Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

...

....

وظائف

مختلف وظائف کے لیے کلک کریں

دار المطالعہ

اچھے اچھے عنوانات پر کالم پڑھنے کے لیے کلک کریں

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی صاحب کی خوبصورت تحریریں پڑھنے کے لیے کلک کریں

گوشہءِ غزل

بہت خوبصورت اردو غزلیں پڑھنے کے لیے کلک کریں

12/28/25

Trends Fade, Identity Stays | اپنی تہذیب یا دوسروں کی نقالی

اپنی پہچان کی تلاش : تہذیب، اقدار اور نئی نسل

عصرِ حاضر میں ایک نمایاں طبقہ ایسا ہے جو مغربی تہذیب، مغربی اقوام کی ترقی، اور ان کے رسوم و رواج کو جدت پسندی اور نئے رجحانات سمجھ کر نہ صرف قبول کرتا ہے بلکہ ان کا بھرپور دفاع اور پرچار بھی کرتا ہے۔ یہ رویہ کوئی اچانک پیدا ہونے والی انہونی بات نہیں، بلکہ ایک تدریجی فکری تبدیلی کا نتیجہ ہے۔ افسوسناک پہلو یہ ہے کہ اس ذہنیت کے حامل افراد کے نزدیک اپنی معاشرتی اور تہذیبی اقدار کی کوئی خاص وقعت باقی نہیں رہتی۔

 ایسے لوگ تہذیب کو محض چمک، رنگینی اور ظاہری دلکشی تک محدود کر دیتے ہیں۔ انہیں اس بات سے کوئی دلچسپی نہیں ہوتی کہ ان کی اصل پہچان کیا ہے، ان کی تہذیب کن بنیادوں پر قائم ہے، اور آنے والی نسلیں انہیں کس شناخت کے ساتھ یاد رکھیں گی۔ مستقبل میں اپنی اقدار کے بقا کا سوال ان کے لیے غیر اہم بن جاتا ہے، حالانکہ یہی سوال کسی بھی قوم کے وجود اور تسلسل کی ضمانت ہوتا ہے۔

درحقیقت یہ محض ایک فکری کمزوری نہیں بلکہ ایک نفسیاتی اور عمرانی مسئلہ ہے، جس کی طرف دنیا کے ہر سنجیدہ ماہرِ عمرانیات توجہ دلاتا رہا ہے۔ چاہے وہ مغرب کا دانشور ہو یا مشرق کا مفکر، مسلمان ہو یا غیر مسلم — سب اس بات پر متفق ہیں کہ جو قوم اپنی تہذیبی بنیادوں سے کٹ جائے، وہ ترقی کے نام پر محض نقل کا ایک بے روح نمونہ بن کر رہ جاتی ہے۔

عام طور پر وہ افراد اس فکری الجھن کا شکار ہو جاتے ہیں جو زندگی کو صرف ایک نسل یا اپنی ذاتی آسائشوں تک محدود کر کے دیکھتے ہیں۔ ان کے لیے لباس، خوراک اور وقتی طرزِ زندگی ہی سب کچھ ہوتا ہے۔ اس کے برعکس وہ لوگ جو انسانیت اور معاشروں کا مطالعہ نسل در نسل تسلسل کے تناظر میں کرتے ہیں، وہ تہذیب و تمدن کو نہایت گہری نظر سے سمجھتے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ تہذیب کوئی فیشن نہیں بلکہ ایک اجتماعی وراثت ہے، جو صدیوں میں تشکیل پاتی ہے۔

 یہی وہ مقام ہے جہاں نئی نسل کو خود سے چند بنیادی سوالات پوچھنے کی ضرورت ہے:

·       ہم کون ہیں؟

·       ہمارے معاشرتی تقاضے اور رجحانات کیا ہیں؟

·       ہماری تہذیب کن اصولوں پر قائم ہے؟

·       ہماری اقدار کیا ہیں اور ان کی اہمیت کیوں ہے؟

·       معاشرے کیسے وجود میں آتے ہیں اور کیوں قائم رہتے ہیں؟

اسلام ان تمام سوالات کا نہایت واضح اور متوازن جواب دیتا ہے۔ اسلام کا معاشرتی نظام محض عبادات تک محدود نہیں بلکہ زندگی کے ہر پہلو کو محیط ہے۔ اسلام ایک ایسا تہذیبی تصور پیش کرتا ہے جس میں خاندان، حیا، عدل، امانت، احترامِ انسانیت، اور اجتماعی ذمہ داری بنیادی اقدار ہیں۔ یہی وہ اصول ہیں جو فرد کو بھی سنوارتے ہیں اور معاشرے کو بھی مضبوط بناتے ہیں۔

اسلام اس لیے اپنی معاشرتی اقدار اور نظام کی پیروی پر زور دیتا ہے کہ یہی اقدار انسان کو محض صارف نہیں بلکہ ذمہ دار انسان بناتی ہیں۔ یہی نظام فرد کو اپنی آزادی کے ساتھ ساتھ اپنی حدود بھی سکھاتا ہے، اور معاشرے کو انتشار کے بجائے ہم آہنگی عطا کرتا ہے۔

 نئی نسل کے لیے اصل چیلنج یہ نہیں کہ وہ جدید دنیا سے کیسے جڑے، بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ وہ اپنی پہچان کے ساتھ جدید دنیا میں کیسے قدم رکھے۔ ترقی کو اپنانا جرم نہیں، مگر اپنی تہذیب کو چھوڑ دینا ایک خاموش خودکشی ہے۔ زندہ قومیں وہی ہوتی ہیں جو زمانے کے ساتھ چلتی ضرور ہیں، مگر اپنی جڑوں سے کبھی کٹتی نہیں۔

 آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی نئی نسل کے دل میں یہ شعور بیدار کریں کہ اپنی اقدار بوجھ نہیں، طاقت ہوتی ہیں۔ یہی اقدار ہمیں ماضی سے جوڑتی ہیں، حال کو معنی دیتی ہیں، اور مستقبل کو سمت عطا کرتی ہیں۔

 

اسلام اپنے معاشرتی نظام کو اہمیت کیوں دیتا ہے؟

اسلام اپنے معاشرتی نظام کو اس لیے غیر معمولی اہمیت دیتا ہے کہ وہ انسان کو محض ایک فرد نہیں بلکہ ایک ذمہ دار سماجی وجود سمجھتا ہے۔ اسلام کے نزدیک انسان کی شخصیت تنہائی میں نہیں بنتی، بلکہ خاندان، معاشرے اور اجتماعی ماحول میں تشکیل پاتی ہے۔ اس لیے اگر معاشرہ درست اصولوں پر قائم نہ ہو تو فرد کی اصلاح بھی ممکن نہیں رہتی۔

اسلام جانتا ہے کہ عقائد اور عبادات کا اثر اسی وقت مکمل اور پائیدار ہوتا ہے جب وہ ایک صحت مند معاشرتی ڈھانچے کے اندر پروان چڑھیں۔ اگر معاشرہ ظلم، بے حیائی، خود غرضی اور اخلاقی انتشار کا شکار ہو تو فرد کی دینداری محض ایک ذاتی عمل بن کر رہ جاتی ہے، جس کا اجتماعی زندگی پر کوئی اثر باقی نہیں رہتا۔ اسی لیے اسلام ایک ایسے معاشرتی نظام کی تشکیل پر زور دیتا ہے جو ایمان کو عملی زندگی میں ڈھال دے۔

اسلامی معاشرتی نظام کی بنیاد چند بنیادی اقدار پر قائم ہے: عدل، حیا، امانت، احترامِ انسانیت، خاندانی نظام، باہمی تعاون اور اجتماعی ذمہ داری۔ یہ اقدار اس لیے ضروری ہیں کہ انسان کی فطرت محض آزادی نہیں بلکہ توازن چاہتی ہے۔ اسلام فرد کو آزادی بھی دیتا ہے مگر اسے اخلاقی حدود کے ساتھ مشروط کرتا ہے، تاکہ ایک فرد کی آزادی دوسرے فرد کے حقوق کو پامال نہ کرے۔

اسلام اپنے معاشرتی نظام کو اس لیے بھی اہمیت دیتا ہے کہ وہ نسلِ انسانی کے تسلسل اور اخلاقی بقا کی ضمانت بنتا ہے۔ خاندان کا مضبوط نظام، نکاح کی ترغیب، والدین اور اولاد کے حقوق، عورت اور مرد کے باوقار کردار — یہ سب ایسے عناصر ہیں جو معاشرے کو وقتی لذت کے بجائے طویل المدت استحکام عطا کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام ایسے رجحانات کی حوصلہ شکنی کرتا ہے جو خاندان کو کمزور اور فرد کو تنہا کر دیتے ہیں۔

مزید یہ کہ اسلام معاشرتی نظام کے ذریعے صرف مسلمانوں ہی نہیں بلکہ تمام انسانوں کے حقوق کی حفاظت کرتا ہے۔ عدل و انصاف، کمزوروں کا تحفظ، یتیموں اور مسکینوں کی کفالت، پڑوسیوں کے حقوق، اور سماجی انصاف — یہ سب اسلامی معاشرت کا حصہ ہیں۔ یوں اسلامی نظام معاشرے کو طاقتور اور کمزور کے درمیان کشمکش کے بجائے رحمت اور توازن پر قائم کرتا ہے۔

اسلام اس لیے بھی اپنے معاشرتی نظام کی پیروی پر زور دیتا ہے کہ یہی نظام امت کو ایک مشترکہ شناخت اور اجتماعی شعور عطا کرتا ہے۔ جب ایک معاشرہ مشترکہ اقدار پر متحد ہوتا ہے تو وہ فکری انتشار، تہذیبی شکست اور اخلاقی غلامی سے محفوظ رہتا ہے۔ یہی مشترکہ اقدار امت کو ایک سمت دیتی ہیں اور اسے تاریخ میں ایک فعال کردار ادا کرنے کے قابل بناتی ہیں۔

مختصراً، اسلام اپنے معاشرتی نظام کو اس لیے اہمیت دیتا ہے کہ وہ:

·       فرد کی اصلاح کو اجتماعی اصلاح سے جوڑتا ہے

·       آزادی اور اخلاق کے درمیان توازن قائم کرتا ہے

·       نسلوں کی بقا اور تہذیبی تسلسل کو محفوظ بناتا ہے

·       اور ایک ایسا معاشرہ تشکیل دیتا ہے جو عدل، رحمت اور ذمہ داری پر قائم ہو۔

یہی وہ حکمت ہے جس کی بنا پر اسلام اپنے معاشرتی نظام کو محض ایک انتخاب نہیں بلکہ زندگی کی ناگزیر ضرورت قرار دیتا ہے۔

 

روشن خیالی یا فکری بے سمتی؟

کچھ لوگ اہلِ مغرب اور دیگر اقوام کے تہواروں، رجحانات اور طرزِ زندگی کو اپنانے کو روشن خیالی، ترقی پسندی اور ذہنی وسعت کی علامت سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک نئے تہوار منانا، غیر مانوس رسمیں اختیار کرنا اور اپنی تہذیب سے فاصلہ پیدا کرنا ایک جدید انسان ہونے کا ثبوت ہے۔ مگر سوال یہ ہے: کیا ہر نئی چیز واقعی ترقی ہوتی ہے؟ اور کیا ہر اپنایا ہوا رجحان ہمیں واقعی آگے لے جاتا ہے؟

حقیقت یہ ہے کہ تہوار محض تفریح یا رنگینی کا نام نہیں ہوتے، بلکہ وہ ہر قوم کے عقائد، تاریخ اور اجتماعی شعور کی نمائندگی کرتے ہیں۔ جب کوئی قوم اپنے تہوار چھوڑ کر دوسروں کے تہواروں کو فخر سے اپناتی ہے تو وہ دراصل اپنی تاریخ، اپنے نظریے اور اپنی شناخت کو پسِ پشت ڈال رہی ہوتی ہے۔ یہ عمل آزادیِ فکر نہیں بلکہ فکری غلامی کی ایک خاموش شکل ہے۔

یہ بات قابلِ غور ہے کہ جو اقوام دنیا میں اپنی تہذیب اور شناخت پر فخر کرتی ہیں، وہی حقیقی معنوں میں باوقار اور مستحکم رہتی ہیں۔ جاپان، چین، یہود اور مغربی اقوام خود اپنے تہواروں اور ثقافتی علامات پر کبھی شرمندہ نہیں ہوتیں، پھر آخر ہم ہی کیوں اپنی اقدار کو کمتر سمجھنے لگتے ہیں؟ کیا ہماری عیدیں، ہمارے دینی شعائر، ہمارے تہذیبی مظاہر کسی بھی طرح انسانیت، اخلاق اور روحانیت سے خالی ہیں؟

اصل روشن خیالی یہ نہیں کہ انسان ہر آنے والے رجحان کے ساتھ بہہ جائے، بلکہ یہ ہے کہ وہ سوچ سمجھ کر انتخاب کرے۔ روشن دماغ وہ ہوتا ہے جو نئی چیز کو اپنی تہذیب کے ترازو میں تولے، نہ کہ اپنی تہذیب کو ہر نئی چیز پر قربان کر دے۔ جس معاشرے کے پاس اپنا معیار نہ ہو، وہ دوسروں کے معیار کا محتاج بن جاتا ہے۔

 اسلام نے انسان کو اندھی تقلید سے روکا ہے اور اسے شعور، مقصد اور اعتدال کی راہ دکھائی ہے۔ اسلام انسان کو اپنی شناخت مٹانے کا نہیں بلکہ اپنی پہچان کے ساتھ دنیا میں جینے کا درس دیتا ہے۔ اپنی تہذیب اور اقدار کو اپنانا تنگ نظری نہیں، بلکہ اپنی فکری خودمختاری کا اعلان ہے۔

 نئی نسل کے لیے لمحۂ فکریہ یہ ہے کہ وہ یہ طے کرے کہ وہ محض صارف بن کر تہوار منانا چاہتی ہے یا ایک باوقار امت کا فرد بن کر اپنی اقدار کو زندہ رکھنا چاہتی ہے۔ یاد رکھیے، وہ قوم جو دوسروں کے تہواروں پر فخر کرے اور اپنے شعائر پر شرمندہ ہو، وہ آہستہ آہستہ تاریخ کے حاشیے پر چلی جاتی ہے۔

آئیے روشن خیالی کی نئی تعریف کریں: روشن خیالی یہ نہیں کہ ہم اپنی تہذیب کو چھوڑ دیں، بلکہ روشن خیالی یہ ہے کہ ہم اپنی تہذیب کی روشنی میں دنیا کو دیکھیں۔

 

ایک اور قابلِ توجہ پہلو یہ ہے کہ جب کچھ لوگ غیر اقوام کے تہواروں اور رجحانات کی پیروی کرتے نظر آتے ہیں تو ہمارا ردِعمل اکثر ایک محدود دائرے میں قید ہو جاتا ہے۔ فوراً یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ یہ کام شرعاً جائز ہے یا ناجائز؟ یہ سوال اور بحث اپنی جگہ ضرور اہم ہے لیکن ایک اور  اہم اور بنیادی سوال یہ ہونا چاہیے کہ یہ رویہ ہماری تہذیب، ہماری شناخت اور ہمارے اجتماعی شعور کے لیے کس قدر نقصان دہ ہے؟

یہ حقیقت ہے کہ ہر مسئلہ صرف فقہی دائرے میں حل نہیں ہوتا۔ فقہ انسان کے افعال کے شرعی احکام بیان کرتی ہے، مگر تہذیب اور تمدن کا معاملہ اس سے کہیں وسیع تر ہوتا ہے۔ بہت سے امور ایسے ہوتے ہیں جو بظاہر کسی صریح شرعی ممانعت کے تحت نہیں آتے، لیکن وہ آہستہ آہستہ ایک قوم کی فکری سمت، تہذیبی ذوق اور اجتماعی اقدار کو کمزور کر دیتے ہیں۔ اگر ہم صرف جائز یا ناجائز کی بحث میں الجھے رہیں اور اس کے تہذیبی اثرات کو نظر انداز کر دیں تو ہم مسئلے کی جڑ تک کبھی نہیں پہنچ سکیں گے۔

سوال یہ ہے کہ کیا یہ طرزِ عمل ہمیں اپنی تہذیب سے قریب کر رہا ہے یا دور؟

کیا یہ ہماری آنے والی نسل کو اپنی اقدار سے جوڑ رہا ہے یا اجنبی بنا رہا ہے؟

کیا یہ ہمیں ایک باوقار امت کے طور پر مضبوط کر رہا ہے یا فکری طور پر منتشر؟

یہی وہ سوالات ہیں جن پر ہر باشعور معاشرہ غور کرتا ہے۔ دنیا کی زندہ قومیں کسی عمل کو محض اس بنیاد پر قبول نہیں کرتیں کہ وہ قانوناً ممکن ہے، بلکہ اس بنیاد پر پرکھتی ہیں کہ وہ عمل ان کی تہذیبی روح کے موافق ہے یا نہیں۔ افسوس کہ ہم نے اس اجتماعی شعور کو رفتہ رفتہ کمزور کر دیا ہے۔

