...
....
وظائف
مختلف وظائف کے لیے کلک کریں
دار المطالعہ
اچھے اچھے عنوانات پر کالم پڑھنے کے لیے کلک کریں
صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی
صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی صاحب کی خوبصورت تحریریں پڑھنے کے لیے کلک کریں
گوشہءِ غزل
بہت خوبصورت اردو غزلیں پڑھنے کے لیے کلک کریں
11/20/24
11/16/24
11/15/24
ایمان کی حقیقت اور حلاوت eman ki haqeeqat or Halawat
ایمان کی حقیقت اور حلاوت
(دل کو دنیا کی رغبت سے پاک کرنا اور سب کچھ
اللہ اور اس کے رسول کی محبت کے لیے کرنا)
وَاِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللهَ
وَرَسُوْلَهٗ وَالدَّارَ الْاٰخِرَةَ فَاِنَّ اللهَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ
مِنْکُنَّ اَجْرًا عَظِيْمًا (سورۃ الاحزاب:29)
وَ یُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی
حُبِّهٖ مِسْکِيْنًا وَّ یَتِيْمًا وَّ اَسِيْرًاo اِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْهِ اللهِ لَا نُرِيْدُ مِنْکُمْ
جَزَآء وَّلَا شُکُوْرًا (سورۃ الدھر: 8،9)
اَلْاَخِلَّآء یَوْمَئِذٍ م بَعْضُهُمْ
لِبَعْضٍ عَدُوٌّ اِلَّا الْمُتَّقِيْنَ (سورۃ الزخرف:67)
یعنی متقین کی دوستیاں
سلامت رہیں گی کیوں کہ وہ جب بھی کسی سے دوستی کرتے ہیں تو صرف اللہ تعالی کے لیے
اس لیے اللہ پاک ان کی دوستیاں قیامت کے دن وائم رکھے گا۔
عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ
عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" ثَلَاثٌ
مَنْ كُنَّ فِيهِ وَجَدَ حَلَاوَةَ الْإِيمَانِ، أَنْ يَكُونَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ
أَحَبَّ إِلَيْهِ مِمَّا سِوَاهُمَا، وَأَنْ يُحِبَّ الْمَرْءَ لَا يُحِبُّهُ
إِلَّا لِلَّهِ، وَأَنْ يَكْرَهَ أَنْ يَعُودَ فِي الْكُفْرِ كَمَا يَكْرَهُ أَنْ
يُقْذَفَ فِي النَّارِ".
ترجمہ: انس رضی اللہ عنہ
سے ناقل ہیں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تین
خصلتیں ایسی ہیں کہ جس میں یہ پیدا ہو جائیں اس نے ایمان کی مٹھاس کو پا لیا۔ اول یہ
کہ اللہ اور اس کا رسول اس کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب بن جائیں، دوسرے یہ کہ وہ
کسی انسان سے محض اللہ کی رضا کے لیے محبت رکھے۔ تیسرے یہ کہ وہ کفر میں واپس
لوٹنے کو ایسا برا جانے جیسا کہ آگ میں ڈالے جانے کو برا جانتا ہے۔
امام
نووی فرماتے ہیں :
اہل علم نے ایمان کی مٹھاس کا مفہوم یہ بیان کیا ہے کہ:
·
بندے کو نیکی کے کام بجا لانے میں مزہ آئے
·
اللہ اور رسول کی خوشنودی کے لئے مشقتیں برداشت کرے
·
دنیوی اشیاء پر اللہ اور رسول کی رضا کو ترجیح دے
·
اپنے رب اور پیغمبر کی اطاعت کر کے اور ان کی مخالفت سے بچ
کر ان سے محبت کا اظہار کرے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ
النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنَّ رَجُلًا زَارَ أَخًا
لَهُ فِي قَرْيَةٍ أُخْرَى، فَأَرْصَدَ اللَّهُ لَهُ عَلَى مَدْرَجَتِهِ مَلَكًا،
فَلَمَّا أَتَى عَلَيْهِ، قَالَ: أَيْنَ تُرِيدُ؟ قَالَ: أُرِيدُ أَخًا لِي فِي
هَذِهِ الْقَرْيَةِ، قَالَ: هَلْ لَكَ عَلَيْهِ مِنْ نِعْمَةٍ تَرُبُّهَا؟ قَالَ:
لَا، غَيْرَ أَنِّي أَحْبَبْتُهُ فِي اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، قَالَ: فَإِنِّي
رَسُولُ اللَّهِ إِلَيْكَ بِأَنَّ اللَّهَ قَدْ أَحَبَّكَ كَمَا أَحْبَبْتَهُ
فِيهِ ". (صحیح مسلم:2567)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ رضی
اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی: ا"ایک
شخص اپنے بھائی سے ملنے کے لیے گیا جو دوسری بستی میں تھا، اللہ تعالیٰ نے اس کے
راستے پر ایک فرشتے کو اس کی نگرانی (یا انتظار) کے لیے مقرر فرما دیا۔ جب وہ شخص
اس (فرشتے) کے سامنے آیا تو اس نے کہا: کہاں جانا چاہتے ہو؟ اس نے کہا: میں اپنے ایک
بھائی کے پاس جانا چاہتا ہوں جو اس بستی میں ہے۔ اس نے پوچھا: کیا تمہارا اس پر
کوئی احسان ہے جسے مکمل کرنا چاہتے ہو؟ اس نے کہا: نہیں، بس مجھے اس کے ساتھ صرف
اللہ عزوجل کی خاطر محبت ہے۔ اس نے کہا: تو میں اللہ ہی کی طرف سے تمہارے پاس بھیجا
جانے والا قاصد ہوں کہ اللہ کو بھی تمہارے ساتھ اسی طرح محبت ہے جس طرح اس کی خاطر
تم نے اس (بھائی) سے محبت کی ہے۔
عَزَفَتْ
نَفْسِي عَنِ الدُّنْيَا، فَأَسْهَرْتُ لَيْلِي، وَأَظْمَأْتُ نَهَارِي.
وَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى عَرْشِ رَبِّي بَارِزًا. وَكَأَنيِّ أَنْظُرُ إِلَى
أَهْلِ الْجَنَّةِ يَتَزَاوَرُونَ فِيهَا. وَكَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَى أَهْلِ
النَّارِ يَتَضَاغَوْنَ فِيهَا. فَقاَلَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ: يَا حَارِثَةُ!
