�حق� عربی
زبان کا لفظ ہے لیکن اس کا استعمال ہندوستان کی دیگر زبانوں میں بھی ہوتا ہے جیسے
پنجابی، تیلگو، گجراتی وغیرہ اور اب یہ ایک عام فہم لفظ بن چکا ہے۔ ہندوستان کی
سرکاری زبان ہندی میں بھی حق کا ہم معنی لفظ �ادھیکار� ہے
لیکن اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ہر ہندی جاننے والا یا بولنے والا حق
کا مطلب بھی بخوبی سمجھتا ہے۔
�حق� کے لغوی معنیٰ صحیح، مناسب، درست، ٹھیک، موزوں، بجا، واجب، سچ، انصاف، جائز مطالبہ یا استحقاق کے ہیں۔ اس طرح حق ایک ذو معنی لفظ ہے۔ ایک طرف یہ سچائی کی طرف اشارہ کرتا ہے تو دوسری جانب اس چیز کی طرف جسے قانوناً اور باضابطہ طور پر ہم اپنا کہہ سکتے ہیں یا اس کی بابت اپنی ملکیت کا دعویٰ کرسکتے ہیں۔ حق کا متبادل انگریزی لفظ 'RIGHT' بھی ایک ذو معنی لفظ ہے۔ کچھ ناقدین نے جن میں گیل بھی شامل ہے لفظ RIGHT کو غیر واضح اور مبہم لفظ قرار دیا ہے جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اس سے تو مطلب اور بھی زیادہ واضح ہوجاتا ہے۔ بالفاظ دیگر اس سے تو یہ بات مکمل طور پر عیاں ہوجاتی ہے کہ جس چیز کو ہم اپنا حق مانتے ہیں یا اس پر اپنا حق ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں یا اسے اپنا حق قرار دیتے ہیں وہ سچائی، حقیقت اور ایمانداری کے ہمہ گیر اصولوں کے مطابق ہی ہماری ہے دیگر طور پر نہیں۔ ارسطو نے بھی حق کو سیاسی معاشرے کی بنیاد مانا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ جاننے کے لئے کہ عدل وانصاف کیا ہے اس معیار کا پتہ لگانا ضروری ہے جس کے مطابق یہ کہا جاسکے کہ کون سی بات یا کون سا فعل انصاف کے زمرے میں آتا ہے۔ اس کے مطابق ہی عدل وانصاف کو حق کی کسوٹی پر پرکھا جاسکتا ہے۔
انسان ایک معاشرت پسند مخلوق (SOCIAL ANIMAL) ہے اور وہ معاشرے کا جزء لاینفک ہے۔ اس کی زندگی باہمی تعاون کی محتاج ہے۔ یہ محتاجی فطری تقاضا بھی ہے۔ کوئی بھی انسان اس دنیا میں فرد واحد کی حیثیت سے بند کمرہ میں خود غرضی کی زندگی نہیں گزار سکتا۔ اسے دوسروں کی ضروریات، ترجیحات، مفادات اور شخصی تقدس کا بھی اتنا ہی احترام کرنا پڑتا ہے جتنا وہ اپنے تئیں چاہتا ہے۔ ایک لاطینی ضرب المثل کے مطابق اگر کوئی شخص اپنی ہی زمین یا حدود میں کوئی ایسا تعمیراتی کام کرتا ہے جس سے کسی دیگر شخص کو تکلیف پہنچے یا اس کے جذبات مجروح ہوں تو اس کا یہ فعل غیر قانونی اور ناجائز متصور ہوگا۔
ایک عام آدمی کے لئے انسانی حقوق وہ حقوق ہیں جو تمام انسانوں کو جنم سے مرن تک ہر جگہ اور ہر وقت برابر کی بنیاد پر حاصل ہونے چاہئیں۔ بقول سپریم کورٹ کے سابق جج کرشنا ایر ان حقوق کا تو انسان WOMB سے TOMB تک حقدار رہتا ہے۔ انہوں نے اپنی اس رائے کا اظہار انسانی حقوق اور خواتین کے موضوع پر بحث کے دوران کیا تھا۔ فاضل جج کا یہ فرمانا بالکل درست ہے لیکن اب انسانی حقوق کا دائرہ تو اس سے بھی زیادہ وسیع ہوچکا ہے۔ عزت سے جینا اور عزت سے مرنا دونوں ہی انسانی حقوق کے زمرے میں آتے ہیں۔ کسی کو تشدد کا نشانہ بناکر انسانیت سوز حرکات کے ذریعہ اس کی جان لینا بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ مرنے کے بعد بھی کسی کی لاش یا میت یا اس کی قبر کی یا اس جگہ کی جہاں اسے دفن کیا گیا ہے یا نذرآتش کیا گیا ہے یا جہاں کسی قسم کی آخری رسوم ادا کی گئی ہیں، بے حرمتی بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ لہٰذا بہت سے لوگوں کا یہ کہنا کہ انسانی حقوق انسان کی موت کے ساتھ ختم ہوجاتے ہیں بجا نہ ہوگا۔ جس طرح انسانی حقوق کی اہمیت انسانی زندگی کے خاتمہ کے بعد بھی، اگرچہ محدود حد تک، باقی رہتی ہے بالکل اسی طرح انسانی حقوق تو انسانی زندگی کے اس دنیا میں رونما ہونے سے قبل ہی (یعنی کسی کی پیدائش سے قبل ہی) وجود میں آجاتے ہیں۔ مثلاً ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے اگر اس بچے کی صحت پر منفی اثر پڑتا ہے جس نے ابھی جنم نہیں لیا ہے تو اس کی بابت یہ کہا جائے گا کہ اس کا حفاظت نفس کا بنیادی حق اس کی صحت کو ہونے والے ضرر کی حد تک متاثر ہوا ہے۔
انسانی حقوق براہِ راست تو صرف انسانوں کو ہی حاصل ہیں لیکن انسانوں کے توسط سے یہ حق جانوروں اور پرندوں کو بھی حاصل ہوگئے ہیں اور یہاں تک کہ ماحولیاتی تحفظ کے لئے بھی ان کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔ اگر ماحولیاتی تحفظ کے منفی کوئی کام کیا جاتا ہے اور اس کا عوام پر برا اثر پڑتا ہے تو کوئی بھی شخص آئین کی دفعہ 32 یا 226 کے تحت بالترتیب سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ سے رجوع کرسکتا ہے۔ اسی طرح اگر جانوروں یا پرندوں کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کیا جاتا ہے تو اس کے خلاف دیگر قوانین کے تحت کارروائی کی جاسکتی ہے۔ دیگر ممالک میں بھی ان کے اپنے اپنے آئین اور قوانین کی مماثل دفعات کے مطابق ضروری کارروائی کی جاسکتی ہے۔
انسان حقوق کی تعریف مختلف نقطۂ نظر سے کی جاسکتی ہے جیسے انفرادی نقطۂ نظر، اجتماعی نقطۂ نظر، اخلاقی نقطۂ نظر، قانونی نقطۂ نظر، سیاسی نقطۂ نظر، معاشرتی یا سماجی نقطۂ نظر، مذہبی نقطۂ نظر معاشی یا اقتصادی نقطۂ نظر، تاریخی نقطۂ نظر یا بین الاقوامی نقطۂ نظر۔ انسانی حقوق تحفظ ایکٹ، 1993 میں جو انسانی حقوق کی تعریف کی گئی ہے وہ ایک نہایت جامع تعریف ہے اور اس کو وضع کرتے وقت متذکرہ بالا تمام نظریات کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔ اگر اس تعریف کو بین الاقوامی اصولوں پر بھی پرکھا جائے تو وہ پوری اترے گی۔ یہ تعریف اس طرح ہے۔
دفعہ 2� (د)
��انسانی حقوق سے مراد ہیں کسی فرد کی زندگی، آزادی، مساوات اور عظمت کی نسبت ایسے حقوق جن کی آئین کی رو سے ضمانت دی گئی ہو یا جو بین الاقوامی معاہدوں میں شامل کئے گئے ہوں اور بھارت میں عدالتوں کے ذریعہ قابل نفاذ ہوں��
جہاں تک بین الاقوامی دستاویزات کا سوال ہے اقوام متحدہ کے چارٹر، انسانی حقوق کا عالمگیر اعلامیہ، شہری اور سیاسی حقوق کا بین الاقوامی منشور یا معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق کا بین الاقوامی منشور اور دیگر بین الاقوامی دستاویزات میں، جن میں مختلف اعلامیے اور تجاویز بھی شامل ہیں، انسانی حقوق کے دائرے کو اتنا وسیع کردیا گیا ہے کہ اس میں انسانوں سے جڑے وہ تمام حقوق شامل ہوگئے ہیں جو کسی بھی مہذب معاشرے میں یا جہاں قانون کی بالادستی (RULE OF LAW) کا احترام کیا جاتا ہو وہاں ایک عام انسان کو حاصل ہونے چاہئیں۔ مثلاً حق زندگی یا حق حفاظت نفس، مردوزن کی برابری کا حق، حقوق نسواں، حقوق اطفال، زندگی کے ہر شعبہ میں بغیر کسی امتیاز کے حق مساوات، حق حرمت، عظمت ووقار، حق تحریر واظہار رائے، آزادیٔ مذہب اور اقلیتوں کے مفادات کا تحفظ، ثقافت، زبان وتہذیب کے تحفظ کا حق، حق نقل وحرکت، حق انجمن سازی، حق خاندان، نجی زندگی کے تحفظ کا حق، حق قانونی چارہ جوئی و دادرسی، حق تعلیم، حق نمائندگی، حق رائے دہی، انتخاب حکومت کا حق، اچھی سہولیات اور بہتر معیار زندگی کا حق، آلودگی سے پاک وصاف ہوا، پانی اور فضا کا حق، جنگلات جانوروں اور پرندوں کے تحفظ کا حق اور جغرافیائی حدود کے بغیر تمام عالمی اور بین الاقوامی حقوق کے حصول کا حق۔
مندرجہ بالا حقوق میں سے زیادہ تر حقوق عیاں بالذات ہیں اور کسی بھی مزید تشریح کے محتاج نہیں۔ ویسے بھی ان میں سے ہر حق کا تفصیلی جائزہ لینا یہاں ممکن بھی نہیں ہے۔ البتہ انسانی حقوق سے متعلق دستاویزات نے انسانی حقوق کی اقسام کو شہری، سیاسی، معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق تک محدود کردیا ہے حالانکہ ان کا دائرہ اختیار اتنا وسیع کردیا ہے کہ ان میں متذکرہ بالا وہ سبھی حقوق شامل ہیں جن کے بغیر ایک مہذب سماج کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ان میں سے بیشتر حقوق کا دیگر ابواب میں تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے یا ان کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ پھر بھی کچھ اہم انسانی حقوق کا یہاں قدرے تفصیل سے جائزہ لیا جارہا ہے تاکہ قارئین انسانی حقوق کا صحیح مفہوم سمجھ سکیں اور حسب ضرورت ان پر عمل یا ان کی وکالت کرسکیں۔
حق زندگی یعنی جان اور شخصی آزادی کا تحفظ� :
(RIGHT TO LIFE i.e. PROTECTION OF LIFE AND PERSONAL LIBERTY)
انسانی زندگی اور انسانی حقوق لازم وملزوم ہیں۔ زندگی یا زندگی کے احترام کے بغیر انسانی حقوق کا تصور بے معنی ہے حالانکہ، جیسا کہ اوپر کہا گیا ہے، اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے باعزت زندگی گزارنے کے ساتھ ساتھ باعزت موت کو بھی یقینی بنایا جائے اور انسانیت سوز حرکات کے ذریعے کسی بھی شخص کی جان نہ لی جائے۔ بھارت کے آئین کی دفعہ 21 میں جان اور شخصی آزادی کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔ اس طرح امریکی آئین کی پانچویں اور چودھویں ترامیم میں بھی اس کا اعادہ کیا گیا ہے۔ دیگر ممالک کے دساتیر میں بھی ایسی مماثل توضیعات موجود ہیں۔ انسانی حقوق کا عالمگیر اعلامیہ بھی دفعہ 3 کے تحت ہر شخص کو زندگی، آزادی اور اپنی ذات کے تحفظ کا حق عطا کرتا ہے۔
آزادیٔ مذہب اور اقلیتوں کے مفادات کا تحفظ :
(FREEDOM OF RELIGION AND PROTECTION OF INTERESTS OF MINORITIES)
اس آزادی میں آزادیٔ ضمیر اور مذہب کو قبول کرنے اور اس کی پیروی وتبلیغ کرنے کا حق حاصل ہے بشرطیکہ اس سے امن عامہ، صحت عامہ اور اخلاق عامہ پر منفی اثر نہ پڑے۔ اقلیتوں کے مفادات کے تحفظ میں ان کی زبان اور ثقافت کے تحفظ کے ساتھ ساتھ اقلیتی اداروں کے قیام اور ان کے انتظام کے معاملے میں آزادی کے حق کا تحفظ بھی شامل ہے۔ ابواب 3 تا 5 میں ان امور کا قومی وبین الاقوامی تناظر میں تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے۔
حق مساوات� : ��(RIGHT TO EQUALITY)
تمام انسان عظمت وحقوق کے معاملے میں مساوی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہیں کسی بھی امتیاز کے بغیر جیسے نسل، رنگ، جنس، زبان، مذہب وغیرہ تمام شہری، سیاسی، معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق حاصل ہونے چاہئیں۔ انسانی حقوق کا عالمگیر اعلامیہ دفعہ 2 کے ذریعہ حق مساوات عطا کرتا ہے۔ یہ مساوات ان تمام حقوق اور آزاد یوں کی بابت حاصل ہے جن کی بین الاقوامی دستاویزات میں ضمانت دی گئی ہے۔ اس اعلامیے کی دفعہ 7 میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں اور سبھی کو کسی بھی امتیاز کے بغیر مساوی قانونی تحفظ کا حق حاصل ہے۔ وہ اس اعلامیے کی خلاف ورزی کے کسی امتیاز اور ایسے امتیاز کی ترغیب کے خلاف مساوی قانونی تحفظ کے حقدار ہیں۔
حق تحریر واظہار رائے : (RIGHT TO FREEDOM OF SPEECH AND EXPRESSION)
معاشرے میں ہر شخص کو یہ حق حاصل ہونا چاہئے کہ وہ تمام اجتماعی معاملات میں اپنی رائے کا اظہار کرسکے۔ لیکن اس آزادی کا مطلب بے لگام آزادی نہیں ہے۔ ملک کے مفاد میں اس پر مناسب پابندیاں عاید کی جاسکتی ہیں۔ انسان حقوق کے عالمگیر اعلامیے کی دفعہ 19 کے تحت ہر شخص کو آزادیٔ رائے اور آزادیٔ اظہار کا حق حاصل ہے۔ اس حق میں بلا مداخلت اپنی رائے قائم کرنے اور بلا لحاظ علاقائی حدود کسی بھی ذریعے سے اطلاعات حاصل کرنے، نظریات تلاش کرنے، انہیں حاصل کرنے اور انہیں دوسروں تک پہنچانے کی آزادی شامل ہے۔
�حق� کے لغوی معنیٰ صحیح، مناسب، درست، ٹھیک، موزوں، بجا، واجب، سچ، انصاف، جائز مطالبہ یا استحقاق کے ہیں۔ اس طرح حق ایک ذو معنی لفظ ہے۔ ایک طرف یہ سچائی کی طرف اشارہ کرتا ہے تو دوسری جانب اس چیز کی طرف جسے قانوناً اور باضابطہ طور پر ہم اپنا کہہ سکتے ہیں یا اس کی بابت اپنی ملکیت کا دعویٰ کرسکتے ہیں۔ حق کا متبادل انگریزی لفظ 'RIGHT' بھی ایک ذو معنی لفظ ہے۔ کچھ ناقدین نے جن میں گیل بھی شامل ہے لفظ RIGHT کو غیر واضح اور مبہم لفظ قرار دیا ہے جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ اس سے تو مطلب اور بھی زیادہ واضح ہوجاتا ہے۔ بالفاظ دیگر اس سے تو یہ بات مکمل طور پر عیاں ہوجاتی ہے کہ جس چیز کو ہم اپنا حق مانتے ہیں یا اس پر اپنا حق ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں یا اسے اپنا حق قرار دیتے ہیں وہ سچائی، حقیقت اور ایمانداری کے ہمہ گیر اصولوں کے مطابق ہی ہماری ہے دیگر طور پر نہیں۔ ارسطو نے بھی حق کو سیاسی معاشرے کی بنیاد مانا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ جاننے کے لئے کہ عدل وانصاف کیا ہے اس معیار کا پتہ لگانا ضروری ہے جس کے مطابق یہ کہا جاسکے کہ کون سی بات یا کون سا فعل انصاف کے زمرے میں آتا ہے۔ اس کے مطابق ہی عدل وانصاف کو حق کی کسوٹی پر پرکھا جاسکتا ہے۔
انسان ایک معاشرت پسند مخلوق (SOCIAL ANIMAL) ہے اور وہ معاشرے کا جزء لاینفک ہے۔ اس کی زندگی باہمی تعاون کی محتاج ہے۔ یہ محتاجی فطری تقاضا بھی ہے۔ کوئی بھی انسان اس دنیا میں فرد واحد کی حیثیت سے بند کمرہ میں خود غرضی کی زندگی نہیں گزار سکتا۔ اسے دوسروں کی ضروریات، ترجیحات، مفادات اور شخصی تقدس کا بھی اتنا ہی احترام کرنا پڑتا ہے جتنا وہ اپنے تئیں چاہتا ہے۔ ایک لاطینی ضرب المثل کے مطابق اگر کوئی شخص اپنی ہی زمین یا حدود میں کوئی ایسا تعمیراتی کام کرتا ہے جس سے کسی دیگر شخص کو تکلیف پہنچے یا اس کے جذبات مجروح ہوں تو اس کا یہ فعل غیر قانونی اور ناجائز متصور ہوگا۔
ایک عام آدمی کے لئے انسانی حقوق وہ حقوق ہیں جو تمام انسانوں کو جنم سے مرن تک ہر جگہ اور ہر وقت برابر کی بنیاد پر حاصل ہونے چاہئیں۔ بقول سپریم کورٹ کے سابق جج کرشنا ایر ان حقوق کا تو انسان WOMB سے TOMB تک حقدار رہتا ہے۔ انہوں نے اپنی اس رائے کا اظہار انسانی حقوق اور خواتین کے موضوع پر بحث کے دوران کیا تھا۔ فاضل جج کا یہ فرمانا بالکل درست ہے لیکن اب انسانی حقوق کا دائرہ تو اس سے بھی زیادہ وسیع ہوچکا ہے۔ عزت سے جینا اور عزت سے مرنا دونوں ہی انسانی حقوق کے زمرے میں آتے ہیں۔ کسی کو تشدد کا نشانہ بناکر انسانیت سوز حرکات کے ذریعہ اس کی جان لینا بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ مرنے کے بعد بھی کسی کی لاش یا میت یا اس کی قبر کی یا اس جگہ کی جہاں اسے دفن کیا گیا ہے یا نذرآتش کیا گیا ہے یا جہاں کسی قسم کی آخری رسوم ادا کی گئی ہیں، بے حرمتی بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے۔ لہٰذا بہت سے لوگوں کا یہ کہنا کہ انسانی حقوق انسان کی موت کے ساتھ ختم ہوجاتے ہیں بجا نہ ہوگا۔ جس طرح انسانی حقوق کی اہمیت انسانی زندگی کے خاتمہ کے بعد بھی، اگرچہ محدود حد تک، باقی رہتی ہے بالکل اسی طرح انسانی حقوق تو انسانی زندگی کے اس دنیا میں رونما ہونے سے قبل ہی (یعنی کسی کی پیدائش سے قبل ہی) وجود میں آجاتے ہیں۔ مثلاً ماحولیاتی آلودگی کی وجہ سے اگر اس بچے کی صحت پر منفی اثر پڑتا ہے جس نے ابھی جنم نہیں لیا ہے تو اس کی بابت یہ کہا جائے گا کہ اس کا حفاظت نفس کا بنیادی حق اس کی صحت کو ہونے والے ضرر کی حد تک متاثر ہوا ہے۔
انسانی حقوق براہِ راست تو صرف انسانوں کو ہی حاصل ہیں لیکن انسانوں کے توسط سے یہ حق جانوروں اور پرندوں کو بھی حاصل ہوگئے ہیں اور یہاں تک کہ ماحولیاتی تحفظ کے لئے بھی ان کا سہارا لیا جاسکتا ہے۔ اگر ماحولیاتی تحفظ کے منفی کوئی کام کیا جاتا ہے اور اس کا عوام پر برا اثر پڑتا ہے تو کوئی بھی شخص آئین کی دفعہ 32 یا 226 کے تحت بالترتیب سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ سے رجوع کرسکتا ہے۔ اسی طرح اگر جانوروں یا پرندوں کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کیا جاتا ہے تو اس کے خلاف دیگر قوانین کے تحت کارروائی کی جاسکتی ہے۔ دیگر ممالک میں بھی ان کے اپنے اپنے آئین اور قوانین کی مماثل دفعات کے مطابق ضروری کارروائی کی جاسکتی ہے۔
انسان حقوق کی تعریف مختلف نقطۂ نظر سے کی جاسکتی ہے جیسے انفرادی نقطۂ نظر، اجتماعی نقطۂ نظر، اخلاقی نقطۂ نظر، قانونی نقطۂ نظر، سیاسی نقطۂ نظر، معاشرتی یا سماجی نقطۂ نظر، مذہبی نقطۂ نظر معاشی یا اقتصادی نقطۂ نظر، تاریخی نقطۂ نظر یا بین الاقوامی نقطۂ نظر۔ انسانی حقوق تحفظ ایکٹ، 1993 میں جو انسانی حقوق کی تعریف کی گئی ہے وہ ایک نہایت جامع تعریف ہے اور اس کو وضع کرتے وقت متذکرہ بالا تمام نظریات کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہے۔ اگر اس تعریف کو بین الاقوامی اصولوں پر بھی پرکھا جائے تو وہ پوری اترے گی۔ یہ تعریف اس طرح ہے۔
دفعہ 2� (د)
��انسانی حقوق سے مراد ہیں کسی فرد کی زندگی، آزادی، مساوات اور عظمت کی نسبت ایسے حقوق جن کی آئین کی رو سے ضمانت دی گئی ہو یا جو بین الاقوامی معاہدوں میں شامل کئے گئے ہوں اور بھارت میں عدالتوں کے ذریعہ قابل نفاذ ہوں��
جہاں تک بین الاقوامی دستاویزات کا سوال ہے اقوام متحدہ کے چارٹر، انسانی حقوق کا عالمگیر اعلامیہ، شہری اور سیاسی حقوق کا بین الاقوامی منشور یا معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق کا بین الاقوامی منشور اور دیگر بین الاقوامی دستاویزات میں، جن میں مختلف اعلامیے اور تجاویز بھی شامل ہیں، انسانی حقوق کے دائرے کو اتنا وسیع کردیا گیا ہے کہ اس میں انسانوں سے جڑے وہ تمام حقوق شامل ہوگئے ہیں جو کسی بھی مہذب معاشرے میں یا جہاں قانون کی بالادستی (RULE OF LAW) کا احترام کیا جاتا ہو وہاں ایک عام انسان کو حاصل ہونے چاہئیں۔ مثلاً حق زندگی یا حق حفاظت نفس، مردوزن کی برابری کا حق، حقوق نسواں، حقوق اطفال، زندگی کے ہر شعبہ میں بغیر کسی امتیاز کے حق مساوات، حق حرمت، عظمت ووقار، حق تحریر واظہار رائے، آزادیٔ مذہب اور اقلیتوں کے مفادات کا تحفظ، ثقافت، زبان وتہذیب کے تحفظ کا حق، حق نقل وحرکت، حق انجمن سازی، حق خاندان، نجی زندگی کے تحفظ کا حق، حق قانونی چارہ جوئی و دادرسی، حق تعلیم، حق نمائندگی، حق رائے دہی، انتخاب حکومت کا حق، اچھی سہولیات اور بہتر معیار زندگی کا حق، آلودگی سے پاک وصاف ہوا، پانی اور فضا کا حق، جنگلات جانوروں اور پرندوں کے تحفظ کا حق اور جغرافیائی حدود کے بغیر تمام عالمی اور بین الاقوامی حقوق کے حصول کا حق۔
مندرجہ بالا حقوق میں سے زیادہ تر حقوق عیاں بالذات ہیں اور کسی بھی مزید تشریح کے محتاج نہیں۔ ویسے بھی ان میں سے ہر حق کا تفصیلی جائزہ لینا یہاں ممکن بھی نہیں ہے۔ البتہ انسانی حقوق سے متعلق دستاویزات نے انسانی حقوق کی اقسام کو شہری، سیاسی، معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق تک محدود کردیا ہے حالانکہ ان کا دائرہ اختیار اتنا وسیع کردیا ہے کہ ان میں متذکرہ بالا وہ سبھی حقوق شامل ہیں جن کے بغیر ایک مہذب سماج کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔ ان میں سے بیشتر حقوق کا دیگر ابواب میں تفصیلی جائزہ لیا گیا ہے یا ان کے مختلف پہلوؤں پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ پھر بھی کچھ اہم انسانی حقوق کا یہاں قدرے تفصیل سے جائزہ لیا جارہا ہے تاکہ قارئین انسانی حقوق کا صحیح مفہوم سمجھ سکیں اور حسب ضرورت ان پر عمل یا ان کی وکالت کرسکیں۔
حق زندگی یعنی جان اور شخصی آزادی کا تحفظ� :
(RIGHT TO LIFE i.e. PROTECTION OF LIFE AND PERSONAL LIBERTY)
انسانی زندگی اور انسانی حقوق لازم وملزوم ہیں۔ زندگی یا زندگی کے احترام کے بغیر انسانی حقوق کا تصور بے معنی ہے حالانکہ، جیسا کہ اوپر کہا گیا ہے، اس بات سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ انسانی حقوق کے تحفظ کے لئے باعزت زندگی گزارنے کے ساتھ ساتھ باعزت موت کو بھی یقینی بنایا جائے اور انسانیت سوز حرکات کے ذریعے کسی بھی شخص کی جان نہ لی جائے۔ بھارت کے آئین کی دفعہ 21 میں جان اور شخصی آزادی کے تحفظ کی ضمانت دی گئی ہے۔ اس طرح امریکی آئین کی پانچویں اور چودھویں ترامیم میں بھی اس کا اعادہ کیا گیا ہے۔ دیگر ممالک کے دساتیر میں بھی ایسی مماثل توضیعات موجود ہیں۔ انسانی حقوق کا عالمگیر اعلامیہ بھی دفعہ 3 کے تحت ہر شخص کو زندگی، آزادی اور اپنی ذات کے تحفظ کا حق عطا کرتا ہے۔
آزادیٔ مذہب اور اقلیتوں کے مفادات کا تحفظ :
(FREEDOM OF RELIGION AND PROTECTION OF INTERESTS OF MINORITIES)
اس آزادی میں آزادیٔ ضمیر اور مذہب کو قبول کرنے اور اس کی پیروی وتبلیغ کرنے کا حق حاصل ہے بشرطیکہ اس سے امن عامہ، صحت عامہ اور اخلاق عامہ پر منفی اثر نہ پڑے۔ اقلیتوں کے مفادات کے تحفظ میں ان کی زبان اور ثقافت کے تحفظ کے ساتھ ساتھ اقلیتی اداروں کے قیام اور ان کے انتظام کے معاملے میں آزادی کے حق کا تحفظ بھی شامل ہے۔ ابواب 3 تا 5 میں ان امور کا قومی وبین الاقوامی تناظر میں تفصیل سے جائزہ لیا گیا ہے۔
حق مساوات� : ��(RIGHT TO EQUALITY)
تمام انسان عظمت وحقوق کے معاملے میں مساوی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہیں کسی بھی امتیاز کے بغیر جیسے نسل، رنگ، جنس، زبان، مذہب وغیرہ تمام شہری، سیاسی، معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق حاصل ہونے چاہئیں۔ انسانی حقوق کا عالمگیر اعلامیہ دفعہ 2 کے ذریعہ حق مساوات عطا کرتا ہے۔ یہ مساوات ان تمام حقوق اور آزاد یوں کی بابت حاصل ہے جن کی بین الاقوامی دستاویزات میں ضمانت دی گئی ہے۔ اس اعلامیے کی دفعہ 7 میں یہ بات بھی کہی گئی ہے کہ قانون کی نظر میں سب برابر ہیں اور سبھی کو کسی بھی امتیاز کے بغیر مساوی قانونی تحفظ کا حق حاصل ہے۔ وہ اس اعلامیے کی خلاف ورزی کے کسی امتیاز اور ایسے امتیاز کی ترغیب کے خلاف مساوی قانونی تحفظ کے حقدار ہیں۔
حق تحریر واظہار رائے : (RIGHT TO FREEDOM OF SPEECH AND EXPRESSION)
معاشرے میں ہر شخص کو یہ حق حاصل ہونا چاہئے کہ وہ تمام اجتماعی معاملات میں اپنی رائے کا اظہار کرسکے۔ لیکن اس آزادی کا مطلب بے لگام آزادی نہیں ہے۔ ملک کے مفاد میں اس پر مناسب پابندیاں عاید کی جاسکتی ہیں۔ انسان حقوق کے عالمگیر اعلامیے کی دفعہ 19 کے تحت ہر شخص کو آزادیٔ رائے اور آزادیٔ اظہار کا حق حاصل ہے۔ اس حق میں بلا مداخلت اپنی رائے قائم کرنے اور بلا لحاظ علاقائی حدود کسی بھی ذریعے سے اطلاعات حاصل کرنے، نظریات تلاش کرنے، انہیں حاصل کرنے اور انہیں دوسروں تک پہنچانے کی آزادی شامل ہے۔
حق نقل
وحرکت�
:� (RIGHT TO MOVE
FREELY)
کسی
بھی ملک میں ہر شخص کو اس بات کی آزادی ہونی چاہیئے کہ وہ کہیں پر بھی آجاسکے،
اپنا کاروبار کرسکے، یا اپنی پسند کی رہائش اختیار کرسکے اور یہاں تک کہ اس کو
اپنا ملک چھوڑنے، دوسرے ملک میں جانے اور وہاں سے پھر اپنے ملک میں واپس آنے کی
بھی آزادی ہونی چاہئے۔ انسانی حقوق کے عالمگیر اعلامیے کی دفعہ 13 کے تحت ہر شخص
کو اپنے ملک کی حدود میں نقل وحرکت اور ہائش کی آزادی کا حق حاصل ہے۔ بھارت کے
آئین کے تحت بھی اس قسم کی آزادی کی ضمانت دی گئی ہے اور ہر ہندوستانی کہیں پر
بھی آجاسکتا ہے، کوئی بھی پیشہ اختیار کرسکتا ہے، کہیں بھی کاروبار کرسکتا ہے اور
ہندوستان چھوڑ کر بیرو ن ملک جاسکتا ہے۔ وہاں سے واپس آکر نافذ الوقت قانون کے
مطابق رہائش پذیر ہوسکتا ہے۔
حق انجمن سازی : (RIGHT TO FORM ASSOCIATIONS)
ہر مہذب معاشرے میں پرامن اجتماع اور جماعت وانجمن سازی کی آزادی ہونی چاہئے۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے انسانی حقوق کے عالمگیر اعلامیے کی دفعہ 20 میں یہ بات کہی گئی ہے کہ ہر شخص کو پرامن اجتماع اور جماعت سازی کی آزادی کا حق حاصل ہے اور کسی بھی شخص کو کسی جماعت سے ملحق ہونے کے لئے مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ بھارت کے آئین میں بھی انجمن سازی کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے۔
حق خاندان : (RIGHT TO FAMILY)
ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی پسند کی خانگی زندگی گزار سکے، اپنی پسند کی شادی کرسکے اور اپنے بچوں کی مناسب پرورش وپرداخت کرسکے۔ بین الاقوامی منشور برائے معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق کی دفعہ 10 میں خاندان کو معاشرے کا قدرتی اور بنیادی گروپ یونٹ کہا گیا ہے اور اسے زیادہ سے زیادہ تحفظ اور امداد فراہم کرنے کی بات کہی گئی ہے کیونکہ خاندان پر ہی بچوں کی دیکھ بھال اور تعلیم کی ذمہ داری ہے۔ مملکت کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ ایسے قوانین بنائے جن سے خاندان کی معاشی اور سماجی ترقی کے لئے راہ ہموار ہو۔
حق انجمن سازی : (RIGHT TO FORM ASSOCIATIONS)
ہر مہذب معاشرے میں پرامن اجتماع اور جماعت وانجمن سازی کی آزادی ہونی چاہئے۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے انسانی حقوق کے عالمگیر اعلامیے کی دفعہ 20 میں یہ بات کہی گئی ہے کہ ہر شخص کو پرامن اجتماع اور جماعت سازی کی آزادی کا حق حاصل ہے اور کسی بھی شخص کو کسی جماعت سے ملحق ہونے کے لئے مجبور نہیں کیا جاسکتا۔ بھارت کے آئین میں بھی انجمن سازی کے حق کو تسلیم کیا گیا ہے۔
حق خاندان : (RIGHT TO FAMILY)
ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی پسند کی خانگی زندگی گزار سکے، اپنی پسند کی شادی کرسکے اور اپنے بچوں کی مناسب پرورش وپرداخت کرسکے۔ بین الاقوامی منشور برائے معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق کی دفعہ 10 میں خاندان کو معاشرے کا قدرتی اور بنیادی گروپ یونٹ کہا گیا ہے اور اسے زیادہ سے زیادہ تحفظ اور امداد فراہم کرنے کی بات کہی گئی ہے کیونکہ خاندان پر ہی بچوں کی دیکھ بھال اور تعلیم کی ذمہ داری ہے۔ مملکت کا بھی یہ فرض ہے کہ وہ ایسے قوانین بنائے جن سے خاندان کی معاشی اور سماجی ترقی کے لئے راہ ہموار ہو۔
ثقافتی حقوق : �(CULTURAL RIGHTS) �
کسی ملک
کی ثقافت اور اس کا ثقافتی ورثہ ایک گرانقدر سرمایہ ہوتا ہے۔ ہر شہری کا یہ فرض ہے
کہ وہ اس ثقافت اور اس ورثے کی قدر کرے اور اسے برقرار رکھے۔ یہی وجہ ہے کہ آئین
کی دفعہ 51 الف میں بھارت کے ہر شہری کے لئے یہ ضروری بنادیا گیا ہے کہ وہ ملک کی
ملی جلی ثقافت کی قدر کرے اور اسے برقرار رکھے۔ انسانی حقوق کے عالمگیر اعلامیے کی
دفعہ 27 میں یہ بات کہی گئی ہے کہ ہر شخص کو آزادانہ طور پر معاشرے کی ثقافتی
زندگی میں حصہ لینے، فنون لطیفہ سے حظ اٹھانے اور سائنسی ترقی اور اس کے فوائد سے
مستفید ہونے کا حق حاصل ہے۔
حق نمائندگی : (RIGHT TO FRANCHISE)
ہر شخص کو خواہ وہ مرد ہو یا عورت اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی امتیاز کے بغیر ملک کے انتخابات میں بحیثیت ووٹر یا امیدوار حصہ لے سکے۔ عوام کی مرضی حکومت کے اقتدار کی بنیاد� ہونی چاہئے۔ انسانی حقوق کے عالمگیر اعلامیے کی دفعہ 21 میں یہ بات کہی گئی ہے کہ ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ برا ہِ راست یا آزادانہ طور پر منتخب نمائندوں کے ذریعہ اپنے ملک کی حکومت میں حصہ لے۔ عوام کی مرضی کا اظہار وقفے وقفے سے ایسے انتخابات کے ذریعہ کیا جانا چاہئے جو عالمگیر اور مساوی رائے دہندگی پر مبنی ہوں اور جو خفیہ یا یکساں آزاد رائے دہی کے اصول کے مطابق کرائے جائیں۔
حق دادرسی : (RIGHT TO SEEK LEGAL REMEDY)
حق نمائندگی : (RIGHT TO FRANCHISE)
ہر شخص کو خواہ وہ مرد ہو یا عورت اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ کسی بھی امتیاز کے بغیر ملک کے انتخابات میں بحیثیت ووٹر یا امیدوار حصہ لے سکے۔ عوام کی مرضی حکومت کے اقتدار کی بنیاد� ہونی چاہئے۔ انسانی حقوق کے عالمگیر اعلامیے کی دفعہ 21 میں یہ بات کہی گئی ہے کہ ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ برا ہِ راست یا آزادانہ طور پر منتخب نمائندوں کے ذریعہ اپنے ملک کی حکومت میں حصہ لے۔ عوام کی مرضی کا اظہار وقفے وقفے سے ایسے انتخابات کے ذریعہ کیا جانا چاہئے جو عالمگیر اور مساوی رائے دہندگی پر مبنی ہوں اور جو خفیہ یا یکساں آزاد رائے دہی کے اصول کے مطابق کرائے جائیں۔
حق دادرسی : (RIGHT TO SEEK LEGAL REMEDY)
ہر شخص
کو آئین یا قانون کے ذریعے عطا کئے گئے حقوق کے منافی کسی بھی فعل کے خلاف
بااختیار قومی ٹریبیونل یا عدالت میں موثر چارہ جوئی کا حق حاصل ہونا چاہئے۔
انسانی حقوق کے عالمگیر اعلامیے کی دفعہ 8 میں اسی قسم کا حق عطا کیا گیا ہے۔ اس
کے علاوہ بھارت کے آئین کی دفعہ 32 اور 226 کے تحت بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کے
خلاف بالترتیب سپریم کورٹ یا ہائی کورٹ سے رجوع کیا جاسکتا ہے۔ علاوہ ازیں دیگر
قوانین کی خلاف ورزی کی صورت میں ان قوانین کی توضیعات اور ان قوانین کے تحت بنائے
گئے قواعد وضوابط کے تحت قانونی کارروائی کی جاسکتی ہے۔
عالمی
حقوق : ��(INTERNATIONAL RIGHTS)
ان حقوق میں وہ تمام حقوق شامل ہیں جو بین الاقوامی دستاویزات کے ذریعے عطا کئے گئے ہیں اور جو جغرافیائی حدود کے بغیر تمام لوگوں کو بغیر کسی امتیاز کے ہمہ وقت حاصل ہیں۔ ان میں سے بیشتر حقوق کا ذکر اوپر کیا جاچکا ہے۔ بقیہ حقوق اس طرح ہیں۔ مثلاً یہ کہ تمام انسان برابر ہیں، وہ عظمت وحقوق کے معاملے میں مساوی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہیں زندگی، آزادی اور اپنی ذات کے تحفظ کا حق حاصل ہے۔ انہیں غلام بناکر نہیں رکھا جاسکتا۔ انہیں تشدد اور ظلم کا نشانہ نہیں بنایا جاسکتا۔ ان کے ساتھ غیر انسانی اور ذلت آمیز سلوک نہیں کیا جاسکتا۔ کسی بھی شخص کو من مانے طور پر نظربند، گرفتار یا جلاوطن نہیں کیا جاسکتا۔ جرم ثابت ہونے تک کسی بھی ملزم کو مجرم نہیں کہا جاسکتا اور جرم ثابت ہونے تک اس کو معصوم اور بے گناہ سمجھا جائے گا۔ کسی بھی شخص کی خلوت، خاندان، نجی زندگی، گھر یا خط وکتابت میں مداخلت نہیں کی جاسکتی۔ اس کی عزت اور شہرت پر کوئی حملہ نہیں کیا جاسکتا۔ ہر شخص کو ظلم وتشدد سے بچنے کے لئے دوسرے ملک میں پناہ لینے کا حق حاصل ہے۔ ہر شخص کو کوئی بھی قومیت اختیار کرنے اور قومیت کو برقرار رکھنے کا حق حاصل ہے۔ ہر شخص کو اپنی پسند کے مطابق کسی بھی نسل، قومیت یا مذہب والے شخص سے شادی کرنے کا حق حاصل ہے۔ ہر شخص کو تنہا یا دوسروں کے ساتھ مل کر جائیداد رکھنے کا حق حاصل ہے۔ کسی کو من مانے طور پر اس کی جائیداد سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ ہر شخص کو آرام اور تفریح ومتعین اوقات کار کا حق حاصل ہے۔ ہر شخص کو روزگار کے مساوی مواقع کا حق حاصل ہے۔ علاوہ ازیں ہر شخص کو ہر جگہ قانون کی نظر میں ایک فرد کی حیثیت سے تسلیم کئے جانے کا حق حاصل ہے۔
کبھی کبھی یہ سوال اٹھتا ہے کہ ان حقوق میں کس حق کی اہمیت زیادہ اور کس کی کم ہے۔ دراصل یہ اس صورت حال یا وقتی ضروریات پر منحصر ہے جن میں اس حق کا استعمال مقصود ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ تمام حقوق کسی نہ کسی طرح ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہر شخص کی زندگی یا جان کی اتنی ہی اہمیت ہے جتنی کہ اس کے وقار کی یا اس کی شخصی آزادی کی۔ اگر انسان زندہ ہے اور غلام ہے تو وہ کوئی زندگی نہیں۔ زندہ ہے اچھا کھاتا پیتا ہے اور آزادی نہیں تو ایسا حق بھی بے معنی ہے۔ کہنے کا حق رکھتا ہے مگر اظہار رائے کی آزادی نہیں ہے تو ایسے حق کا کوئی فائدہ نہیں۔ بالفاظ دیگر اگر کسی بھی شخص کو کسی انسانی حق سے محروم کیا جاتا ہے تو اس کی زندگی محرومی کی حد تک نامکمل ہے۔ لیکن اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ آج بھی دنیا کے کم وبیش سبھی ممالک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ ان کا بے جا استعمال کیا جاتا ہے۔ انہیں نظر انداز کیا جاتا ہے، انہیں عطا کرنے سے انکار کیا جاتا ہے اور کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔ آج بھی کالے اور گورے میں فرق کیا جاتا ہے۔ ذات پات، مذہب، رنگ، نسل، حسب ونسب، زبان، ملکی وغیر ملکی، اکثریت واقلیت اور اسی قسم کی دیگر بنیادوں پر امتیاز برتا جاتا ہے۔ دراصل ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب انسانی حقوق کی اہمیت کو سمجھیں اور انہیں زندگی کے ہر شعبے میں لاگو کرنے کے لیے جو کچھ بھی کرسکتے ہیں کریں۔
انسانی حقوق کو عملی جامہ پہنانا کوئی مشکل کام نہیں ہے چونکہ ہر شخص بنیادی طور پر شریف ہی ہوتا ہے اور وہ میل ملاپ، پیار ومحبت، آپسی بھائی چارہ اور یگانگت کے ماحول میں پل کر بڑا ہوتا ہے۔ اس قسم کا ماحول ہی آج کے بچوں کو کل کا اچھا شہری اور انسانی حقوق کا علمبردار بنا پائے گا۔
انسانی حقوق کا تاریخی پس منظر
اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ مغرب میں انسانی حقوق کی جدوجہد کا آغاز 1215، میں انگلستان کی تاریخ کے عظیم چارٹر میگنا کارٹا (MAGNA CARTA) کے جاری ہونے کے ساتھ ہوا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس چارٹر سے تقریباً دو سو سال پہلے اس جدودجہد کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب 1037 میں شاہ کانریڈ دوم (CONRAD-II) نے ایک منشور جاری کرکے پارلیمنٹ کے اختیارات متعین کیے۔ اس کے بعد 1188 میں شاہ الفانسو نہم (AL FONSO IX) نے حبس بیجا کا اصول تسلیم کیا۔ پھر بھی یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ برطانیہ کی تاریخ میں، جہاں تک انسانی حقوق کا سوال ہے، سب سے زیادہ اہمیت کی حامل دستاویز میگنا کارٹا ہی ہے اور دوسری سب سے اہم دستاویز مسودہ حقوق 1689ء ہے۔ اس کے علاوہ دیگر دستاویزات جیسے قانون بندوبست 1701، قانون اتحاد انگلستان واسکاٹ لینڈ 1707، قانون اصلاح 1832، پارلیمنٹ ایکٹ 1911، ویسٹ منسٹر کا قانون 1931، تاج کے وزراء کا قانون، 1937، آئرلینڈ کا قانون 1940، آزادیٔ ہند کا قانون 1947 وعوامی نمائندگی کا قانون 1949 سے بھی مغربی دنیا نے پورا پورا استفادہ کیا۔
میگنا کارٹا (MAGNA CARTA) جسے انگلستان کا عظیم چارٹر یا منشور اعظم کہا جاتا ہے انگلستان کے دستوری ارتقاء میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اور انسانی حقوق کی تاریخ میں بھی یہ اسی اہمیت کا حامل ہے۔ برطانیہ کے بادشاہ ہنری اول اسٹیفن اور ہنری دوم اس چارٹر کو منظور کرنے کا وعدہ کرتے رہے لیکن انہوں نے یہ وعدہ پورا نہیں کیا اور اس چارٹر کا اطلاق نہیں ہو پایا لیکن 15 جون 1215 کو انگلستان کے بادشاہ شاہ جان (KING JOHN) جنہیں ان کی سخت مزاجی کی بنا پر (THE TYRANT JOHN) بھی کہا جاتا تھا، نے امراء (BARONS) کے دباؤ میں آکر منشور پر دستخط کردیئے۔ اس چارٹر کو ترمیمات کے ساتھ 1217/1216 اور 1325 میں بھی جاری کیا گیا۔
انسانی حقوق کے رشتہ سے میگنا کارٹا کا سب سے اہم حصہ وہ ہے جس میں قانون اور انصاف کی تشریح، تعبیر ووضاحت کا ذکر کیا گیا ہے اور حقوق کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں میگنا کارٹا میں چرچ کی آزادی اور خودمختاری، عوام اور چرچ اور بادشاہت کے درمیان تنازعات کا فیصلہ، زمینوں اور زمینوں کے مالکان کا تحفظ، کاشتکاروں کو تحفظ، پیشہ ور لوگوں اور تاجروں کو تحفظ، شاہی خاندان کی عظمت واحترام، جنگلات کی بابت حقوق، بادشاہ جان کی فوری برخاستگی، بادشاہ جان کی چارٹر کو منظوری، بیرون کی کونسل کے قیام وغیرہ کا ذکر ہے۔ 1355ء میں برطانیہ کی پارلیمنٹ نے میگنا کارٹا کی توثیق کرتے ہوئے قانونی چارہ جوئی یا قانون کا موزوں ومناسب طریقہ (DUE PROCESS OF LAW) کو منظوری دی۔ اس سے لوگوں کو قانونی تحفظ حاصل ہوا۔ اس توثیق کے بعد کسی بھی شخص کو عدالتی چارہ جوئی کے بغیر یا قانون کے جائز استعمال کے بغیر نہ تو زمین سے بے دخل کیا جاسکتا تھا نہ اسے قید کیا جاسکتا تھا اور نہ اسے سزائے موت دی جاسکتی تھی۔ چودہویں سے سولہویں صدی تک یورپ میں میکیاولی کے نظریات حاوی رہے جس نے آمریت کو جلابخشی۔ سترہویں صدی میں انسان کے فطری حقوق کی زیادہ اہمیت رہی۔ اسی صدی عیسوی میں برطانوی پارلیمنٹ نے 1679ء میں حبس بے جا (HABEAS CORPUS) قانون پاس کیا۔ اس کی رو سے کسی بھی شخص کو بنا قانونی جواز کے گرفتار نہیں کیا جاسکتا تھا۔ میگنا کارٹا کے بعد انگلستان کی دستوری تاریخ میں سب سے اہم دستاویز بل آف رائٹس(BILL OF RIGHTS) 1689 ہے۔ اس بل کے ذریعہ بادشاہ ولیم پر چند پابندیاں عاید کی گئی تھیں۔ اس بل کی خاص باتیں مندرجہ ذیل تھیں :
1۔ قانون کی معطلی اور اس کا اطلاق بادشاہ کرے گا۔ اگر اسے پارلیمنٹ کی منظوری حاصل نہ ہو تو اسے غیر قانونی سمجھا جائے گا اور اس کی کوئی قانونی حیثیت نہ ہوگی۔
2۔ قانون سازی یا اس پر عمل درآمدگی بادشاہ کے ذریعہ ہوگی، جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ اگر اسے پارلیمنٹ کی منظوری حاصل نہ ہو تو اسے غیر قانونی سمجھا جائے گا۔
3۔ بادشاہ کو کوئی ایسی عدالت قائم کرنے کا اختیار نہ ہوگا جس سے انصاف رسانی پر منفی اثر پڑے۔ اگر ایسی عدالت قائم کی گئی تو وہ غیر قانونی متصور ہوگی۔