اسلام بھی انسان کو محض احکام کی فہرست نہیں دیتا، بلکہ اسے ایک مکمل تہذیبی مزاج عطا کرتا ہے۔ اسلامی تعلیمات کا مقصد یہ نہیں کہ انسان صرف گناہ سے بچے، بلکہ یہ ہے کہ وہ اپنی شناخت، ذوق اور ترجیحات میں بھی اسلام کی نمائندگی کرے۔ اسی لیے اسلام تشبّہ، اندھی تقلید اور فکری غلامی سے روکتا ہے، چاہے وہ بظاہر کسی واضح حرمت کے دائرے میں نہ بھی آتی ہو۔

لہٰذا ضروری ہے کہ ہم گفتگو کا رخ بدلیں۔ بحث صرف یہ نہیں ہونی چاہیے کہ یہ کام جائز ہے یا نہیں، بلکہ یہ بھی ہونا چاہیے کہ یہ کام ہمیں کس طرف لے جا رہا ہے۔ اگر کوئی عمل ہماری تہذیب کو مٹاتا، ہماری اقدار کو کمزور کرتا اور ہماری نئی نسل کو اپنی پہچان سے دور کرتا ہے تو وہ عمل خواہ وقتی طور پر “جائز” سمجھا جائے، تہذیبی طور پر تباہ کن ہو سکتا ہے۔

آج ہماری سب سے بڑی ذمہ داری یہی ہے کہ ہم فقہی شعور کے ساتھ ساتھ تہذیبی شعور کو بھی زندہ کریں۔ کیونکہ قومیں صرف فتوؤں سے نہیں، بلکہ اپنی تہذیبی بصیرت سے زندہ رہتی ہیں۔

تحقیق و تدوین: محمد سہیل عارف معینیؔ (پی ایچ ڈی سکالر یونیورسٹی آف ایجوکیشن لاہور) (سی ای او فاؤنڈر:المعین ریسرچ انسٹیٹیوٹ فار اسلامک آئیڈیالوجی)

 

Share:

12/24/25

اشک آنکھوں سے جو ہوتے ہیں رواں بسم اللہ Ashk Aankhon se


 

اشک آنکھوں سے جو ہوتے ہیں رواں بسم اللہ

 مانگ جو مانگنا ہے گریہ کنا ں بسم اللہ


جسم کے دشت میں کر عشق رواں بسم اللہ

کہہ بھی دے روک نہیں اپنی زبان بسم اللہ


 یہ ہے درگاہ کرم یہ نہیں توڑیں گے بھرم

 درد دل سارے یہاں کر دے بیاں بسم اللہ


 اے مسافر اے ستم خوردہ عجم کے شاعر

بخت والا ہے جو آیا ہے یہاں بسم اللہ


 ہم فرشتے بھی یہیں بیٹھے ہیں تو بھی آجا

بیٹھ جا راندہ دربار جہاں بسم اللہ


میں کہوں روضہ اطہر  سے لپٹنا ہے مجھے

 مجھ سے دربان کہے آجا میاں بسم اللہ


  میں چراغوں پہ تیرے اسم کا دم پڑتا ہوں

رقص کرتے ہوئے پڑھتا ہے دھواں بسم اللہ


روز محشر میں کہوں نعت سنانی ہے مجھے

کہیں جبریل اشارے سے کہ ہاں بسم اللہ


میں نے پوچھا کہ پڑھیں مل کے محمد پہ درود

 ایک دم بول اٹھے کون و مکاں بسم اللہ


ہم بہکنے کے نہیں دید سے تھکنے کے نہیں

جام بھر بھر کے پلا پیر مغاں بسم اللہ


رقص کرنا ہے تو کر وجد میں آنا ہے توآ

ڈر نہ تحسین میاں لالے کی جاں بسم اللہ

Share:

12/23/25

Understanding Contingency and Necessary Being: Philosophical Insights into God’s Existence

Contingency اور لازمی وجود: اللہ تعالی کی شناخت کا فلسفیانہ نقطہ نظر

انسان ہمیشہ سے یہ سوچتا آیا ہے کہ کائنات کیوں اور کس وجہ سے موجود ہے، اور ہر شے کی بنیاد کیا ہے۔ فلسفہ اور علم کلام نے اس سوال کا جواب دینے کی کوشش کی ہے کہ ہر موجود شے کیوں موجود ہے اور اس کی ضرورت کیا ہے۔

