Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

12/27/15

Masadar-e-Fiqh. Recourses of Islamic laws :: مصادر فقہ:: فقہی مصادر

فقہ کی تعریف :

فقہ  شریعت اسلامی کی ایک بہت اہم اصطلاح ہے۔ فقہ کا لغوی معنی ہے کسی چیز کا جاننا ، سمجھنا ۔ قرآن پاک میں یہ لفظ کئی مقامات پر استعمال ہوا ہے

۱: قالوا یا شعیب ما نفقہ کثیرا مما تقول ۔

ترجمہ: انہو ں نے کہا اے شعیب تمہاری اکثر باتیں ہماری سمجھ میں نہیں آتیں۔

۲: قل کل من عند اللہ فمال ھاؤلاء القوم لایکادون یفقھون حدیثا

ترجمہ: آپ فرما دیں سب کچھ اللہ کی طرف سے ہے پس اس قوم کو کیا ہو گیا ہے کہ یہ کوئی بات سمجھنے کے قریب ہی نہیں آتے۔

۳: فطبع علی قلوبھم فھم لا یفقھون

ترجمہ: تو ان کے دلوں پر مہر لگا دی گئی ہےسو وہ (کچھ) نہیں سمجھتے۔

حدیث نبوی ﷺ میں بھی فقہ کا لفظ سمجھ بوجھ کے معنی میں استعمال ہوا ہے  حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:

من یرد اللہ خیرا  یفقہ فی الدین۔۔۔۔۔۔۔۔(بخاری)

ترجمہ: اللہ تعالی جس کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے اسے دین میں  سمجھ عطا فرما دیتا ہے۔

اسی لیے شرعی اصلاح میں فقہ کا لفظ علم دین کا فہم حاصل کرنے کے لیے مخصوص ہے (لسان العرب لابن منظور)

امام ابو حنیفہ ؓ فقہ کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

الفقہ معرفۃ النفس مالھا وما علیھا۔۔۔۔۔۔۔( المنثور ۔للزرکشی)

فقہ نفس کے حقوق و فرائض جاننے کا نام ہے

بالعموم فقہاء کرام فقہ کی تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں ۔

العلم بالاحکام الشریعہ العملیہ من ادلتھا التفضیلیہ

تفصیلی دلائل سے شرعی احکام کو جاننے کا نام فقہ ہے۔

امام بدر الدین الزرکشی اپنی کتاب المنثور میں لکھتے ہیں کہ:

وقال ابن سراقہ فی کتابہ فی الاصول :حقیقۃ الفقہ عندی الاستنباط ،قال اللہ تعالی (لعلمہ الذین یستنبطونہ منھم ۔النساء۸۳)

ترجمہ: ابن سراقہ اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ میرے نزدیک فقہ کا مطلب استنباط ہے ۔ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے  ، تو جان لیتے اس کی حقیقت جو نتیجہ اخذ کر لیتے ہیں۔

فقہ اسلامی کے مصادر:

فقہ اسلامی کے مصادر  میں  پہلا مصدر شریعہ قرآن کریم ہے  دوسرا مصدر حدیث رسول ﷺ ہے  ان دو مصادر شریعہ میں تمام ائمہ مذاہب کا اتفاق ہے  اصل مصدر قرآن کریم ہے اور دراصل حدیث رسول ﷺ قرآن کریم کی شرح اور وضاحت ہے بے شمار مثالیں  ہیں مثلا نماز پڑھنے کا حکم ہمیں قرآن کریم سے ملتا ہے لیکن اسکا  وقت  ،نماز کی رکعات کی تعداد  اور نماز کا طریقہ کار یہ سب وضاحتیں  ہمیں حدیث رسول ﷺ سے ملتی ہیں اسی طرح زکوۃ کا حکم قرآن سے اور اسکی وضاحت حدیث رسول ﷺ سے ملتی ہے ۔ فقہ اسلامی کا تیسرا اور چوتھا ماخذ اجماع اور قیاس ہیں ان مصادر پر جمہور ائمہ مذاہب کا اتفاق ہے مگر چند ایک فقہاء نے اختلاف کیا ہے۔ یہ دونوں مصادر دراصل قرآن و حدیث ہی کی ذیلی شاخیں ہیں۔

ان کے علاوہ کچھ ثانوی مصادر شریعہ ہیں جن میں ۔

۱: استحسان

۲: استصلاح  یا مصالح مرسلہ

۳: عرف و عادت

۴: استصحاب

۵:سد ذرائع

۶: ماقبل شرائع

۷:قول صحابی

اب تفصیل کے ساتھ پہلے بنیادی مصادر شریعہ کو بیان کیا جاے گا بعد میں ثانوی مصادر بیان کیے جائیں گے۔

۱۔قرآن مجید:

قرآن مجید ایک مشہور کتاب ہے جو کہ کسی بھی تعریف کی محتاج نہیں ہے لیکن پھر بھی ہر آدمی نے کوشش کی ہے کہ میری کی ہوئی تعریف کامل اورجامع ہو  ۔ ڈاکٹر نور الدین عتر اپنی کتاب علوم القرآن الکریم میں تعریف کرتے ہوئے لکھتے ہیں

        القرآن ھو کلام اللہ المنزل علی النبی صلی اللہ علیہ وسلم المکتوب فی المصاحف و المنقول بالتواتر و المتعبد بتلاوتہ و المعجز ولوبسورۃ منہ۔

ترجمہ:قرآن مجید اللہ کا کلام ہے جو نازل کیا نبی کریم ﷺ پر مصاحف میں لکھا گیا ، تواتر کے ساتھ نقل کیا گیا ، اسکی تلاوت کرنا عبادت ہے اور یہ کلام صاحب اعجاز ہے اگرچہ اسکی ایک سورت کیوں نہ ہو۔

 کلام پاک پہلا مصدر شرعی ہے تمام مسلمانوں کا اس پر اجماع ہے اور اس کے پہلے مصدر شرعی  ہونے کی دلیل ہے کہ یہ اللہ تعالی کا کلام ہے اور اللہ تعالی کے کلام ہونے کی دلیل اس کا اعجاز ہے  قرآن پاک میں اہل عرب  کو چیلنج کیا گیا کہ تم اس جیسی دس ۱۰ سورتیں لے آؤ ارشاد ہے  قل فاتوا بعشر سور مثلہ مفتریات و ادعوا من استطعتم      جب وہ دس سورتیں بھی نہ لا سکے توو قرآن نے کہ دیا کہ دس نہیں تو اک سورت ہی لے آؤ  اور ارشاد فرمایا وان کنتم فی ریب مما نزلنا علی عبدنا فاتوا بسورۃ من مثلہ۔ ایک اور مقام پر ارشاس فرمایا  قل لئن اجتمعت الانس و الجن علی ان یاتوا بمثل ھٰذاالقرآن لایاتون بمثلہ ولوا کان بعضھم لبعض ظھیرا۔ کوئی قرآن کے اس چیلنج کا جواب نہ دے سکا قرآن مجید نے خود ہی فرما دیا فان لم تفعلوا و لن تفعلوا  اگر لانا چاہیں تو بھی اس جیسا کلام نہیں لا سکیں گےجب قرآن پاک کا اعجاز ثابت ہو گیا تو اس پر کرنا بھی واجب ٹھہرا۔قرآن مجید میں اللہ تعالی نے قرآن پاک کے نزول کا مقصد بیان کرتے ہوئے  ارشاد ہے انا انزلنا الیک الکتاب بالحق لتحکم بین الناس بما اراک اللہ   ترجمہ: بے شک ہم نے قرآن پاک کو حق کے ساتھ نازل کیا تا کہ آپ خدا کے حکم کے مطابق لوگوں کو حکم دیں۔

قرآن پاک کے مضامین:

قرآن پاک ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس میں زندگی میں پیش آنے والے تمام معاملات  کے لیے راہنمائی موجود ہے  اہل بصیرت اس میں سے اپنی بصارت کے بل بوتے پر زندگی میں پیش آمدہ مسائل کا حل نکالتے ہیں یہاں ہم قرآن پاک میں بیان ہونے والے علوم کے بارے میں بات کرتے ہیں۔ قرآن پاک میں بیان ہونے والے  علوم تین طرح کے ہیں:

۱:     ایمانیات

۲: فضائل

۳: احکامات

ایمانیات:

ایمانیات سے مراد عقائد توحید ، رسالت، ملائکہ، تقدیر، اور یوم آخرت کے بارے میں بحث اور اسکےعلاوہ مشرکین سے ہونے والے مذاکرے اور مخاصمے وغیرہ سب ایمانیات میں شامل ہیں ایمانیات کے بارے میں  جو علم ہے اسے علم الکلام بھی کہا جاتا ہے اور اس علم کو جاننے والا یا اس میں بحث کرنے والا متکلم کہلاتا ہے۔

فضائل:

فضائل سے مراد علوم کی وہ قسم ہے جس میں اخلاقیات اور جنت و دوزخ کی خصوصیات وغیرہ بیان ہوئی ہیں۔ سابقہ امتوں کے احوال بھی اسی قسم میں آتے ہیں اس کے علاوہ ہر وہ واقعہ جس سے عبرت حاصل ہو مضامین قرآن کی اسی قسم میں داخل  ہے اس علم کو علم الاخلاق یا علم تصوف کہا جاتا ہے اس علم میں بحث کرنے کو صوفی کہا جاتا ہے۔

احکامات:

اعضاء اور جوارح کے متعلقہ احکامات اس قسم میں آتے ہیں قرآن پاک میں بیان ہونے والے اوامر و نواہی  مضامین قرآن کی اس قسم میں آتے ہیں اس قسم کو فقہ کا نام دیا جاتا ہے اور اس میں بحث کرنے کو فقیہ کہتے ہیں۔

قران مجید میں  تمام معاملات سے متعلقہ احکامات ہیں ،احکامات  دو قسم کے ہیں ۔

نوع اول: وہ احکامات  جو اجمالا بیان کیے گئے ہیں مثلا نماز ، روزہ اور زکوۃ وغیرہ کےاحکامات ۔ان کی تفصیل بیان نہیں کی لیکن ان کی تفصیل جاننے کے لیے اللہ تعالی نے ہمیں چند ایک اصول بتا دیے ان اصول کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک فقیہ ان اجمالا بیان کیے ہوئے احکامات کی وضاحت اور تشریح کرتا ہے اصول درج ذیل ہیں ۔

۱: عدم حرج:   کلام پاک نے ایک اصول عدم حرج بیان کیا ہے یعنی آدمی پر وہ بوجھ نہیں ڈالا گیا جس کی اسے استطاعت نہ ہو  قرآن پاک میں ارشاد ہے : وماجعل علیکم  فی الدین من حرج  یعنی دین میں تنگی نہیں ہے۔

۲: قلت تکلیف:تکلیف بہت کم ہونا یعنی اتنی جو انسان آسانی سے برداشت کر سکتا ہے قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے : لایکلف اللہ نفسا الا وسعھا    اللہ کسی پر بوجھ نہیں ڈالتا مگر اس کی طاقت کے مطابق ۔

