Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

...

....

وظائف

مختلف وظائف کے لیے کلک کریں

دار المطالعہ

اچھے اچھے عنوانات پر کالم پڑھنے کے لیے کلک کریں

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی صاحب کی خوبصورت تحریریں پڑھنے کے لیے کلک کریں

گوشہءِ غزل

بہت خوبصورت اردو غزلیں پڑھنے کے لیے کلک کریں

10/7/25

جشنِ میلاد النبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم عقلی و نقلی دلائل کی روشنی میں

یوم میلاد اور جشن میلاد کے حوالے سے راہ نمائی  (اعتراضات کے تناظر میں )

انبیائےکرام علیھم السلام کی ولادت کے دن پر سلام

·      وَ سَلٰمٌ عَلَیْهِ یَوْمَ وُلِدَ وَ یَوْمَ یَمُوْتُ وَ یَوْمَ یُبْعَثُ حَیًّا(سورہ مریم :15) یحیی علیہ السلام

·      وَ السَّلٰمُ عَلَیَّ یَوْمَ وُلِدْتُّ وَ یَوْمَ اَمُوْتُ وَ یَوْمَ اُبْعَثُ حَیًّا(سورہ مریم:33) عیسی علیہ السلام

·      وَسُئِلَ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ الِاثْنَيْنِ، قَالَ: " ذَاكَ يَوْمٌ وُلِدْتُ فِيهِ، وَيَوْمٌ بُعِثْتُ أَوْ أُنْزِلَ عَلَيَّ فِيهِ (صحیح مسلم :ترقیم عبد الباقی:1162، ترقیم شاملہ :2747)

نبی کریم ﷺنے ہر پیر کو روزہ رکھا  اور ذکر کیا اپنی ولادت کا اور اپنی نعمتوں کا یعنی نبوت وغیرہ  لوگ کہتے ہیں کہ کیا کبھی صحابہ نے ایسا  وغیرہ وغیرہ بندہ ان سے سوال کرے آپ لوگوں کی مت ماری گئی ہے کہ کیا ہم پر صحابہ کی اتباع فرض ہے یا رسول اللہ ﷺ کی اتباع فرض ہے۔؟جب ایک کام نبی نے کیا ہو اور امت کو اس کام سے منع نہ کیا ہو یعنی جیسے بیک وقت چار عدد نکاح سے زیادہ نکاح امت کو منع کیا (یعنی ایک وقت میں چار بیویوں سے زیادہ)لیکن خود کیا اس طرح اگر امت کو منع نہیں کیا تو پھر یہ دلیل نہیں دیکھی جائے گی کہ صحابہ نے کیا یا نہیں کیا ۔ ۔ ۔ ۔  ۔اس حدیث سے یہ بات تو واضح ہو گئی کہ نعمت پر خوشی کا اظہار کرنا یہ رسول اللہ ﷺ کی سنت ہے، (اب صحابہ نے کیوں نا کیا اس کا جواب دینے کا میں پابند نہیں ہوں صحابہ سے پوچھیں اور یاد رکھیں اس طرح کے سوالات کے جوابات دینے میں اٹکل بچو نہ لگایا کریں اور اپنی عقل کے گھوڑے نہ دوڑائیں ایسا نہ ہو کہ گمراہی مقدر بن جائے۔ اپنے آپ سے نتائج اخذ نہ کریں )

قرآن مجید میں اللہ تعالی کا یحیٰی علیہ السلام کے پیدائش کے دن پر اور عیسٰی علیہ السلام کا خود اپنی پیدائش کے دن پر سلام بھیجنا اس دن کی اہمیت اور فضیلت پر دلالت کرتا ، مطلب یہ کہ صر ف  پیدا ہونے والی شخصیت پر ہی سلام نہیں اس دن پر بھی سلام جس دن وہ پیدا ہوئے اس لیے بارہ ربیع الاول اور پیر کے دن پر سلام ہو۔

اکثر یہ اعتراض کیا جاتا ہے کہ

اعتراض : میلاد تو حضرت ابو بکر صدیق رضی للہ عنہ کے دور میں دو بار آیا ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں دس بار جناب عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں گیارہ مرتبہ آیا  حضرت علی رضی اللہ عنہ کے زمانے میں پانچ بار آیا پھر اسی طرح ا سلاف کا نام لیتے ہیں کہ فلاں کے زمانے میں اتنی بار فلاں کے زمانے میں ا تنی بار کسی نے میلاد نہیں منایا  اگر میلاد منانا ہوتا تو یہ مناتے۔