فلسفہ میں contingency (امکانیت / غیر لازمی ہونا) کا تصور ہمیں یہ سمجھاتا ہے کہ بہت سی چیزیں لازمی نہیں، بلکہ ممکنات پر منحصر ہیں۔ یعنی وہ ہونا بھی ممکن ہے اور نہ ہونا بھی ممکن ہے۔ کائنات کی ہر contingent چیز ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہے کہ اس کا کوئی لازمی وجود ضرور ہے، جو سب کچھ قائم رکھتا ہے — اور وہ لازمی وجود اللہ تعالی ہے۔

Contingent وجود کیا ہے؟

 Contingent وجود وہ چیز ہے جو لازمی نہیں، بلکہ ممکنات پر منحصر ہے۔

مثالیں: انسان: ہم یہاں موجود ہیں، لیکن ہماری موجودگی لازمی نہیں؛ ہم کسی اور جگہ پیدا ہو سکتے تھے یا مختلف حالات میں پیدا نہ بھی ہوتے۔ زمین اور پہاڑ: زمین موجود ہے، لیکن اگر اللہ نہ چاہتاتو یہ وجود میں نہ آتی۔ پہاڑ، درخت، اور ہر قدرتی مظہر contingent ہیں۔ کائنات کے مظاہر: سورج، چاند، ستارے، ہوا، پانی — یہ سب contingent ہیں، کیونکہ یہ اپنی فطرت میں لازمی نہیں، بلکہ اللہ کی قدرت اور حکمت کے تحت ہیں۔ خلاصہ: ہر چیز جو contingent ہے، وہ ممکن ہے کہ نہ بھی ہو۔

لازمی وجود (Necessary Being)

 اگر ہم کائنات کے تمام contingent وجودات کا تجزیہ کریں، تو یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ ہر contingent چیز کسی نہ کسی بنیاد پر منحصر ہے۔ اگر سب contingent ہیں، تو پھر کون ایسی شے ہے جو سب contingent چیزوں کو قائم رکھے؟ فلسفی کہتے ہیں کہ کچھ لازمی ہونا چاہیے — وہ شے جو خود کسی پر منحصر نہیں اور سب contingent چیزوں کی وجہ ہو۔ یہ لازمی وجود اللہ تعالی ہے۔ اللہ ہر چیز کا خالق، پروردگار، اور باعثِ وجود ہے۔ کوئی contingent چیز اللہ کے بغیر مستقل طور پر قائم نہیں رہ سکتی۔

فلسفیانہ اور دینی نقطہ نظر

 اسلامی فلسفہ اور علم کلام میں بھی یہی بات سامنے آتی ہے: کائنات کی ساخت: زمین، آسمان، درخت، پہاڑ، انسان، جانور — یہ سب contingent ہیں۔ ہر contingent چیز کی ایک وجہ ہے، اور وہ وجہ لازمی وجود (اللہ) ہے۔

 قدرت اور حکمت:

 اللہ نے ہر contingent چیز کو ایک خاص حکمت کے مطابق پیدا کیا ہے۔ مثال: سورج زمین پر روشنی دیتا ہے، درخت زمین کو زرخیز بناتے ہیں، انسان عقل اور شعور کے ساتھ پیدا ہوا ہے۔

 Contingency اور عبادت:

 جب ہم جانتے ہیں کہ ہر چیز contingent ہے، تو یہ شعور ہمیں توکل، عبادت اور شکرگزاری کی طرف لے جاتا ہے۔ مثال: انسان کو بیماری یا مصیبت کا سامنا ہو سکتا ہے، لیکن اس contingency کو سمجھ کر وہ اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے۔

فلسفہ میں contingency کا اصول اور Necessary Being کا تصور ہمیں یہ سکھاتے ہیں کہ: کائنات کی ہر contingent چیز کسی نہ کسی بنیاد پر موجود ہے۔ وہ لازمی وجود اللہ تعالی ہے، جو سب کا خالق اور باعثِ وجود ہے۔ یہ شعور نہ صرف انسانی فہم کو روشن کرتا ہے بلکہ روحانی سکون، عبادت، توکل اور شکرگزاری بھی پیدا کرتا ہے۔


Share:

12/9/25

دیں اجازت مجھے نعت میں کہہ سکوں اے حبیبِ خدا خاتم الانبیا | den iajazar mujhay

 

دیں اجازت مجھے نعت میں کہہ سکوں اے حبیبِ خدا خاتم الانبیا

در پہ آیا ہے اک آپ کا امتی اے شفیع الوریٰ خاتم الانبیا

 