۳: تدریج: قرآن پاک کا بہت پیارا اصول تدریج ہے انسانی فطرت کے مطابق قرآن پاک ایک دم سے ہی حکم نہیں دیتا بلکہ بتدریج انسان کو منع کرتاہے مثلا شراب کا حکم نازل ہوا تو ایک دم سے ہی شراب حرام قرار نہیں دی گئی بلکہ پہلے اس سے نفرت کا اظہار کیا گیا یسئلونک عن الخمر و المیسر قل فیھما اثم کبیرپھر خاص وقت میں پینے سے منع کیایاایھا الذین آمنوا لاتقربوا الصلوۃ و انتم سکاری پھر تیسری جگہ پر مکمل طور پر شراب کو حرام قرار دیا گیا : انما الخمر و المیسر و الانصاب الازلام رجس من عمل الشیطان۔

۴: نسخ: نسخ کا مطلب اللہ تعالی کا ایک حکم کو تبدیل کر کے دوسرا حکم لانا  قرآن پاک میں ارشاد ہے ماننسخ من آیہ او ننسھا نات بخیرمنھا  او مثلھا۔ قرآن پاک میں نسخ کی مثالیں ملتی ہیں مثلا  وصیت کے متعلق کہا گیا کہ وصیت کرو لیکن بعد میں اس کو آیات وراثت سے تبدیل کر دیا اسی طرح میدان جنگ میں پہلے سو ۱۰۰ کے مقابلے میں دس ۱۰  لیکن بعد میں بیس ۲۰ کے مقابلے میں دس ۱۰ کا حکم آگیا۔ اسی طرح حدیث پاک میں پہلے قبور پر جانے سے منع کیا گیا لیکن بعد میں آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ :کنت نھیتکم عن زیارۃ القبور فزورھا۔اب تم زیارت کیا کرو۔

نوع ثانی : وہ احکامات ہیں جن کو قرآن پاک نے تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے مگر ان کی تعداد بہت کم ہےمثلا  میراث کی مقداریں حدود میں سزاؤں کی مقداریں ، طلاق کی کیفیت اور تعداد، میاں بیوی کے درمیان لعان کا طریقہ اور محرم عورتوں کا بیان وغیرہ ایسے مسائل ہیں جن کا قرآن نے تفصیل سے بیان کیا ہے۔

۲۔حدیث رسول ﷺ:

شریعت اسلامی کا دوسرا ماخذ حدیث رسول ﷺ ہے اس کے ماخذ ہونے پر ائمہ دین کا اتفاق ہے  کیوں کہ رسول اللہ ﷺ کی ہی ذات ہے جن پر قرآن پاک  کا نزول ہوا ہے اور رسول ﷺ کی ہی ذات وہ ذات ہے جو منشائے ایژدی کو جانتی ہے ۔ حدیث کلام رسول کریم  ﷺ ہے اور رسول اللہ ﷺ کے کلام کے بارے میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے وماینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی کہ اللہ کا رسول وہ ہی بولتا ہے جو اس کی طرف وحی کیا جاتا ہے تو اس رو سے حدیث پر عمل کرنا اسی طرح واجب ہے جیسے خود پروردگار کےکلام پر کیوں کہ قرآن پاک کے الفاظ اور معانی دونوں اللہ کی طرف سے ہیں لیکن حدیث کے الفاظ تو رسول ﷺ کی طرف سے مگر معانی اللہ تعالی  کی طرف سے ہوتے ہیں۔ اور الفاظ سے بھی اصل مراد معانی اور مطالب ہی ہوتے ہیںؔ۔(الوجیز) بے شمار آیات کلام مجید حدیث رسول ﷺ کی حجیت پر دلالت کرتی ہیں ۔

۱: ارشاد باری تعالی ہے ۔اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول ترجمہ: اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو۔

۲:من یطع الرسول فقد اطاع اللہ جس نے رسول ﷺ کی اطاعت کی تحقیق اس نے اللہ کی  اطاعت کی۔

۳: وما اتاکم الرسول فخذوہ ومانھاکم عنہ فانتھوا۔ اور جو تمہیں رسول دیں اس کو لے لو اور جس سے منع کرے اس سے رک جاؤ۔

۴: فلاوربک لایومنون حتی یحکموک فیما شجر بینھم ترجمہ: تیرے رب کی قسم  یہ مومن نہیں ہو سکتے جب تک اپنے تمام جھگڑوں میں آپ کو حاکم نہ مان لیں۔

۵: ماکان لمؤمن ولا مؤمنۃ اذاقضی اللہ ورسولہ امرا ان یکون لھم الخیرۃ۔ترجمہ: اور کسی مومن مرد یا عورت کو اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کے بعد کسی امر کا کوئی اختیار باقی نہیں رہتا۔

۶: یا ایھا الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک۔ترجمہ: اے رسول جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا  پہنچا دیجیے۔

ان تمام آیات مبینات سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ رسالت کا مقصد ہی اللہ کے احکامات پہنچانا اور ان کی وضاحت و تشریح کر کے لوگو ں کو سمجھانا ہے تو اس حوالے سے حدیث کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔

       اگر ہم کلام پاک کو دیکھیں تو ہمیں حکم ملتا ہے اقیمواالصلوۃ و اتوا الزکوۃ کہ نماز پڑھو اور زکوۃ ادا کرو مگر نماز کیسے کب کس حالت میں پڑھنی ہے ان سب سوالات کا جواب اور وضاحت ہمیں صلوا کما رایتمونی اصلی یعنی حدیث پاک سے ملتی ہے  اسی طرح حج کا حکم ملا مگر اس کے مناسک کی تشریح و توضیح ہمیں حدیث پاک سے ملتی ہے۔

قرآن کے مفاہیم کو سمجھنے کے لیے حدیث کو پڑھنا ناگزیر ہے  قرآن پاک کی تفسیر نبی کریمﷺ کی حدیث ہے کیوں کہ اللہ تعالی رشاد فرماتا ہے وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس  ما نزل الیھم ولعلھم یتفکرون۔  ترجمہ: یہ ذکر ہم نے آپ کی طرف اتارا ہے کہ لوگو ں کی جانب جو نازل کیاگیا ہے آپ اسے کھول کھول کر بیان کر دیں۔