عَرَفْتَ فَالْزَمْ۔(مصنف ابن ابی شیبہ: کتاب الایمان)
ترجمہ:
دنیا میرے دل سے نکل گئی ہے راتوں کو عبادت کے لیے جاگتا ہوں اور دن بھر روضہ
رکھتا ہوں، اور گویا اب اللہ پاک کے عرش کو اپنی آنکھوں سے ظاہر دیکھتا ہوں ، اہل
جنت کو جنت میں دیکھتا ہوں ، اہل دوزخ کو دوزخ میں دیکھتا ہوں فرمایا تو حقیقت کو
پا لیا اس کو لازم پکڑ اور برقرار رکھ۔
الَّذِیْنَ یَذْكُرُوْنَ
اللّٰهَ قِیٰمًا وَّ
قُعُوْدًا وَّ عَلٰى
جُنُوْبِهِمْ وَ یَتَفَكَّرُوْنَ فِیْ
خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَ
الْاَرْضِۚ-رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ
هٰذَا بَاطِلًاۚ-سُبْحٰنَكَ فَقِنَا
عَذَابَ النَّارِ(سورۃ اٰل عمرٰن:191)
وَ اصْبِرْ
نَفْسَكَ مَعَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ رَبَّهُمْ بِالْغَدٰوةِ وَ الْعَشِیِّ یُرِیْدُوْنَ
وَجْهَهٗ وَ لَا تَعْدُ عَیْنٰكَ عَنْهُمْۚ-تُرِیْدُ زِیْنَةَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَاۚ-وَ
لَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَهٗ عَنْ ذِكْرِنَا وَ اتَّبَعَ هَوٰىهُ وَ
كَانَ اَمْرُهٗ فُرُطًا (سورۃ الکھف:28)
اور
اپنی جان ان سے مانوس رکھو جو صبح و شام اپنے رب کو پکارتے ہیں اس کی رضا چاہتے
اور تمہاری آنکھیں انہیں چھوڑ کر اور پر نہ پڑیں کیا تم دنیا کی زندگی کا سنگار(زینت)چاہو
گے اور اس کا کہا نہ مانو جس کا دل ہم نے اپنی یاد سے غافل کردیا اور وہ اپنی
خواہش کے پیچھے چلا اور اس کا کام حد سے گزر گیا۔ (یعنی ان لوگوں کا سب کچھ اللہ
کے لیے ہوتا ہے ، ان کا اٹھنا بیٹحنا ، چلنا پھرنا ، سونا جاگنا ، لوگوں سے دوستی
اور ملاقاتیں سب اللہ کے لیے ہوتے ہیں )
نکتہ:مطلب
یہ کہ دل دو میں سے ایک کا ہی مرکز بنے
گا یا دنیا کا یا اللہ و رسول کی محبت اور یاد کا ۔ دنیا ہے تو اللہ کی یاد مانند
پڑ جائے گی اور اگر اللہ اور رسول کی محبت ہے تو دنیا کی فکر اور محبت دل میں جگہ
نہں پکڑ پائے گی۔
11/11/24
اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ | محسنین ، متقین ، صالحین ، صابرین ، ذاکرین ، مومنین
محسنین ،
متقین ، صالحین ، صابرین ، ذاکرین ، مومنین
اِنَّ
رَحْمَتَ اللّٰهِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ (سورہ الاعراف:56) بیشک
اللہ کی رحمت نیک لوگوں کے قریب ہے۔
مسجد
اقصی کے ارد گرد کی برکت: الذی
بارکنا حولہ :: مسجد اقصی کے
اردگرد کیا ہے ، انبیا کی رہائش گاہیں اور مزارات ہیں اور انبیا کرام کا مسکن ہیں،
وہ جگہ جہاں اللہ والوں اور اللہ پاک کے محبوب بندوں کا گزر بسر ہو جہاں وہ رہتے
ہوں وہ جگہ بابرکت ہو جاتی ہے (اللہ کا قرآن کہتا ہے)
حضرت
یوسف علیہ السلام کی قمیص: حضرت
یوسف علیہ السلام کی قمیص : اِذْهَبُوْا
بِقَمِیْصِیْ هٰذَا فَاَلْقُوْهُ عَلٰى وَجْهِ اَبِیْ یَاْتِ بَصِیْرًاۚ: فرمایا میری یہ
قمیص لے جاو باپ کے چہرے پر ڈالنا شفا مل جائے گی بینائی آ جائے گی پھر یوں ہی ہوا فَلَمَّاۤ اَنْ جَآءَ الْبَشِیْرُ اَلْقٰىهُ عَلٰى وَجْهِهٖ
فَارْتَدَّ بَصِیْرًا ، فرمایا کہ جب
قمیص ڈالی گئی تو بصارت آ گئی ، ۔۔ اس قمیص میں کیا انوکھا تھا ، تمام قمیصوں سے
الگ کیا بات تھی کیا کپڑے کا فرق تھا ، دھاگے کا فرق تھا ، سلائی کا فرق تھا یا
سائز ، کچھ نہیں تھا بس یہ تھا کہ وہ کُرتا وہ قمیص جناب یوسف کی تھی یعنی یعنی اس
کا تعلق اور نسبت یوسف علیہ السلام کے ساتھ تھی۔
حضرت
مریم کا رزق اور محراب میں زکریا کی دعا: كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ
عِندَهَا رِزْقًا ۖ قَالَ يَا مَرْيَمُ أَنَّىٰ لَكِ هَٰذَا ۖ قَالَتْ هُوَ مِنْ
عِندِ اللَّهِ ۔۔ هُنَالِكَ
دَعَا زَكَرِیَّا رَبَّهٗۚ-قَالَ رَبِّ هَبْ لِیْ مِنْ لَّدُنْكَ ذُرِّیَّةً
طَیِّبَةًۚ-اِنَّكَ سَمِیْعُ الدُّعَآءِ فَنَادَتْهُ الْمَلٰٓىٕكَةُ وَ هُوَ
قَآىٕمٌ یُّصَلِّیْ فِی الْمِحْرَابِۙ-اَنَّ اللّٰهَ یُبَشِّرُكَ بِیَحْیٰى مُصَدِّقًۢا
بِكَلِمَةٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ سَیِّدًا وَّ حَصُوْرًا وَّ نَبِیًّا مِّنَ
الصّٰلِحِیْنَ۔۔ وہ جگہ جو مریم کی رہائش گاہ تھی جہاں مریم کا مسکن تھا ،
جہاں اللہ کی ولیہ اور محبوب بندی کا گھر تھا وہ اتنی بابرکت تھی کہ جناب یحیی بھی
جانتے تھے کہ جہاں اللہ کی رحمت ہو وہاں دعائیں قبول ہوتی ہیں جہاں اللہ کی برکتیں
ہوں وہاں دعائیں قبول ہوتی ہیں ، جہاں اللہ کے محبوب بندے رہتے ہوں وہاں رحمتوں
اور برکتوں کا نزول ہوتا ہے وہاں دعائیں قبول ہوتی ہیں بس اس لیے ہم کہتے ہیں کہ داتا صاحب کے مزار پر دعا کرتے ہیں،
غوث اعظم کے دربار میں چلتے ہیں ، اجمیر شریف چلتے ہیں ، پاکپتن شریف چلتے ہیں،
بیربل شریف چلتے ہیں۔ ہمیں معلوم ہے دیتا اللہ ہے ، مانگنا اللہ سے ہے، عطا کرنے
والا اللہ ہے لیکن سنوں ہم اس جگہ کا انتخاب کرتے ہیں جہاں اللہ کی رحمتیں نازل
ہوتی ہیں جہاں اللہ پاک برکتیں نازل کرتا ہے ہم وہاں جا کر دعا کرتے ہیں ۔