میں نے غزلیں کہیں میں نے نظمیں کہیں ہجر اور وصل کی گویا خبریں پڑھیں

کام آ یا نہیں کچھ بھی میرے یہاں مجتبیٰ مصطفی خاتم الانبیا

 

اس سے پہلے نگل جائے مجھ کو اجل اور لحد اپنی آغوش میں بھینچ لے

میری سوچوں کے دریا کو کچھ موڑ دیں خاتم الانبیا خاتم الانبیا

 

میرے ہاتھوں میں ہے دل دھڑکتا ہوا اور زباں پرہے اک تشنگی باخدا

در پہ آیا ہوں میں لے کہ بس التجا اے شہِ دوسرا خاتم الانبیا

 

دے رہی ہیں گواہی کئی آیتیں جبکہ کہتی ہیں قرآن کی دھڑکنیں

نعت خواں ربِ کعبہ ہے قرآن میں جانِ ارض و سما خاتم الانبیا

 

دشتِ حیران میں ہوں پریشاں بہت کارِ دنیا نے جکڑا ہوا ہے مجھے

المدد المدد ہو نگاہِ کرم ترجمانِ خدا خاتم الانبیا

 

یہ زمیں بھی نہ تھی آسماں بھی نہ تھا نورِ حق آپ کے نام منسوب تھا

ہاں مگر عرش پر یہ ہی تحریر تھا رہبرِ حق نما خاتم الانبیا

 

گونجتے ہیں فلک پربھی نعرےیہی کہکشاؤں میں گونجے ہیں نعرے یہی

آپ نور البشر آپ خیر الوری آپ مشکل کشا خاتم الانبیا

 

پڑھ رہا ہے درود اپنے محبوب پر خالقِ کل جہاں ارض و کون و مکاں

آپ سے لے رہے ہیں زمانے ضیا شاہدِ کبریا خاتم الانبیا

 

یہ ہے موجِ نسیمی کی اک التجاآئے جب نام پر میرے میری قضا

میرے ہونٹوں پہ ہو کلمہِ طیبہ مصطفیٰ مصطفیٰ خاتم الانبیا

نسیم شیخ

Share:

مہاراج سنو بِنتی من چاہت درشن ہے | Maha Raaj Sunu Binti


 

مہاراج سنو بِنتی من چاہت درشن ہے

برست موری اکھین سے تورے ہجر کا ساون ہے

 

طیبہ کے سانوریا توری یاد کی اگنی میں

دن رین میں تڑپت ہوں جل بن مورا تن من ہے

 

سکھین کا (کیا)پوچھت ہو تم حال مورے من کا

بڑی دور عرب نگری مورے شاہ کا مسکن ہے

 

تورے حسن کی ایک جھلک دیکھن کو میں ترست ہوں

سپنوں میں کرو جلوہ بے تاب یہ جیون ہے

 

طہ تورے سر پگڑی یسین کا ہے شملہ

لولاک لما اس پر پھر نور کا تاجن ہے

 

والفجر تورے گالن والشمس تورا ماتھا

مکھڑا تورا صل علی اللہ کی شانن ہے

 

دانتن تورے والو لو مرجان توری مسکان

یوحی کے وہ ہونٹن پہ یاقوت کا روگن ہے

 

قوسین کما ابرو والیل تورے گیسو

مازاغ کے نینن میں قد راٰی کا چانن ہے

 

یہ والیتلطف ہے توری مانگ کا نظارہ

اور فرق بہشتن میں وہ دودھ کی نہرن ہے

 

مانگ بالوں کی جو ہے وہ ہے صراط الجنہ

فرق میں جو فرق ہے بال برابر تو نہیں

 

یہ دن کا دھوندھلکا بھی توری مانگ کا مانگت ہے

یہ رین تورے کاکُل کی پہلی بھکارن ہے

 

حیدر توری جانن ہے زہرا تورا دل شاہا

حسنین کی صورتیا تورے حسن کا جوبن ہے

 

آکاش کے مکھڑے پہ رکھی ہے جو کہکشاں

وہ عرش کے دولہا کے پاپوش کی اترن ہے

 

نعلین کے تسمت سے گانٹھن ہوں دل و جانم

جبریل تکو موہے کیسا مورا بندھن ہے

 

اللہ کے سیّاں کے ہاتھن میں موری بیّاں

ہیں ہو بت یہ ابھاگن بھی  اب خوب سہاگن ہے

 

اک جھات کرو صاحب زہرا کے صدقے میں

بڑی بلک بلک رووت پردیس میں نردھن ہے

 