4۔ رقم کا استعمال بادشاہ پارلیمنٹ کی مرضی سے کرے گا۔ پارلیمنٹ کے مشورے کے بغیر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا اور اگر ایسا کیا گیا تو یہ غیر قانونی فعل ہوگا۔
5۔ بادشاہ کو درخواست پیش کرنا اور اپنے مسائل اس کے سامنے رکھنا رعایا کا حق ہوگا۔ اور اس سلسلے میں عوام کی گرفتاری غیر قانونی متصور ہوگی۔
6۔ امن کے زمانہ میں کوئی فوج بغیر پارلیمنٹ کی منظوری کے نہیں رکھی جائے گی۔
7۔ رعایا جوکہ مذہبی اعتبار سے پروٹسٹنٹ (PROTESTANT) ہوگی، اپنی ذاتی حفاظت کے لئے ہتھیار پاس نہ رکھ سکے گی۔ صرف وہی لوگ ہتھیار رکھ سکیں گے جنہیں قانون ایسا کرنے کی اجازت دیتا ہو۔
8۔ پارلیمنٹ کے ممبران کا انتخاب آزادانہ ہوگا۔
9۔ پارلیمنٹ میں ممبران کو تقریر کی اجازت وآزادی ہوگی اور اس کو کسی عدالت میں چیلنج نہ کیا جاسکے گا۔
10۔ عوام سے زیادہ ضمانت طلب نہ کی جائے گی اور نہ ہی زائد جرمانے عائد کیے جائیں گے اور نہ ہی غیر معمولی سزائیں دی جائیں گی۔
11۔ جیوری کے ارکان کو بااختیار کیا جائے گا تاکہ وہ اپنے فرائض صحیح طور پر سر انجام دے سکیں۔
12۔ جرم ثابت ہونے سے پہلے کسی شخص پر جرمانہ عاید نہیں کیا جائے گا۔
13۔ پارلیمنٹ کا اجلاس وقتاً فوقتاً منعقد ہوتا رہے گا تاکہ عوام کی شکایت پر غور کیا جاسکے اور ان کا مداوا ہوسکے اور عوام کی بہتری آزادی وحقوق کی خاطر مزید اقدامات کیے جاسکیں۔ پارلیمنٹ کا اجلاس سال میں کم از کم ایک مرتبہ ضرور ہوگا۔
12؍جولائی 1776 کو امریکہ کو آزادی ملنے کے بعد وہاں فطری قانون (LAW OF NATURE) ، غلبہ رہا۔ 1787 میں امریکہ کا آئین وجود میں آیا۔ یہ آئین خامیوں کا مجسمہ تھا اور امریکی عوام اس سے مطمئن نہیں تھے اس لیے اس میں بہت سی ترامیم کی گئیں پہلی ترامیم کو حقوق کے بل کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ان ترامیم کی خاص باتیں اس طرح تھیں� :
1۔ پہلی ترمیم : اس ترمیم کے تحت ہر شخص کو اپنے مذہب پر چلنے اور اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کرنے کی مکمل آزادی ہوگی۔ اس کے علاوہ پریس کی آزادی، گفتار کی آزادی، پرسکون ماحول میں اکٹھے ہونے کی آزادی ہوگی اور حکومت کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا حق حاصل ہوگا۔
2۔ دوسری ترمیم : اس ترمیم کے تحت عوام کو اسلحہ رکھنے کا اختیار حاصل ہوگا۔
3۔ تیسری ترمیم : اس ترمیم کے تحت کوئی ٹروپ یا سپاہی لوگوں کی رہائش گاہوں پر تب تک نہیں ٹھہرائے جائیں گے جب تک کہ اس میں مالکان کی رضامندی شامل نہ ہو۔
4۔ چوتھی ترمیم : اس ترمیم کے تحت لوگوں کی، مکانوں، سامان اور کاغذات کی تلاشی یا ضبطی، وارنٹ تلاشی، کے بغیر نہیں کی جائے گی۔
5۔ پانچویں ترمیم : اس ترمیم کے تحت کسی بڑے جرم کی بابت کسی شخص پر تب تک مقدمہ نہیں چلایا جائے گا جب تک کہ اس کی تصدیق کوئی بڑی جیوری نہ کردے۔ بار بار ایک ہی جرم کی سماعت نہیں کی جائے گی اور مکمل قانونی چارہ جوئی کے بغیر سزا نہیں دی جائے گی۔ کسی شخص کو اپنے خلاف بیان دینے پر مجبور نہ کیا جائے گا۔ لوگوں کی جائیداد تب تک ضبط نہیں کی جائے گی جب تک کہ اس کی مناسب قیمت ادا نہ کردی جائے۔
6۔ چھٹی ترمیم : اس ترمیم کے تحت جس ضلع میں جرم کا ارتکاب ہوا اس ضلع میں فوری طور پر کھلی عدالت میں مقدمے کی سماعت ہوگی۔ ملوث لوگوں کے بیانات کی روشنی میں ایک غیر جانبدار اور غیر متعصب جیوری کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ ملزمان کے لیے کاؤنسل کی ضمانت ہوگی۔ گواہان کو شہادت دینے کے لیے مجبور کیا جائے گا گواہان ملزموں کی موجودگی میں شہادت دیں گے۔
7۔ ساتویں ترمیم : اس ترمیم کے تحت کامن لاء کے تحت ایسے قانونی مقدمات کی سماعت کا حق جیوری کو ہوگا جن کی مالیت 20 ڈالر یا اس سے زیادہ کی ہو۔
8۔ آٹھویں ترمیم : �اس ترمیم کے تحت زیادہ رقم کی ضمانت طلب نہ کی جائے گی اور نہ ہی زیادہ رقم کے جرمانے عاید کیے جائیں گے اور نہ ہی غیر معمولی یا سخت سزا دی جائے گی۔
9۔ نویں ترمیم : اس ترمیم کے تحت وہ حقوق جن کی آئین میں وضاحت نہیں ہے ان سے عوام کو محروم نہیں کیا جائے گا۔
10۔ دسویں ترمیم : اس ترمیم کے تحت دستور کی رو سے جو اختیارات متحدہ سلطنت امریکہ کو تفویض نہیں کیے گئے وہ ریاستوں کے لیے ممنوع قرار نہیں دیئے گئے۔ وہ ریاستوں یا لوگوں کے لیے محفوظ ہیں۔
متذکرہ بالا ترامیم کو امریکی کانگریس نے 1789 میں یعنی اسی سال جب فرانس نے انسانوں اور شہریوں کے حقوق کا اعلامیہ(THE FRENCH DECLARATION OF THE RIGHTS OF MAN AND CITIZENS) منظور کیا، منظوری دی۔
انیسویں اور بیسویں صدی میں بہت سے ممالک نے اپنے دساتیر میں انسانی حقوق کو شامل کیا کچھ ممالک نے ان حقوق کو بنیادی حقوق کا نام دیا۔ نہ صرف یہ کہ انسانی حقوق کو دساتیر میں شامل کیا گیا بلکہ اس مدت میں بہت سے ممالک نے انسانی حقوق سے متعلق دیگر قوانین بھی بنائے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد اس ضمن میں کافی تیزی آئی اور آج دنیا کے بیشتر ممالک اپنے دساتیر میں انسانی حقوق کو شامل کرچکے ہیں۔ اگست 1941 میں منشور اوقیانوس (ATLANTIC CHARTER) پر ٖدستخط ہوئے۔ یہ منشور بھی انسانی حقوق کی علمبرداری کی دستاویزوں میں کافی اہمیت کا حامل ہے۔
انسانی حقوق کی مہم کو اس وقت سب سے بڑی کامیابی ملی جب اقوام متحدہ نے 10؍دسمبر 1948 کو انسانی حقوق کا عالمگیر اعلامیہ منظو ر کیا۔ اس دستاویز کی منظوری کے بعد انسانی حقوق کے تحفظ اور حصول کی ذمہ داری اقوام متحدہ پر آگئی۔ دراصل انسانی حقوق کی تاریخ میں میل کے پتھر کی حیثیت رکھنے والی دستاویز انسانی حقوق کا عالمگیر اعلامیہ ہی ہے مابعد منظور کی گئی تمام بین الاقوامی دستاویزیں جو انسانی حقوق کے تحفظ سے متعلق ہیں اور جنہیں یکے بعد دیگرے عملی شکل دی جاتی رہی ہے اسی عالمگیر اعلامیہ کا نتیجہ ہیں۔
ان حقوق میں وہ تمام حقوق شامل ہیں جو بین الاقوامی دستاویزات کے ذریعے عطا کئے گئے ہیں اور جو جغرافیائی حدود کے بغیر تمام لوگوں کو بغیر کسی امتیاز کے ہمہ وقت حاصل ہیں۔ ان میں سے بیشتر حقوق کا ذکر اوپر کیا جاچکا ہے۔ بقیہ حقوق اس طرح ہیں۔ مثلاً یہ کہ تمام انسان برابر ہیں، وہ عظمت وحقوق کے معاملے میں مساوی حیثیت رکھتے ہیں۔ انہیں زندگی، آزادی اور اپنی ذات کے تحفظ کا حق حاصل ہے۔ انہیں غلام بناکر نہیں رکھا جاسکتا۔ انہیں تشدد اور ظلم کا نشانہ نہیں بنایا جاسکتا۔ ان کے ساتھ غیر انسانی اور ذلت آمیز سلوک نہیں کیا جاسکتا۔ کسی بھی شخص کو من مانے طور پر نظربند، گرفتار یا جلاوطن نہیں کیا جاسکتا۔ جرم ثابت ہونے تک کسی بھی ملزم کو مجرم نہیں کہا جاسکتا اور جرم ثابت ہونے تک اس کو معصوم اور بے گناہ سمجھا جائے گا۔ کسی بھی شخص کی خلوت، خاندان، نجی زندگی، گھر یا خط وکتابت میں مداخلت نہیں کی جاسکتی۔ اس کی عزت اور شہرت پر کوئی حملہ نہیں کیا جاسکتا۔ ہر شخص کو ظلم وتشدد سے بچنے کے لئے دوسرے ملک میں پناہ لینے کا حق حاصل ہے۔ ہر شخص کو کوئی بھی قومیت اختیار کرنے اور قومیت کو برقرار رکھنے کا حق حاصل ہے۔ ہر شخص کو اپنی پسند کے مطابق کسی بھی نسل، قومیت یا مذہب والے شخص سے شادی کرنے کا حق حاصل ہے۔ ہر شخص کو تنہا یا دوسروں کے ساتھ مل کر جائیداد رکھنے کا حق حاصل ہے۔ کسی کو من مانے طور پر اس کی جائیداد سے محروم نہیں کیا جاسکتا۔ ہر شخص کو آرام اور تفریح ومتعین اوقات کار کا حق حاصل ہے۔ ہر شخص کو روزگار کے مساوی مواقع کا حق حاصل ہے۔ علاوہ ازیں ہر شخص کو ہر جگہ قانون کی نظر میں ایک فرد کی حیثیت سے تسلیم کئے جانے کا حق حاصل ہے۔
کبھی کبھی یہ سوال اٹھتا ہے کہ ان حقوق میں کس حق کی اہمیت زیادہ اور کس کی کم ہے۔ دراصل یہ اس صورت حال یا وقتی ضروریات پر منحصر ہے جن میں اس حق کا استعمال مقصود ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ یہ تمام حقوق کسی نہ کسی طرح ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔ ہر شخص کی زندگی یا جان کی اتنی ہی اہمیت ہے جتنی کہ اس کے وقار کی یا اس کی شخصی آزادی کی۔ اگر انسان زندہ ہے اور غلام ہے تو وہ کوئی زندگی نہیں۔ زندہ ہے اچھا کھاتا پیتا ہے اور آزادی نہیں تو ایسا حق بھی بے معنی ہے۔ کہنے کا حق رکھتا ہے مگر اظہار رائے کی آزادی نہیں ہے تو ایسے حق کا کوئی فائدہ نہیں۔ بالفاظ دیگر اگر کسی بھی شخص کو کسی انسانی حق سے محروم کیا جاتا ہے تو اس کی زندگی محرومی کی حد تک نامکمل ہے۔ لیکن اس بات سے کون انکار کرسکتا ہے کہ آج بھی دنیا کے کم وبیش سبھی ممالک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہوتی ہے۔ ان کا بے جا استعمال کیا جاتا ہے۔ انہیں نظر انداز کیا جاتا ہے، انہیں عطا کرنے سے انکار کیا جاتا ہے اور کبھی کبھی تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ انہیں تسلیم ہی نہیں کیا جاتا۔ آج بھی کالے اور گورے میں فرق کیا جاتا ہے۔ ذات پات، مذہب، رنگ، نسل، حسب ونسب، زبان، ملکی وغیر ملکی، اکثریت واقلیت اور اسی قسم کی دیگر بنیادوں پر امتیاز برتا جاتا ہے۔ دراصل ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم سب انسانی حقوق کی اہمیت کو سمجھیں اور انہیں زندگی کے ہر شعبے میں لاگو کرنے کے لیے جو کچھ بھی کرسکتے ہیں کریں۔
