ایک
اتوار میں ایم فل اسلامک سٹڈیز لاہور یونیورسٹی میں کلاس پڑھ رہا تھا کہ ہمارے
استاد محترم اپنا ایک واقعہ بیان کر رہے تھے جو کہ ان کے برطانیہ میں قیا م کے
دوران پیش آیا اس طرح کہ فرماتے ہیں میں سکالر شپ پر برطانیہ پڑھنے کے لیے گیا
اور میری فیملی میرے ساتھ تھی اور اخراجات میرے پاس کم تھے کہ اچانک ایک دن مجھے ایک گورنمنٹ کی طرف سے چیک ملا جس میں اتنی رقم تھی کہ میں
آسانی سے ایک مہینہ تک اپنی فیملی کو کھلا پلا سکتا تھا فرمانے لگے میں وہ چیک لے
کر مطلوبہ دفتر گیا جہاں سےچیک بھیجا گیا تھا اور میں نے کہا کہ شاید آپ سے غلطی ہوئی
میں تو اس ملک کا رہائشی نہیں ہوں اور سکالر شپ پر پڑھنے کے لیے آیا ہوں تو انہوں
نے جواب دیا جو بھی ہو آپ ہمارے ملک میں ہیں اور آپ کے اخراجات کا خیال رکھنا
ہماری ذمہ داری ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں یہ واقعہ سن رہا تھا اور اپنی قوم کی حالت زار
پر شرمندگی کے آنسو بہا رہا تھا بس اس کے
سوا کر بھی کیا سکتا تھا۔جب بھی اپنی قوم ِمسلم کی حالت زار کو پڑھتا یا سنتا تو
دل خون کے آنسو روتا تھا اور دماغ سوچتا
رہتا تھا کہ کیا کیا جائے کہ یہ قافلہ جو اپنی منزل کی طرف بڑھتے بڑھتے اچانک اپنی
منزل کھو بیٹھا ہے اپنی ڈگر پر آ جائے
اور وہی شان و شوکت اور قیادت ِ عالم کے لائق ٹھہرے ۔وہ کون سا طریقہ ہے کہ جس کے
ذریعے اس بھٹکے ہوئے راہی کو منزل ملے بالآخر یہ ہلکی سی کوشش کرنے جا رہا ہوں کہ
یہ قلم اورعلم کا رستہ بہت ہی عمدہ ہے کہ جس کے اثرات رہتی دنیا تک رہتے ہیں ۔
آج
ہم مغرب کو دیکھیں تو ہماری آنکھیں چندھیا جاتی ہیں عقل دنک رہ جاتی اور ہوش گم
ہونے لگتے ہیں اور پھر حیرت کی انتہا ہو جاتی ہے جب سنتے ہیں کہ اہل مغرب نے انسان
تو کیا جانور کے علاج معالجے اور انہیں ان کے حقوق دینے میں کوئی کسر اٹھا نہیں
چھوڑی اور انسان کی قدر اس قدر کہ نہ سننے پر یقین نہ دیکھنے پر یقین آتا ہے یہ
الگ بات ہے کہ اہل مغرب وہ حقوق اور اقدار صرف اپنے لوگوں تک محدود رکھتے ہیں اور
دوسروں سے جانوروں سا سلوک روابھی نہیں
رکھتے اتنا تو ضرور ہے کہ وہ اپنے لوگوں
کے ساتھ ایسا سلوک کرتے ہیں جس کی مثال کہیں نہیں ملتی۔
یہ
مغرب جو آج انسانیت اور تہذیب و تمدن کا ٹھیکیدار بنا پھرتا ہے آج سے چند سو سال
پہلے کی بات ہے جب انہیں چلنے پھرنے کا ڈھنگ نہیں آتا تھا جانوروں سے بدتر حالات
تھے اہل مغرب کے یہ ترقی یہ روشنی یہ علم
کی دولت ان سے کوسوں دور تھے پھر ایسا کون سا معجزہ ہوا کہ یہ لوگ تھوڑے عرصے میں
دانش و عقل کے علمبردار بن گئے اپنے تحقیق کی دنیا میں اوج ثریا تک پہنچ گئے ایسا
کیا ہوا؟
آج میری
قوم ہر کام میں مغرب کی تقلید کو اپنے لیے باعث فخر سمجھتی ہے میرے بچے سے لے کر
جوان ، اور جوان سےبوڑھے تک ہر فرد کی ذات اہل مغرب کا رنگ وروپ ظاہر کرتی ہے ۔امیر