حدیث
مبارکہ سنیں : سو قتل کرنے والے کی توبہ: انْطَلِقْ إِلَى أَرْضِ كَذَا وَكَذَا، فَإِنَّ بِهَا
أُنَاسًا يَعْبُدُونَ اللَّهَ فَاعْبُدِ اللَّهَ مَعَهُمْ، وَلَا تَرْجِعْ إِلَى
أَرْضِكَ فَإِنَّهَا أَرْضُ سَوْءٍ (مسلم کی روایت،
اولیا
اللہ بھی سب نے اپنے اپنے بنا لیے ہیں : دیوبندیوں
کے اپنے ہیں ، وہابیوں کے اپنے ہیں ، سنیوں کے اپنے ہیں ، اور وہ جو کہتا ہے کہ
’’بابے تے شئے ای کوئی نئیں‘‘ وہ بھی ولی
مانتا ہے لیکن ان کو جن پر اس کا دل ٹھہرتا ہے۔
آج
کل اولیا بھی کنٹرو ورشل ہو گئے
ایک
بات بہت اہم ہے، مخالفت کا ہونا بھی حق کی دلیل ہے: غوث
اعظم کی مخالفت اس قدر بتاتی ہے کہ غوث اعظم سچ مچ اللہ کے ولی تھے ، داتا علی
ہجویری سچ مچ ولی تھے، بابا فرید، معین الدین اجمیری خواجہ غریب نواز یہ سب سچ مچ
اللہ کے ولی تھے۔(اب آپ یہ بھی کہ سکتے ہیں کہ جناب مخالفت تو باطل کی حق کرتا ہے
تو باطل کی مخالفت بھی ہوتی ہے تو کیا وہ حق ہو جائے گا ، جی تو سنیں قرآن کہتا
ہے کہ جب باطل حق کے ساتھ یا حق باطل سے ٹکرا جاتا ہے تو باطل بھاگ جاتا ہے باطل
کو شکست ہو تی اور باقی حق ہی رہتا ہے۔ کیا عالم تھا کہ پورا عرب مخالف ہے ، پورا
مکہ مخالف ہے ، مکہ کے رئیس زادے ابو جہل ، عتبہ شیبہ ولید سب مخالف ہیں لیکن جب
حق کے ساتھ ٹکر لی تو قدرت نے کیا فیصلہ کیا آج عتبہ شیبہ ولید ابو جہہل کی قبر
بھی کوئی نہیں جانتا لیکن دیکھ لیں محمد رسول اللہ ﷺ کا روضہ اقدس آج بھی دنیا کو
روشنی عطا فرما رہا ہے۔ حاجیو آو شہنشاہ کا روضہ دیکھو۔۔۔۔ کعبہ تو دیکھ
چکے اب کعبے کا کعبہ دیکھو۔۔۔۔آج ہزار سال گزرنے کے بعد داتا علی ہجویری
کا ذکر موجود ہے ان کی محبت دلوں سے نہیں نکلی روز بروز بڑھتی جا رہی ہے ان ہزار
سالوں میں ہزاروں دشمن آئے مگر جب جب حق کے ساتھ باطل ٹکراتا رہا ہے داتا علی
ہجویری کے دشمن آتے رہے سب اپنے اپنے دور میں فنا ہوتے رہے آج بھی داتا علی
ہجویری کا مزار پاک لاہور کی سر زمین کو رونقیں بخش رہا ہے: ہر دکھ کا مداوا ہے اس شہر میں آ جانا ہر زخم کا مرہم ہے
داتا تیری نگری میں ۔۔ ہوتا ہے گزر یاں سے
طیبہ کی ہواوں کا خوشبو سی جو ہر دم ہے داتا تیری نگری میں ۔۔۔۔۔ ہزار سال گزر گئے
غوث اعظم کے دشمن ان کےدور میں بھی تھے ہر دور میں آتے رہے مخالفت کرتے
رہے آج بھی غوث اعظم کی محبت اور عقیدت لوگوں کے دلوں میں موجود ہے وجہ کیا ہے سنو یہ وہ محبت اور حق پرستی ہے جو
کسی اور نے نہیں خود رب لم یزل نے لوگوں کے دلوں میں ڈال رکھی ہے، ایک اور بات وہ
جس کی طرف داری کرتے ہوئے تم انہیں مشرک کہتے ہو ، جنہیں تم حق کا مخالف کہتے ہو
اوہ جس کی طرف داری کرتے ہو وہ خود کہتا ہے جبریل فرشتوں سے بول زمین میں جا کر
لوگوں کے دلوں میں میرے اس بندے عبد
القادر ، علی بن عثمان ،معین الدین حسن ، فرید الدین مسعود کی محبت ڈال دیں کیوں میں ان سے محبت کرتا ہوں ۔۔ لوگوں
کئی صدیا گزرنے کے باوجود ، لاکھوں مخالفتیں ہونے کے باوجود زکر زندہ رہنا حق
پرستی کی دلیل ہے۔
یہ
دور فتنوں کا دور اور ہر دور کے اپنی نوعیت کے فتنے ہوا کرتے ہیں اللہ والوں کی
مخالفت جتنی بھی ہو اس سے کوئی فرق نہیں
پڑتا وہ جس کو اللہ اپنا بنا لے پھر اسے دنیا اور دنیا والوں کی مخالفت سے کوئی فرق نہیں پڑتا ، یہ فتنے ہر دور میں
اٹھتے ہیں اور دم توڑ دیتے ہیں کیوں اس لیے کہ جب
اصلاح اعمال کا نبوی طریقہ | اصلاح کا نبوی طریق
اصلاح
کا نبوی طریق
ایک
دفعہ آپ صلی الله علیہ و سلم نے رات کو نگرانی شروع فرمائی کہ صحابہ عمل کیسے کرتے
ہیں؟ دیکھتے ہیں کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ اتنی آہستہ آواز میں تلاوت کر
رہے ہیں کہ کوئی کان لگا کر سنے تو بمشکل سننے میں آئے۔ آقا مدنی صلی الله علیہ
وسلم آگے بڑھے، تو حضرت فاروق اعظم رضی الله عنہ اتنی زور سے تلاوت کر رہے تھے کہ
سارا محلہ ان کی آواز سے گونج رہاتھا، صبح کو جب مسجد نبوی میں حاضر ہوئے، تو آپ
صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوبکر! آپ اتنی آہستہ آواز سے قرآن پاک کیوں
پڑھ رہے تھے کہ کان لگا کر بھی بمشکل سنائی دیتا تھا؟ عرض کیا یا رسول الله! میں
تو اسے سنا رہا تھا، جو نہ بہرہ ہے، نہ مجھ سے غائب ہے، ہر وقت حاضر وناظر اور
سننے والا ہے، تو مجھے شور مچانے کی کیا ضرورت تھی!؟ جب حضرت فاروق اعظم رضی الله
عنہ سے پوچھا کہ اے عمر! آپ اتنا چلا چلا کر کیوں پڑھ رہے تھے؟ عرض کیا: ”یا رسول
الله، اوقظ الوسنان وأطرد الشیطان“ کہ میں اس لیے زور سے پڑھ رہا تھا کہ شیطان
بھاگ جائے اور سوتے ہوئے جاگ جائیں کہ تم بھی قرآن شریف پڑھوا اور نماز ادا کرو۔
فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا أَبَا بَكْرٍ ارْفَعْ مِنْ صَوْتِكَ
شَيْئًا"، وَقَالَ لِعُمَرَ:" اخْفِضْ مِنْ صَوْتِكَ شَيْئًاپیارے
آقا صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوبکر! آپ آواز ذرہ اونچا کریں او راے عمر!