ذیل میں چند ایسی صورتیں بطور دلائل رکھیں گے کہ اس جھٹلانا ناممکن ہو گا : توجہ سے پڑھیے:

·       ایک سادہ سا سوال ہے ان معصوم اور جید علما کی بارگاہ میں کہ قرآن مجید نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت فرض کی ہے اور اسی اطاعت کی وضاحت اور شرح میں صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کی پیروی کو لازم قرار دیا ہے۔ شریعت رسول  اللہ ﷺ کی سیرت اور اطاعت کا نام ہے صحابہ اور ان اسلاف کی سیرت کو شریعت اور اطاعت نہیں کہا جا سکتا ہے ۔ تو جناب انہوں نے میلاد کیوں نہیں منایا ؟ یہ سوال ان سے پوچھیں کہ کیوں نہیں منایا ۔ ہم ان کے جواب دہ نہیں اپنے کردار کے جواب دہ ہیں۔

·       ایک سوال معترضین سے یہ پیدا ہو سکتا ہے : کہ جب ان اسلاف نے نہیں منایا تو اس کا مطلب ہے کہ میلاد منانے کا تصور ہے ہی نہیں ، تو اب ہمیں جانا ہو گا سیرت النبی ﷺ کی طرف اور دیکھنا ہو گا کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی ولادت کے حوالے سے کسی قسم کی خوشی کا اظہار کیا یا نہیں ۔

·       اصل حقیقت تک پہنچنے کے لیے سارے معاملے کو چند پہلووں میں تقسیم کرتے ہیں :

§       میلاد پر خوشی ہونا

§       میلاد پر خوشی کا اظہار کرنا

§       میلاد پر ایسے خوشی کا اظہار کرنا  جس طرح رسول اللہ ﷺ نے اظہار کیا

§       مروجہ اندازِ اظہارِ خوشی ( میلاد کی محفلیں، جلوس اور کھانے وغیرہ)

§       ان محافل پر ہونے والی غیر شرعی حرکتیں اور رسومات

میلاد پر خوشی ہونا:       نبی کریم ﷺ کی ولادت باسعادت پر خوشی کا ہونا اور بندہ مومن کا خوش ہونا بالکل ایک فطری عمل ہے اور یقینا سب خوش ہوتے ہیں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ سبھی یہ دعوی کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ کی ولادت کی خوشی ہمیں ہے۔

میلاد پر خوشی کا اظہار کرنا:             اس پہلو میں لوگوں کو اعتراض ہے کہ میلاد پر خوشی کا اظہار کرنا بدعت ہے یعنی سنت سے اور اسلاف کے طرز عمل سے یہ ثابت نہیں ہے اس لیے اس پر بدعت کا فتوی لگایا جاتا ہے۔

میلاد پر خوشی کا اظہار کرنا جس طرح نبی کریم ﷺ نے خود کیا:          یہ عموما بات مجبورا کہی جاتی ہے مخالفین کی طرف سے کہ اگر آپ کو میلاد ہر خوشی کا اظہار کرنا ہی ہے تو پھر جس طرح جناب رسالت ماب ﷺ نے روزہ رکھ کر کیا تھا تم بھی اسی طرح کرو۔(( اگر یہ کہو گے کہ پھر آپ لوگ بھی روزہ رکھیں کیوں کہ وہ سنت ہے اور روزے کے علاوہ کوئی دوسرا عمل نہ کریں تو جناب اگر آپ مغرب کی نماز میں سورہ رحمن کا کچھ حصہ تلاوت کرتے ہیں  تو  آپ کو بھی یہ ثابت کرنا پڑے گا کہ نبی کریم ﷺ نے   کبھی ان آیات کی تلاوت مغرب کی نماز میں کی ہو۔ آپ فتوی ضرور دیں گے کہ جہاں سے مرضی پڑھیں یہ حکم عام ہے تو جب اس حکم کی موجودگی میں نبی کریم ﷺ سے یہ عمل ثابت ہی نہیں  تو آپ کیسے اس کو جائز قرار دے سکتے ہیں ۔ ( یاد رہے یہ اعتراض آپ پر التزامی کیا گیا ہے ورنہ عام حکم ہے اور نماز جائز ہے)اب آپ ہم پر گئے اعتراض کے اصول کے تحت نماز مغرب میں سورہ رحمن کا کچھ حصہ پڑھنا جائز ہے یہ ثابت کرنا ہے۔ہم پر گئے اعتراض کے اصول کے تحت یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ نماز مغرب میں نبی کریم ﷺ نے جن جن سورتوں کی تلاوت کی ہے ان سورتوں کے علاوہ کوئی دوسری سورت پڑھنا جائز نہیں ہے۔ ))

