مسلم معاشروں میں الحاد کا فروغ
پندرہویں اور سولہویں صدی میں اہل یورپ اپنے ممالک سے نکل کر مشرق و
مغرب میں پھیلنا شروع ہوئے۔ انیسویں صدی کے آخر تک وہ دنیا کے بڑے حصے پر
اپنی حکومت قائم کرچکے تھے۔ ان کی نوآبادیات میں مسلم ممالک کی اکثریت بھی
شامل تھی۔ اہل یورپ نے ان ممالک پر صرف اپنا سیاسی اقتدار ہی قائم نہیں کیا
،بلکہ ان میں اپنے الحادی نظریات کو بھی فروغ دیا۔ مغربی ملحدین نے
عیسائیت کی طرح اسلام کی اساسات پر بھی حملہ کیا۔ مسلم ممالک میں ان کے
نظریات کے جواب میں چار طرح کے رد عمل سامنے آئے:
۱۔ مغربی الحاد کی پیروی
۲۔ مغرب کو مکمل طور پر رد کر دینا
۳۔مغرب کی پیروی میں اسلام میں تبدیلیاں کرنا
۴۔مغرب کے مثبت پہلو کو لے کر اسے اسلامی سانچے میں ڈھالنا
پہلا رد عمل مسلمانوں کی اشرافیہ (Elite) کا تھا۔ ان کی اکثریت نے اہل مغرب اور ان کے الحاد کو کلی یا جزوی طور پر قبول کرلیا۔اگرچہ اپنے نام اور بنیادی عقائد کی حد تک وہ مسلمان ہی تھے ،لیکن اپنی اجتماعی زندگی میں وہ الحاد اور لادینیت کا نمونہ تھے۔ بیسویں صدی کے وسط میں آزادی کے بعد بھی ان کی یہ روش برقرار رہی۔ ان میں سے بعض تو اسلام کی تعلیمات کے کھلم کھلا مخالف تھے جن میں ترکی کے مصطفیٰ کمال پاشا، ایران کے رضا شاہ پہلوی، تیونس کے حبیب بورغبیہ اور پاکستان کے جنرل یحییٰ خان شامل ہیں۔ مسلم حکمرانوں کی اکثریت نے اگرچہ اسلام کا کھلم کھلا انکار نہیں کیا، لیکن وہ عملی طور پر الحاد ہی سے وابستہ رہے۔ چونکہ مسلم عوام کی اکثریت کا سیاسی و معاشی مفاد انھی کی پیروی میں تھا، اس لیے عوام الناس میں الحاد پھیلتا چلا گیا۔ اس کی تفصیل ہم آگے بیان کریں گے۔
دوسرا رد عمل روایتی مسلم علماکا تھا۔ انھوں نے اہل مغرب کے نظریات کو یک سر مسترد کردیا۔ انھوں نے مغربی زبانوں کی تعلیم، مغربی علوم کے حصول، مغربی لباس کے پہننے اور اہل مغرب کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلق کو حرام قرار دیا۔انھوں نے اپنے مدارس کے ماحول کو قرون وسطیٰ کے ماحول میں ڈھالنے کی کوشش کی۔ انھوں نے دور جدید میں کسی مسئلے پر اجتہادی انداز میں سوچنے کے بجائے قدیم ائمہ کی حرف بہ حرف تقلید پر زور دیا۔ برصغیرمیں اس نقطۂ نظر کو ماننے والے بڑے بڑے علما میں قاسم نانوتوی، محمود الحسن اور احمد رضا خان بریلوی شامل تھے ،جن کے نقطۂ نظر کو پورے ہندوستان کے دینی مدارس نے قبول کیا۔ اگرچہ ان علما میں کچھ مسلکی اور فقہی اختلافات موجود تھے، لیکن مغرب کے بارے میں ان کا نقطۂ نظر بالکل یکساں تھا۔ اگرچہ ان میں سے بعض مغربی زبانیں سیکھنے اور مغربی علوم کے حصول کے مخالف نہ تھے ،لیکن عملاً ان کا رویہ اس سے دوری ہی کا رہا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ معاشرے میں ان کا اثر و نفوذکم سے کم تر ہوتا چلا گیا اور ان کے نقطۂ نظر کو ماضی کی چیز سمجھ لیا گیا۔ جدید تعلیم یافتہ طبقہ ان سے بے زار ہونے لگا اور آہستہ آہستہ یا تو پہلے نقطۂ نظرکو قبول کرکے الحاد کی طرف چلا گیا یا پھر اس نے تیسرے اور چوتھے نقطۂ نظر کو قبول کیا۔ معاشرے میں ان کا کردار یہی رہ گیا کہ وہ مسجد میں نماز پڑھا دیں، کسی کے گھر میں ختم قرآن کردیں یا پھر نکاح، بچے کی پیدایش اور جنازے کے وقت چند رسومات ادا کردیں۔ عملی زندگی میں ان کے کردار کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جمعہ کی نماز کے وقت لوگ اپنے گھروں میں بیٹھے یہ انتظار کر رہے ہوتے ہیں کہ کب مولوی صاحب وعظ ختم کریں اور وہ مسجد میں جا کر نماز جمعہ ادا کریں۔ جیسے ہی وعظ ختم ہونے کے قریب ہوتا ہے ، لوگ جوق در جوق مسجد کی طرف آنے لگتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کو ان کے وعظ اور تقاریر سے کوئی دلچسپی نہیں۔ انھی روایتی علما میں سے بعض نے جدید دنیا کے علوم سے واقفیت حاصل کرکے عصر حاضر کے زندہ مسائل کو اپنا ہدف بنایا ہے۔ عام روایتی علما کی نسبت ان کا اثر و نفوذ معاشرے میں بہت زیادہ ہے اور ان کی دعوت کو سننے والے افراد کی کوئی کمی نہیں۔