آپ آواز ذرہ، دھیمی کریں، تاکہ اعتدال پیدا ہو جائے۔ (سنن ابی داود:1329)
نبی کریم صلی اللہ علیہ
وسلم کی زوجہ مطہرہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ کچھ یہودی رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہا «السام عليكم.» (تمہیں موت آئے) عائشہ رضی اللہ
عنہا نے بیان کیا کہ میں اس کا مفہوم سمجھ گئی اور میں نے ان کا جواب دیا کہ «وعليكم
السام واللعنة.» (یعنی تمہیں موت آئے اور لعنت ہو) بیان کیا کہ اس پر رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، ٹھہرو، اے عائشہ! اللہ تعالیٰ تمام معاملات میں نرمی
اور ملائمت کو پسند کرتا ہے۔ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیا آپ نے سنا نہیں
انہوں نے کیا کہا تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں نے اس کا
جواب دے دیا تھا کہ «وعليكم» (اور تمہیں بھی)۔(صحیح بخاری: 6024)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے
فرمایا کہ ایک اعرابی کھڑا ہو کر مسجد میں پیشاب کرنے لگا۔ تو لوگ اس پر جھپٹنے
لگے۔ (یہ دیکھ کر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے فرمایا کہ اسے چھوڑ
دو اور اس کے پیشاب پر پانی کا بھرا ہوا ڈول یا کچھ کم بھرا ہوا ڈول بہا دو۔ کیونکہ
تم نرمی کے لیے بھیجے گئے ہو، سختی کے لیے نہیں۔ (صحیح بخاری:220)
انس بن مالک رضی اللہ عنہ
نے ان سے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔(مَا
بَالُ أَقْوَامٍ) لوگوں کا کیا حال ہے جو نماز میں
اپنی نظریں آسمان کی طرف اٹھاتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے نہایت سختی
سے روکا۔ یہاں تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگ اس حرکت سے باز آ جائیں
ورنہ ان کی بینائی اچک لی جائے گی۔ (صحیح بخاری:750)
اصول یہی ہیں کہ جس صورت میں غلطی کرنے والے یا اسے دیکھ
کر متاثر ہونے والوں کی خیرخواہی زیادہ ہو اور جو صورت قرینِ حکمت ہو، اُسے اختیار
کیا جائے، اور نفس کی آمیزش، دوسرے کی تحقیر یا اپنی بڑائی وغیرہ کے فاسد جذبات
سے پاک ہوکر خلوصِ دل سے اصلاح کی کوشش کی
جائے۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ
عنہ سے روایت کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ایک دوسرے سے
حسد نہ کرو(لَا تَحَاسَدُوا)،
ایک دوسرے کے لیے دھوکے سے قیمتیں نہ بڑھاؤ، ایک دوسرے سے بغض نہ رکھو، ایک دوسرے
سے منہ نہ پھیرو، تم میں سے کوئی دوسرے کے سودے پر سودا نہ کرے اور اللہ کے بندے
بن جاؤ جو آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ مسلمان (دوسرے) مسلمان کا بھائی ہے، نہ اس پر
ظلم کرتا ہے، نہ اسے بے یارو مددگار چھوڑتا ہے اور نہ اس کی تحقیر کرتا ہے(وَلَا
يَخْذُلُهُ)، ۔ تقویٰ یہاں
ہے۔" اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے سینے کی طرف تین بار اشارہ کیا، (پھر
فرمایا): "کسی آدمی کے برے ہونے کے لیے یہی کافی ہے کہ وہ اپنے مسلمان بھائی
کی تحقیر کرے،ہر مسلمان پر (دوسرے) مسلمان کا خون، مال اور عزت حرام ہیں۔"
(صحیح مسلم: 6541)
نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : فتنہ سویا ہوا ہوتا ہے اُس
پر اللہ پاک کی لعنت ہو جو اس کو بیدار کرے (جامع صغیر: 5975)(آپ اس بحث سے اصلاح
چاہتے ہیں یا فتنہ چاہتے ہیں ۔ اگر تو اصلاح چاہتے ہیں تو اس کا انداز بھی اپنائیں
اور اگر آپ کے طریق اصلاح سے لوگوں میں فتنہ و فساد پھیل رہا ہے تو یقینا آپ کے
انداز اصلاح میں کچھ خرابی ہے)
(کسی بھی بندہ مومن کی
عزت اچھالنا کتنا برا ہے : ابن ماجہ :
3932)
عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ ,
قَالَ: رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَطُوفُ
بِالْكَعْبَةِ , وَيَقُولُ:" مَا أَطْيَبَكِ وَأَطْيَبَ رِيحَكِ , مَا
أَعْظَمَكِ وَأَعْظَمَ حُرْمَتَكِ , وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ ,
لَحُرْمَةُ الْمُؤْمِنِ أَعْظَمُ عِنْدَ اللَّهِ حُرْمَةً مِنْكِ مَالِهِ وَدَمِهِ
وَأَنْ , نَظُنَّ بِهِ إِلَّا خَيْرًا".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ فرما رہے تھے: ”تو
کتنا عمدہ ہے، تیری خوشبو کتنی اچھی ہے، تو کتنا بڑے رتبہ والا ہے اور تیری حرمت
کتنی عظیم ہے، لیکن قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، مومن کی حرمت
(یعنی مومن کے جان و مال کی حرمت) اللہ تعالیٰ کے نزدیک تجھ سے بھی زیادہ ہے، اس لیے
ہمیں مومن کے ساتھ حسن ظن ہی رکھنا چاہیئے“۔
رَسُولَ
اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مَنْ رَأَى مِنْكُمْ
مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ، فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ،
فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ، وَذَلِكَ أَضْعَفُ الإِيمَانِ (صحیح
مسلم:177)
تم
میں سے جوشخص منکر (ناقابل قبول کام) دیکھے اس پر لازم ہے کہ اسے اپنے ہاتھ (قوت)
سے بدل دے اوراگر اس کی طاقت نہ رکھتا ہو تو اپنے دل سے (اسے برا سمجھے اور اس کے