انسانی حقوق کو عملی جامہ پہنانا کوئی مشکل کام نہیں ہے چونکہ ہر شخص بنیادی طور پر شریف ہی ہوتا ہے اور وہ میل ملاپ، پیار ومحبت، آپسی بھائی چارہ اور یگانگت کے ماحول میں پل کر بڑا ہوتا ہے۔ اس قسم کا ماحول ہی آج کے بچوں کو کل کا اچھا شہری اور انسانی حقوق کا علمبردار بنا پائے گا۔
انسانی حقوق کا تاریخی پس منظر
اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ مغرب میں انسانی حقوق کی جدوجہد کا آغاز 1215، میں انگلستان کی تاریخ کے عظیم چارٹر میگنا کارٹا (MAGNA CARTA) کے جاری ہونے کے ساتھ ہوا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس چارٹر سے تقریباً دو سو سال پہلے اس جدودجہد کا آغاز اس وقت ہوا تھا جب 1037 میں شاہ کانریڈ دوم (CONRAD-II) نے ایک منشور جاری کرکے پارلیمنٹ کے اختیارات متعین کیے۔ اس کے بعد 1188 میں شاہ الفانسو نہم (AL FONSO IX) نے حبس بیجا کا اصول تسلیم کیا۔ پھر بھی یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ برطانیہ کی تاریخ میں، جہاں تک انسانی حقوق کا سوال ہے، سب سے زیادہ اہمیت کی حامل دستاویز میگنا کارٹا ہی ہے اور دوسری سب سے اہم دستاویز مسودہ حقوق 1689ء ہے۔ اس کے علاوہ دیگر دستاویزات جیسے قانون بندوبست 1701، قانون اتحاد انگلستان واسکاٹ لینڈ 1707، قانون اصلاح 1832، پارلیمنٹ ایکٹ 1911، ویسٹ منسٹر کا قانون 1931، تاج کے وزراء کا قانون، 1937، آئرلینڈ کا قانون 1940، آزادیٔ ہند کا قانون 1947 وعوامی نمائندگی کا قانون 1949 سے بھی مغربی دنیا نے پورا پورا استفادہ کیا۔
میگنا کارٹا (MAGNA CARTA) جسے انگلستان کا عظیم چارٹر یا منشور اعظم کہا جاتا ہے انگلستان کے دستوری ارتقاء میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے اور انسانی حقوق کی تاریخ میں بھی یہ اسی اہمیت کا حامل ہے۔ برطانیہ کے بادشاہ ہنری اول اسٹیفن اور ہنری دوم اس چارٹر کو منظور کرنے کا وعدہ کرتے رہے لیکن انہوں نے یہ وعدہ پورا نہیں کیا اور اس چارٹر کا اطلاق نہیں ہو پایا لیکن 15 جون 1215 کو انگلستان کے بادشاہ شاہ جان (KING JOHN) جنہیں ان کی سخت مزاجی کی بنا پر (THE TYRANT JOHN) بھی کہا جاتا تھا، نے امراء (BARONS) کے دباؤ میں آکر منشور پر دستخط کردیئے۔ اس چارٹر کو ترمیمات کے ساتھ 1217/1216 اور 1325 میں بھی جاری کیا گیا۔
انسانی حقوق کے رشتہ سے میگنا کارٹا کا سب سے اہم حصہ وہ ہے جس میں قانون اور انصاف کی تشریح، تعبیر ووضاحت کا ذکر کیا گیا ہے اور حقوق کو تحفظ فراہم کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں میگنا کارٹا میں چرچ کی آزادی اور خودمختاری، عوام اور چرچ اور بادشاہت کے درمیان تنازعات کا فیصلہ، زمینوں اور زمینوں کے مالکان کا تحفظ، کاشتکاروں کو تحفظ، پیشہ ور لوگوں اور تاجروں کو تحفظ، شاہی خاندان کی عظمت واحترام، جنگلات کی بابت حقوق، بادشاہ جان کی فوری برخاستگی، بادشاہ جان کی چارٹر کو منظوری، بیرون کی کونسل کے قیام وغیرہ کا ذکر ہے۔ 1355ء میں برطانیہ کی پارلیمنٹ نے میگنا کارٹا کی توثیق کرتے ہوئے قانونی چارہ جوئی یا قانون کا موزوں ومناسب طریقہ (DUE PROCESS OF LAW) کو منظوری دی۔ اس سے لوگوں کو قانونی تحفظ حاصل ہوا۔ اس توثیق کے بعد کسی بھی شخص کو عدالتی چارہ جوئی کے بغیر یا قانون کے جائز استعمال کے بغیر نہ تو زمین سے بے دخل کیا جاسکتا تھا نہ اسے قید کیا جاسکتا تھا اور نہ اسے سزائے موت دی جاسکتی تھی۔ چودہویں سے سولہویں صدی تک یورپ میں میکیاولی کے نظریات حاوی رہے جس نے آمریت کو جلابخشی۔ سترہویں صدی میں انسان کے فطری حقوق کی زیادہ اہمیت رہی۔ اسی صدی عیسوی میں برطانوی پارلیمنٹ نے 1679ء میں حبس بے جا (HABEAS CORPUS) قانون پاس کیا۔ اس کی رو سے کسی بھی شخص کو بنا قانونی جواز کے گرفتار نہیں کیا جاسکتا تھا۔ میگنا کارٹا کے بعد انگلستان کی دستوری تاریخ میں سب سے اہم دستاویز بل آف رائٹس(BILL OF RIGHTS) 1689 ہے۔ اس بل کے ذریعہ بادشاہ ولیم پر چند پابندیاں عاید کی گئی تھیں۔ اس بل کی خاص باتیں مندرجہ ذیل تھیں :
1۔ قانون کی معطلی اور اس کا اطلاق بادشاہ کرے گا۔ اگر اسے پارلیمنٹ کی منظوری حاصل نہ ہو تو اسے غیر قانونی سمجھا جائے گا اور اس کی کوئی قانونی حیثیت نہ ہوگی۔
2۔ قانون سازی یا اس پر عمل درآمدگی بادشاہ کے ذریعہ ہوگی، جیسا کہ ماضی میں ہوتا رہا ہے۔ اگر اسے پارلیمنٹ کی منظوری حاصل نہ ہو تو اسے غیر قانونی سمجھا جائے گا۔
3۔ بادشاہ کو کوئی ایسی عدالت قائم کرنے کا اختیار نہ ہوگا جس سے انصاف رسانی پر منفی اثر پڑے۔ اگر ایسی عدالت قائم کی گئی تو وہ غیر قانونی متصور ہوگی۔
4۔ رقم کا استعمال بادشاہ پارلیمنٹ کی مرضی سے کرے گا۔ پارلیمنٹ کے مشورے کے بغیر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائے گا اور اگر ایسا کیا گیا تو یہ غیر قانونی فعل ہوگا۔
5۔ بادشاہ کو درخواست پیش کرنا اور اپنے مسائل اس کے سامنے رکھنا رعایا کا حق ہوگا۔ اور اس سلسلے میں عوام کی گرفتاری غیر قانونی متصور ہوگی۔
6۔ امن کے زمانہ میں کوئی فوج بغیر پارلیمنٹ کی منظوری کے نہیں رکھی جائے گی۔
7۔ رعایا جوکہ مذہبی اعتبار سے پروٹسٹنٹ (PROTESTANT) ہوگی، اپنی ذاتی حفاظت کے لئے ہتھیار پاس نہ رکھ سکے گی۔ صرف وہی لوگ ہتھیار رکھ سکیں گے جنہیں قانون ایسا کرنے کی اجازت دیتا ہو۔
8۔ پارلیمنٹ کے ممبران کا انتخاب آزادانہ ہوگا۔
9۔ پارلیمنٹ میں ممبران کو تقریر کی اجازت وآزادی ہوگی اور اس کو کسی عدالت میں چیلنج نہ کیا جاسکے گا۔
10۔ عوام سے زیادہ ضمانت طلب نہ کی جائے گی اور نہ ہی زائد جرمانے عائد کیے جائیں گے اور نہ ہی غیر معمولی سزائیں دی جائیں گی۔
11۔ جیوری کے ارکان کو بااختیار کیا جائے گا تاکہ وہ اپنے فرائض صحیح طور پر سر انجام دے سکیں۔
12۔ جرم ثابت ہونے سے پہلے کسی شخص پر جرمانہ عاید نہیں کیا جائے گا۔
13۔ پارلیمنٹ کا اجلاس وقتاً فوقتاً منعقد ہوتا رہے گا تاکہ عوام کی شکایت پر غور کیا جاسکے اور ان کا مداوا ہوسکے اور عوام کی بہتری آزادی وحقوق کی خاطر مزید اقدامات کیے جاسکیں۔ پارلیمنٹ کا اجلاس سال میں کم از کم ایک مرتبہ ضرور ہوگا۔
12؍جولائی 1776 کو امریکہ کو آزادی ملنے کے بعد وہاں فطری قانون (LAW OF NATURE) ، غلبہ رہا۔ 1787 میں امریکہ کا آئین وجود میں آیا۔ یہ آئین خامیوں کا مجسمہ تھا اور امریکی عوام اس سے مطمئن نہیں تھے اس لیے اس میں بہت سی ترامیم کی گئیں پہلی ترامیم کو حقوق کے بل کے نام سے موسوم کیا جاتا ہے ان ترامیم کی خاص باتیں اس طرح تھیں� :
1۔ پہلی ترمیم : اس ترمیم کے تحت ہر شخص کو اپنے مذہب پر چلنے اور اپنے عقیدے کے مطابق عبادت کرنے کی مکمل آزادی ہوگی۔ اس کے علاوہ پریس کی آزادی، گفتار کی آزادی، پرسکون ماحول میں اکٹھے ہونے کی آزادی ہوگی اور حکومت کے خلاف قانونی چارہ جوئی کا حق حاصل ہوگا۔
2۔ دوسری ترمیم : اس ترمیم کے تحت عوام کو اسلحہ رکھنے کا اختیار حاصل ہوگا۔
3۔ تیسری ترمیم : اس ترمیم کے تحت کوئی ٹروپ یا سپاہی لوگوں کی رہائش گاہوں پر تب تک نہیں ٹھہرائے جائیں گے جب تک کہ اس میں مالکان کی رضامندی شامل نہ ہو۔
4۔ چوتھی ترمیم : اس ترمیم کے تحت لوگوں کی، مکانوں، سامان اور کاغذات کی تلاشی یا ضبطی، وارنٹ تلاشی، کے بغیر نہیں کی جائے گی۔
5۔ پانچویں ترمیم : اس ترمیم کے تحت کسی بڑے جرم کی بابت کسی شخص پر تب تک مقدمہ نہیں چلایا جائے گا جب تک کہ اس کی تصدیق کوئی بڑی جیوری نہ کردے۔ بار بار ایک ہی جرم کی سماعت نہیں کی جائے گی اور مکمل قانونی چارہ جوئی کے بغیر سزا نہیں دی جائے گی۔ کسی شخص کو اپنے خلاف بیان دینے پر مجبور نہ کیا جائے گا۔ لوگوں کی جائیداد تب تک ضبط نہیں کی جائے گی جب تک کہ اس کی مناسب قیمت ادا نہ کردی جائے۔
6۔ چھٹی ترمیم : اس ترمیم کے تحت جس ضلع میں جرم کا ارتکاب ہوا اس ضلع میں فوری طور پر کھلی عدالت میں مقدمے کی سماعت ہوگی۔ ملوث لوگوں کے بیانات کی روشنی میں ایک غیر جانبدار اور غیر متعصب جیوری کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔ ملزمان کے لیے کاؤنسل کی ضمانت ہوگی۔ گواہان کو شہادت دینے کے لیے مجبور کیا جائے گا گواہان ملزموں کی موجودگی میں شہادت دیں گے۔
7۔ ساتویں ترمیم : اس ترمیم کے تحت کامن لاء کے تحت ایسے قانونی مقدمات کی سماعت کا حق جیوری کو ہوگا جن کی مالیت 20 ڈالر یا اس سے زیادہ کی ہو۔
8۔ آٹھویں ترمیم : �اس ترمیم کے تحت زیادہ رقم کی ضمانت طلب نہ کی جائے گی اور نہ ہی زیادہ رقم کے جرمانے عاید کیے جائیں گے اور نہ ہی غیر معمولی یا سخت سزا دی جائے گی۔
9۔ نویں ترمیم : اس ترمیم کے تحت وہ حقوق جن کی آئین میں وضاحت نہیں ہے ان سے عوام کو محروم نہیں کیا جائے گا۔
10۔ دسویں ترمیم : اس ترمیم کے تحت دستور کی رو سے جو اختیارات متحدہ سلطنت امریکہ کو تفویض نہیں کیے گئے وہ ریاستوں کے لیے ممنوع قرار نہیں دیئے گئے۔ وہ ریاستوں یا لوگوں کے لیے محفوظ ہیں۔
متذکرہ بالا ترامیم کو امریکی کانگریس نے 1789 میں یعنی اسی سال جب فرانس نے انسانوں اور شہریوں کے حقوق کا اعلامیہ(THE FRENCH DECLARATION OF THE RIGHTS OF MAN AND CITIZENS) منظور کیا، منظوری دی۔