۱۔ مغربی الحاد کی پیروی
۲۔ مغرب کو مکمل طور پر رد کر دینا
۳۔مغرب کی پیروی میں اسلام میں تبدیلیاں کرنا
۴۔مغرب کے مثبت پہلو کو لے کر اسے اسلامی سانچے میں ڈھالنا
پہلا رد عمل مسلمانوں کی اشرافیہ (Elite) کا تھا۔ ان کی اکثریت نے اہل مغرب اور ان کے الحاد کو کلی یا جزوی طور پر قبول کرلیا۔اگرچہ اپنے نام اور بنیادی عقائد کی حد تک وہ مسلمان ہی تھے ،لیکن اپنی اجتماعی زندگی میں وہ الحاد اور لادینیت کا نمونہ تھے۔ بیسویں صدی کے وسط میں آزادی کے بعد بھی ان کی یہ روش برقرار رہی۔ ان میں سے بعض تو اسلام کی تعلیمات کے کھلم کھلا مخالف تھے جن میں ترکی کے مصطفیٰ کمال پاشا، ایران کے رضا شاہ پہلوی، تیونس کے حبیب بورغبیہ اور پاکستان کے جنرل یحییٰ خان شامل ہیں۔ مسلم حکمرانوں کی اکثریت نے اگرچہ اسلام کا کھلم کھلا انکار نہیں کیا، لیکن وہ عملی طور پر الحاد ہی سے وابستہ رہے۔ چونکہ مسلم عوام کی اکثریت کا سیاسی و معاشی مفاد انھی کی پیروی میں تھا، اس لیے عوام الناس میں الحاد پھیلتا چلا گیا۔ اس کی تفصیل ہم آگے بیان کریں گے۔
دوسرا رد عمل روایتی مسلم علماکا تھا۔ انھوں نے اہل مغرب کے نظریات کو یک سر مسترد کردیا۔ انھوں نے مغربی زبانوں کی تعلیم، مغربی علوم کے حصول، مغربی لباس کے پہننے اور اہل مغرب کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلق کو حرام قرار دیا۔انھوں نے اپنے مدارس کے ماحول کو قرون وسطیٰ کے ماحول میں ڈھالنے کی کوشش کی۔ انھوں نے دور جدید میں کسی مسئلے پر اجتہادی انداز میں سوچنے کے بجائے قدیم ائمہ کی حرف بہ حرف تقلید پر زور دیا۔ برصغیرمیں اس نقطۂ نظر کو ماننے والے بڑے بڑے علما میں قاسم نانوتوی، محمود الحسن اور احمد رضا خان بریلوی شامل تھے ،جن کے نقطۂ نظر کو پورے ہندوستان کے دینی مدارس نے قبول کیا۔ اگرچہ ان علما میں کچھ مسلکی اور فقہی اختلافات موجود تھے، لیکن مغرب کے بارے میں ان کا نقطۂ نظر بالکل یکساں تھا۔ اگرچہ ان میں سے بعض مغربی زبانیں سیکھنے اور مغربی علوم کے حصول کے مخالف نہ تھے ،لیکن عملاً ان کا رویہ اس سے دوری ہی کا رہا۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ معاشرے میں ان کا اثر و نفوذکم سے کم تر ہوتا چلا گیا اور ان کے نقطۂ نظر کو ماضی کی چیز سمجھ لیا گیا۔ جدید تعلیم یافتہ طبقہ ان سے بے زار ہونے لگا اور آہستہ آہستہ یا تو پہلے نقطۂ نظرکو قبول کرکے الحاد کی طرف چلا گیا یا پھر اس نے تیسرے اور چوتھے نقطۂ نظر کو قبول کیا۔ معاشرے میں ان کا کردار یہی رہ گیا کہ وہ مسجد میں نماز پڑھا دیں، کسی کے گھر میں ختم قرآن کردیں یا پھر نکاح، بچے کی پیدایش اور جنازے کے وقت چند رسومات ادا کردیں۔ عملی زندگی میں ان کے کردار کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ جمعہ کی نماز کے وقت لوگ اپنے گھروں میں بیٹھے یہ انتظار کر رہے ہوتے ہیں کہ کب مولوی صاحب وعظ ختم کریں اور وہ مسجد میں جا کر نماز جمعہ ادا کریں۔ جیسے ہی وعظ ختم ہونے کے قریب ہوتا ہے ، لوگ جوق در جوق مسجد کی طرف آنے لگتے ہیں۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ لوگوں کو ان کے وعظ اور تقاریر سے کوئی دلچسپی نہیں۔ انھی روایتی علما میں سے بعض نے جدید دنیا کے علوم سے واقفیت حاصل کرکے عصر حاضر کے زندہ مسائل کو اپنا ہدف بنایا ہے۔ عام روایتی علما کی نسبت ان کا اثر و نفوذ معاشرے میں بہت زیادہ ہے اور ان کی دعوت کو سننے والے افراد کی کوئی کمی نہیں۔
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You