Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

...

....

وظائف

مختلف وظائف کے لیے کلک کریں

دار المطالعہ

اچھے اچھے عنوانات پر کالم پڑھنے کے لیے کلک کریں

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی صاحب کی خوبصورت تحریریں پڑھنے کے لیے کلک کریں

گوشہءِ غزل

بہت خوبصورت اردو غزلیں پڑھنے کے لیے کلک کریں

2/28/16

پیام ِ مولانا روم The Message of Maulana Raom

پیام ِ مولانا روم
مولانا رومی فرماتے ہیں کہ آہ و زاری خدا کے حضور بڑی قدر رکھتی ہے کوئی مصیبت کسی سبب سے نہیں بلکہ مسبب الاسباب یعنی اللہ تعالی کی طرف سے آتی ہے۔ اس لیے آہ و زاری گناہوں کو معاف کرا دیتی ہے۔اور بہت سے مصائب دور کرا دیتی ہے۔ سورہ ہود اور سورہ نوح میں آیا ہے کہ توبہ و استغفار کرو تمہاری سب مصیبتیں دور ہو جائیں گی۔ اللہ تعالی کے حضور رونے والے کے آنسوؤں کو شہید وں کے خون کے برابر درجہ عطا ہوا ہے اور یہ بھی ایک حدیث شریف میں ہے کہ رونے والے کا دوزخ میں جانا اتنا ہی نا ممکن ہے جتنا کہ گائے کا واپس چلا جانا  ممکن نہیں ۔ مولانا فرماتے ہیں:
کہ برابر مے نہد شاہ مجید                         اشک را در فضل با خون ِ شہید
ترجمہ: کیونکہ اللہ تعالی نے رونے والے کے آنسوؤ ں کو فضیلت میں شہید  کے خون کے برابر رکھا ہے
ایک شعر میں مولانا روم نے بہت بڑی بات کہی کہ
با تضرع باش تا شاداں شوی                    گریہ کن تابے دہاں خنداں شوی
ترجمہ:  زاری میں مشغول رہو تا کہ تم خوش رہو گریہ کرو تاکہ تم بنا منہ کے بھی ہنسو۔
اس شعر کے اندر مولانا فرماتے ہیں جو اللہ کے خوف سے روتا ہے وہ ظاہری طور پر رو رہا ہوتا ہے لیکن اللہ تعالی اسے دنیا کے غم اور خوف سے آزاد کر دیتے ہیں اور وہ حقیقت میں خوش و خرم ہوتا ہے اور نور کے جلوے اسے کا احاطہ کیے رکھتے ہیں اور اس کے روح ترو تازا اور شاداب ہوتی ہے اور ہمیشہ خوش رہتی ہے۔اور مولانا روم فرماتے ہیں کہ جہاں کہیں بھی رونے روانے والی آنکھیں ہوتی ہیں وہاں اللہ کی رحمت کی رم جھم لگی رہتی ہے جیسے جہاں کہیں پانی بہتا رہتا ہو وہاں سبزہ رہتا ہے :
ہر کجا آب ِ رواں سبزہ بود              ہر کجا شک ِ رواں ، رحمت شود
ترجمہ: جہاں کہیں پانی بہتا ہو وہاں سبزہ رہتا ہے اسی طرح جہاں بہنے والے آنسو ہوں وہاں اللہ کی رحمت رہتی ہیں۔
مولانا روم التجا اور دعا کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ
رحم خواہی رحم کن بر اشکبار                     رحم خواہی بر ضعیفاں رحم آر

ترجمہ: تو رحم چاہتا ہے تو اشکبار پر رحم کر اور رحم چاہتا ہے تو کمزوروں پر رحم کر ۔
Share:

2/20/16

بھیڑیے کا کلام کرنا Wolf Talks. نبی کریم ﷺ کا معجزہ

پہلی ہجری کے واقعات میں سے ہے بھیڑئے کا کلام کرنا منقول ہا کلام کرنا منقول ہے کہ مدینہ منورہ کے باہر ایک بھیڑیا ریوڑ سے ایک بکری لے بھاگا۔ چرواہا اس بھیڑئے کے تعاقب میں گیا اور اس سے بکری چھین لی۔ بھیڑئے نے کہا اللہ تعالی نے مجھے رزق دیا اور تو نے اسے مجھ سے چھین لیا۔ چرواہا  حیران رہ گیا اور کہنے لگا تعجب کی بات ہے کہ بھیڑیا بات کرتا ہےبھیڑیے نے کہا یہ کوئی تعجب کی بات نہیں ہے ۔ تعجب کی بات تو یہ ہے کہ ایک شخص مدینہ کے سنگستان اور نخلستان کے درمیان گزشتہ اور آئندہ کی خبریں دے رہا ہے اور تو اس کی تصدیق نہیں کرتا اس کے بعد وہ چرواہا جو یہودی تھا حضور اکرم ﷺ کے پاس آیا اور اس نے حضور ﷺ سے بھیڑئے کے کلام کرنے کا قصہ بیان کیا حضور ﷺ نے  فرمایا یہ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے بہت جلد وہ وقت آنے والا ہے جبکہ آدمی اپنے گھر سے نکلے گا اور ابھی گھر لوٹ کے نہیں ا ٓئے گا کہ اس کی جوتیاں اور اس کا کوڑا اس کے جانے کے بعد جو کچھ گھر میں ہوا ہے سب کی خبریں دے گا۔
            اس واقعہ کو علماء صدق نبوت کے معجزات کے ضمن میں بیان کرتے ہیں کیوں کہ بھیڑئے کا کلام کرنا حقیقت میں معجزہ ہے۔

(محدث دہلوی، شیخ عبد الحق ، مدارج النبوۃ مترجم الحاج مفتی غلام معین الدین نعیمی، صفحہ 122جلد دوم، مدینہ پبلشنگ کمپنی ایم اے جناح روڈ کراچی، اکتوبر 1972)
Share:

2/16/16

ان کے انداز کرم ان پہ وہ آنا دل کا



ان کے اندازِ کرم ان پہ وہ آنا دل کا
ہائے وہ وقت، وہ باتیں ، وہ زمانہ دل کا

نہ سنا اس نے توجہ سے فسانہ دل کا
زندگی گزری مگر درد نہ جانا دل کا

کچھ نئی بات نہیں حسن پہ آنا دل کا
مشغلہ ہے یہ نہایت ہی پرانا دل کا

وہ محبت کی شروعات وہ بے تحاشہ خوشی
دیکھ کر ان کو وہ پھولے نہ سمانا دل کا

دل لگی، دل کی لگی بن کے مٹا دیتی ہے
روگ دشمن   کو بھی یا رب نہ لگانا دل کا

وہ بھی اپنے نہ ہوئے ، دل بھی گیا ہاتھوں سے
ایسے آنے سے تو بہتر تھا نہ آنا دل کا

نقش بر آب نہیں، وہم نہیں خواب نہیں
آپ کیوں کھیل سمجھتے ہیں مٹانا دل کا

ان کی محفل میں نصیرؔ ان کے تبسم کی قسم
دیکھتے رہ گئے ہم، ہاتھ سے جانا دل کا


Share:

2/14/16

igi ii Free Download Game

I.G.I.-2 : Covert Strike is an action shooting computer game




Download Here This Game
The game is divided into about 19 missions, and the story is presented in cutscenes, shown before and after every mission, with animated characters rendered in real-time and pre-recorded speech.
Missions have objectives that must be completed before the mission ends.
Straightforward approaches are not encouraged, with stealthy and covert movement giving the player a better rating, rank and chance of survival, with the highest attainable ranking entitled 'David Jones'.
Multiple paths exist for every mission, with the most obvious and daunting being a noisy gunfight, because in every mission Jones is outnumbered. Every mission presents an opportunity for large groups of enemies to be bypassed or sneaked past, undiscovered. Certain missions even require entire operations to be carried out undetected.
At the start of a new game, a difficulty level can be chosen, changing the number of bullets Jones takes before dying, the intelligence of the enemy and group AI, and the number of save-games available.
Requirements
Proccessor:                Pentium 4 or Athlon 1200
Ram:                          512mb ram
Video Memory:         64mb vrm

Share:

offroad racers Free Downloads

3D Offroad Racing Game.
Download Offroad Racers free full version game and start playing now!