انیسویں اور بیسویں صدی میں بہت سے ممالک نے اپنے دساتیر میں انسانی حقوق کو شامل کیا کچھ ممالک نے ان حقوق کو بنیادی حقوق کا نام دیا۔ نہ صرف یہ کہ انسانی حقوق کو دساتیر میں شامل کیا گیا بلکہ اس مدت میں بہت سے ممالک نے انسانی حقوق سے متعلق دیگر قوانین بھی بنائے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد اس ضمن میں کافی تیزی آئی اور آج دنیا کے بیشتر ممالک اپنے دساتیر میں انسانی حقوق کو شامل کرچکے ہیں۔ اگست 1941 میں منشور اوقیانوس (ATLANTIC CHARTER) پر ٖدستخط ہوئے۔ یہ منشور بھی انسانی حقوق کی علمبرداری کی دستاویزوں میں کافی اہمیت کا حامل ہے۔
انسانی حقوق کی مہم کو اس وقت سب سے بڑی کامیابی ملی جب اقوام متحدہ نے 10؍دسمبر 1948 کو انسانی حقوق کا عالمگیر اعلامیہ منظو ر کیا۔ اس دستاویز کی منظوری کے بعد انسانی حقوق کے تحفظ اور حصول کی ذمہ داری اقوام متحدہ پر آگئی۔ دراصل انسانی حقوق کی تاریخ میں میل کے پتھر کی حیثیت رکھنے والی دستاویز انسانی حقوق کا عالمگیر اعلامیہ ہی ہے مابعد منظور کی گئی تمام بین الاقوامی دستاویزیں جو انسانی حقوق کے تحفظ سے متعلق ہیں اور جنہیں یکے بعد دیگرے عملی شکل دی جاتی رہی ہے اسی عالمگیر اعلامیہ کا نتیجہ ہیں۔
باب 2
انسانی
حقوق اور بین الاقوامی روابط
دیگر
جمہوری ممالک کی طرح بھارت کے آئین میں بھی بین الاقوامی امن وسلامتی کو فروغ
دینے کے لیے دفعہ 51 شامل کی گئی ہے جس میں صاف طور پر یہ بات کہی گئی ہے کہ مملکت
اس بات کی کوشش کرے گی کہ وہ بین الاقوامی امن اور سلامتی کو فروغ دے، قوموں کے
درمیان منصفانہ اور باعزت تعلقات قائم رکھے، منظم اقوام کے باہمی معاملات میں بین
الاقوامی قانون اور عہد ناموں کے وجوب کے احترام کو بڑھائے اور قائم رکھے اور بین
الاقوامی تنازعات کو ثالثی کے ذریعے طے کرنے کی حوصلہ افزائی کرے۔ اس کے علاوہ
آئین کے ساتویں فہرست بند کی فہرست 1 (یونین فہرست) میں مد 13 کو شامل کیا گیا ہے
جو بین الاقوامی کانفرنسوں، انجمنوں اور دیگر جماعتوں میں شرکت اور اس میں کیے
ہوئے فیصلوں کی تعمیل سے متعلق ہے۔ اس فہرست بند کی اسی فہرست میں مد 14کو جو دیگر
ممالک کے ساتھ عہد نامے اور اقرار کرنے اور دیگر ممالک سے کیے ہوئے عہدناموں،
اقرار ناموں اور عہدوپیمان کو پورا کرنے سے متعلق ہے، شامل کیا گیا ہے۔
گذشتہ صدی کی آخری دہائی میں انسانی حقوق سے متعلق کام کرنے والے غیر سرکاری اداروں (NGOs) کی تعداد میں دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں ہی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ میڈیا نے بھی اس عرصے میں انسانی حقوق کے تحفظ کی اہمیت اور ان کی خلاف ورزی وپامالی سے متعلق امور کو زیادہ سے زیادہ جگہ دی ہے۔ اس کے علاوہ اسی دہائی میں عالمی معیشت میں ایک نئی تبدیلی آئی ہے جسے GLOBALISATION کا نام دیا گیا ہے۔ یہ عالمی تجارت پر عاید پابندیوں کے خاتمے اور اقتصادی خطوں کے بیچ بڑھتے ہوئے باہمی انحصار کا نتیجہ ہے۔ اس سے عالمی معیشت میں اتحاد اور قربت پیدا ہوگی۔ آج کے اس دور میں کوئی بھی ملک تب تک ترقی نہیں کرسکتا جب تک وہ دوسرے ممالک سے باہمی تجارتی رشتہ نہ رکھے۔ آج کی دنیا میں نہ صرف غیر ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ممالک ترقی یافتہ ممالک پر منحصر ہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک بھی غیر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک پر اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے منحصر ہیں۔ آج چھوٹے چھوٹے ممالک بڑے بڑے ممالک کو بہت سا سامان برآمد کرتے ہیں۔ یہ باہمی انحصار، جسے باہمی تجارتی رشتہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا، ایک نہایت مثبت قدم ہے کیونکہ مختلف ممالک کے آپسی روابط بڑھنے سے انسانی حقوق کے تحفظ کے مشن کو بھی تقویت حاصل ہوگی۔ چونکہ لوگ مختلف قوموں اور مختلف لوگوں کے جذبات کا زیادہ سے زیادہ احترام کریں گے، ان کی تجارتی قربت کا نتیجہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ نظریاتی قربت کی شکل میں بھی رونما ہوگا۔ WTO اور اس قسم کے دیگر ادارے اس ضمن میں اہم کردار ادا کررہے ہیں اور دنیا کے تمام ممالک اس قسم کے اداروں کے ذریعہ کیے گئے فیصلوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ حال ہی کی بات ہے کہ ہندوستانی حکومت نے سات سو سے زیادہ غیر ملکی اشیاء کو ہندوستان میں درآمد کرنے کی اجازت دی ہے۔ اس سے حکومت ہند نے جو غیر ملکی کمپنیوں کو ملک میں لانے کی مہم شروع کی تھی اسے ایک اور نئی زندگی ملے گی۔ حکومت نے اس بات کا بھی خیال رکھا ہے کہ ایسا کرنے سے ہمارے ملک کی صنعتوں پر کوئی منفی اثر نہ پڑے اور انہیں ہر ممکن تحفظ عطا کیا جائے۔ نہ صرف یہ بلکہ ہماری صنعتیں اور ہمارے تاجر خود اس بات کی کوشش کریں گے کہ وہ ایسا مال بنائیں جس کی کوالیٹی غیر ملکی مال سے کسی بھی طرح کم نہ ہو بلکہ ان کی کوشش تو یہ ہونی چاہئے کہ وہ اس سے بھی بہتر مال تیار کریں۔ ایسا کرنے سے ملکی صنعتوں کو کوئی نقصان نہیں ہوگا بلکہ انہیں آگے بڑھنے اور بین الاقوامی مقابلوں میں بہتر مقابلہ کرنے کا موقع ملے گا صحت مند مقابلہ (HEALTHY COMPETITION) ہمیشہ کسی بھی صنعت کے فروغ کا باعث ہوتا ہے۔
یہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ اقتصادی ترقی سے جمہوری اقدار کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔ لاطینی امریکہ میں یہ بات کھل کر سامنے آئی ہے۔ ایشیا کے ممالک نے بھی اپنے آپ کو روایتی وسماجی رکاوٹوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اس پرانے ماحول سے نکلنے کی کوشش کی ہے جس میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ مشرق،مشرق ہے اور مغرب، مغرب۔
ایشیا کے ممالک جیسے چین، جاپان، ہندوستان وغیرہ بھی معاشی و اقتصادی میدان میں کافی آگے بڑھ چکے ہیں۔ آج یہ ممالک، جنہیں امریکہ اور یورپ کے بہترین بازار سمجھا جاتا تھا، یورپ اور امریکہ میں اپنا بنا ہوا سامان بھیج رہے ہیں۔ ان ممالک میں شاید ہی کوئی بڑا اسٹور ایسا ہو جس میں ہندوستان، چین اور جاپان وغیرہ کا بنا ہوا سامان موجود نہ ہو۔
سرد جنگ کے خاتمے کے ساتھ ساتھ عالمی جنگ کا خطرہ بہت کم ہوگیا ہے آج روس اور امریکہ ایک دوسرے کے حریف نہیں ہیں بلکہ یہ دونوں بڑی طاقتیں اس بات کے لیے کوشاں ہیں کہ دنیا کے تمام سیاسی ودیگر مسائل باہمی بات چیت سے حل ہوں، کہیں پر بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہ ہو، سیاسی استحکام ہو، جمہوری اقدار کی قدر کی جائے، تمام بین الاقوامی قراردادوں، عہدناموں ومتعلقہ دستاویزوں کا احترام کیا جائے اور ان پر عمل درآمد کیا جائے اور جو ممالک ایسا کرنے سے گریز کریں ان کے خلاف متعلقہ بین الاقوامی فورم میں مناسب کارروائی کی جائے۔ ان سب باتوں کے باوجود آج بھی دنیا کے مختلف حصوں میں تشدد، شورش، دہشت گردی، مسلح مڈبھیڑ وتصادم جیسے واقعات وقتاً فوقتاً رونما ہوتے ہی رہتے ہیں۔ مذہبی جنون اور فرقہ واریت بڑھتی جارہی ہے جبکہ بین الاقوامی ادارے اور انسانی حقوق سے متعلق تمام تنظیمیں اس کو روکنے کے لیے دن رات کام کررہی ہیں۔ جب تک کمزور کو دبایا جاتا رہے گا، اقلیتوں پر مظالم ہوتے رہیں گے یا بالفاظ دیگر جب تک انسانی حقوق کے تسلیم شدہ اصولوں کی خلاف ورزی ہوتی رہے گی تب تک ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ دنیا صحیح معنوں میں ایک مہذب دنیا بن چکی ہے۔ اس دنیا کو صحیح معنوں میں GLOBAL VILLAGE تب کہا جائے گا جب ایک انسان دوسرے انسان کو اپنے جیسا سمجھے اور اس کے ساتھ برابر کا سلوک کرے۔ اور کسی کا استحصال نہ ہو۔
بین الاقوامی برادری نے اب اس بات کو تسلیم کرلیا ہے کہ کسی ملک کی سا لمیت اور سماج کا تحفظ اس بات پر منحصر ہے کہ وہاں پر انسانی حقوق کا کتنا احترام کیا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزی عدم استحکام کو جنم دیتی ہے اور اس سے کسی ملک کی سا لمیت اور اس کے تحفظ کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔ کسی جنگ یا مسلح مڈبھیڑ وتصادم کو روکنے کے لیے محض دفاعی طاقت، دفاعی اشتراک اور اسلحہ پر کنٹرول ہی کافی نہیں ہے بلکہ انسانی حقوق اور اقتدار قانون کا احترام بھی ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشی آزادی اور سماجی ذمہ داری کا احساس بھی اشد ضروری ہے۔ علاوہ ازیں ایک ایسا بہتر ماحول میسر کرنے کی بھی ضرورت ہے جس میں ہر شخص باعزت زندگی گزار سکے اور کسی بھی طرح اس کے وقار کو ٹھیس نہ پہنچے۔