درج بالا قرآنی آیات ہم پر حدیث کی اہمیت اور ضرورت واضح کرتی ہیں۔

۳۔اجماع:

اجماع شریعت اسلامی کا تیسرا ماخذ ہے اس پر اجماع کے ماخذ ہونے پر جمہور علماء کرام کا اتفاق ہے اجماع سے مراد ایک شرعی مسئلہ پر بہت سے علماء کرام کا قرآن و حدیث کی روشنی میں جمع ہو جاناہے۔ اجماع کی حجیت پر علمائے اصول نے بے شمار دلائل دیے مگر یہاں چند ایک کا ذکر کرتے ہیں  ۔

ارشاد باری تعالی ہے: ومن یشاقق الرسول من بعد ماتبین لہ الھدی و یتبع غیر سبیل المؤمنین نولہ ما تولی و نصلہ جھنم و ساءت مصیرا۔ترجمہ: جو آدمی باوجود راہ ہدایت ظاہر ہو جانے کے رسول ﷺ کے خلاف کرے اور تمام مؤمنین کی راہ چھوڑ کر چلے ہم اسے ادھر ہی متوجہ کر دیں گے جدھر وہ خود متوجہ ہو گا  اور دوزخ میں ڈال دیں گے وہ پہنچنے کی کتنی بری جگہ ہے۔

ایک اور  مقام پر ارشاد فرمایا گیا ۔ یاایھا الذین آمنوا اطیعوا اللہ و اطیعوا الرسول و  اولی الامر منکم فان تنازعتم فی شئی فردوہ الی اللہ والرسول ۔ترجمہ: اے ایمان والو فرمانبرداری اللہ کی اور اللہ ک رسول ﷺ کی اور تم میں سے جو اختیار والے ہیں ان کی۔

ایک مقام پر فرمایا: یاایھاالذین آمنوااتقوا اللہ و کونوا مع الصادقین ترجمہ اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ ہو جؤ۔

واعتصموا بحبل اللہ جمیعا ولاتفرقوا ترجمہ  اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ میں نہ پڑو۔

کنتم خیر امۃ اخرجت للناس تامرون بالمعروف وتنھون عن المنکر۔ترجمہ: تم لوگوں میں سئ بہتر امت پیدا کیے گئے ہوکیونکہ تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو۔

درج بالا آیات ہیں جو اجماع پر دالت کرتی ہیں اور مومنین کے راستے کو حق ہی کا راستہ قرار دیتی ہیں اب ذیل میں احادیث کا ذکر کیا جاتا ہے جو اجماع کو ماخذ ماننے کے لیے ہمارے لیے روشن دلیل ہیں۔

امتی لاتجمع علی الخطاءاو علی الضلالۃ ترجمہ: میری امت کبھی غلطی یا گمراہی پر اکٹھی نہیں ہو گی۔

یداللہ مع الجماعہ۔ترجمہ: جماعت کے ساتھ اللہ کی تائید ہوتی ہے۔

ماراہ المسلمون حسنا فھو عند اللہ حسن و ما راہ المسلون قبیحا فھو عند اللہ قبیح۔ ترجمہ : جس کو مسلمان اچھا جانیں وہ اللہ ک نزدیک بھی اچھا ہے اور جس کو مسلمان برا سمجھیں وہ اللہ کے نزدیک بھی برا ہی ہے۔

من شَذ شُذ ترجمہ

اجماع کے معانی اور شرائط:

ایسا مسئلہ جس کے بارے میں قرآن و حدیث میں حکم موجود نہ ہو یا ہو اور واضح حکم نہ ہو تو ایسے مسئلے کے بار ےمیں تغیرات زمانہ کے ساتھ مجتہدین اور علماء کرام کے زیر اثر اجماع شریعت اسلامی کی قانون سازی کا ذریعہ بن جاتا ہے۔

اجماع میں غیر مجتہدین کا کسی مسئلےپر متفق ہو جانا معتبر نہیں ہوتا۔مجتہدین کے اتفاق سے مراد تمام مجتہدین کا متفق ہونا ہے کہ کوئی مجتہد اختلاف نہ کرے ایک بھی مجتہد اگر اختلاف کرے تو اسکا اختلاف اجتہاد کے لیے نقصان دہ ہو گا اوریہی جمہور فقہا ء کی رائے ہے۔ اس میں صرف مکہ یا مدینہ کے مجتہدین کا  جمع ہو جانا کافی نہیں ہے جیسے امام مالک فرماتے ہیں کہ اجماع صرف مدنی مجتہدین کا ہی قابل قبول ہے اس کی دلیل میں وہ حدیث رسول ﷺ بیان کرتے ہیں ۔ انما المدینہ کالکیر تنفی خبثھاو ینصع طیبھا و ھی المدینہ تنفی الناس کما ینفی الکیر خبث الحدید ترجمہ: بے شک مدینہ بھٹی کی طرح ہے کہ جس کا میل کچیل صاف ہو جاتا ہے اور وہ خالص رہ جاتا ہے مدینہ برے لوگوں کو اس طرح نکال دیتا ہے جیسے بھٹی لوہے کی میل کچیل کو نکال دیتا ہے۔

اجماع کے لیے شرط ہے کہ مجتہدین کا اتفاق کسی مسئلہ شرعی پر ہو جیسے وجوب ، حرمت اور استحباب وغیرہ۔اجماع کے لیے کسی شرعی دلیل یا سند کا ہونا ضروری ہے کیونکہ بغیر علم اور بغیر دلیل شرعی کوئی بات قابل قبول نہیں ہوتی کبھی سند اور دلیل کتاب اللہ سے ہوتی ہے اور کبھی سنت رسول ﷺ سے ہوتی ہے۔