مروجہ انداز اظہار خوشی (میلاد کی محفلیں، جلوس اور کھانے وغیرہ):    ان اعمال کو بدعت اور گمراہی کا خطاب دیا جاتا ہے اور سختی سے ایسے اعمال کی تردید کی جاتی ہے اور ایسے اعمال کرنے والوں کو اہل بدعت کہا جاتا ہے۔ (یہ اعتراض سراسر ضد اور ہٹ دھرمی ہے اس کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس تفصیل پڑھنے کے لیے ذیل کی عبارت پر توجہ دیں۔

     جلسہ : 

·       لوگوں کو ایک جگہ پر بلانا  یا جلسہ اور ریلی یعنی جلوس کا اہتمام کرنا

·       کسی خاص مناسبت سے(یعنی کسی خاص وجہ سے) (اگر میں یہ کہوں کہ حضرت عمر فاروق ؓ کے دور میں یوم وصال صدیق اکبر دس بار آیا ، ایسے ہی تمام اصحاب کے نام لے کر کہ اتنی اتنی بار آیا انہوں نے کبھی منایا ہو، اسی طرح ختم قرآن  کا جلسہ کسی صحابی نے کیا ہو خود حساب لگا لیں کہ کتنی کتنی بار آیا صحابہ کی زندگی میں ، ستائسویں کی شب کے قرآن مجید کے ختم قرآن وغیرہ جو جناب بڑے شوق سے بڑے بڑے اشتہار لگا کر کرتے ہیں تو صحابہ کے دور میں کتنی بار یہ نماز تراویح میں قرآن مجید مکمل کیے گئے کسی صحابی سے کوئی مثال ملتی ہو تو ؟؟؟؟؟ حقیقت یہ ہے کہ صرف دوسروں کو گمراہ ثابت کرنے کے لیے اس طرح کے شگوفے گھڑے جاتے ہیں اور بس۔۔اسی طرح جناب کے بڑے بڑے اشتہار چھپتے ہیں جمعہ کے خطبہ کے لیے کہ فلاں جگہ فلاں فلاں جگہ فلاں تو اس کی مثال کسی صحابی کے دور سے ملتی ہو ، جمعہ مبارک صحابہ کی زندگیوں میں کتنی کتنی بار آیا ہے۔ حساب لگا لیں حساب کے ماہرین ہیں آپ ۔۔۔۔۔ یہ سب شگوفے ہیں جو میلاد کےمہینے میں چھوڑے جاتے ہیں ۔ یہ ڈرامے بازیاں اب ختم کریں اور فیوچر کا سوچیں اپنی جماعت کا فیوچر نہیں امت محمدیہ کا فیوچر اور مستقبل میں امت کو کن کن امتحانات کا سامنا ہے اس پر بات کریں(بالکل اسی طرح سیرت النبی ﷺ کی کانفرنسز اور اجتماعات وغیرہ ،

·       کوئی خاص نام دے کر

·       باقاعدہ اشتہار اور اعلانات کروانا

·       اس کام کے لیے فنڈ ریزی کرنا

·       لوگوں کو ثواب ہی کاکہہ کر برانگیختہ کرنا

·       اس میں تلاوت ، نعت ، مقرر کی تقریر، نعرے لگانا

·       اختتامی دعا کرنا

·       کھانا وغیرہ بانٹنا

·       یہ سارے کام منظم انداز میں  کرنا

تمام مکاتب فکر کے لوگ یہ کام کر رہے ہوتے ہیں اور کیا ہی مضحکہ خیز بات ہے کہ اسی طرح کی مجلس سجا کر مقرر شیر بیان دوسرے کی اسی طرح کی مجلس کو گمراہی اور بدعت کہہ رہے ہوتے ہیں ۔۔ ہے نا مضحکہ خیز فیصلہ ،،۔۔۔ یہ سب شگوفے ہوتے ہیں جو لوگوں کو بے وقف بنا کر چورن بیچا جاتا ہے اور نظریاتی وابستگی اس چورن کا بھاؤ بڑھا دیتی ہے ۔

ان محافل پر ہونے والی غیر شرعی حرکتیں اور رسومات:          غیر شرعی حرکات کو دیکھتے ہوئے ان نیک اور اچھے اور مستحسن اعمال کو بھی مسترد کیا جاتا ہے اور ایسے اعمال کے مرتکبین کو اہل سنت کے ساتھ جوڑا جاتا ہے اور میلادی بدعتی کہا جاتا ہے اور ممکنہ طور پر دائرہ اسلام سے خارج بھی تصور کیا جاتا ہے اور تمام تر بدعت کی مذمت میں وارد رویات کا ایسے لوگوں کی وجہ سے اچھے اعمال کرنے والوں پر اطلاق کیا جاتا ہے۔

        جس پہلو پر فریقین متفق ہیں (میلاد پر خوشی ہونا) اس پر بحث کرنے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ جہاں تک سوال ہے خوشی کا اظہار کرنے کا تو یاد رہے قرآنی آیات اور نبی کریم ﷺ کی سیرت سے روزِ روشن کی طرح ثابت ہے کہ نعمت پر خوشی کا اظہار کرنا چاہیے نہ کہ خاموش رہ کر منعم کی بے قدری اور بے توقیری کی جائے اس لیے قرآن مجید میں اللہ جل شانہ نے خود فرمایا :

1.     وَ اِذْ قَالَ مُوْسٰى لِقَوْمِهٖ یٰقَوْمِ اذْكُرُوْا نِعْمَةَ اللّٰهِ عَلَیْكُمْ اِذْ جَعَلَ فِیْكُمْ اَنْۢبِیَآءَ (سورۃ المائدہ: 20)

اور یاد کرو جب موسیٰ نے اپنی قوم سے فرمایا: اے میری قوم! اللہ کا احسان اپنے اوپر یاد کرو جب اس نے تم میں سے انبیاء پیدا فرمائے

2.     قُلْ بِفَضْلِ اللّٰهِ وَ بِرَحْمَتِهٖ فَبِذٰلِكَ فَلْیَفْرَحُوْاؕ-هُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ(سورۃ یونس: 58)

تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہیے کہ خوشی کریں وہ ان کے سب دھن دولت سے بہتر ہے۔

3.     وَ اَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّكَ فَحَدِّثْ(سورۃ الضحیٰ:11)

اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو۔

پیر یعنی سوموار کے روزے کے حوالے سے وارد نبی کریم ﷺ کی حدیث مبارک ہے:

4.   وَسُئِلَ عَنْ صَوْمِ يَوْمِ الِاثْنَيْنِ، قَالَ: " ذَاكَ يَوْمٌ وُلِدْتُ فِيهِ، وَيَوْمٌ بُعِثْتُ أَوْ أُنْزِلَ عَلَيَّ فِيهِ: (صحیح مسلم:ترقیم عبد اباقی:1162، ترقیم شاملہ:2747)

اور آپ سے سوموار کا روزہ رکھنے کے بارے میں سوال کیا گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ دن ہے جب میں پیدا ہوا اور جس دن مجھے (رسول بنا کر) بھیجا گیا، یا مجھ پر (قرآن) نازل کیا گیا۔

§       انبیا ئے کرام کا دنیا میں مبعوث ہونا اللہ تعالی کی نعمت ہوتا ہے جسے یاد رکھنے ، ذکر کرنے کی تلقین (حکم) کی گئی ہے۔

§       اللہ تعالی کے فضل اور رحمت پر خوشی کا اظہار کرنے کی تلقین(حکم) کی گئی ہے۔

§       اللہ تعالی کی نعمت پر چرچہ کرنے کی تلقین یعنی حکم دیا گیا ہے ۔

نوٹ اور اہم بات: نعمت، فضل اور رحمت یہ تینوں قرآن مجید میں اللہ تعالی نے نبی کریم ﷺ کے لیے الگ الگ بیان کیے ہیں جیسے :

موسی علیہ السلام کے ضمن میں انبیا ئے کرام علیھم السلام (نبی کریم ﷺبدرجہ اتم اس حکم میں شامل ہیں اور اس سے انکار کی گنجائش ہی نہیں ہے)کی آمد کو نعمت کہا گیا ، اسی طرح سورۃ الاحزاب کی آیت : وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ بِاَنَّ لَهُمْ مِّنَ اللّٰهِ فَضْلًا كَبِیْرًا(47) میں نبی کریم ﷺ کی بعثت اور آمد کو فضل کبیر فرمایا گیا ہے اور سورۃ الانبیا کی آیت : وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(107) میں نبی کریم ﷺ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت قرار دیا گیا ہے۔ 

حدیث مبارک میں نبی کریم ﷺ نے پیر کے روزے کا سبب بتایا کہ کیوں رکھتا ہوں؟ تین باتیں ارشاد فرمائیں :

1.   ولادت با سعادت

2.   بعثت

3.   نزول وحی

یقینا روزہ خوشی کے اظہار کے لیے اور اللہ جل شانہ کی بارگاہ میں شکرانہ کے طور پر رکھا گیا ہے ، اس کے علاوہ دوسرا کوئی مقصد نہیں ہے اور نہ ہی کوئی شخص یہ دعوی کر سکتا ہے کہ فلاں یا فلاں مقصد تھا ۔ صرف خوشی اور شکرانہ کا اظہار تھا۔ تو گویا یہ تینوں اللہ تعالی کی نعمتیں آپ ﷺ پر ہوئیں اور ان نعمتوں کے شکرانے کے طور پر روز رکھا ۔تینوں میں سے سب سے پہلی بات آپ ﷺ کا میلاد مبارک ہے اور میلاد کی خوشی کے اظہار اور اللہ تعالی کا شکر ادا کرنے کے لیے روزہ رکھا تو گویا اس حدیث سے یہ بات تو طے ہوئی کہ نعمت پر خوشی کااظہار کرنا سنت رسول ﷺ ہے نا کہ بدعت ہے۔

خلاصہ : اللہ تعالی کی رحمت ، نعمت اور فضل پر اللہ تعالی کا شکر ادا کرنا اور اس پر خوشی کا اظہار کرنا عین قرآنی حکم اور اطاعت رسول ﷺ ہے۔

 

تحقیق و تدوین : محمد سہیل عارف معینیؔ (پی ایچ ڈی سکالر ، یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور)

 

Share:

دل کی زبان: خوبصورت فارسی اشعار اور ان کے دل نشین اردو تراجم | Dil Ki Zaban: Khubsurat Farsi Ashaar Aur Un Ke Dil

یک زمانہ صحبت با اولیا
بہتر از صد سالہ طاعت بے ریا

اللہ کے ولی کی صحبت کے چند لمحے سو سال کی بے ریا عبادت سے بھی بہتر ہے

صحبت صالح ترا صالح کند
صحبت طالح ترا طالح کند

نیک لوگوں کی صحبت نیک بنا دیتی ہے بُرے لوگوں کی صحبت بُرا بنا دیتی ہے

اولیا را ہست قدرت از الہ
تیر جستہ باز گردانند  زراہ

اللہ کے ولیوں کو رب کی طرف سے طاقت حاصل ہے کہ وہ کمان سے نکلے ہوئے تیر کو بھی واپس کر دیتے ہیں یعنی تقدیر بدل دیتے ہیں


رمز الکاسبُ حبیب اللہ شنو
از توکل در سبب کاہل مشو

اشارہ سمجھو کہ حلال روزی کمانے والا اللہ کا دوست ہے توکل کے بھروسے کاہل نہ بن جاؤ

چیست دنیا از خدا غافل بدن
نے قماش و نقرہ و فرزندان و زن

دنیا کیا ہے اللہ سے غافل ہونا نا کہ سازو سامان چاندی ، بیوی اور بچے

نام احمد ؐ نام جملہ انبیا ست
چونکہ صد آمد نو دہم پیش ماست

احمدؐ کے نام میں تمام انبیا کے نام موجود ہیں جیسا کہ سو آئے تو نوے بھی ساتھ ہی آ جاتے ہیں

کاملے گر خاک گیرد زر شود
ناقص ار زَر بُرد خاکستر شود

کامل انسان خاک پکڑےتو سونا بن جائے ناقص اگر سونا لے لے تو خاک ہو جائے

قافیہ اندیشم و دلدارِ من
گویدم مندیش جز دیدارِ من

میں قافیہ کی فکر کرتا ہوں اور میرا محبوب مجھ سے کہتا ہے کہ میرے دیداد کے سوا کچھ نہ سوچ

چوں تو شیریں نیستی فرہاد باش
چوں نہ لیلیٰ تو مجنوں گرد فاش

جب تو شیریں نہیں ہے فرہاد بن جا جب تو لیلیٰ نہیں ہے توکھلا مجنوں بن جا یعنی معشوق نہیں ہے توپھر عاشق بن

در بہاراں کے شود سَر سبز سنگ
خاک شو تا گل بَروید رنگ رنگ

موسم بہار میں پتھر سر سبز و شاداب کب ہوتا ہے خاک (مٹی) بن جا تاکہ رنگ برنگ کے پھول کھلیں

ہمنشینی مُقبلاں چوں کمیاست
چوں نظر شاں کیمائے خود کجاست

بارگاہ حق کے مقبول بندوں کے ہم نشینی سونا ہے بلکہ ان لوگوں کے نظر کے مقابلے میں سونا خود کچھ نہیں