بدلنے کی مثبت تدبیر سوچے) اور یہ سب سے کمزور ایمان ہے۔
اصلاح کے تین درجات بیان کیے گئے ہیں : ہاتھ کے ساتھ ، زبان کے ساتھ ، دل میں تصور کرنا
اُدْعُ
اِلٰى سَبِیْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَ الْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَ
جَادِلْهُمْ بِالَّتِیْ هِیَ اَحْسَنُؕ-اِنَّ رَبَّكَ هُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ
عَنْ سَبِیْلِهٖ وَ هُوَ اَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِیْنَ (سورۃ النحل:125)
اپنے
رب کے راستے کی طرف حکمت اور اچھی نصیحت کے ساتھ بلاؤ اور ان سے اس طریقے سے بحث
کرو جو سب سے اچھا ہو ،بیشک تمہارا رب اسے خوب جانتا ہے جو اس کی راہ سے گمراہ ہوا
اور وہ ہدایت پانے والوں کو بھی خوب جانتا ہے۔
تین اصول اس آیہ مقدسہ میں بیان کیے گئے ہیں : حکمت ، وعظ حسنہ ، احسن مجادلہ
اگر
آپ خود کو اتنا پاک صاف اور راہ راست پر
کہتے ہو تو اس طرح تو پر کوئی کہتا ہے میں ٹھیک ہوں میں ٹھیک ہوں ، اللہ جانتا ہے
کون کتنا متقی ہے اس لیے جب کسی کی اصلاح کریں تو تمام پہلووں کا جائزہ لیں اور اصلاح کے عمل کو جاری رکھیں ورنہ تم بھی اس
دنیا میں جاری ہنگامے کا حصہ ہیں ، یعنی اپنی انا
کی تسکین ، اور شہرت کے لیے کر رہے ہیں
اَلَّذِیْنَ
یَجْتَنِبُوْنَ كَبٰٓىٕرَ الْاِثْمِ وَ الْفَوَاحِشَ اِلَّا اللَّمَمَؕ-اِنَّ
رَبَّكَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَةِؕ-هُوَ اَعْلَمُ بِكُمْ اِذْ اَنْشَاَكُمْ مِّنَ
الْاَرْضِ وَ اِذْ اَنْتُمْ اَجِنَّةٌ فِیْ بُطُوْنِ اُمَّهٰتِكُمْۚ-فَلَا
تُزَكُّوْۤا اَنْفُسَكُمْؕ-هُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰى(سورۃ النجم:32)
وہ
جو بڑے گناہوں اور بے حیائیوں سے بچتے ہیں مگر اتنا کہ گناہ کے پاس گئے اور رک گئے
بےشک تمہارے رب کی مغفرت وسیع ہے وہ تمہیں خوب جانتا ہے تمہیں مٹی سے پیدا کیا اور
جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں حمل تھے تو آپ اپنی جانوں کو ستھرا نہ بتاؤ وہ خوب
جانتا ہے جو پرہیزگار ہیں
11/7/24
آئین پاکستان میں قادیانیوں پر عائد پابندیوں کا جائزہ
تمہیداً
گفت گو میں قرآن و حدیث اور صحابہ کرام کا اجماع شامل ہے جس کی مثالیں اور وضاحت
ذیل میں درج کی جا رہی ہے:
آیہ مقدسہ:
مَا
كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰـكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ
وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا(40)
ترجمہ:
نہیں ہیں محمد (خاتم
النبین صلی اللہ علیہ وعلی آلہ واصحابہ وسلم)
تمھارے مردوں میں سے کسی کے باپ لیکن وہ اللہ کے رسول اور خاتم النبین ہیں اور
اللہ ہر چیزکو خوب جاننے والا ہے۔
1:
حضرت ابراہیم بن محمد رضی اللہ عنہ : عَنِ
ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: لَمَّا مَاتَ إِبْرَاهِيمُ ابْنُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، صَلَّى عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَالَ:" إِنَّ لَهُ مُرْضِعًا فِي الْجَنَّةِ، وَلَوْ
عَاشَ لَكَانَ صِدِّيقًا نَبِيًّا (سنن ابن ماجہ 1511)
علامہ البانی نے درست قرار دیا ہے۔ ان الفاظ سے تقویت ملتی ہے اس حدیث کو۔لِابْنِ
أَبِي أَوْفَى: رَأَيْتَ إِبْرَاهِيمَ ابْنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ قَالَ:" مَاتَ صَغِيرًا، وَلَوْ قُضِيَ أَنْ يَكُونَ بَعْدَ
مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَبِيٌّ عَاشَ ابْنُهُ، وَلَكِنْ لَا
نَبِيَّ بَعْدَهُ". (صحیح بخاری :6194)
2: حضرت
عمر فاروق رضی اللہ عنہ : عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ،
قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْ
كَانَ بَعْدِي نَبِيٌّ لَكَانَ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ
(جامع ترمذی:3686)
3: حضرت
علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ارشاد فرمایا: عَنْ
مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ
عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ إِلَى تَبُوكَ وَاسْتَخْلَفَ عَلِيًّا، فَقَالَ:
أَتُخَلِّفُنِي فِي الصِّبْيَانِ وَالنِّسَاءِ، قَالَ:" أَلَا تَرْضَى أَنْ
تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى؟ إِلَّا أَنَّهُ لَيْسَ نَبِيٌّ
بَعْدِي"(صحیح بخاری:4416)
اسلامی
آئین یعنی قرآن و سنت کا موقف: واضح ہے کسی قسم کا ابہام و تشکیک کا کوئی عنصر
نہیں ہے۔مسیلمہ کذاب، طلیحہ بن خویلد، اسود عنسی وغیرہ نے نبوت کا دعوی کیا لیکن قرآنی
آیات ، رسول اللہ ﷺ کی احادیث مبارکہ اور صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنھم کے
اجماع سے یہ بات ثابت شدہ ہے کہ نبی کریم ﷺ کے بعد کوئی نبی کسی صورت میں بھی نہیں
ہو سکتانہ تسلیم کیا جا سکتا ہے ۔
مرزا قادیانی کے جھوٹے دعوی نبوت کے بعد پیر
سید مہر علی شاہ گولڑوی سید ابوالحسنات شاہ قادری، مولانا سید محمد یوسف بنوری،