سے غریب اور ایک گلی سے اسمبلی حال تک مغرب کی جھلک نظر آتی ہے ایسا کیوں ہے؟ آج
اگر ہم اپنے لباس کو دیکھیں اپنے انداز گفتگو کو دیکھیں انداز معیشت سے لے کر
انداز معاشرت تک ہمارے ہر روپ میں مغرب جلوہ گر ہے ۔ایسا کیوں ہے؟
اب ہلکی
سی جھلک اہل مغرب کے ماضی کی ایک وقت تھا جب لوگ زندگی گزارتے تھے جانورو ں کا سا
چلنا پھرنا تھا انسانیت کا نام و نشان نہ
تھا ظلم و ستم کا دور دورہ تھا تاریکیوں کا راج تھا وحشت اور بربریت کا عالم یہ
تھا کہ انسانوں کا گوشت دکانوں پر بکتا تھا
جینے کا حق صرف اسی کو تھا جو طاقتور ہوتا غریب صرف مرنے کے لیے جنم لیتا ۔
عورت کی عزت و عصمت کا حال ہی بیان
سے باہر ہے ۔
اب ایک
جھلک مسلمانوں کے ماضی سے بھی ہو جائے
۔اہل اسلام کا ما ضی اتنا پروقار اور شان
و شوکت والا ہے کہ خو د مغربی مفکریں کہتے ہیں کہ مغرب میں جو علم کی روشنی آئی
ہے ہسپانیہ اور اندلس کے رستے آئی ہے تو
جناب اہل اسلام کا ماضی تو یہ ہے ہزاروں میل ایک عورت رات کے اندھیرے میں تنہا سفر
کرتی تو اسے کسی کا خوف نہ ہوتا تھا ۔ ایک بادشاہ خود بنا کسی سکیورٹی سے رات کو
نکلتا اور اپنی عوام کی خبر گیری کرنے کے لیے ساری ساری رات گلیوں میں چکر لگاتا
رہتا اور غلام کو سواری پر بیٹھاتا اور
خود سواری کی نکیل پکڑ کر آگے آگے چلتا ۔علمی
حوالے سے اہل سلام دنیا میں ایک سپر پاور تھے ایک وقت تھا جب ایک مسلم حکمران نے
ایک ہمسائے عیسائی حکمران کو تحفے میں ایک ہاتھی اور پنڈولیم گھڑی بھیجی تو اس کے
ہوش اڑ گئے اور کیا کیا بتاؤں یہ ہے اہل
اسلام کا ماضی۔۔
ایسا اب کیوں ہوا کہ ہمارا ماضی اور اہل مغرب کا حال ایک سا ہے اور ان کا
ماضی اور ہمارا حال ایک سا ہے ایسا کیوں ہوا ؟
میرے اس
مقالے میں آپ نے پڑھا ہو گا کہ میں نے سوال بہت چھوڑے ہیں تو جناب ان سب سوالوں
کا جواب کوئی مشکل نہیں ہے اہل مغرب نے ہمارےماضی کو لیا اور ترقی کر گئے اور ہم
نے ان کے ماضی کو لیا اور ضلالت اور گمراہی کی دلدل میں جا گرے ہم نے اپنی اقدار
کو پس پشت ڈال دیا اپنی تہذیب جو کہ الہامی تھی جو قدرت نے عطا کی تھی جو اس
کائنات کے خالق نے دی تھی وہ علم جو اس
کائنات کی تسخیر کے لیے تھا ۔اس تہذیب ان اقدار اوراس علم سے ہم نے اپنے آپ کو
جدا کیا تو یہ حال ہو گیا کہ اپنے گھر میں اب ہم اپنے نہیں اپنے لباس میں ہم اپنے
نہیں یہ جسم اور جان ہماری ہے لیکن اس کے مالک اب ہم نہیں ۔
ضرورت اس
بات کی ہے کہ اس راہی کو اپنی منزل پانے کے لیے اپنی اقدار کو اپنانا ہو گا اپنے
تہذیب وتمدن کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانا ہو گا
تو آئیے اپنی زندگی کو اسلام کا رنگ دیں اپنے ماحول کو وہ تہذیب سکھائیں
جس نے پوری دنیا کو روشن و منور کیا ۔ انشاء اللہ اس مضمون کو آگے بڑھایا جائے گا
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You