اسلامی معاشرے کی بالا دستی:
ارشاد باری
تعالی ہے!
ھو الذی ارسل رسولہ
بالھدی و دین الحق لیظھر ہ علی الدین کلہ (سورة الفتح . آیت28)
ترجمہ: وہ اللہ ایسا
ہے کہ جس نے اپنے رسول ﷺ کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا۔ تا کہ اس کو تمام
دینوں پر غالب کر دے۔
اس آیہ کریمہ میں حضور نبی کریم ﷺ کو
مبعوث کرنے کا مقصد بیان کرتے ہوئے خدا تعالی نے فرمایا کہ ہم نے آپ ﷺ کو ہدایت
اور دین حق دے کر اس لیے بھیجا کہ وہ اس دین کو دوسرے تمام ادیان پر غالب کر دیں۔
یہاں دو باتیں سامنے آئیں۔ ایک تو حضور ﷺ کے بھیجنے کا مقصد اور دوسرا جو آپ
اپنے ساتھ لے کر تشریف لائے۔ دین حق کے دوسرے تما م ادیان پر غلبہ کو ہم دوسرے
الفاظ میں معیاری دین بھی کہ سکتے ہیں ۔ اور وہ چیز جو خدا تعالی نے حضور ﷺ کو دے
کر بھیجا اسے ‘‘معمول بہ دین’’(مروجہ دین) سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
‘‘معمول بہ دین’’کے تین شعبے ہیں۔
پہلا عقائد پر مشتمل ہے ۔ جسے مسلک بھی کہا جا سکتا ہے ۔ یعنی ایک شخص جو دائرہ
اسلام میں داخل ہوتا ہے اس کے نظریات اور عقائد کیا ہونے چاہئیں۔ اس کے بعد اعمال
کی باری آتی ہے ۔ جس کے لیے فقہ اور
شریعت موجود ہے ۔ فقہ اور شریعت ہماری عملی زندگی کا پیدائش سے لے کر مرنے تک
احاطہ کرتے ہیں۔ لیکن شریعت کے تمام احکامات کا تعلق ہماری ظاہری زندگی سے ہے،
چونکہ انسان مادی اور غیر مادی دونوں چیزوں کا مرکب ہے جسے ہم جسم اور روح سے تعبیر کرتے ہیں ۔لہذا
ضروری ہے کہ وہ تمام اعمال جو ہماری ظاہری زندگی سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کو
اپنی روح پر بھی نافذ کیا جائے اور اسکا اثر جسم کے ساتھ ساتھ روح بھی محسوس
کرے ۔ مثال کے طور پر اگر انسان اصولوں کے مطابق نماز کو اس کی مخصوص شکل میں ادا کرتا ہے تو اس کے لیے یہ بھی
ضروری ہے کہ جب وہ سر کو کعبہ کی طرف رخ کر کے جھکا دیتا ہے تو اس کا دل بھی رب
کعبہ کے حضور جھکا ہونا چاہیے۔ یہ بات ہمیں فقہ میں نہیں ملتی اوور نہ ہی فقہ اس
چیز کے لیے پابندی کرتی ہے۔ لیکن قرآن پاک ہمیں اس چیز کا بھی حکم دے رہا ہے۔
وا ستعینوا بالصبر والصلوۃ وانھا لکبیرۃ الا علی الخاشعین۔(سورة
البقرة . آیت45)
ترجمہ: مدد لو صبر
اور نماز سے اور بیشک وہ دشوار ہے مگر جن کے دل میں خشوع ہے ان پر کچھ دشوار نہیں۔
اور پھر حدیث مبارک ہے۔‘‘لاصلوۃ الا
الخشوع’’ ( خشوع کے بغیر نماز مکمل نہیں ) ۔ لہذا ظاہری اعمال کو اپنے باطن پر بھی
نافذ کر دینا دین کا تیسرا شعبہ ہےجسے تصوف یا طریقت کہتے ہیں۔
مذکورہ بالا تینوں شعبے آپس میں ایک
دوسرے کے ساتھ ایسے مربوط ہیں کہ ان میں سے اگر ایک بھی موجود نہ ہو تو دین مکمل
نہیں رہتا۔ جب تک عقائد درست نہیں ہوں گے تو اعمال صالحہ کی کوئی حیثیت نہیں ۔ اس
لیےتو قرآن پاک میں اعمال صالحہ کی تلقین کرنے سے قبل ایمان لانے کا حکم دیا گیا
ہے ۔ اگر اعمال صالحہ اپنی صحیح شکل میں شریعت و فقہ میں موجود ہیں ۔ لیکن انسان