OffRoad Racing Download Free

Description:

The Off-road Racers contest is an event where monster trucks, rally cars, pickups and buggies compete with each other. Opponents can try to stop racers on their way to finish in three different racing modes.
Download free full version pc game today, complete 18 stages and win the contest!
Free Game Features:
- Real offroad racing game;
- 3 different racing modes;
- 18 offroad stages;
- Modern 3D graphics;
- Extraordinarily addictive game play;
- Original soundtrack and powerful sound effects;
- Free full version game without any limitations.

Game Requirements:

Share:

Air Assault free Download

The ultimate helicopter game with great graphics and gorgeous effects awaits you!
Download Air Assault free full version game and start playing now!






Description:

You have not seen a helicopter game like this one before. Air Assault is more than just a game. It is action packed, adrenaline filled, apocalyptic survival experiment for the daredevils.
Strap on tight, pilot, because there are 20 levels to complete, with over 100 different enemy units, 5 types of hostile terrain and 3 powerful terrorist bosses to handle. You have 10 different helicopters at your disposal.
Game's awesome 3D engine, combined with adjustable camera views and Hollywood-style special effects provide breathtaking visual experience and make an action hero out of you, rather than just a regular gamer.
Download this free full version pc game today and enjoy brilliant graphics and frenetic action!

Game Requirements:

  • - File Size: 11 Mb;
  • - Microsoft Windows operating system;
  • - Easy game removal through the Windows Control Panel.
  • Download Here This Game
Share:

God gives a lot....اللہ بہت دیتا ہے اس کا شکر ہے

سمن آباد میں جب میں رہا کرتا تھا ، تو ہماری گلی کے نکڑ پر ایک چھابڑی والا بابا کھڑا ہوتا تھا ۔ اس چھابڑی والے اور دوسرے چھابڑی والوں میں ایک نمایاں فرق تھا ، اور یہ فرق میں نے کئی برسوں کے بعد محسوس کیا کیونکہ ہر جمعے کے جمعے جب میں نماز پڑھنے کے لیے مسجد جا رہا ہوتا تھا اور واپس آتا تھا تو وہ چھابڑی والا وہیں کھڑا ہوتا تھا اور اس کے پاس چھوٹے بچوں کے بجائے نوجوانوں کا رش ہوتا تھا ۔
میں بڑا حیران ہوتا کہ یا اللہ یہ ماجرا کیا ہے ؟ 
اس کی چھابڑی میں موسم کے حوالے سے تھوڑے بہت پھل ہوتے تھے اور وہ پھل بھی کوئی نہایت اعلیٰ قسم کے نہیں ہوتے تھے ۔بلکہ عام سے جنہیں ہم درجہ دوم یا سوم کہتے ہیں وہ ہوتے تھے لیکن رش بڑا ہوتا تھا ۔
مجھے بڑا تجسس ہوا کہ پتہ کروں اصل معاملہ کیا ہے ۔
ایک دن جمعہ کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد جب میں گھر واپس آ رہا تھا تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ آج اس کی وجہ شہرت جانی جائے ۔
میں اس چھابڑی والے کے پاس گیا اور کہا کہ " بابا جی آپ کا کیا حال 
ہے " ۔
وہ نہایت اخلاق سے بولے کہ " جی اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے ، صاحب جی حکم کرو ، کیا کھاؤ گے " ۔
میں نے کہا کہ" کیا بھاؤ ہے ، یہ امرود جو پڑے ہیں ان کے کیا ریٹ ہیں " ۔
میری حیرانی کی اس وقت انتہا نہ رہی جب اس نے کہا کہ " صاحب جی جتنا دل کرتا ہے کھا لو ، کوئی بات نہیں "، اور وہ یہ کہتے ہوئے امرود کاٹنے لگا کہ کہ " ایہہ امرود بڑے مٹھے نےکھاؤ گے تو مزہ آ جائے گا " ۔
میں نے اس سے کہا کہ " مفت میں کیوں ؟ " ۔
تو وہ کہنے لگا کہ جی " رزق خدا کی دین ہے ، اللہ کا دیا بہت کچھ ہے جو میری قسمت میں ہوگا مجھے مل جائے گا " ۔
اب اس شخص میں میرا تجسس اور بڑھ گیا اور میں نے اس کے کاٹ کے رکھے ہوئے امرود کھاتے ہوئے اس سے سوال کیا کہ " بابا جی آپ کب سے یہ کام کر رہے ہیں " ۔
اس نے جواب دیا کہ صاحب جی ! مجھے پینتیس سال ہو گئے اس کام کو کرتے ہوئے ۔
میں نے اس سے سوال کیا کہ کیا آپ اس سائیکل پر ہی چھابڑی لگا کر کام کر رہے ہیں ، دنیا نے بڑی ترقی کر لی ، آپ بھی ترقی کرتے سائیکل سے فروٹ کی کوئی بڑی دوکان بناتے ، اور مہنگے داموں چیزیں فروخت کر کے کوئی محل کھڑا کرتے ۔
اس نے جواب دیا کہ صاحب جی میرے تین بیٹے ہیں ایک بیٹی ہے ۔ بیٹی اپنے گھر کی ہوچکی ہے اور بہت خوش ہے ۔ پتوکی کے قریب گاؤں میں میری بارہ ایکڑزرعی زمین ہے ۔ اللہ کے فضل سے دو بیٹے شادی شدہ ہیں ۔ ایک کاشت کاری کرتا ہے جب کہ دوسرا بیوپار کا کام کرتا ہے ۔ سب چھوٹا ا بھی پڑھتا ہے ۔ گھر میں خدا کا کرم ہے ۔ خوشحالی ہے ۔ ٹریکٹر ہے ۔
میرے بیٹے اب مجھے کہتے ہیں کہ ابا تم اب یہ کام چھوڑ دو تم اب بوڑھے ہو گئے ہو ۔ وہ بولا صاحب جی میں اس چھوٹے سے کام کا ساتھ کیسے چھوڑ دوں جب اس نے مجھے نہیں چھوڑا ۔
اس معمولی کام نے مجھے خوشحالی دی ، خوشی دی ۔ میں غریب آدمی تھا ۔ اب زمین والا ہوں۔ ٹریکٹر والا ہوں اور سب سے بڑی بات یہ کہ میری اولاد بڑی فرمانبردار ہے ۔ میں نے اپنے بچوں کو ہمیشہ حلال رزق کھلایا ہے ۔
اب میرا جی چاہتا ہے کہ اس چھابڑی کو لے کر مرتے دم تک پھرتا رہوں ۔ 
صبح سویرے اٹھتا ہوں ، منڈی جاتا ہوں ، وہاں سے اوسط درجے کا فروٹ خریدتا ہوں اور گلی گلی پھرتا ہوں ۔ شام کو یہ ختم ہو جاتا ہے ۔ 
کبھی میں نے بھاؤ پہ تکرار نہیں کی ۔ 
میری پوری زندگی میں کسی سے تلخ کلامی نہیں ہوئی ۔ 
نوجوان میرے پاس کھڑے ہو کر فروٹ کھاتے ہیں ، اور مجھ سے محبت سے پیش آتے ہیں ۔ 
وہ مجھے بڑے اچھے لگتے ہیں ۔ 
اس نے مجھے بتایا کہ چاہے وہ سارا دن اپنی چھابڑی میں سے لوگو ں کو مفت کھلاتا رہے کبھی گھاٹا نہیں پڑا ۔ اور شام کو پیسے اس رقم سے زیادہ ہوتے ہیں جن سے اس نے منڈی میں پھل خریدا ہوتا ہے ۔
اشفاق احمد زاویہ 3 باب " قناعت پسندی " صفحہ 211، 212

a
Share:

الحیاء معدن الخیر

Share:

2/12/16

Wallpaper


Share:

Sanctity is for Everyone تقوی بہت ضروری ہے



Ayah
"O ye who believe! Fasting is prescribed to you as it was prescribed to those before you, so that you may develop taqwa." [Al-Baqarah, 2:183]
This verse makes two statements. First, fasting is for everyone. Second, the purpose of fasting is to develop taqwa. It should be obvious then, that taqwa is for everyone!
In other words, taqwa (God consciousness, fear of Allah, righteousness) is not required just of a select group of religious people who would then be called muttaqeen (possessors of taqwa). Rather, every believer has to become muttaqi for the success in the hereafter is only for the muttaqeen.
A Hindu may say that certain injunctions of his religion (for example not eating meat) do not apply to him because he is not a Brahmin. So can a Buddhist or a Christian. As Britannica notes, Hinduism, Buddhism, and Christianity (especially the Roman Catholic and Eastern Orthodox branches), among others, stress, "separation, even polarization, between the life of the person who has a sacred vocation and that of the ordinary man." Not Islam. Islam eliminates that polarization. A Muslim cannot say "I don't have to do this or that because I am just an ordinary Muslim. I am not a muttaqi."
The point is emphasized heavily in the Qur'an, where the word taqwa and its variations have been used 151 times. It commands:
[Image]
"O ye who believe! Have taqwa of Allah and let every soul look to what provision he has sent forth for the morrow." [Al-Hashar, 59:18].
It asks us to choose between taqwa and its absence by presenting a very moving example:
[Image]
"Which then is best? He that lays his foundation on taqwa of Allah and His Pleasure? Or he that lays his foundation on an undermined sand-cliff ready to crumble to pieces? And it does crumble to pieces with him, into the fire of Hell." [Tauba 9:109].
It reminds us that the eternal bliss is only for the muttaqeen:
[ayah]
"Be quick in the race for forgiveness from your Lord and for a Garden whose width is that of the whole of the heavens and the earth, prepared for the muttaqeen."[Aal-e-Imran, 3:133]
Of course in every race some people get ahead while others lag behind. So with the race for taqwa. Obviously some people will develop more taqwa than others. Though taqwa is also a state of the heart [Al-Hajj, 22:32], and we cannot judge the taqwa of others, many aspects of taqwa have a reflection in our behavior. So it is natural and normal for us to recognize the differences in achievement of those in the race. But those of us lagging behind cannot pretend that we are not in the race at all. For there is no other race!
We are all in it together. The rich and the poor, the educated and the un-educated, the leader and the follower, the writer and the reader, the preacher and the listener, the ruler and the ruled, the old and the young, the man and the woman, all must develop taqwa. The most honored, in the sight of Allah, is the believer with the mosttaqwa [Hujurat, 49:13]. The Islamic society is a taqwa- conscious society, conferring its highest respects on those considered to be highest in taqwa. Without it the best achievements in other areas of life mean nothing.
While all this is obvious in principle, in practice many of us seem to have accepted the idea that muttaqeen are a separate class of people, different from the rest of us, the ordinary Muslims. This has been a very devastating import from Christianity and Hinduism. While Islamic Shariah has been one integral entity, this devious mechanism has allowed us to develop our own individual Shariahs by picking and choosing from the Shariah what we might think is appropriate for the "ordinary Muslim." Such reasoning provides a ready-made justification for our sins, shortcomings, and weaknesses. All of them end with: "After all I am not a muttaqi." Brother, is that a humble statement about achievements or a self-delusion about goals?
The flip side of taqwa is sin. And the mentality that made taqwa the burden of a small group of religious people has also imported another term into contemporary Islamic discourse: self-righteousness. These days this seems to be the most potent weapon of anyone being challenged for introducing a deviation in Shariah. Those challenging must be self-righteous. A most despised species!
Qur'an does prohibit us from making claims of self-purity.
[Image]
"Hold not yourself purified. He knows best who has taqwa." [Al-Najm, 53:32].
Being a major sin as it is, one has to be extremely careful in blaming others for committing it, simply because they are challenging what they consider as munkar or evil. Qur'an does mention the use of that allegation in history. When Prophet Lut (Alayhi-salam) admonished his nation for indulging in the abomination of homosexuality, they fought back by blaming the Prophet to be self-righteous. [Al-Namal 27:56].
Once Qadi Ibn Abi Lailah refused to accept the testimony of Imam Abu Hanifa in a case because of an incident. The previous day both were walking together when they passed by some women who had been singing. The women stopped as they saw them. As they passed by them, Imam Abu Hanifa said: "Good," meaning it was good that they had stopped. But Qadi Ibn Abi Lailah thought that Abu Hanifa had praised their singing and on that basis declared him a fasiq and therefore unfit as a witness. Here was one of the greatest jurists, scholars, and a very pious person being publicly declared as a fasiq. One can imagine some of today's intellectuals having a field day by bringing the counter charge of self-righteousness against the Qadi. But what did Imam Abu Hanifa do? He simply explained his comments and was allowed to proceed with the testimony. It is hardly an isolated incident. In Islamic history we do not find anyone resorting to the charge of self-righteousness against his opponents.
Why? The charge comes from a universe where polarization between the religious and the ordinary lives is stressed, for it is possible that some will falsely claim to be adhering to a higher standard and therefore be guilty of self-righteousness. In Islam there is only one Shariah and one scale for righteousness for everyone.
Share:

حیا کی انسانی زندگی میں اہمیت|| حیا ایمان ہے || الحیاء من الایمان || The importance of modesty in human life

الحیاء من الایمان

حضرت ابو مسعود عقبہ بن عمرو انصاریؓ بدری صحابی ہیں، روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ”پچھلی نبوت کی باتوں میں سے جو باتیں لوگوں تک پہنچی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب تم میں شرم ہی نہ رہے تو جو چاہو کرتے پھرو۔“ (رواہ البخاری)

     یہ بھی پڑھیں۔۔۔۔۔ حیا سارے کا سارا ایمان ہے

حیاءانسان کا وہ فطری وصف ہے جو ہر انسان میں پیدائشی اور طبعی طور پر موجود ہوتا ہے جس سے اس کی کتنی ہی روحانی، اخلاقی اور معاشرتی بھلائیوں میں اضافہ ہوتا ہے اور عفت و پاک دامنی اس کی وجہ سے باقی رہتی ہے، سخاوت و فیاضی کی صفت پیدا ہوتی ہے اور باہمی رواداری اور مروت اسی کی وجہ سے باقی رہتی ہے۔ اگرچہ ہر انسان فطری طور پر حیاءکے زیور سے آراستہ ہوتا ہے لیکن جس معاشرے میں وہ رہتا ہے اور اس میں حیاءکی جو اقدار ہوتی ہے اس کے مطابق یہ صفت گھٹتی بڑھتی ہے، جہاں اس وصف کا چرچا اور چلن ہو، وہاں پر یہ بڑھتی ہے اور جہاں بے حیائی اور بے شرمی عام ہو تو وہاں کے لوگ اس سے آہستہ آہستہ محروم ہو جاتے ہیں اور انسانی فطرت سے کم ہو کر آخرکار محو ہو جاتی ہے۔ حیا کی صفت تمام رسولوں اور نبیوں کی تعلیم میں شامل رہی ہے چنانچہ اسی بات کا تذکرہ مذکورہ بالا حدیث میں آیا ہے اسی طرح یہ خلق تمام ادیان و مذاہب میں پایا جاتا ہے جس سے انسانی زندگی میں اس کی اہمیت اور ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ علماءنے حیاءکی کئی تعریفیں بیان کی ہیں، ان میں سے دو کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ امام راغب اصفہانیؒ لکھتے ہیں:”حیا وہ وصف ہے جس کی وجہ سے برا کام کرنے سے نفس میں تنگی محسوس ہوتی ہے۔“جمہور علماءکے ہاں ”حیا وہ خلق ہے جو انسان کو نیکی کرنے اور برائی سے روکنے پر ابھارتا ہے۔“ دین اسلام میں حیا کی فطری صفت کو نہ صرف باقی رکھنے پر زور دیا گیا ہے بلکہ اس کے بڑھانے کا بھی مناسب بندوبست کیا گیا ہے جیسے نظریں پست رکھنا، بے حیائی کی باتیں نہ کرنا، بے حیائی کے کاموں سے کنارہ کشی کرنا، ستر نہ کھولنا حتیٰ کہ تنہائی اور غسل خانے میں بھی ضرورت سے زیادہ ستر نہ کھولنا، یہ سب بندوبست اس لیے کئے گئے ہیں کہ حیا کا جوہر نہ صرف باقی رہے بلکہ بڑھتا رہے۔ حیا کی ضد بے حیائی، بے شرمی اور فحاشی ہے جس سے قرآن و حدیث میں بڑی شدت سے روکا گیا ہے اور ایسے کاموں پر آخرت کی سزا و عذاب کے ساتھ دنیا میں بھی بھاری سزائیں رکھی گئی ہیں۔ اگر انسان سے یہ صفت ختم ہو جائے تو پھر ہر قسم کی برائی کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شیطان لعین نے سب سے پہلے آدم اور حوا علیہما السلام سے ان کا لباس اتروایا لیکن ان میں فطری حیا کا غلبہ تھا لہٰذا وہ جنت کے پتوں سے اپنے جسم کو ڈھانکنے لگے۔ حیا اور اخلاق کے تعلق کے بارے میں مشہور کہاوت ہے ”بے حیا باش و ہرچہ خوا ہی کن“ یعنی بے حیا بن جاؤ پھر جو چاہو کرتے رہو۔“ جس شخص میں یہ صفت ہو اسے گھٹانے کی کوشش نہ کی جائے بلکہ اس کی ہمت افزائی کی جائے۔

