا نزدیک ہو
جاتا ہے کہ میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا ہوں۔ پھر جب میں اس سے محبت کرنے لگ جاتا
ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے
وہ دیکھتا ہے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑتا ہے، اس کا پاؤں بن جاتا ہوں
جس سے وہ چلتا ہے اور اگر وہ مجھ سے مانگتا ہے تو میں اسے دیتا ہوں اگر وہ کسی
دشمن یا شیطان سے میری پناہ مانگتا ہے تو میں اسے محفوظ رکھتا ہوں اور میں جو کام
کرنا چاہتا ہوں اس میں مجھے اتنا تردد نہیں ہوتا جتنا کہ مجھے اپنے مومن بندے کی
جان نکالنے میں ہوتا ہے۔ وہ تو موت کو بوجہ تکلیف جسمانی کے پسند نہیں کرتا اور
مجھ کو بھی اسے تکلیف دینا برا لگتا ہے۔
ولی کون ہوتے ہیں ؟ لوگ کہتے ہیں ولی صرف اللہ تعالی ہے
۔۔۔ تو سن لیں
اِنَّمَا وَلِیُّكُمُ اللّٰهُ وَ
رَسُوْلُهٗ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا الَّذِیْنَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوةَ وَ
یُؤْتُوْنَ الزَّكٰوةَ وَ هُمْ رٰكِعُوْنَ(55)وَ مَنْ یَّتَوَلَّ اللّٰهَ وَ
رَسُوْلَهٗ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَاِنَّ حِزْبَ اللّٰهِ هُمُ
الْغٰلِبُوْنَ(سورۃ المائدہ:56)
تمہارے دوست نہیں مگر
اللہ اور اس کا رسول اور ایمان والے کہ نماز قائم کرتے ہیں اور زکوٰۃ دیتے ہیں اور
اللہ کے حضور جھکے ہوئے ہیںاور جو اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں کو اپنا دوست
بنائے تو بے شک اللہ ہی کا گروہ غالب ہے
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ
اتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّیَّتُهُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَ
مَاۤ اَلَتْنٰهُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَیْءٍؕ-كُلُّ امْرِئٍۭ بِمَا كَسَبَ
رَهِیْنٌ(سورۃ الطور:21)
اور جو ایمان لائے اور ان
کی اولاد نے ایمان کے ساتھ ان کی پیروی کی ہم نے ان کی اولاد ان سے ملادی اور اُن
کے عمل میں انہیں کچھ کمی نہ دی سب آدمی اپنے کیے میں گرفتار ہیں
جہاں میرا دادا ہو گا ان
شاء اللہ میں بھی ان کے ساتھ وہاں ہوں گا ۔۔
تحقیق و تدوین : محمد سہیل عارف معینیؔ (پی ایچ ڈی سکالر: یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور)