Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

...

....

وظائف

مختلف وظائف کے لیے کلک کریں

دار المطالعہ

اچھے اچھے عنوانات پر کالم پڑھنے کے لیے کلک کریں

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی صاحب کی خوبصورت تحریریں پڑھنے کے لیے کلک کریں

گوشہءِ غزل

بہت خوبصورت اردو غزلیں پڑھنے کے لیے کلک کریں

10/17/24

مذہب کو کیوں مانوں؟ Why should I believe in religion

مذہب کو کیوں مانوں؟ جن اخلاقیات کا تعین معاشرے نے کر دیا ہے میں ان کا پابند ہوں، اب مجھے مذہب کی کیا ضرورت ہے؟

اس کے جواب میں دعوی یہ ہے کہ ! اس وقت کائناتِ انسانی کی اخلاقیات مذہب کی عطا کردہ ہیں ۔ آپ لوگ جن معاشرتی اخلاقیات کی بات کرتے ہیں وہ سب مذہب کی عنائیت ہیں۔ (یہ سوال کہ کس مذہب کی عطا کردہ ہیں اور کون سا مذہب مانیں یہ سوال الگ ہے جو کہ بین المذاہب کے عنوان سے زیرِ بحث آتا ہے۔)اخلاقیات کے مباحث ہر مذہب میں موجود ہیں یہ اس دعوی کی دلیل ہے۔

To Read this Article in English Click Here

اب اس کے رد میں یہ سوال آسکتا ہے کہ یہ اخلاقی ارتقاءانسانی ذہنی ارتقا ءکا شاخسانہ ہے (تو یہاں جواباً یہ سوال آئے گا کہ اگر ذہنی ارتقاء کی بدولت اخلاقی ارتقاء وقوع پذیر ہوا ہے تو اس کائنات میں لاکھوں اور مخلوقات موجود ہیں اور لاکھوں سالوں سے موجود ہیں ان میں ایسی کوئی پیش رفت کیوں نہیں ہوئی؟ جس طرح ان مخلوقات کا بود و باش آج سے لاکھوں سال یا جب سے وہ وجود میں آئی ہیں، تھا آج بھی اسی طرح ہے مثلاشیر کا شکار کرنا ، لگڑ بگڑ کا اس سے شکار چھیننا ، گدھ کا مردار پر آنا اور ایک دوسرے سے لڑ بھڑ کر گوشت نوچنا ، مزید دوسرے چھوٹے جانوروں کا آنا اور پھر ایک دوسرے کو کاٹنے کو آنا اور خود وہ کھانے کی کوشش کرنا ، یہ سب شروع سے چلا آرہا ہے اس میں کوئی اخلاقی پیش رفت نہیں آئی۔بنیادی طور پر انسان کی فطرت میں بھی یہ معاملات موجود ہیں وہ بھی جانوروں کی طرح کا ایک جاندار ہے لیکن اس میں مذہب نے انسان کو سکھایا ہے کہ کسی کا مال جان کسی دوسرے کے لیے جائز نہیں ہے وہ اسی کا ہے جو اس کا مالک ہے اور اگر کوئی دوسرا اس کی اجازت کے بغیر لے گا تو یہ جرم ہو گا۔یہی بات انسانی عقل نے اپنا لی اب اگر کوئی یہ کہے کہ چوری کرنا جرم ہے یہ عقل کا تقاضا ہے تو اس کی بات اس وقت تک نہیں مانی جائے گی جب تک کسی ایسے معاشرے کی مثال نہ لائے جس معاشرے کا مذہب سے دور دور تک کوئی واسطہ نہ ہو، اور وہاں کے تمام تر اخلاقی  معاملات عقل کے پروردہ ہوں۔

To Read this Article in English Click Here


التزامی سوال کہ جس کا تعلق عقل اور منطق سے ہے نہ کہ کسی مذہب سے۔۔۔۔

یہ معاشرتی اخلاقیات کس معاشرے نے سیٹ کی ہیں ؟ (وہ معاشرہ جس پر مذہب کی چھاپ ہے ، جس معاشرے میں 99.99 فی صد لوگ مذہب کو مانتے ہیں اور مذہب کی پیروی کرتے ہیں اُس معاشرے کی ترتیب دی گئی معاشرتی اخلاقیات کی آپ بات کرتے ہیں؟ )کیا آپ کی عقل یہ فیصلہ کرتی ہے کہ جس معاشرے میں 99.99 فی صد لوگ کسی نا کسی مذہب کو مانتے ہوں وہاں کی اخلاقیات مذہب سے الگ عقل کی اختراع ہوں گی؟

عقل یہ کہتی ہے کہ:  جس معاشرے میں جس طبقے کی اکثریت ہو گی وہاں کے اخلاقی اصول انہیں کے مطابق ہوں گے ، یہ بات ا س وقت اس دنیا کے تمام انسانی معاشرے ثابت کرتے ہیں۔

مذہب کو نہ ماننے والوں کا یہ دعوی کہ چوری کرنا ، زنا کرنا ، کسی کو گالی دینا ، کسی کو بر ابھلا کہنا، کسی کو تھپڑ مارنا ، کسی کو قتل کرنا  یہ سب عقل نے بذات خود غلط قرار دیے ہیں، ثابت شدہ نہیں ہے پہلے اس کو ثابت کریں۔  مذہب کو نا پسند کرنا اور مذہب کی مخالت کرنا یہ شیطانی وسوسہ اور خیال ہے ۔تمام تر اخلاقی تعلیمات مذہب کی عطا کردہ ہیں۔

جو یہ دعوی کریں کہ اخلاقی تعلیمات اور اصول و ضوابط عقل کے پروردہ ہیں ان کے پاس اس کی کوئی دلیل نہیں ہےاور بغیر دلیل کے دعوی کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔(یہ عقلی اصول ہے)

مذہب کو کیوں مانوں ؟اس لیے کہ مذہب (اپنے تعلیم کردہ تمام تر تصورات کی بدولت)انسان کی اخلاقیات کو مرتب کرتا ہے اور انسان کو بے راہ روی سے بچاتا ہے۔

To Read this Article in English Click Here


دوسرا پہلو کہ مذہب کو کیوں مانوں؟

            بالفرض یہ مان لیا جائے کہ ایک شخص یہ دعوی کرے کہ میں مذہب کے بغیر بھی اخلاقی لحاظ سے مکمل ہوں اس انساین معاشرے میں مجھے کسی سے کوئی تکلیف نہیں اور کسی کو مجھ سے کوئی تکلیف نہیں لہذا پر امن طور پر میں زندگی بسر کر رہا ہوں (اگرچہ یہ دعوی کہ میں اخلاقی لحاظ سے مکمل ہوں اور یہ سب میری عقل کے بدولت ہے سراسر غلط ہے کیوں کہ جب اس نے اس دنیا میں آنکھ کھولی تھی تو اس کو کچھ معلوم نہ تھا کہ غلط کیا ہے اور صحیح کیا ہے ، (اس بات سے کوئی انکاری نہیں)پھر اس نے اس معاشرے میں آنکھ کھولی جس میں مذہب کہہ رہا تھا کہ چوری کرنا ، زنا کرنا ، قتل کرنا ، گالی دینا سب غلط کام ہیں دوسروں کی مدد کرنا ، کام آنا ، دوسروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنا اچھے کام ہیں یہ سب اس نے سیکھا اور یہ اچھائی اور برائی کے زاویے سیکھنے کے بعد اس نے یہ دعوی کردیا کہ یہ میری عقل نے مجھے بتایا ہے سراسر بددیانتی اور علمی و تربیتی سرقہ ہے جہاں سے جو سیکھا اس کو اس طرف لوٹانا چاہیے اور اس کا اقرار کرنا چاہیے۔)بہر حال مان لیا اس کی عقل نے یہ اس کی تربیت کی اور وہ اس پر عمل کر رہا ہے۔ مزید یہ کہ وہ آخرت اور اس دنیا کے بعد دوسری (آخرت کی )زندگی کا انکاری ہے۔

اس ملحد شخص کے برعکس ایسا شخص جو مذہب کا حامل ہے وہ بھی اس جیسی تمام تر خصوصیات کا حامل ہے اور تمام تر اچھائیاں جو یہ ملحد اپنا بیٹھا ہے وہ مذہب کا حامل بھی اپنا چکا ہے، اس پر مزید یہ کہ حاملِ مذہب شخص آخرت کو بھی مانتا ہے، جب کہ ملحد نہیں مانتا ، یہاں پر دو موقف ہیں ایک ملحد کا کہ آخرت نہیں ہے دوسرا مذہبی کا کہ آخرت ہے۔ پہلی صورت میں دونوں برابر ہوئے کہ دونوں اچھی زندگی گزار گئے جبکہ دوسری صورت میں حاملِ مذہب فائدے میں رہے گا کیوں کہ وہ مانتا ہے جبکہ ملحد نہیں مانتا تو اس لحاظ سے ملحد نقصان میں اور مذہبی شخص فائدہ میں رہا ، عقل کا تقاضا یہی ہے کہ وہ راستہ اپنانا چاہیے جس میں ہر صورت فائدہ ہو یا زیادہ فائدہ ہو۔ یہ بات بھی طے ہے کہ جب ملحدین سے یہ سوال کیا جائے کہ آپ آخرت کو کیوں نہیں مانتے تو جواب آتا ہے کہ عقل اس کو نہیں مانتی ، جب یہ کہا جائے کہ اگر یہ آخرت کی زندگی سائنس اور عقلی دلائل ثابت کر دیں تو ؟ اس کے جواب میں جملہ آتا ہے کہ پھر ہم مان لیں گے۔ تو یاد رہے کہ یہی عقل ہے کہ کچھ عرصہ پہلےبعض معاملات کا تصور بھی نہیں کر سکتی تھی لیکن آج سائنس نے انہیں حقیقت ثابت کر دیا ہے۔ اگر  اس دور کےملحدین کی زندگی کے بعد آخرت کی زندگی (یہ ایک تصور مثال کے طور پر زیرِ بحث لایا گیا ہے جس کا ملحدین انکار کرتے ہیں)کو آنے والے وقت نے ثابت کر دیا تو ان کا کیا بنے گا ؟اور اگر یہ ان کا دعوی ہو کہ یہ ہو ہی نہیں سکتا تو یہ دعوی بذات خود عقل تسلیم نہیں کرتی کیوں کہ اس کی کوئی عقلی دلیل نہیں ہے۔بے شمار ایسے معاملات ہیں کہ ہم سے پہلے لوگ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے تھے لیکن آج وہ ثابت ہو چکے ہیں۔ اسی طرح آج ہم جس کا تصور بھی نہیں کر سکتے ہو سکتا ہے آنے والا وقت اس کو ثابت کر دے۔

·       اس بحث کا لازمی نتیجہ یہی نکلے گا کہ بہر صورت زیادہ فائدے میں وہی شخص ہے جو مذہب کو مانتا ہے۔

تحریر: محمد سہیل عارف معینیؔ

 


Share:

10/16/24

Why should I believe in religion? | Evolution of Morality through Human Intelligence


 Why should I believe in religion? If I follow the ethics defined by society So, what need do I have for religion now?

Claim: The moral values that guide human society today are, in fact, derived from religion. The societal ethics that people speak of are actually gifts from religion. The question of which religion's ethics we are following, and which religion one should accept, is a separate matter, typically discussed under the subject of interfaith dialogue. However, it is undeniable that discussions on ethics exist within every major religion, which supports this claim.

For Urdu Version Click Here 

یہی آرٹیکل اردو میں پڑھنے کے لیے کلک کریں

Counter-Argument: The Evolution of Morality through Human Intelligence

The question arises that this moral evolution is the result of human intellectual evolution. (In response, the question arises) that if moral evolution occurred due to intellectual evolution, then why hasn’t such progress happened among the millions of other creatures in this universe, which have existed for millions of years? Their way of living has remained the same since they came into existence.

For example, a lion hunts, a hyena snatches its prey, a vulture comes to the carcass, and after fighting with each other, they tear off pieces of flesh. Then other smaller animals come and fight one another to eat it. This pattern has continued from the beginning, with no moral progress.

Key Argument:

These behaviors fundamentally exist in human nature as well, as humans are also living beings like animals. But religion taught humans that someone else’s property or life is not permissible for others; it belongs only to the rightful owner. And if someone takes it without permission, it is a crime.

This teaching was later adopted by human intellect. Now, if someone claims that stealing is wrong because reason demands it, this claim will not be accepted unless they can provide an example of a society that has no connection with religion, where all ethical values are purely the product of reason.

For Urdu Version Click Here

یہی آرٹیکل اردو میں پڑھنے کے لیے کلک کریں

Can Social Morality Exist Without Religion?

A challenging question related to reason and logic, not tied to any religion: Which society established these social ethics? (Are you talking about a society that is influenced by religion, where 99.99% of the people believe in and follow a religion?) Does your reason determine that the ethics of a society, where 99.99% of the people adhere to some form of religion, are inventions of reason separate from religion?

Reason tells us that in any society, the moral principles will reflect the majority of that society. This is proven by all human societies around the world.

Challenges to Secular Moral Claims

Those who do not believe in religion claim that stealing, committing adultery, using abusive language, insulting others, hitting someone, or killing are all deemed wrong by reason alone. However, this is not proven; they must first establish this claim. Disliking religion and opposing it is merely a whisper and thought from the devil. All moral teachings are gifts from religion.

Those who claim that moral teachings and principles are the products of reason have no evidence to support their claim, and a claim without evidence holds no value. (This is a rational principle.) Why should I believe in religion? Because religion, through all the concepts it teaches, organizes human ethics and helps keep people from straying off the right path.

Another point to be discussed:

Suppose a person claims that they are morally complete without religion. They say that in this human society, they don't harm anyone, and no one harms them, so they live peacefully. (However, this claim of moral completeness based solely on reason is entirely incorrect because when they opened their eyes to this world, they had no idea of what is right and what is wrong—this is undeniable.)

Then they grew up in a society where religion teaches that stealing, committing adultery, killing, and using abusive language are all wrong, while helping others and treating them well are good deeds. They learned all of this. After understanding these concepts of good and evil, they claimed, “This is what my reason has taught me.” This is sheer dishonesty and intellectual and educational theft. They should acknowledge where they learned these values and give credit to that source.

Regardless, let’s assume their reason guided them, and they are following it. Furthermore, they deny the existence of an afterlife or any life beyond this world.

For Urdu Version Click Here

یہی آرٹیکل اردو میں پڑھنے کے لیے کلک کریں

In contrast to the atheist, a person who follows a religion possesses all the same qualities and virtues that the atheist claims to have. Furthermore, the religious person believes in an afterlife, while the atheist does not. Here, we have two positions: the atheist denies the afterlife, while the religious person affirms it.

In the first case, both may seem equal because they both live good lives. However, in the second case, the religious person is at an advantage because they believe, while the atheist does not. Thus, in this regard, the atheist is at a loss, and the religious person is at a gain. Reason dictates that one should adopt the path that ensures benefit in all situations or maximizes benefits.

     It is also clear that when atheists are asked why they do not believe in an afterlife, they respond that their reason does not accept it. If asked, "What if science and rational evidence prove the existence of an afterlife?" they usually reply, "Then we will accept it."

Keep in mind that it is this very reason that could not conceive certain concepts some time ago, but today science has proven them to be true. If future discoveries validate the existence of an afterlife (this is a hypothetical scenario that atheists deny), what will happen to their beliefs? And if they claim that this is impossible, that claim itself is not accepted by reason, as it lacks rational evidence.

     There are countless matters that people before us could not even imagine, but today they are proven realities. Similarly, what we cannot conceive today may well be proven true in the future.

The essential conclusion of this discussion will be that, in any case, the person who believes in religion is at a greater advantage.