کا باطن ان اعمال کا اثر اپنے اوپر محسوس نہیں کرتا اور اس سے لا تعلق رہتا ہے تو
یہ اعمال محض ایک کاروائی کی صورت رکھتے ہیں۔ یہ تین شعبے‘‘معمول بہ دین’’سے متعلق
ہیں جو حضور ﷺ کو دے کر اس دنیا میں بھیجا گیا ہے۔
جہاں تک معیاری دین کا تعلق ہے جس کی
خاطر اللہ تعالی نے حضور نبی کریم ﷺ کو مبعوژ فرمایا وہ ایک ایسے معاشرے کی ضمانت
دیتا ہے جہاں دین کے تمام شعبوں کو عملی طور پر نافذ کیا جا سکتا ہےلیکن جب وہ
ماحول ہی موجود نہ ہو جس میں دین حق کے یہ شعبے کام کرتے ہیں تو پھر اس کا عملی
نفاذ کما حقہ ممکن نہیں رہتا اور اگر کسی طور پر یہ موجود بھی ہو تو اس میں وہ قوت
نہیں ہوتی جو اصولی طور پر ہونی چاہیے تھی۔ گویا یوں سمجھ لیجیے کہ اس کی حقیقت
ایک بے جان جسم کی سی ہوتی ہے۔
حضور نبی کریم ﷺ کا دور معیاری دین کا
ایک بہترین اور مثالی نمونہ پیش کرتا ہے ۔ اس کے بعد خلافت راشدہ کے دور میں اگرچہ
بعض فتنوں نے سر اٹھایا تاہم وہ دور بھی ایک مثالی دور رہا۔ افسوس وہ دور زیادہ
دیر تک نہ رہ سکا ۔ اس کے بعد اسلامی مملکتیں وجود میں آئیں ان سب میں بحیثیت مجموعی
وہ ماحول قائم رہا جو ‘‘معمول بہ دین’’ کے
لیے ضروری تھا۔ اس سے ایک اسلامی معاشرہ کی بالا دستی قائم رہی۔ یہی وجہ ہے کہ اس
پورے عرصے میں علمائے دین کا کام محض چند مذہبی رسوم کی ادائیگی تک محدود رہا ،
بلکہ وہ مسلک کو صحیح معنوں میں لوگوں کے ذہنوں تک پہنچا سکتے تھے اور ان کا طرز
تعلیم انتہائی مؤثر تھا اور پھر چونکہ بالادستی اسلامی معاشرے کی تھی لہاذا
معاشرے کے سر کردہ اور ذہین افراد اس طرف رجوع کرتے تھے اور یہ چیز شریعت اور فقہ
کے عملی نفاذ میں ممد و معاون تھی۔
اس کے ساتھ ساتھ ٖوفیائے کرام تصوف کے
میدان میں بڑے سکون اور اطمینان سے اپنے کام میں مصروف تھے۔ ان کو نہ تو معاشی
مسائل پریشان کرتے تھے اور نہ ہی حکومت وقت ان کے کامون میں مداخلت کرتی تھی ۔
بلکہ بعض اوقات حکومت کی طرف سے ان کی خدمت میں جاگیریں بھی پیش کی جاتی تھیں جن
سے ہزاروں ضرورت مندوں کی کفالت ہوتی تھی اور یہ لوگ کسی قسم کے خوف ڈر لالچ یا
دباؤ کے بغیر لوگوں کی صحیح انداز میں تربیت کرتے تھے۔اور پھر ان کے تربیت یافتہ
لوگ مزید نئے جاش و جذبے سے روحانی تربیت کا یہ سلسلہ جاری رکھتے رہے۔ ان لوگوں کے
اصول و ضوابط اتنے بلند اور مستحکم ہوتے تھے کہ کوئی غلط قسم کی حکومت انہیں اپنے
اصولوں سے انحراف پر مجبور نہیں کر سکتی تھی بلکہ ایسا کرنے والی حکومت خود یا تو
ختم ہو جاتی یا پھر اس کا رخ صحیح راستے پر موڑ دیا جاتا اور یوں یہ دونوں طبقے ایک اسلامی معاشرہ قائم
رکھنے میں ایک دوسرے کے مدد گار ہوتے۔ یہاں ایک سوال یہ بھی کیا جاتا ہے کہ مختلف
شعبوں کی قیادت مختلف ہاتھوں میں کیوں آئی جبکہ حضور اکرم ﷺ کے دور میں یہ تمام
تر قیادت صرف اور صرف حضور ﷺ ہی کے پاس تھی۔ دوسرے الفاظ میں ایک ہی ذات ان سب