     یہ بھی پڑھیں۔۔۔۔۔ حیا سارے کا سارا ایمان ہے

 ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ کا ایک انصاری کے پاس سے گزر ہوا جو اپنے بھائی کو حیا کم کرنے کے بارے میں سمجھا رہا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:”اسے چھوڑ دو کیونکہ حیا ایمان کا حصہ ہے۔“ایک اور حدیث میں آیا ہے: ”یعنی حیا ایمان کا حصہ ہے۔“

شریعت میں حیا کا تصور بہت وسیع ہے یعنی انسان اللہ اور رسول اللہ ﷺ سے حیا کر کے ان کی نافرمانیوں اور برائیوں سے بچے۔ ترمذی کی ایک حدیث میں ہے نبی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”اللہ تعالیٰ سے حیا کرو جیسا کہ حیا کرنے کا حق ہے۔“ صحابہؓ کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا ”یا رسول اللہ ﷺ ہم اللہ سے حیا کرتے ہیں“آپ ﷺ نے فرمایا:”صرف اتنا نہیں (یعنی زبان سے کہنا کافی نہیں ہے) لیکن اللہ تعالیٰ سے پوری طرح حیا کرنا یہ ہے کہ تم اپنے سر کو اور جو کچھ اس میں ہے، کان، آنکھ اور زبان کی حفاظت کرو اور پیٹ اور جو کچھ اس میں ہے، اسے (حرام سے) بچاؤ اور موت اور فنا کو یاد رکھو جو شخص آخرت بنانا چاہتا ہے سو دنیا کی زندگی کے ٹھاٹھ باٹھ کو چھوڑ دے (تاکہ اس میں مشغول ہو کر اپنی ذمہ داریوں سے غافل نہ ہو) اور آخرت کو دنیا پر ترجیح دے جس شخص نے ایسے کیا، اس نے اللہ سے حیا کرنے کا حق ادا کیا۔“

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حیا کا دائرہ کتنا وسیع ہے لہٰذا انسان کو ہر وقت خیال رکھنا چاہئے کہ کہیں مجھ سے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی نہ ہو اور کل قیامت کے دن میں ان کے سامنے کیسے پیش ہوں گا اور کیا جواب دوں گا۔ تاہم انسان کو دعوت و تبلیغ، پند و نصیحت، رشد و ہدایت، تعلیم و تربیت اور نیکی کا حکم کرنے اور برائی سے روکنے میں شرم کرنے سے نقصان ہوگا لہٰذا ایسے موقع پر حق بات کہنے، حق بتانے، پوچھنے اور سوال کرنے میں عار اور شرم محسوس نہیں کرنی چاہئے جیسے ایک حدیث میں آیا ہے:”انصاری عورتیں کیسی اچھی ہیں کہ انہیں دین سیکھنے اور سمجھنے سے حیاءنہیں روکتی۔“(مسلم شریف) مطلب یہ ہے کہ نیکی کا کام کرتے ہوئے آدمی کو جھجک نہ ہونا چاہئے کیونکہ کسی کو برائی سے روکنا اور حق بات کہنے میں شرم کرنا حیا نہیں ہے بلکہ بزدلی اور ڈرپوکی ہے۔ الغرض حیا کی وصف میں خیر و بھلائی ہے، دونوں جہانوں کے سردار ﷺ نے فرمایا: ”یعنی حیا سے تو بھلائی ہی آتی ہے۔“(بخاری کتاب الادب باب الحیائ) اور ایک دوسری حدیث میں ہے: ”ہر ایک دین کا ایک خلق ہوتا ہے اور اسلام کا خاص خلق حیا ہے۔“ لہٰذا ہر ایک مسلمان کو چاہئے کہ اپنے اندر حیا کی صفت پیدا کرے اور اسے بڑھاتا رہے تاکہ کامل مومن بن جائے.