 Author: Muhammad Sohail Arif Moeeni

 

 

 

 

Share:

10/11/24

عشق میں آیا وہ مقام آخر | ہو گئے آپ ہم کلام آخر


 عشق میں آیا وہ مقام آخر

خود کے جلوے میں ہے امام آخر

 

تم سے مل کر ملے خدا سے ہم

سوزِ ہجراں کے ٹوٹے جام آخر

 

جان دے دیں گے تیرے غم میں ہم

عشق تیرے میں غلام آخر

 

خاک اڑائی ہے فلک تک میری

عشق نے یوں کیا ہے کام آخر

 

آنکھ نے دیکھی حقیقت تو

بت کدے ٹوٹےہیں تمام آخر

 

ہم تو پڑھتے رہے کلام تیرا

ہو گئے آپ ہم کلام آخر

Share:

بدلتی ہیں رُتیں لیکن وہی ہے غم وہی پت جھڑ | badalti hen ruten lekin


 

بدلتی ہیں رُتیں لیکن وہی ہے غم وہی پت جھڑ

وہی ہجرِ مُسلسل ہے وہی ہیں ہم وہی پت جھڑ

 

بہاروں نے گُلستاں کو سجایا پُھول پتوں سے

میرا ویران سا آنگن وہی موسم وہی پت جھڑ

 

کھڑا ہوں میں وہیں اب تک ہوئے اوجھل جہاں سے وہ

وہی پتھر وہی رستہ وہی عالم وہی پت جھڑ

 

حسیں لمحوں کی سب یادیں دھواں سا ہو گئیں شاکر

وہی چیخیں وہی آنسو وہی ماتم وہی پت جھڑ

 غلام رضا شاکر

Share:

10/8/24

چاند کو توڑ کر پھر جوڑنے والے آجا | آپ اگر حسن کی جاگیر لیے بیٹھے ہیں | chand ko tor kar phir jorny waly


 

آپ اگر حسن کی جاگیر لیے بیٹھے ہیں

دل میں ہم آپ کی تصویر لیے بیٹھے ہیں

 

چاند کو توڑ کر پھر جوڑنے والے آجا

ہم بھی ٹوٹی ہوئی تقدیر لیے بیٹھے ہیں

 

تم لوگ ہیں حشر میں پھر نامہ اعمال لیے

تیرے عاشق تیری تصویر لیے بیٹھے ہیں

Share:

10/3/24

8/31/24

Aye Khusrave Khooban | اے خسروِ خوباں شانِ من | kalam peer naseer


 

اے خسروِ خوباں ! شانِ من

قربان نگاہت ، جانِ من

آے صفات حمیدہ کے مالک لوگوں کے سردار آپ میری شان ہیں آپ کی نگاہوں پر میری جان قربان ہو

 

 انوارِ جمالت ، رزقِ نظر

دیدارِ رُخت ، ایمانِ من

آپ کے جمال کے انوار میری نظر کا رزق ہیں آپ کے چہرے کا دیدار میرا ایمان ہے

 

 شہکارِ خُدا ، مختارِ عطا

 اے تاجورِ ذی شانِ من

اے قدرت کے شاہکار اور عطا کرنے پر قادر (محبوب کبریاء) اے میرے عظت و شان والے تاجدار

 

 بر جلوہِ تو کونین فدا

اے جان ِ من و جانانِ من

آپ کے ایک جلوہ پر کائنات قربان ہو اے میرے دل وجان

 

 اے ناقہِ سوارِ راہِ قُبا

 یک روز بیا مہمانِ من

اے اونٹنی (ناقہ) پر سوار ہو کر قبا کی طرف جانے والے کبھی مجھے بھی مہمان نوازی کا شرف عطا فرمائیں

 

 از یک قدمت آباد شود

ایں غمکدہ ویرانِ من

آپ کے ایک قدم سے آباد ہو جائے گا میرا ویران غم کدہ (یعنی میرے بیت حزیں میرا ویران گھر)

 

 اے راحتِ قلبِ نصیرِ حزیں

 من بندہ و تُو سلطانِ من

اے نصیر کے غمگین دل کی راحت ! (یعنی آپ نصیر کے پریشان دل کی راحت ہیں) میں ااپ کا غلام ہوں اور آپ میرے بادشاہ ہیں

 

کلام : پیر نصیر الدین شاہ رحمۃ اللہ علیہ

گولڑہ شریف اسلام آباد (پاکستان)

Share:

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Blog Archive

Blog Archive