شعبوں پر حاوی تھی ۔ یہ سوال خود ہی اپنا جواب پیش کرتا ہے کہ نبی ﷺ اور رسول ﷺ کی
ذات اقدس میں وہ تمام تر خوبیاں اور صلاحیتیں موجود تھیں جو کسی بھی امتی میں یکجا
ہونی ممکن نہیں ۔ اور پھر حضور سرور دو عالم ﷺ نے اپنے دور ہی میں ایسے افراد کی
تربیت فرمائی تھی کہ جن کا کام ہی خدا تعالی کا ذکر رکنا اور اس کی تعلیم دینا تھا
ان کی کفالت آپ ﷺ خود فرماتے تھے۔ اور ان لوگوں کو اصحاب صفہ کے نام سے یاد کیا
جاتا تھا۔ آج سے دو صدیاں قبل اسلامی
مملکتوں میں یورپی غیر مسلم اقوام کا عمل دخل مشنری اداروں کی صورت میں شروع ہوا
ان اداروں کی طرف سے جو مشنری جماعتیں مختلف اسلامی ملکوں میں بھیجی جاتیں ان میں
عیسائی مبلغین کے ہمراہ ڈاکٹروں کی ٹیمیں بھی شریک ہوتیں آہستہ آہستہ یہ ادارے
عوام میں اپنا اثر و رسوخ بڑھاتے رہے۔ حتی کہ بعض حکومتیں ان کے رویے سے متاثر
ہوئیں اور ان کو سرکاری مراعات بھی ملنے لگیں۔ برصغیر پاک و ہند کی تاریخ میں بھی
ایک ایسے واقعے کا پتہ چلتا ہے کہ جب مغل فرمانروا شاہ جہاں نے ان کو چند ساحلی
تجارتی مراکز تعمیر کرنے کی اجازت دے دی۔ جب انہوں نے اپنے قدم جمتے محسوس کیے تو
پھر طاقت کو استعمال میں لا کر حکومت پر
بھی قابض ہو گئے۔
ایک طرف تمام بیرونی فتنوں نے زور
پکڑا دوسری طرف اندرونی طور پر تبدیلیاں آنے لگیں ۔ جن میں بڑی حد تک یہی لوگ
ملوث تھے جو لوگوں کو اسلامی اخلاقی اقدار چھوڑنے پر راغب کرتے تھے نتیجہ یہ نکلا
کہ عوام اخلاقی پستی کا شکار ہوئی۔ علما ء و مشائخ خریدے جانے لگے اور حکمران
سرحدوں سے بے خبر ہو کر طاؤس و رباب میں کھو گئے۔ رفتہ رفتہ اسلام دشمن طاقتوں نے
زور پکڑا کہین بزور شمشیر اقتدار پر قبضہ کر لیا اور کہیں کٹھ پتلی حکومتوں کی پشت
پناہی کی جو ان کے اشاروں پر چلتی تھیں اور یوں اسلامی معاشرے کی بالادستی ختم
ہوتی چلی گئی ۔
بعد ازاں اسلامی ممالک میں اس وقت سے
لے کر آج تک مختلف تنظیمیں جماعتیں اور تحریکیں وجود میں آئیں ان میں سے چند
ایسی بھی تھیں جنہوں نے مثبت انداز میں کام کیا لیکن ان کا کام کسی خاص مقصد اور
موقع کی مناسبت سے تھا لہذا اس کے دیر پا
اثرات معاشرے پر قائم نہ ہو سکے اور مقصد کے حصول کے بعد یہ زوال پزیر ہو گئیں آج
کے دور میں جتنی بھی تنظمیں عوام کے لے کام کر رہی ہیں اپنی تمام تر کوششوں اور
جدو جہد کے باوجود ان کی کارکردگی انتہائی محدود ہے ۔ حکومتوں کے سربراہ ضرور ہیں
مگر محض اپنے لیے۔ دینی مدارس کام کر رہے ہیں لیکن ان کی کارکردگی گردو پیش کے
حالات سے قطع نظر روایتی اور رسمی ہے۔ اس میں عوام کی دل چسپی کا یہ عالم ہے کہ جس
فرد کے بارے میں یہ طے کر لیا جاتا ہے کہ وہ دنیا کا کوئی اور کام کرنے کےئ قابل
نہیں اسے دینی مدرسے میں طالب علم کی حیثیت سے داخل کروا دیا جاتا ہے اور چونکہ ان
مدارس کا کوئی باقاعدہ ذریعہ آمدنی نہیں ہوتا لہذا ان طالب علموں کی دیگر ذمہ
داریوں کے ساتھ ایک ذمہ داری یہ بھی ہوتی ہے کہ وہ روٹی کی جستجو میں محلے کے ہر