ہیں کہ اسرافیل وقتند اولیا
مُردہ را زیشاں حیات ست و نما

خبردار اولیا وقت کے اسرافیل ہیں مردے ان سے حیات اور نشوونما پاتے ہیں

مطلق آں آواز از شہ بود
گرچہ از حلقوم عبداللہ بود

ان کی آواز حق کی آواز ہو تی ہے اگرچہ حلق اللہ کے بندے کا ہوتا ہے

رو کہ بی یَسمَعُ وَ بیِ یَبصِرُ توئی
سِر توئی چہ جائے صاحب سِر توئی

جا کہ توہی رب کی سمع اور بصر والا ہے تو ہی راز ہے اور تو ہی صاحب راز ہے
(دو احادیث کی طرف اشارہ ہے کہ بندہ جب نوافل سے قرب حاصل کرتا ہے تو میں
اُس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھتا ہے اور کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنتا ہے
الا نسان سری و انا سرہ, رب فرماتا ہے انسان میرا راز ہے اور میں اُس کا راز ہوں)

بہر کیکے تو کلیمے را مسوز
در صداع ہر مگس مگذارروز

پسو سے تنگ آکر گدڑی نہ جلا دو مکھی سے تنگ آکر باہر نکلنا مت چھوڑو

ہر کہ اُو بے مرشدے در راہ شد
اُو زغولاں گمرہ و در چاہ شد

جو کوئی بھی بغیر مرشد کے راستہ پر جلا وہ شیطانوں کی وجہ سے گمراہ اور ہلاگ ہوا

صد ہزاراں نیزہ فرعون را
در شکست آں موسیٰ با یک عصا

فرعون کے لاکھوں نیزے حضرت موسیٰ نے ایک لاٹھی سے توڑ دیے

صد ہزاراں طب جالنیوس بود
پیش عیسیٰ و دمش افسوس بود

جالنیوس کی لاکھوں طبیں(نسخے) تھیں حضرت عیسیٰ کے دم(پھونک) کے سامنے ہار گئیں

صد ہزاراں دفتر اشعار بود
پیش حرِف اُمیش آں عار بود

لاکھوں اشعار کے دفتر(دیوان) تھے حضورؐ کے کلام کے سامنے شرمندہ ہو گئے

ہمسری با انبیا برداشتند
اولیاء را ہمچو خود پنداشتند

انبیا کے ساھ برابری کا دعویٰ کر دیا اولیا کو اپنے جیسا سمجھ لیا

گفتہ اینک ما بشر ایشاں بشر
ما و ایشاں بستہ خوابیم و خور

کہا کہ ہم بھی انسان ہیں اور وہ بھی انسان ہیں ہم اور وہ سونے اور کھانے کے پابند ہیں

کار پاکاں را قیاس از خود مگیر
گرچہ باشد در نوشتن شیر شیرِ

نیک لوگوں کے کام کو اپنے پر قیاس نہ کراگرچہ لکھنے میں شییر(درندہ) اور شیرِ( دودھ) یکساں ہے

مومنی اُو مومنی تو بیگماں
درمیانِ ہر دو فرقے بیکراں

رب بھی مومن ہے ، ،تو بھی مومن ہے
لیکن ہر دو مومنوں کے درمیان بے حساب فرق ہے
اس شعر سے بنی پاک کو اپنے جیسا(بشر) کہنے والوں کو نصیحت پکڑنی چاہیے
مومن اللہ کا نام ہے ، حضور کا بھی نام ہے اور مسلمان بندے کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے


Share:

ختم نبوت قرآن و حدیث کی روشنی میں

وَ اِذْ اَخَذَ اللّٰهُ مِیْثَاقَ النَّبِیّٖنَ لَمَاۤ اٰتَیْتُكُمْ مِّنْ كِتٰبٍ وَّ حِكْمَةٍ ثُمَّ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مُّصَدِّقٌ لِّمَا مَعَكُمْ لَتُؤْمِنُنَّ بِهٖ وَ لَتَنْصُرُنَّهٗؕ-قَالَ ءَاَقْرَرْتُمْ وَ اَخَذْتُمْ عَلٰى ذٰلِكُمْ اِصْرِیْؕ-قَالُوْۤا اَقْرَرْنَاؕ-قَالَ فَاشْهَدُوْا وَ اَنَا مَعَكُمْ مِّنَ الشّٰهِدِیْنَ (سورۃ ال عمرٰن:۸۱)

مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰـكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا(سورۃ الاحزاب:40)