آغا شورش کاشمیری، سید عطا اللہ شاہ بخاری مولانا مفتی محمود، مولانا
عبدالستارخان نیازی، ضیاء الامت حضرت جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری سیمت متعدد
قابل قدر بزرگوں نے ہر میدان میں انکا تعاقب کیا۔
قرار داد مقاصد
اور اسلامی قانون سازی
قرارداد مقاصد جو کہ دستور پاکستان کا دیباچہ ہے
اس میں واضح طور پر تحریر ہے کہ حاکمیت صرف اللہ تعالی کی ہو گی۔ دستور کے آرٹیکل
(۱) کے
مطابق یہ ایک اسلامی مملکت ہو گی جبکہ آرٹیکل(۲) میں درج ہے کہ یہاں کا
کوئی قانون قرآن وسنت سے متصادم نہیں ہو گا۔ اس طرح دستور کی شق (1)227کے تحت
پارلیمنٹ کواختیار نہیں کہ وہ قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون سازی کر سکے بلکہ وہ
قوانین جو قرآن وسنت کے خلاف ہیں انکی فوری اصلاح کی ہدایت کی گئی ہے۔ قرار داد پاکستان کی
مخالفت میں عموما لبرلز اور سوشلز ، ملحد اور قادیانی بہت بولتے ہیں اوراسکی مخالفت
میں قائد اعظم محمد علی جناح کی 11 اگست 1947کی تقریر کا حوالہ پیش کرتے ہیں کہ قائد نے فرمایا تھا کہ
ریاست کا مذہب سے کیا تعلق ہوتا ہے (حالانکہ وہ ایک خاص ماحول اور سیاق و سباق میں
دیا گیا بیان تھا) جبکہ اس موقف کی تردید ان کے اپنے ہی بے شمار اقتباسات اور
تقاریر سے ہوتی ہے جنہیں پاکستانی دیسی لبرلز اگنور کر دیتے ہیں ۔ قائد اعظم کےپاکستانی دستور کے حوالے سے موقف کو پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔
1953ءکی آئنی کوششیں اور باقاعدہ تحریک کا آغاز
1953ء میں تمام دینی جماعتیں تین مطالبات پیش کر
چکی تھیں۔ظفر اللہ خاں سے وزارت خارجہ کا قلمدان واپس لیا جائے *مرزائیوں کو غیر
مسلم اقلیت قرار دیا جائے اور سول وفوج کے کلیدی عہدوں سے قادیانیوں کو ہٹایا
جائے۔یہ تین مطالبات ملک کی مذہبی قیادت نے کل جماعتی مجلس عمل تحفظ ختمِ نبوت کے
مشترکہ پلیٹ فارم سے اہل اقتدار کو پیش کئے ۔مطالبات تسلیم کرنے کی بجائے مسترد
کردئیے گئے ،مطالبات کی منظوری کے لئے پرامن تحریک چلی، تحریک مقدس تحفظ ختمِ نبوت
کو ریاستی طاقت سے کچل دیا گیا۔مال روڈ سمیت لاہور ،ملتان،کراچی ، سیالکوٹ،گوجرانوالہ
،ساہیوال اور دیگر شہروں میں دس ہزار فرزندانِ اسلام کے سینے گو لیوں سے چھلنی کر
دئیے گئے۔
متفق
علیہ معاملہ
ستمبر 1974 ء کے بعد مرزا قادیانی اور اُس کے
ماننے والوں کو مسلمان کہنا جرم قرار دیا گیا اور اس آئینی قرار دادِ اقلیت پر اُس
رکن اسمبلی نے بھی دستخط کئے تھے جس نے 1973 ء کے آئین کی تشکیل کے وقت اختلاف
کرتے ہوئے اس پر دستخط نہیں کئے تھے گویا یہ قرار دادِ اقلیت 1973 ء کے آئین سے
بھی زیادہ متفق علیہ ہے ۔
آئین
میں شامل الفاظ کا مختصر تعارف
1 : مختصر
عنوان اور آغاز نفاذ (۱) یہ ایکٹ آئین ( ترمیم دوم) ایکٹ 1974 ء کہلائے گا۔ ( ۲) یہ
فی الفور نافذ العمل ہوگا ۔
2 : آئین کی دفعہ 106 میں ترمیم :اسلامی
جمہوریہ پاکستان کے آئین میں جِسے بعدازیں آئین کہا جائے گا،((دفعہ 106 کی شق (3))
میں لفظ فرقوں کے بعد الفاظ اور قوسین ’’اور قادیانی جماعت یا لاہوری جماعت کے
اشخاص (جو اپنے آپ کو احمدی کہتے ہیں)‘‘درج کئے جائیں گے۔
3 : آئین کی دفعہ 260 میں ترمیم (آئین کا آرٹیکل
260 جو مسلم و غیرمسلم کی تعریف کرتا ہے) :آئین کی دفعہ 260 میں شق نمبر2 کے بعد
حسب ذیل نئی شق درج کی جائے گی ،یعنی ’’شق نمبر 3 : جو شخص محمد صلی اللہ علیہ
وسلم ،جو آخری نبی ہیں،کے خاتم النبین ہونے پر قطعی اور غیر مشروط طور پر ایمان نہیں
رکھتا یا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی مفہوم میں یا کسی قسم کا نبی ہونے
کا دعویٰ کرتا ہے یا جو کسی ایسے مدعی کونبی یا دینی مصلح تسلیم کرتا ہے ،وہ آئین یا
قانون کے اغراض کے لئے مسلمان نہیں ہے ۔‘‘
1. Short title and commencement
(1) This
act may be called the Constitution (Second Amendment) Act, 1974.
(2) It
shall come into force at once.
2. Amendment of Article 106 of the Constitution.
In the Constitution of the Islamic Republic of Pakistan hereinafter
referred to as the Constitution, in Article 106, in clause (3), after the words
"communities" the words and brackets "and persons of Quadiani
group or the Lahori group (who call themselves 'Ahmadis')" shall be
inserted.
3. Amendment of Article 260 of the Constitution.
In the Constitution, in Article 260, after clause (2) the following new clause
shall be added, namely—
(3) A person who does
not believe in the absolute and unqualified finality of The Prophethood of
MUHAMMAD (Peace be upon him), the last of the Prophets or claims to be a
Prophet, in any sense of the word or of any description whatsoever, after
MUHAMMAD (Peace be upon him), or recognizes such a claimant as a Prophet or
religious reformer, is not a Muslim for the purposes of the Constitution or
law.