۴۔قیاس:

قیاس ترتیب کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر ہے کیوں اجماع کے لیے شرط ہے کہ وہ عہد رسالت کے بعد ہو لیکن قیاس عہد رسالت میں ہی ہونے لگ گیا تھا کیوں کہ اس  کا ضابطہ قرآن پاک اور حدیث شریف میں تھا صحابہ کرام رضی اللہ عنھم قیاس کرتے اور پھر اس کی تصدیق یا تردید نبی کریم ﷺ سے کروا لیتے تھے ۔ (فقہ اسلامی تعارف اور تاریخ پروفیسر اختر الواسع)

علمائے اصو ل کے نزدیک قیاس کی تعریف کچھ ہوں ہے  جس مسئلہ کے حکم کے متعلق کوئی نص موجود نہ ہو اس کو اس مسئلہ سے ملانا جس کے حکم کے متعلق کوئی نص موجود ہو  اور دونوں کی علت مشترک ہو۔ قیاس کہلاتا ہے (الوجیز)علت مشترک ہونے کی وجہ سے منصوص حکم غیر منصوص حکم مسئلہ پر لگانے کا طریقہ اور اصول شریعت اسلامی کا اتنا سنہری اصول ہے جس کی وجہ سے شریعت اسلامی کی عالمگیریت ثابت ہوتی ہے اور یہ ایسے لاتعداد مسائل ہیں جن پر منصوص حکم اشتراک علت کی وجہ سے لگائے گئے ہیں مثلا بھنگ، افیون ، نبیذ وغیرہ کہ خمر کی حرمت اسکے نشہ آور ہونے کی وجہ سے ہے اور یہی علت ان چیزوں میں پائی جاتی ہے اور خمر کا حکم قیاس کرتے ہوئے ان پر لگا دیا گیا۔

قیاس کے عناصر:

قیاس کے چار عناصر ہیں: اصل منصوص حکم ، مقیس، مقیس علیہ اور علت۔

اصل حکم: وہ حکم جس کے بارے میں نص موجود ہو مثلا شراب کی حرمت کا حکم منصوص ہے

مقیس: وہ مسئلہ جس کے بارے میں نص نہ ہو اور اس کو قیاس کیا جا رہا ہو۔

مقیس علیہ: وہ مسئلہ جس کے بارے میں حکم منصوص ہو اور اس پر پیش آمدہ مسئلہ کو قیاس کیا جا رہا ہو۔

شریعت کے کچھ احکام ایسے ہیں جو کہ غیر معقول المعنی ہیں یعنی جن کی علت معلوم نہیں کی جا سکتی مثلا نمازوں کی تعداد اور ان کی رکعات کی تعداد ان کی علت معلوم نہیں کی جا سکتی۔ لیکن اکثر احکام ایسے ہیں جن کی علت معلوم ہوتی ہے ان کچھ ایسے احکام ہیں جن کی علتیں خود قرآن نے بیان کر دیں مثلا کی لایکون دولۃ بین الاغنیاء منکم یعنی تاکہ دولت مالداروں کے ہاتھ میں محدود ہو کر نہ رہ جائے اسکو منصوص علت کہتے ہیں کچھ ایسے ہیں جن کہ علت پر اجماع ہو چکا ہوتا ہے مثلا بچی کی جائیداد کی ولایت کے میں اسکی علت اسکا بچپن ہے اور تیسری قسم وہ علتیں جن پر اجتہاد کی ضرورت ہوتی ہے اور ایسی علتوں کے بارے میں فقہا کا اختلاف پایا جاتا ہے امام شافعی کے شاگر امام مزنی فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کے زمانے سے آج تک قیاس چلا آرہا ہے ۔ پس قیاس کا انکار کرنا کسی کے لیے جائز نہیں ہے کیوں کہ یہ مشابہ قرار دینا اور یکسانیت پر فیصلہ کرنا ہے۔

۵۔استحسان:

ثانوی مصادر شریعہ میں پہلا اور اہم مصدر ہے استحسان پر ائمی اربعہ میں سے تین کا اتفاق ہے امام ابو حنیفہ اس کے سرخیل تصور کیے جاتے ہیں اور امام مالک اسے دس میں سے نو حصے علم شمار کرتے ہیں اور حنابلہ بھی اس سے بہت کام لیتے ہیں لیکن امام شافعی اس کی شدید مذمت کرتے ہیں اور استحسان کو شریعت سازی کہتے ہیں ۔

استحسان کا لغوی معنی ہے اچھا سمجھنا اور اصطلاح میں کسی قوی تر دلیل سے قیاسی حکم کو چھوڑ دینا استحسان کہلاتا ہے ۔اور یہ قوی دلیل کبھی نص بھی ہو سکتی ہے اجماع ، ضرورت اور مصلحت اور قوی تر مخفی قیاس بھی ہو سکتی ہے۔