امام آخری ہے کلام آخری ہے                سبھی انبیا کا امام آخری ہے

وہ ختم الرسل ہے امام الرسل ہے            وہ محبوب باری دانائے سبل ہے

نبی محترم ہیں ہمارے لیے سب              مگر مصطفے کا مقام آخری ہے

وہ جبریل ان پہ وحی لا رہا ہے                یہ آج اپنے آقا سے یوں کہہ رہا ہے

وحی اب کسی پر نہ لاوں گا میں بھی           میرے آقا میرا سلام آخری ہے

 

·       عَنْ ثَوْبَانَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ زَوَى لِي الْأَرْضَ، أَوْ قَالَ: إِنَّ رَبِّي زَوَى لِي الْأَرْضَ فَرَأَيْتُ مَشَارِقَهَا وَمَغَارِبَهَا وَإِنَّ مُلْكَ أُمَّتِي سَيَبْلُغُ مَا زُوِيَ لِي مِنْهَا وَأُعْطِيتُ الْكَنْزَيْنِ الْأَحْمَرَ وَالْأَبْيَضَ، وَإِنِّي سَأَلْتُ رَبِّي لِأُمَّتِي أَنْ لَا يُهْلِكَهَا بِسَنَةٍ بِعَامَّةٍ وَلَا يُسَلِّطَ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَى أَنْفُسِهِمْ فَيَسْتَبِيحَ بَيْضَتَهُمْ؟ وَإِنَّ رَبِّي قَالَ لِي: يَا مُحَمَّدُ إِنِّي إِذَا قَضَيْتُ قَضَاءً فَإِنَّهُ لَا يُرَدُّ وَلَا أُهْلِكُهُمْ بِسَنَةٍ بِعَامَّةٍ وَلَا أُسَلِّطُ عَلَيْهِمْ عَدُوًّا مِنْ سِوَى أَنْفُسِهِمْ فَيَسْتَبِيحَ بَيْضَتَهُمْ وَلَوِ اجْتَمَعَ عَلَيْهِمْ مِنْ بَيْنِ أَقْطَارِهَا، أَوْ قَالَ: بِأَقْطَارِهَا حَتَّى يَكُونَ بَعْضُهُمْ يُهْلِكُ بَعْضًا،(ابوداود:۴۲۵۲) البانی صحیح

ثوبان رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے میرے لیے زمین سمیٹ دی“ یا فرمایا: ”میرے لیے میرے رب نے زمین سمیٹ دی، تو میں نے مشرق و مغرب کی ساری جگہیں دیکھ لیں، یقیناً میری امت کی حکمرانی وہاں تک پہنچ کر رہے گی جہاں تک زمین میرے لیے سمیٹی گئی، مجھے سرخ و سفید دونوں خزانے دئیے گئے، میں نے اپنے رب سے سوال کیا کہ میری امت کو کسی عام قحط سے ہلاک نہ کرے، ان پر ان کے علاوہ باہر سے کوئی ایسا دشمن مسلط نہ کرے جو انہیں جڑ سے مٹا دے، اور ان کا نام باقی نہ رہنے پائے، تو میرے رب نے مجھ سے فرمایا: اے محمد! جب میں کوئی فیصلہ کر لیتا ہوں تو وہ بدلتا نہیں میں تیری امت کے لوگوں کو عام قحط سے ہلاک نہیں کروں گا، اور نہ ہی ان پر کوئی ایسا دشمن مسلط کروں گا جو ان میں سے نہ ہو، اور ان کو جڑ سے مٹا دے گو ساری زمین کے کافر مل کر ان پر حملہ کریں، البتہ ایسا ہو گا کہ تیری امت کے لوگ خود آپس میں ایک دوسرے کو ہلاک کریں گے،

وَإِنَّهُ سَيَكُونُ فِي أُمَّتِي كَذَّابُونَ ثَلَاثُونَ كُلُّهُمْ يَزْعُمُ أَنَّهُ نَبِيٌّ وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّينَ لَا نَبِيَّ بَعْدِي وَلَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي عَلَى الْحَقِّ۔ (جامع ترمذی:۲۲۱۹)

اور عنقریب میری امت میں تیس (۳۰) کذاب پیدا ہوں گے، ان میں ہر ایک گمان کرے گا کہ وہ نبی ہے، حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں، میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا، میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا

 

اسما کا ذکر

·       مُحَمَّدِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ عَنْ أَبِيْهِ رضی اللہ عنہ قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اللہ ﷺ : لِيْ خَمْسَةُ أَسْمَآء أَنَا مُحَمَّدٌ، وَأَنَا أَحْمَدُ، وَأَنَا الْمَاحِي الَّذِيْ یَمْحُوْ اللهُ بِيَ الْکُفْرَ، وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي یُحْشَرُ النَّاسُ عَلَی قَدَمِي، وَاَنَا الْعَاقِبُ۔(ترمذی کے الفاظ: الَّذِي لَيْسَ بَعْدِي نَبِيٌّ۔)