گھر کا دروازاہ کھٹکھٹائیں اور یوں نہ صرف وقت کا ضیا ع ہوتا بلکہ ابتدا ہی سے
انہیں مانگ کر کھانے کی عادت ڈال دی جاتی ہے۔ بھلا ایسی صورت میں ہم معیاری علماء
کی توقع کیسے کر سکتے ہیں ۔
جہاں تک خانقاہی نظام کا تعلق ہے تو
وہ بھی معاشرے کی اخلاقی پستی کا شکار ہوئے بغیر نہیں رہ سکا اس کا ڈھانچہ تو کسی
حد تک موجود ہے وہ کردار جو اسے ایک اسلامی معاشرے میں ادا کرنا تھا ناپید ہے اور
بقول اقبال:
زاغوں کے تصرف میں ہے عقابوں کا نشیمن
وہی ادارے جو کبھی
اسلام کی عظمت کے علمبردار تھے جہاں انسانیت کے دکھوں کا مداوا ہوتا تھا جن کا نام
سن کر بڑے بڑے حکمران لرزتے تھے سلطنتیں جن کے خوف سے لرزا بر اندام تھیں آج انہیں کے جانشین کہیں تو عوام کے نزرانوں پر
تکیہ کیے ہوئے ہیں اور کہیں دنیا کے حکمرانوں کی خوشنودی حاصل کرنے میں مصروف ہیں۔
غرضیکہ جتنا بھی اسلام کے نام پر کیا
جا رہا ہے وہ کم و بیش تمام کا تمام بے اثر ہے اگرچہ اس میں تما متر وسائل بروئے
کار لائے جا رہے ہیں اور پوری کوششیں صرف کی جا رہی ہیں لیکن کما حقہ نتائج برآمد نہیں ہوتے ۔ اس کی
وجہ یہ ہے کہ جس ماحول میں یہ سب کچھ ہوتا تھا سرے سے وہ ماحول اور وہ فضا ہی میسر
نہیں ہے اگر کسی شخص کے دکھوں میں ہم اس کے شریک نہیں ہوتے اور اس کے مسائل کے حل
کے لیے کچھ نہیں کرتے تو یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم اس کو جو بات کہیں اس کو من و عن
اسے تسلیم کر لے۔ کسی پر اپنا عقیدہ یا اپنے نظریات اسکی مرضی کے بغیر کیسے ٹھونسے
جا سکتے ہییں اگر ہم کسی شخص سے ہمنوائی کی توقع رکھ سکتے ہیں تو یقیناً اسے بھی
ہم سے کچھ توقعات وابسطہ ہو ں گی۔ اب اگر موجودہ دور کی مختلف تنظیموں اور تحریکوں
پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہو گا کہ ان میں سے بیشتر کی توجہ اور کوششیں معمول بہ دین (مروجہ دین)
پر مرتکز ہیں ۔ کوئی مسلک کے نام پر کام
کر رہا ہے کسی کی توجہ کا مرکز فقہ و شریعت ہے اور کوئی پیری مریدی ہی کو ذریعہ
نجات خیال کیے ہوئے ہے۔ اور چونکہ یہ معاشرے پر بالا دستی حقیقی اسلام کی نہیں
لہذا ان تمام تر کوششوں کا کوئی مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوتا۔ ضرورت اس بات کی ہے
کہ اپنی اصلاح کے بعد تمام برائیوں سے پاک ایسے معاشرے کے لیے جدو جہد کی جائے
جہاں انسان کو پر امن اور آزاد انہ زندگی گزارنے کی ضمانت میسر ہو۔اگر ہم لوگوں
کے مسائل حل کرتے ہوئے ایک ایسا معاشرہ قائم کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ تو
یقیناً یہ ہماری عظیم کامیابی ہو گی اور چونکہ ہمارا ایک نصب العین ہے اور ہمارے
سامنے ایک واضح مقصد ہے لہذا ہماری کامیابی کا مطلب اس نصب العین کا حصول ہو گا
اور وہ نصب العین دین کا غلبہ ہے ۔ یہ کام کس طرح کیا جا سکتا ہے اس کے لیے ہمیں
گہری سوچ و بچار کے بعدایک لائحہ عمل تیار کرنا ہو گا۔
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You