اس لحاظ سے استحسان کی چار قسمیں بنتی ہیں  استحسان بالاثر، استحسان بالاجماع، استحسان بالضرورۃ اور استحسان بالقیاس الخفی۔ استحسان بالاثر سے مراد  کی نص کی وجہ سے کسی قیاسی حکم کو چھوڑ دینا مثلا بیع سلم قیاس کی رو سے یہ جائز نہیں کیوں کہ ایسی چیز جس میں نفع معلوم نہ ہو اسکی بیع جائز نہیں تو بیع سلم میں نفع معلوم نہیں ہوتا مگر حدیث میں بیع سلم کو جائز قرار دیا گیا ہے۔استحسان بالاجماع کی مثال استصناع یعنی آرڈر دے کر چیز تیار کروانا اس کی بیع بھی قیاسی رو سے جائز نہیں کیوں کہ بیع کے وقت نفع معلوم نہیں ہوتا مگر استصناع کے معاملے پر اجماع چلا آ رہا ہے تو اس اجماع کی بنیاد پر قیاسی حکم کو چھوڑ دیا ۔ اسی طرح استحسان بالضرورۃ کی مثال جیسے اگر کنواں ناپاک ہو گیا اور اس میں سے پانی نکالنے والا ڈول جب پہلے دفع پانی نکالے گا تو خود بھی ناپاک ہو جائے گا اب ایک ناپاک چیز سے پانی پاک کیونکر ہو ساکتا ہے لیکن پھر کنواں پاک ہو گا ہی نہیں تو ضرورت کے تحت ہم نے قیاسی حکم کو چھوڑ دیا اور کنویں کو پاک قرار دیا۔ اسی طرح قیاس خفی کی مثال جیسے شکاری پرندے کے جوٹھے کے پاک ہونے کا حکم قیاس خفی ہے کہ وہ اپنی چونچ سے پانی پیتا ہے جو کہ ہڈی سے بنی ہوتی ہے اور ہڈی پاک ہوتی ہے لہذا شکاری پرندے کا جوٹھا پاک ہے۔

۶۔استصلاح(مصالح مرسلہ):

یہ ایک ایسا ثانوی مصدر شریعہ ہے کہ اس کے زریعے مرور زمانہ نئے مسائل کے بارے میں شرعی حکم جاری کرنا ۔اسکا مطلب ہے خیر چاہنا بھلائی طلب کرنا اور یہ مصالح مرسلہ کے تقاضہ کے مطابق شرعی حکم متعین کرنا ہے اور مصالہ مرسلہ سے مراد ایسے مصالح ہیں جن کے اعتبار کرنے کی شرع میں کوئی دلیل نہ ہو اور نہ ہی شارع نے اس کے لغو اور غلط ہونے کے بارے میں کوئی حکم لگایا ہو  اور یہ وہ عمومی مصالح ہیں جن سے مقصود عمومی فائدہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔

مصالح مرسلہ کی مثالیں جیسے حضرت ابوبکر صدیق ؓ نے قرآن پاک کو ایک صحیفے کی شکل میں جمع کرنا اور پھر منکرین زکوۃ کے ساتھ جہاد کرنا اور حضرت عمر ؓ کا قحط کے زمانے میں چوری کی سزا نافذ نہ کرنا اور حضرت عثمان ؓ کا اہل اسلام کو قرآن پاک کے ایک قریشی لہجے پر جمع کرنا وغیرہ۔

مصالح مرسلہ کی حجیت کے لیے شرائط:

فقہا ء نے اسکی تین شرائط بیان کی ہیں تا کہ کوئی اپنی خواہش یا نفس پرستی کے لیے احکام جاری نہ کرتا پھرے ۔پہلی شرط یہ کے مصلحت حقیقی اور فی الواقع ہو کوئی موہوم نہ ہو اور اس سے فائدہ بھی یقینی ہو یا خوف کا ازالہ یقینی ہو۔ دوسری شرط یہ کہ مصلحت عمومی ہو کسی خاص آدمی یا گروہ کے لیے نہ ہو اور تیسری شرط یہ ہے کہ مصلحت کے لیے رعایت مرنے میں حکم کسی نص یا اجماع سے نہ ٹکرائے کیوں جب اجماع اور نص آ جائے تو اس پر عمل واجب ہو جاتا ہے اور استصلاح کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔

جہان شریعت کی کوئی دلیل نہ ہو وہاں مصلحت کے پیش نظر کوئی حکم جاری کرنا استصلاح کی حقیقت ہے۔ امام مالک کی طرف اسکی نسبت کی جاتی ہے کہ انہوں نے استصلاح سے بہت کام لیا ہے اور امام ابو حنیفہ جو کہ استحسان کے سرخیل مانے جاتے ہیں اس استحسان کی ایک قسم استحسان بالضرورۃ میں بھی مصالح مرسلہ کا اعتبار کیا جاتا ہے تو احناف بھی اس کے قائل ہیں امام لیکن حنابلہ اس کو مستقل مصدر ماننے کی بجائے اسکو قیاس کی ضمن میں تصور کرتے ہیں۔

۷۔عرف و عادت:

عرف و عادت ایک قانون سازی کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے شریعت اسلامی میں بھی اس کو مدنظر رکھا جاتا ہے لیکن اس کی کچھ صورتیں متعین کر دی گئی ہیں۔تا کہ ہر کوئی اپنی مرضی سے احکام مرتب نہ کرتا پھرے۔

عرف سے مراد وہ معاملات ہیں جو بار بار استعمال سے لوگوں میں معمول بن گئے ہوں عرف اچھے بھی ہوتے ہیں اور برے بھی شریعت میں اچھے عرف کا اعتبار ہو گا کیوں شریعت ہے ہی برے عرف کو ختم کرنے کے لیے لہذاجو عرف شریعت کے خلاف ہو گا اس کا اعتبار نہ کیا جائے گا۔

عرف کو حجیت ماننے کے لیے فقہاء نے شرائط بیان کی ہیں پہلی شرط یہ ہے کہ عرف عام اور غالب ہو یعنی اکثر معاملات میں اسی پر عمل کیا جاتا ہو چند افراد کا عمل عرف نہیں ہوتا دوسری شر یہ ہے کہ معاملہ کے وقت عرف پایا جاتا ہو اگر بعد میں عرف وجود میں آئے تو اسکا اعتبار نہیں کیا جائے گا ۔تیسری شر ہے کہ وہ عرف جو شریعت کی نص سے ٹکرائے اس عرف کا اعتبار نہیں کیا جائے گا۔اسکی حجیت میں ایک حدیث رسول ﷺ پیش کی جاتی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ماراہ المسلمون حسنا فھو عند اللہ حسن۔ ترجمہ یعنی جس کو مسلمان اچھا جانیں وہ اللہ کے نزدیک بھی اچھا ہوتا ہے۔