·       جُبَيْرِ بْنِ مُطْعِمٍ عَنْ أَبِيْهِ رضی اللہ عنہ أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: أَنَا مُحَمَّدٌ، وَأَنَا أَحْمَدُ، وَأَنَا الْمَاحِي الَّذِي یُمْحَی بِيَ الْکُفْرُ، وَأَنَا الْحَاشِرُ الَّذِي یُحْشَرُ النَّاسُ عَلَی عَقِبِيْ، وَأَنَا الْعَاقِبُ، وَالْعَاقِبُ الَّذِي لَيْسَ بَعْدَهُ نَبِيٌّ۔ (صحیح مسلم:۶۱۰۹)

·       عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللهِ رضی اللہ عنہ، أَنَّ النَّبِيَّ ﷺ قَالَ: أَنَا قَائِدُ الْمُرْسَلِيْنَ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِيِّيْنَ وَلَا فَخْرَ، وَأَنَا أَوَّلُ شَافِعٍ وَمُشَفَّعٍ وَلَا فَخْرَ(سنن دارمی:۵۰)

فضیلت کا ذکر

·       إِذْ خَرَجَ عَلِيْنَا رَسُوْلُ اللهِ فَقَالَ مَا تَذَاکَرُوْنَ بَيْنَکُمْ؟ قُلْنَا: یَا رَسُوْلَ اللهِ! تَذَاکَرْنَا فَضَائِلَ الْأَنْبِیِاءِ أَیُّھُمْ أَفْضَلُ؟ ذَکَرْنَا نَوْحًا وَطُوْلَ عِبَادَتِهِ وَذَکَرْنَا إِبْرَاھِيْمَ خَلَيْلَ الرَّحْمَنِ وَذَکَرْنَا مُوْسیٰ کَلِيْمَ اللهِ وَذَکَرْنَا عَيْسیَ بْنَ مَرْیَمَ وَذَکَرْنَاکَ یَا رَسُوْلَ اللهِ! قَالَ: فَمَنَ فَضَّلْتُمْ؟ قُلْنَا: فَضَّلْنَاکَ یَا رَسُوْلَ اللهِ! بَعَثَکَ اللهُ إِلَی النَّاسِ کَافَّةً وَغَفَرَ لَکَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَأَخَّرَ وَأَنْتَ خَاتَمُ الْأَنْبِیَاءِ۔(طبرانی:۱۲۹۳۸)

·       عَنْ أَبِيْ ھُرَيْرَةَ رضی اللہ عنہ أنَّ رَسُوْلَ اللهِ ﷺ قَالَ: فُضِّلْتُ عَلَی الْأَنْبِیَاء بِسِتٍّ: أُعْطِيْتُ جَوَامِعَ الْکَلِمِ، وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ، وَأُحِلَّتْ لِيَ الْغَنَائِمُ، وَجُعِلَتْ لِيَ الْأَرْضُ طَھُوْرًا وَمَسْجِدًا، وَأُرْسِلْتُ إِلَی الْخَلْقِ کَافَّةً، وَخُتِمَ بِيَ النَّبِیُّونَ۔(صحیح مسلم:۵۲۳)

·       أَبُو هُرَيْرَةَ، عَنْ مُحَمَّدٍ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " نَحْنُ الآخِرُونَ السَّابِقُونَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ،(صحیح بخاری:۲۳۸)

اگر نبی ہوتے

·       لَوْ كَانَ بَعْدِي نَبِيٌّ لَكَانَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ (سنن ترمذی ۳۶۸۶)

·       لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى : رَأَيْتَ إِبْرَاهِيمَ ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" مَاتَ وَهُوَ صَغِيرٌ، وَلَوْ قُضِيَ أَنْ يَكُونَ بَعْدَ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَبِيٌّ لَعَاشَ ابْنُهُ، وَلَكِنْ لَا نَبِيَّ بَعْدَهُ"(صحیح بخاری: ۶۱۹۴)

·       أن النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِعَلِيٍّ: " أَنْتَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى إِلَّا أَنَّهُ لَا نَبِيَّ بَعْدِي(سنن ترمذی: ۳۷۳۱)

 تحقیق و تدوین : محمد سہیل عارف معینیؔ (سکالر پی ایچ ڈی یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور) 

Share:

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Online People

Blog Archive

Blog Archive