     یہ بھی پڑھیں۔۔۔۔۔ حیا سارے کا سارا ایمان ہے


Share:

2/11/16

Ed Tech Makes Consumer Electronics Association's Top 5 Trends

Technology in education is one of the "prominent technology trends expected to influence the consumer electronics (CE) industry in the years ahead," according to the 2013 edition of "Five Technology Trends to Watch," a report released this week by the Consumer Electronics Association (CEA). The other four tech trends identified were the future of 3D printing, next-generation TVs and displays, the evolution of the audio market, and the mobile revolution in Africa.
The report found a considerable degree of support for technology in education among parents and students. According to the report, 75 percent of parents of school-aged kids believe technology improves the learning experience; 67 percent have seen improvements in their child's learning because of technology; 69 percent believe all K-12 students should have access to the Internet for educational purposes; and 52 percent believe all K-12 students should be provided with a computer to aid in their education. However, the report also pointed out that the majority of classrooms have limited access to technology.
Additional findings in the report included:
· Teachers' Web sites are one of the most used technologies, providing students and parents with access to lesson notes, grades, assignments, and lectures;
· Fewer than half of parents report that their children use social media for education in their schools;
· More than one-third of parents report that their children's schools use apps for education, usually in the form of games;
· Slightly more than half of parents report that their children's schools use laptops;
· Fewer than three in 10 report that their children use tablets or ebooks for educational purposes;
· One-quarter of parents prefer e-books over physical textbooks.
The report speculated that some parents may be resisting adoption of technologies such as e-books and tablets for education because of perceived costs, concerns about children causing wear and tear on devices, and fear of loss or theft of devices. Despite these concerns, the report predicted, the use of e-books, tablets, and other technologies in education will continue to grow owing to their benefits.
E-books weigh less, cost less, and are instantly accessible without visiting a bookstore or library. However, digital content has other benefits for K-12 classrooms, according to the report. It pointed to the trend of flipping the classroom, in particular, where students watch or listen to recorded lectures at home, and the teachers spend classroom time helping students master the material through in-class exercises.
"Flipping the classroom is benefiting the educational environment by providing a more individualized approach to learning," stated the report. But in order for schools to be able to offer this method of teaching and learning, teachers will require access to video recording, webinar, or podcasting technology, and students will require computers with Internet access.
Another benefit of technology in education, according to the report, is that learning can be tailored to each student. Students can progress through material at their own pace and learn in ways that best suit their individual learning styles. Usage of online assessment and software learning tools will also enable educators to gather massive amounts of data, which can be analyzed to identify trends and patterns and provide insight into different ways that students solve problems, and ultimately use that information to tailor learning to individual students' needs.
Technology in education can also enable learning to take place anytime, anywhere, according to the report. This freedom can help students acquire new languages and learn about other cultures by interacting with other students across the globe. It can also enable homeschooled students to access the same apps and online resources as their traditionally schooled counterparts. Students in the classroom can also benefit by being able to attend specialized or advanced online classes to extend their classroom learning. At the college level, online education can also enable people to earn degrees, regardless of their location. The final benefit of technology in education identified in the report is its ability to engage students. Since most K-12 students are digital natives, incorporating technology into their learning experiences can spark their interest, according to the report. Bring-your-own-device (BYOD) or school-provided technology can enable students to access a growing number of educational apps, game-based learning programs, and augmented reality programs, which allow students to gather additional information about real-life objects and places real time using mobile devices.


Share:

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Online People

Blog Archive

Blog Archive