عادت کی مثالیں جیسے حیض کے دنوں کی مثال کہ اس میں عورت کی عادت پر عمل کیا جائے گا اسکی عادت جتنے دن ہو اسی کا اعتماد کیا جائے گا۔

عرف کی مثال جیسے استصناع یعنی آرڈر ما مال تیار کرانا یہ بیع قیاسی رو سے جائز نہیں لیکن اس میں عرف عام پایا جاتا ہے اس لیے اس کا اعتماد کیا جاتا ہے

اسی طرح ایک اصول فقہاء نے بیان کیا ہے کہ اگر عرف عام ہو اور نص بھی عام ہو تو عرف پر عمل کیا جائے گا اورنص میں تخصیص کی جائے گی اور  اگر عرف خاص ہو تو نص پر ہی عمل ہو گا۔

جو اجتہادی احکام عرف کی بنیاد پر دیے گئے ہوں وہ عرف تبدیل ہونے کے ساتھ تبدیل ہو جائیں گے عرف کی تبدیلی کے ساتھ قیاس کو چھوڑ دیا جائے گا مثلا ریشم کا کیڑہ اسکی بیع پہلے جائز نہیں تھی کیوں کہ یہ مال نہیں تھا لیکن اب اس کی بیع ہوتی ہے اور اسے مال تصور کیا جاتا ہے لہذا قیاس کو چھوڑ کر عرف پر عمل کیا جائے گا۔

۸۔استصحاب:

استصحاب کے معنی ہیں ساتھی بنانا اور صحبت کو برقرار رکھنا اور اصلاح میں اس سے مراد پہلے حکم یا حالت کو برقرار رکھنا جب تک کہ اس کے خلاف کوئی واضح دلیل یا ثبوت نہ آجائیں۔ یعنی دیکھا جائے گا کہ اس چیز کے بارے میں اصل حکم کیا ہے مثلا ہر کھانے پینے والی چیز میں اصل حکم مباح کا ہے (الاصل فی الاشیاء اباحہ)اصل حکم مباح ہے مگر جن کی حرمت کے بارے میں شریعت نے واضح کر دیا  وہ حرام ہوں گی۔مثلا مردار کا گوشت، گر کر مرنے والے جانور کا گوشت، سینگ سے مرنے والے جانور کا گوشت، یا جس کے ذبح کے وقت غیر اللہ کا نام لیا جائے ان اقسام کی شریعت نے تخصیص کر دی ۔

اسی طرح ہر مرد دوسری عورت پر حرام ہے اور ہر عورت دوسرے مرد حرام ہے یعنی (الاصل فی الاشیاء حرمہ)لیکن نکاح کی موجودگی میں حرمت اٹھ جاتی ہے تو نکاح کے ساتھ اس جنسی تعلق کو علیحدہ کر دیا۔

اگر ایک آدمی گم ہو جائے تو اسکی گمشدگی کاحکم نہیں لگا یا جائے گا بلکہ اسکی زندگی کا حکم ہی برقرار رہے گا جب تک دلائل سے موت ثابت نہ ہو جائے۔اسی طرح جو چیز جس کے ہاتھ میں ہو وہی اسکا مالک ہے جب تک کہ اس کے خلاف دلائل نہ آجائیں۔

شافعیہ اور حنابلہ نے استصحاب کو علی الاطلاق استعمال کیا ہےیعنی ایک آدمی اگر گم ہو جائے تو جب تک اسکی موت ثابت نہ ہو جائے اسکی جائیداد نہ تقسیم کی جائے گی اور نہ ہی اسکی بیوی اسکی زوجیت آزاد ہو گی۔لیکن احناف اور مالکیہ نے اسکو صرف دلیل دافع مانا ہے یعنی یہ ثابت حقوق کو برقرار رکھنے کا فائدہ تو دیتا ہے لیکن نئے حق کو ثابت کرنے کی دلیل نہیں بن سکتا۔

۹۔ سد ذرائع:

سد کا مطلب روکنا اور ذرائع کا مطلب زریعہ اور وسیلہ ہے یعنی ذریعے کو روکنا  ۔ ذرائع دو قسم کے ہیں ایک ذرائع جو نیک اور جائز کام کی طرف لے جاتے ہیں وہ جائز اور واجب ہوں گے اور دوسرے ذرائع جو حرام کاموں کی طرف لے کر جائیں گے وہ ذرائع بھی حرام ہوں گے۔ مثلا جمعہ کی نماز کے وقت خرید و فروخت سے منع کیا گیا کیوں کہ اس وقت خرید و فروخت جمعہ سے غافل کرتی ہے لہذا اس سے منع کر دیا گیا کیوں بیع اس وقت برائی کا ذریعہ بن رہی تھی۔ اسی طرح غیر محرم عورت کے ساتھ تنہائی میں رہنا حرام ہے کیوں کہ یہ زنا کی طرف لے جانے والا ذریعہ ہے جو کہ حرام ہے لہذا یہ زریعہ بھی حرام ہوا۔ اسی طرح قرض دینے والے کو مقروض کا ہدیہ قبول کرنے سے منع کی گیا تاکہ اس سے قرض سے نفع حاصل کرنے کا رجحان پیدا نہ ہو۔

سد ذرائع کی اقسام:

پہلی قسم وہ ذرائع جن کے نتیجے میں فساد یقینی ہو ایسے ذرائع حرام ہوں گے جیسے گھر کے دروازے کے سامنے اندھیرے راستے میں گڑھا کھودنا کہ اس سے گرنا یقینی ہے۔دوسری قسم یہ کہ وہ ذرائع جن سے فساد بہت شاذ ہو ان کا کرنا ممنوع نہیں ہے جیسے انگور کاشت کرنا کہ اس سے شراب کی تیاری میں اسی متعین انگور کا استعمال شاذو نادر ہی ہے۔ تیسری قسم یہ کہ جن سے فساد کا پیدا ہونا ظن غالب ہو جیسے جنگ کے وقت دشمن کو اسلحہ فروخت کرنا اور شراب بنانے والے کو انگور فروخت کرنا یہ بھی ممنوع ہے چوتھی قسم یہ کہ جن سے فساد کا پیدا ہونا اکثر و بیشتر پیش آتا ہو البتہ ظن غالب نہ ہو جیسے خرید و فروخت ہو طریقے جو سود کی طرف لے جاتے ہوں امام شافعی اور اما م ابو حنیفہ کے نزدیک یہ جائز ہے کیوں کہ اعتبار ظن غالب کا ہوتاہے لیکن یہاں ظن غالب نہیں ہے لیکن امام مالک اور امام احمد نے اکثر کا اعتبار کرتے ہوئے ممنوع قرار دیا ہے۔

۱۰۔    ماقبل شرائع:

اسلام میں کسی چیز کی وضاحت اور حکم نہ ہو تو اسلام سے پہلے مذایب عیسائیت اور یہودیت وغیرہ میں اس حکم کو تلاش کریں گے تو ان کا دیکھنا شرائع ما قبل کہلاتا ہے اور پچھلی شریعت میں صرف وہی احکام زیر بحث ہوں گے جو اسلامی شرعی مصادر یعنی قرآن اور حدیث میں موجود ہوں غیر اسلامی مصادر سے ملنے والے احکام معتبر نہیں ہیں۔

یہ احکام تین طرح کے ہیں  پہلی قسم وہ احکام ہیں جو صرف پچھلی امتوں کے ساتھ خاص ہیں اور شارع نے وضاحت کر دی کہ یہ ان کے ساتھ خاص ہیں مثلا گائے اور بکری کی چربی کی حرمت  یہودیوں کے ساتھ تھی اور اسی طرح ناپاک کپڑے کا کاٹنا ان کے ساتھ خاص تھا ہمارے لیے نہیں ہے۔ دوسری قسم کے وہ احکام جو پہلوں پر بھی لازم تھے اور ہم پر بھی مثلا کتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم روزے پہلوں پر بھی فرض تھے اور ہم پر بھی۔ تیسری قسم کے وہ احکام ہیں جو پچھلی قوموں کے لیے تو لازم تھے مگر ہمارے لیے ہیں یا نہیں اس کی وضاحت نہیں کی ۔ تو تیسری قسم کے احکام جمہور احناف کے نزدیک اور بعض شافعیہ اور مالکیہ کے نزدیک لازم ہیں مگر دیگر فقہاء نے ان کو مسلمانوں پر لازم نہیں سمجھا ۔

شیخ ابو زہرہ کا خیال ہے کہ  اس تیسری قسم میں اختلاف صرف لفظی اور غیر حقیقی ہے کیوں کہ جہاں بھی پچھلی شریعت کا حکم ہے وہاں کوئی نہ کوئی اشارہ موجود ہوتا ہے جس سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہ حکم اب ہم پر لازام ہے یا نہیں ۔۔

۱۱۔    قول صحابی:

قول صحابی سے مراد کسی صحابی کا قول ہے کیوں کہ صحابہ کرام نے قرآن کو نازل ہوتے دیکھا تھا وہ احکام کے مزاج اور مقاصد سے بدرجہ اتم  آشنا تھے اور صحابہ شارع اسلام کے شاگرد تھے جو تربیت اور صحبت انہیں میسر تھی اس کا تقاضا ہے کہ ان کے اقوال پر عمل کیا جائے۔

فقہاء نے اس کی وضاحت کی اور اصول مرتب کیا کہ اگر مسئلہ قیاسی ہے تو اس پر عمل نہ ہو گا اس کے علاوہ صحابی کے قول پر عمل لازم آئے گا۔

یا ایسے اقوال کہ جن کے خلاف کسی دوسرے صحابی کا قول نہ ہو تو وہ اجماع کا درجہ رکھنے کی وجہ سے لازم العمل ہو گا۔

ایسے اقوال کہ جن میں صحابی کرام کا اختلاف پایا جاتا ہو تو اس کے بارے میں ائمہ کے درمیان اختلاف پایا جاتا ہے امام شافعی اس کو حجت تسلیم نہیں کرتے امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں میں مختلف فیہ احکام میں سے جس صحابی کے قول کو چاہوں تسلیم کر لوں جسے چاہوں چھوڑ دوں۔امام مالک اور امام احمد بھی قول صحابی کی حجیت کے قائل ہیں ۔

 

نوٹ: ان نوٹس کی ترتیب میں جن کتابوں سے استفادہ کیا گیا ہے درج ذیل ہیں:

۱: ڈاکٹر ظہور اللہ الازہری  صاحب کے کلاس میں دئیے گئے لیکچرز۔

۲: سید عبد الکریم زیدان، الوجیز فی اصول الفقہ

۳: پروفیسر اختر الواسع، فقہ اسلامی تعارف اور تاریخ

۴: ڈاکٹر صبحی محمصانی، فلسفہ شریعت اسلام

۵: بدرالدین الزرکشی، المنثور فی القواعد

Share:

2 comments:

  1. ماشاءاللہ ❤️ میں نے بھی ایم فل میں ایک اسائنمنٹ اس پر بنائی تھی

    ReplyDelete
  2. Earn Money by Investing our capital... 7% monthly ...
    click bellow to read in all

    https://www.thenationalduty.com/2020/10/online-earning-real-money-ii-easy-ways.html

    ReplyDelete

Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Online People

Blog Archive

Blog Archive