اس بل کا مقصد اسلامی
جمہوریہ پاکستان کے آئین میں اس طرح ترمیم کرنا ہے تاکہ ہر وہ شخص جو محمد صلی
اللہ علیہ وسلم کے خاتم النبین ہونے پر قطعی اور غیر مشروط طور پر ایمان نہیں
رکھتا یا جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے یا جو کسی
ایسے مدعی کو نبی یا دینی مصلح تسلیم کرتا ہے ،اسے غیر مسلم قرار دیا جائے۔
30جون 1974کو انہوں
نے پارلیمنٹ قرارداد پیش کی جس میں قادیانیوں کے عقائد کے پیش نظر انکو غیر مسلم
قرار دینے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس تحریک پر بحث کے دوران اس بات کی اجازت دی گئی کہ
ارکان پارٹی وابستگی سے بالاتر ہو کر اپنی رائے دے سکتے ہیں۔ ایک آزاد ریاست کے
آزاد شہری ہونے کے ناطے قادیانیوں کو پارلیمنٹ کے سامنے پیش ہو کر اپنا موقف بیان
کرنے کا مکمل مو قع فراہم کیا گیا۔ 13دن تک سوال وجواب، بحث و مباحثہ جرح وتنقید
کا سلسلہ جاری رہا۔ پاکستان کے اٹارنی جنرل یحیح بختیار نے قادیانیوں کے سربراہ
مرزا ناصر پر جرح کی اور سوال وجواب پر مشتمل کی گئی گفتگو ں پر مشتمل طویل سیشن ہوئے۔
22اگست 1974کو اس بحث کو قانونی شکل دینے کے لیے ایک کمیٹی بنی جس کے معزز ارکان میں
مولانا شاہ احمد نورانی، مفتی محمود، پروفیسر غفور احمد، چوہدری ظہور الہی، مسٹر
غلام فاروق اور سردار مولا بخش سومرو اور وزیر قانون عبدالحفیظ پیرزادہ اس کمیٹی
کے رکن تھے۔ 7ستمبر 1974 کو پارلیمنٹ نے قانون سازی کے ذریعے متفقہ طور پر انکو غیر
مسلم قرار دیتے ہوئے دستور کی دفعہ260 اور دفعہ 160 میں ترمیم منظور کی۔
امتناع
قادیانت ایکٹ
26اپریل1984 اس وقت کی
وفاقی حکومت نے امتناع قادیانیت ارڈی نینس جاری کیا۔ جس میں انہیں اسلامی شعائر کا
استعمال نہ کرنے کا حکم دیا اور ساتھ ہی ایک نئی دفعہ298 کا تعزیرات پاکستان میں
اضافہ کیا گیا جس کی رو سے مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے اور اپنی تبلیغ کے ذریعے
مسلمانوں کی توہین کرنے کو قابل تعزیر جرم قرار دیا گیا۔
Here are some of the
restrictions placed on Ahmadis by Section 298:
• They cannot call themselves
Muslim
• They cannot refer to their
religious beliefs as Islam
• They cannot preach or propagate their religious
beliefs
• They cannot invite others to accept Ahmadi teachings
• They cannot insult the
religious feelings of Muslims
The punishment for
violating these provisions is imprisonment for up to three years and a fine.
قادیانیوں نے اس آرڈی
نینس کو وفاقی شرعی عدالت میں چیلنج کر دیا۔ 15جولائی 1984 سے 12اگست 1984 تک اس کی سماعت بلا تعطل
جاری رہی۔ قادیانیوں کی پیٹیشن نے اس آرڈینینس کو انسانی حقوق کے خلاف قرار دیا گیا
تھا۔ 12 اکتوبر 1984کو وفاقی شرعی عدالت نے اس پٹیشن کو خارج کر دیا۔ چیف جسٹس
جسٹس فخر عالم نے فیصلہ تحریر کیا۔جبکہ جسٹس چوہدری محمد صدیق، جسٹس مولانا ملک
غلام علی جسٹس مولانا عبدالقدوس قاسمی نے تائیدی دستخط کیے۔ اس فیصلہ کے خلاف سپریم
کورٹ کے شریعت اپیلٹ بینچ میں اپیل کی گئی۔ جس کو مسترد کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے لکھا
کہ قادیانیوں کو مروجہ جمہوری اور قانونی طریقہ کار کے مطابق اقلیت قرار دیا گیا
ہے۔ نیز یہ بات پایہ ثبوت تک پہنچ چکی ہے کہ قادیانی ملک میں تخریبی سرگرمیوں میں
ملوث ہیں اور آئین پاکستان کی خلاف ورزی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ لہذا یہ قانو ن انسانی
حقوق کے خلاف کے نہیں بلکہ آئین پاکستان کے عین مطابق ہے۔ یہ فیصلہ جسٹس محمد
افضل ضلحہ نے تحریر کیا جبکہ ڈاکٹرنسیم حسن شاہ، جسٹس شفیع الرحمن، جسٹس پیر محمد
کرم شاہ الازہری اور جسٹس تقی عثمانی نے تائید کی ۔ جبکہ جسٹس پیر محمد کرم شاہ
الازہری اور جسٹس مولانا تقی عثمانی نے الگ سے بھی فیصلہ تحریر کیا
(SC-167...PLD1988)
مختلف
عدالتوں کے ریمارکس اور فیصلے
لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس رفیق تارڑ نے 1987 میں،
بلوچستان ہائی کورٹ کے جسٹس امیر المک مینگل نے 1988 میں، لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس
خلیل الرحمن نے 1992میں، جبکہ لاہور ہائی کورٹ کے ہی جسٹس میاں نذیراختر نے 1992میں
قادیانیوں کے خلاف کیے جانے والے دستوری اقدامات کو قانون کے عین مطابق قرار دیا
۔بعد ازاں سپریم کورٹ کے ایک فل بینچ نے 1993میں الگ مفصل فیصلہ تحریر کیا جو کہ
اس ضمن میں حرف آخر کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس بینچ میں جسٹس عبدالقدیر چوہدری جسٹس
ولی محمد خان، جسٹس محمد افضل لون اور جسٹس سلیم اختر شامل تھے۔ (1993-S.C.M.R1718) اس میں فل بینچ
نے قرار دیا کہ ایک اقلیت کی جانب سے مسلمانوں کے شعائر کا استعمال فتنہ و فساد کا
موجب بن سکتا ہے، ملک میں امن و امان کامسئلہ پیدا ہو سکتا ہے اور لوگوں کی جان و
مال خطرے میں پڑ سکتی ہے اس لیے انسانی حقوق کے تحفظ اور دستور پاکستان کے بنیادی
نکات عمل کرنے کی خاطر قادیانیوں کو اس طرح کی سرگرمیوں کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔اسی
فیصلے میں قادیانیوں کو unscrupulous
and fraudulent non-muslim کے الفاظ سے
نوازہ گیا۔
اقوام
متحدہ سے رجوع
1988 میں قادیانیوں نے اقوام متحدہ کے انسانی
حقوق کے کمشن کی طرف رجوع کیا اور درخواست کی کہ پاکستان میں انکے انسانی حقوق سلب
کیے جا رہے ہیں لہذا انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے جرم میں پاکستان کے خلاف اقتصادی
پابندیاں عائد کی جائیں حکومت پاکستان نے جسٹس پیر محمد کرم شاہ الازہری کو جینوا
میں اس کمشن کے اجلاس میں پاکستانی موقف بیان کرنے کے لیے بھیجا ۔انہوں نے قانون
،آئین اور بین الاقوامی قوانیں کی روشنی میں قادیانیوں کے الزامات کا جواب دیا۔
اس قانونی جنگ کا نتیجہ 30اگست1988کو سامنے آیا جب اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے
کمشن نے بھی قادیانیوں کی درخواست کومسترد کر دیا اور حکومت پاکستان کے موقف کو
درست تسلیم کیا۔
پاکستان
میں حاصل حقوق کا جائزہ
حقیقت یہ ہے کہ قادیانی
اس ملک کی اقلیت ہیں انکو وہ تمام حقوق حاصل ہیں جو دیگر اقیلیتوں کو حاصل ہیں۔یہ
لوگ ملک میں کسی بھی جگہ ملازمت کر سکتے ہیں ، بڑے بڑے کلیدی عہدوں پر فائز ہیں،
اسمبلی ہال میں ان کے لیے نشست مخصوص ہے جہاں وہ اپنا موقف اور آواز بلند کر سکتے
ہیں،جایئدادکی خریدو فروخت کر سکتے ہیں ۔پاکستان کے کئی بڑے ادارے انکی ملکیت ہیں
۔کاروبار کر سکتے ہیں۔ بطور شہری پاکستان میں بغیر کسی رکاوٹ کے سفر کر سکتے ہیں۔
مذہبی حوالے سے اپنی مرضی کے مطابق عبادت کر سکتے ہیں۔
آرٹیکل 19 اور 20 کو پیش کیا جاتا ہے کہ آزادی
رائے اور مذہبی آزادی ہے
19 Freedom of speech, etc.
Every citizen shall have
the right to freedom of speech and expression, and there shall be freedom of
the press, subject to any reasonable restrictions imposed by law in the
interest of the glory of Islam or the integrity, security or defence of
Pakistan or any part thereof, friendly relations with foreign States, public
order, decency or morality, or in relation to contempt of court, 34[commission of] 34 or incitement to an
offence.
20 Freedom to profess religion and to
manage religious institutions. Subject to law, public order and morality: (a) every citizen
shall have the right to profess, practice and propagate his religion; and (b) every
religious denomination and every sect thereof shall have the right to
establish, maintain and manage its religious institutions.
ہمیں
(بطور مسلمان )قادیانیوں پرہی اعتراض کیوں
ہے؟
کبھی کسی نے عیسائیوں ، یہودیوں ، ہندووں ، سکھوں پر کسی
قسم کا اعتراض نہیں کیا، ان کے مذہبی معاملات میں کبھی اعتراض نہیں کیا ، اپنی اپنی
مذہبی کتب کو جس طرح چاہیں بدلیں ان کا ترجمہ و تشریح کریں ہمیں کوئی اعتراض نہیں
، لیکن ان کے ساتھ یہ معاملہ کیوں ہے ؟ اس میں کچھ نکات ہیں:
• خود کو
اقلیت نہیں سمجھتے بلکہ آئین پاکستان کی صورت میں خود پر حملہ اور ظلم شمار کرتے
ہیں۔
• اسلامی
شعار کا استعمال کرتے ہیں۔
• قرآن مجید ، کلمہ ، عربی اور اسلامی ٹیکسٹ
اور لٹریچر وغیرہ جو ہمارا ہے یعنی
مسلمانوں کا ہے اس کو استعمال کرتے ہیں ۔ تو جو نصاب ہمارا ہے اس کا ترجمہ و تشرح
و تفسیر بھی ویسے ہی ہو گی جیسے مسلمان کرتے ہیں ان کے معانی و مفاہیم کا تعین
اسلامی اقدار کے مطابق ہو گا، (دفعہ 7 بی کے مطابق قرآن مجید کا ترجمہ مسلمانوں
کے عقائد کے مطابق ہی ہوسکتا ہے۔)۔مبارک ثانی کیس کی بحث میں‘‘ دین میں جبر نہیں
ہے اور کسی بھی مذہب کو اپنے اعتقادات کی ترویج کی اجازت ہے۔ لیکن اس بارے میں
• آئین کے آرٹیکل 20 کی تشریح اور
'امتناع قادیانیت ایکٹ 1984' کے بارے میں سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ
موجود ہے۔یعنی قادیانی اپنے عقائد کی تشہیر و ترویج اور تبلیغ و اشاعت قطعاًً نہیں
کر سکتے اس حوالے سے آئین پاکستان واضح ہے۔
• سپریم کورٹ امتناع قادیانیت ایکٹ 1984 میں
قرار دے چکی ہے کہ قادیانیوں کو اپنی چار دیواری کے اندر عبادت کرنے کا حق حاصل ہے
لیکن انہیں یہ حق حاصل نہیں کہ وہ شعار اسلام کو اپناتے ہوئے اپنے مذہب کی ترویج
کرسکیں۔
• اسلام
آباد ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا بھی فیصلہ ہے کہ احمدیوں کو ایسی
چیز کی اجازت نہیں دی جاسکتی جس کے ذریعے وہ خود کو مسلمان ظاہر کر سکیں۔
سوشل
میڈیا کے حوالے سے تدریس
کوئی قادیانی (ربوی یا لاہوری) سوشل میڈیا (واٹس
ایپ، فیس بک، ٹوئیٹر ، انسٹٓ گرام وغیرہ )پر اپنے مذہب کی کوئی ممنوعہ کتاب یا اس
کا کوئی اقتباس یا گستاخانہ یا دل آزار مواد پر مبنی اس کا کوئی صفحہ یا پیرا شیئر نہیں کر سکتا۔ خلاف ورزی کی صورت میں ملزم کے
خلاف نیشنل سائبر کرائم انوسٹی گیشن ایجنسی (NCCIA) میں تعزیرات
پاکستان کی متعلقہ دفعتا 298 بی اور 298 سی کے علاوہ الیکٹرانک سائبر کرائم کی روک
تھام (PECA) ایکٹ 2016 دفعہ 11 کے تحت مقدمہ درج ہو گا اور ناقابل ضمانت
مقدمہ درج ہو گا۔اگر ایسا مواد حضور نبی کریم یا قرآن مجید سے متعلقہ ہو تو یہ نبی
کریم ﷺ اور قرآن مجید کی بے حرمتی کرنے کے مترادف ہے اور اس کے مرتکب کے خلاف تعزیرات
پاکستان کی دفعہ 295 بی اور سی کے تحت
مقدمہ درج ہو گا۔
مزید یہ کہ ہم اس
مواد کو وہی سوشل میڈیا ٹیم کو رپورٹ بھی کریں تا کہ کم از کم ہمیں وہ مواد دوبارہ
دیکھنے کو نہ ملے ، مزید یہ کہ ان سائٹس کے سینسر ہوتے ہیں جو کہ آپ کی اکٹیویٹی
کو واچ کر رہے ہوتے ہیں آپ جب ان پوسٹوں کو رپورٹ کریں گے یا اگنور کریں گے تو
آپ کو دوبارہ یہ مواد ریفر نہیں کریں گے۔