اقوام متحدہ کی قراردادیں، اعلامیے، عہدوپیمان اور دیگر بین الاقوامی دستاویزیں بین الاقوامی تعلقات میں انسانی حقوق کی اہمیت کو مکمل طور سے تسلیم کرتی ہیں۔ یورپین یونین، ویسٹرن یورپین یونین، افریقی ادارے، سارک، سیٹو، عرب لیگ اور اسی قسم کے دیگر ادارے بھی اس بات سے مکمل اتفاق کرتے ہیں۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دنیا کی تمام مہذب قومیں اور ممالک اس قسم کی تمام بین الاقوامی دستاویزوں کو پوری پوری اہمیت دیتے ہیں۔ ان کا مکمل احترام کرتے ہیں۔ اور ان پر عمل پیرا ہونے کی حتی الامکان کوشش کرتے ہیں۔ ان دستاویزوں کی بیشتر ممالک توثیق کرچکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سابق سکریٹری جنرل کوفی عنان نے یوم حقوق انسانی کے موقع پر دیئے گئے اپنے ایک پیغام میں یہ کہا تھا کہ ہم سب اس بات کا اعادہ کریں کہ ہم ہر قسم کے نسلی امتیاز، تشدد، تعصب، عدم رواداری جیسی برائیوں کو دور کریں گے۔ انہوں نے اپنے اس پیغام میں اس بات کی طرف بھی واضح طور پر اشارہ کیا تھا کہ ابھی ہم اپنی منزل سے بہت دور ہیں۔ آج بھی دنیا میں مردوں، عورتوں اور بچوں کو یہ بھروسہ نہیں کہ وہ کب تک زندہ رہیں گے یا یہ کہ انہیں کب اپنی جان سے صرف اس لئے ہاتھ دھونا پڑے کہ ان کا جنم کسی خاص فرقہ یا گروپ میں ہوا ہے یا یہ کہ ان کا اس سے تعلق ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ روانڈا بوسنیا، کوسودو کے واقعات کی یاد آج بھی تازہ ہے اور وہ ہمیں اس بات کی یاد دلاتے ہیں کہ ان ممالک میں رونما ہونے والے واقعات نے انسانیت کو جھنجھوڑ دیا تھا اور اسے تارتار کردیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آج کے دن ہم سب کو پھر سے اپنے اس عہد کی تجدید کرنی چاہئے کہ ہم ایک ایسی ملی جلی عالمی ثقافت کو جنم دیں گے جس میں ہر نسل اور ہر مذہب کے لوگ ایک ساتھ پیارومحبت کے ساتھ رہیں۔
گذشتہ صدی کی آخری دہائی میں انسانی حقوق سے متعلق کام کرنے والے غیر سرکاری اداروں (NGOs) کی تعداد میں دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں ہی نمایاں اضافہ ہوا ہے۔ میڈیا نے بھی اس عرصے میں انسانی حقوق کے تحفظ کی اہمیت اور ان کی خلاف ورزی وپامالی سے متعلق امور کو زیادہ سے زیادہ جگہ دی ہے۔ اس کے علاوہ اسی دہائی میں عالمی معیشت میں ایک نئی تبدیلی آئی ہے جسے GLOBALISATION کا نام دیا گیا ہے۔ یہ عالمی تجارت پر عاید پابندیوں کے خاتمے اور اقتصادی خطوں کے بیچ بڑھتے ہوئے باہمی انحصار کا نتیجہ ہے۔ اس سے عالمی معیشت میں اتحاد اور قربت پیدا ہوگی۔ آج کے اس دور میں کوئی بھی ملک تب تک ترقی نہیں کرسکتا جب تک وہ دوسرے ممالک سے باہمی تجارتی رشتہ نہ رکھے۔ آج کی دنیا میں نہ صرف غیر ترقی یافتہ یا ترقی پذیر ممالک ترقی یافتہ ممالک پر منحصر ہیں بلکہ ترقی یافتہ ممالک بھی غیر ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک پر اپنی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے منحصر ہیں۔ آج چھوٹے چھوٹے ممالک بڑے بڑے ممالک کو بہت سا سامان برآمد کرتے ہیں۔ یہ باہمی انحصار، جسے باہمی تجارتی رشتہ کہنا زیادہ بہتر ہوگا، ایک نہایت مثبت قدم ہے کیونکہ مختلف ممالک کے آپسی روابط بڑھنے سے انسانی حقوق کے تحفظ کے مشن کو بھی تقویت حاصل ہوگی۔ چونکہ لوگ مختلف قوموں اور مختلف لوگوں کے جذبات کا زیادہ سے زیادہ احترام کریں گے، ان کی تجارتی قربت کا نتیجہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ نظریاتی قربت کی شکل میں بھی رونما ہوگا۔ WTO اور اس قسم کے دیگر ادارے اس ضمن میں اہم کردار ادا کررہے ہیں اور دنیا کے تمام ممالک اس قسم کے اداروں کے ذریعہ کیے گئے فیصلوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے کوشاں ہیں۔ حال ہی کی بات ہے کہ ہندوستانی حکومت نے سات سو سے زیادہ غیر ملکی اشیاء کو ہندوستان میں درآمد کرنے کی اجازت دی ہے۔ اس سے حکومت ہند نے جو غیر ملکی کمپنیوں کو ملک میں لانے کی مہم شروع کی تھی اسے ایک اور نئی زندگی ملے گی۔ حکومت نے اس بات کا بھی خیال رکھا ہے کہ ایسا کرنے سے ہمارے ملک کی صنعتوں پر کوئی منفی اثر نہ پڑے اور انہیں ہر ممکن تحفظ عطا کیا جائے۔ نہ صرف یہ بلکہ ہماری صنعتیں اور ہمارے تاجر خود اس بات کی کوشش کریں گے کہ وہ ایسا مال بنائیں جس کی کوالیٹی غیر ملکی مال سے کسی بھی طرح کم نہ ہو بلکہ ان کی کوشش تو یہ ہونی چاہئے کہ وہ اس سے بھی بہتر مال تیار کریں۔ ایسا کرنے سے ملکی صنعتوں کو کوئی نقصان نہیں ہوگا بلکہ انہیں آگے بڑھنے اور بین الاقوامی مقابلوں میں بہتر مقابلہ کرنے کا موقع ملے گا صحت مند مقابلہ (HEALTHY COMPETITION) ہمیشہ کسی بھی صنعت کے فروغ کا باعث ہوتا ہے۔
یہ اکثر دیکھنے میں آیا ہے کہ اقتصادی ترقی سے جمہوری اقدار کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔ لاطینی امریکہ میں یہ بات کھل کر سامنے آئی ہے۔ ایشیا کے ممالک نے بھی اپنے آپ کو روایتی وسماجی رکاوٹوں کا مقابلہ کرتے ہوئے اس پرانے ماحول سے نکلنے کی کوشش کی ہے جس میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ مشرق،مشرق ہے اور مغرب، مغرب۔
ایشیا کے ممالک جیسے چین، جاپان، ہندوستان وغیرہ بھی معاشی و اقتصادی میدان میں کافی آگے بڑھ چکے ہیں۔ آج یہ ممالک، جنہیں امریکہ اور یورپ کے بہترین بازار سمجھا جاتا تھا، یورپ اور امریکہ میں اپنا بنا ہوا سامان بھیج رہے ہیں۔ ان ممالک میں شاید ہی کوئی بڑا اسٹور ایسا ہو جس میں ہندوستان، چین اور جاپان وغیرہ کا بنا ہوا سامان موجود نہ ہو۔
سرد جنگ کے خاتمے کے ساتھ ساتھ عالمی جنگ کا خطرہ بہت کم ہوگیا ہے آج روس اور امریکہ ایک دوسرے کے حریف نہیں ہیں بلکہ یہ دونوں بڑی طاقتیں اس بات کے لیے کوشاں ہیں کہ دنیا کے تمام سیاسی ودیگر مسائل باہمی بات چیت سے حل ہوں، کہیں پر بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہ ہو، سیاسی استحکام ہو، جمہوری اقدار کی قدر کی جائے، تمام بین الاقوامی قراردادوں، عہدناموں ومتعلقہ دستاویزوں کا احترام کیا جائے اور ان پر عمل درآمد کیا جائے اور جو ممالک ایسا کرنے سے گریز کریں ان کے خلاف متعلقہ بین الاقوامی فورم میں مناسب کارروائی کی جائے۔ ان سب باتوں کے باوجود آج بھی دنیا کے مختلف حصوں میں تشدد، شورش، دہشت گردی، مسلح مڈبھیڑ وتصادم جیسے واقعات وقتاً فوقتاً رونما ہوتے ہی رہتے ہیں۔ مذہبی جنون اور فرقہ واریت بڑھتی جارہی ہے جبکہ بین الاقوامی ادارے اور انسانی حقوق سے متعلق تمام تنظیمیں اس کو روکنے کے لیے دن رات کام کررہی ہیں۔ جب تک کمزور کو دبایا جاتا رہے گا، اقلیتوں پر مظالم ہوتے رہیں گے یا بالفاظ دیگر جب تک انسانی حقوق کے تسلیم شدہ اصولوں کی خلاف ورزی ہوتی رہے گی تب تک ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ دنیا صحیح معنوں میں ایک مہذب دنیا بن چکی ہے۔ اس دنیا کو صحیح معنوں میں GLOBAL VILLAGE تب کہا جائے گا جب ایک انسان دوسرے انسان کو اپنے جیسا سمجھے اور اس کے ساتھ برابر کا سلوک کرے۔ اور کسی کا استحصال نہ ہو۔
بین الاقوامی برادری نے اب اس بات کو تسلیم کرلیا ہے کہ کسی ملک کی سا لمیت اور سماج کا تحفظ اس بات پر منحصر ہے کہ وہاں پر انسانی حقوق کا کتنا احترام کیا جاتا ہے۔ انسانی حقوق کی خلاف ورزی عدم استحکام کو جنم دیتی ہے اور اس سے کسی ملک کی سا لمیت اور اس کے تحفظ کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے۔ کسی جنگ یا مسلح مڈبھیڑ وتصادم کو روکنے کے لیے محض دفاعی طاقت، دفاعی اشتراک اور اسلحہ پر کنٹرول ہی کافی نہیں ہے بلکہ انسانی حقوق اور اقتدار قانون کا احترام بھی ضروری ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشی آزادی اور سماجی ذمہ داری کا احساس بھی اشد ضروری ہے۔ علاوہ ازیں ایک ایسا بہتر ماحول میسر کرنے کی بھی ضرورت ہے جس میں ہر شخص باعزت زندگی گزار سکے اور کسی بھی طرح اس کے وقار کو ٹھیس نہ پہنچے۔
اقوام متحدہ کی قراردادیں، اعلامیے، عہدوپیمان اور دیگر بین الاقوامی دستاویزیں بین الاقوامی تعلقات میں انسانی حقوق کی اہمیت کو مکمل طور سے تسلیم کرتی ہیں۔ یورپین یونین، ویسٹرن یورپین یونین، افریقی ادارے، سارک، سیٹو، عرب لیگ اور اسی قسم کے دیگر ادارے بھی اس بات سے مکمل اتفاق کرتے ہیں۔
یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ دنیا کی تمام مہذب قومیں اور ممالک اس قسم کی تمام بین الاقوامی دستاویزوں کو پوری پوری اہمیت دیتے ہیں۔ ان کا مکمل احترام کرتے ہیں۔ اور ان پر عمل پیرا ہونے کی حتی الامکان کوشش کرتے ہیں۔ ان دستاویزوں کی بیشتر ممالک توثیق کرچکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے سابق سکریٹری جنرل کوفی عنان نے یوم حقوق انسانی کے موقع پر دیئے گئے اپنے ایک پیغام میں یہ کہا تھا کہ ہم سب اس بات کا اعادہ کریں کہ ہم ہر قسم کے نسلی امتیاز، تشدد، تعصب، عدم رواداری جیسی برائیوں کو دور کریں گے۔ انہوں نے اپنے اس پیغام میں اس بات کی طرف بھی واضح طور پر اشارہ کیا تھا کہ ابھی ہم اپنی منزل سے بہت دور ہیں۔ آج بھی دنیا میں مردوں، عورتوں اور بچوں کو یہ بھروسہ نہیں کہ وہ کب تک زندہ رہیں گے یا یہ کہ انہیں کب اپنی جان سے صرف اس لئے ہاتھ دھونا پڑے کہ ان کا جنم کسی خاص فرقہ یا گروپ میں ہوا ہے یا یہ کہ ان کا اس سے تعلق ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ روانڈا بوسنیا، کوسودو کے واقعات کی یاد آج بھی تازہ ہے اور وہ ہمیں اس بات کی یاد دلاتے ہیں کہ ان ممالک میں رونما ہونے والے واقعات نے انسانیت کو جھنجھوڑ دیا تھا اور اسے تارتار کردیا تھا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ آج کے دن ہم سب کو پھر سے اپنے اس عہد کی تجدید کرنی چاہئے کہ ہم ایک ایسی ملی جلی عالمی ثقافت کو جنم دیں گے جس میں ہر نسل اور ہر مذہب کے لوگ ایک ساتھ پیارومحبت کے ساتھ رہیں۔
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You