Share:

کالی کملی میں جو ذیشان نظر آتا ہے kali kamli men jo zeshan nazar aata hai | Fana Buland Shahri

 

کالی کملی میں جو ذیشان نظر آتا ہے

دونوں عالم کا نگہبان نظر آتا ہے

 

سید کون و مکاں تیری عطاؤں کے نثار

تیرا محتاج بھی سلطان نظر آتا ہے

 

آنکھ اٹھتی ہے تو ملتا ہے تلاوت کا مزا

تیرا چہرہ ہمیں قرآن نظر آتا ہے

 

فرش پہ ٹوٹی چٹائی ہے بچھونا جس کا

عرش اعظم پہ وہ مہمان نظر آتا ہے

 

ابتدا کرتا ہوں جب نام محمد لے کر

کام دشوار بھی آسان نظر آتا ہے

 

جب بھی قرآن میں پڑھتا ہوں فناؔ نام رسول

مجھ کو اللہ کا دیوان نظر آتا ہے

فنا بلند شہری


Share:

10/27/25

7 Essential Steps to Start a Successful YouTube Channel in 2025 (Complete Guide for Beginners)

 📝 Introduction: Starting a YouTube channel in 2025 is more exciting — and more strategic — than ever before! Whether you want to share your knowledge, inspire others, or build a digital income stream, you need a strong foundation.

This article walks you through 7 essential steps to launch and grow a successful channel — from starting a YouTube channel from scratch to mastering basic SEO.

Let’s dive in and make your YouTube dream a reality!

🚀 🚀 1. Decide Your Niche and Actual Topic Your niche is the heart of your channel. It defines what kind of content you’ll create and who will watch it.

Ask yourself:

·       What am I passionate about?

·       What can I teach or entertain others with?

·       Is there demand for my topic?

👉 Pro Tip: Use tools like Google Trends and YouTube Search Bar suggestions to discover trending sub-topics within your niche before starting a YouTube channel.

2. Define Your Target Audience Understanding your audience means understanding success.

Define:

·       Age group

·       Interests

·       Problems they face

What kind of videos they love to watch

🎯 Example: If you create Islamic educational content, your target audience may be youth aged 18–35 seeking authentic Islamic guidance in easy language.

3. Channel Name and Branding Choose a memorable name that reflects your content.

Keep it:

·       Short and unique

·       Easy to spell

·       Emotionally appealing

Then, create:

o   A professional logo

o   An attractive banner

o   A consistent color theme for thumbnails

💡 Example: “Moeeni Educare” — a perfect mix of identity and purpose.

4. Equipment Setup You don’t need expensive gear to start — just smart choices!

Start with:

·       A smartphone with good camera quality

·       A lapel mic for clear audio

·       A ring light or natural daylight for visuals

Later, upgrade to DSLR, tripod, and condenser mic when you start earning from your YouTube channel.

5. Content Planning and Confidence Plan your videos before recording. Create a weekly content schedule and write short scripts.

Practice speaking confidently and clearly. Remember — confidence grows with consistency, not perfection!

💬 Tip: Record short clips first and review them to improve your tone and expressions.

6. Create Initial Videos Start with 3–5 pilot videos before official launching.

·       These help you test:

·       Your video style

·       Audience response

·       Editing and upload quality

🎥 Example topics:

·       Introduction to your channel and goals

·       Your story or inspiration

·       A valuable topic from your niche

7. Basic YouTube SEO Search Engine Optimization helps your videos reach more people.

Apply these:

·       Use keywords in your title, description, and tags

·       Add subtitles and chapters

·       Write engaging thumbnails and use trending hashtags

·       Encourage likes, comments, and shares

🔍 Example: Use TubeBuddy or VidIQ to find best-performing keywords in your niche.

Conclusion: Building a YouTube channel isn’t just about uploading videos — it’s about creating value. Whether you’re starting a YouTube channel to make money or to share your passion, success will come with patience, originality, and consistency.

Follow these seven steps with creativity and determination — and your YouTube journey in 2025 will surely shine!

🌟 🔑 SEO Keywords Used Naturally:

starting a youtube channel to make money, starting a youtube channel from scratch, starting a youtube channel in 2025, starting a youtube channel, what to know before starting a youtube channel, tips when starting a youtube channel, what to do when starting a youtube channel, is starting a youtube channel in 2025 worth it

 

Share:

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Online People

Blog Archive

Blog Archive