سمن
آباد میں جب میں رہا کرتا تھا ، تو ہماری گلی کے نکڑ پر ایک چھابڑی والا بابا کھڑا
ہوتا تھا ۔ اس چھابڑی والے اور دوسرے چھابڑی والوں میں ایک نمایاں فرق تھا ، اور
یہ فرق میں نے کئی برسوں کے بعد محسوس کیا کیونکہ ہر جمعے کے جمعے جب میں نماز
پڑھنے کے لیے مسجد جا رہا ہوتا تھا اور واپس آتا تھا تو وہ چھابڑی والا وہیں کھڑا
ہوتا تھا اور اس کے پاس چھوٹے بچوں کے بجائے نوجوانوں کا رش ہوتا تھا ۔
میں بڑا حیران ہوتا کہ یا اللہ یہ ماجرا کیا ہے ؟
اس کی چھابڑی میں موسم کے حوالے سے تھوڑے بہت پھل ہوتے تھے اور وہ پھل بھی کوئی نہایت اعلیٰ قسم کے نہیں ہوتے تھے ۔بلکہ عام سے جنہیں ہم درجہ دوم یا سوم کہتے ہیں وہ ہوتے تھے لیکن رش بڑا ہوتا تھا ۔
اس کی چھابڑی میں موسم کے حوالے سے تھوڑے بہت پھل ہوتے تھے اور وہ پھل بھی کوئی نہایت اعلیٰ قسم کے نہیں ہوتے تھے ۔بلکہ عام سے جنہیں ہم درجہ دوم یا سوم کہتے ہیں وہ ہوتے تھے لیکن رش بڑا ہوتا تھا ۔
مجھے بڑا تجسس ہوا کہ پتہ کروں اصل معاملہ کیا ہے ۔
ایک دن جمعہ کی نماز سے فارغ ہونے کے بعد جب میں گھر واپس آ رہا
تھا تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ آج اس کی وجہ شہرت جانی جائے ۔
میں اس چھابڑی والے کے پاس گیا اور کہا کہ " بابا جی آپ کا
کیا حال
ہے " ۔
ہے " ۔
وہ نہایت اخلاق سے بولے کہ " جی اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے ،
صاحب جی حکم کرو ، کیا کھاؤ گے " ۔
میں نے کہا کہ" کیا بھاؤ ہے ، یہ امرود جو پڑے ہیں ان کے کیا
ریٹ ہیں " ۔
میری حیرانی کی اس وقت انتہا نہ رہی جب اس نے کہا کہ " صاحب
جی جتنا دل کرتا ہے کھا لو ، کوئی بات نہیں "، اور وہ یہ کہتے ہوئے امرود
کاٹنے لگا کہ کہ " ایہہ امرود بڑے مٹھے نےکھاؤ گے تو مزہ آ جائے گا " ۔
میں نے اس سے کہا کہ " مفت میں کیوں ؟ " ۔
تو وہ کہنے لگا کہ جی " رزق خدا کی دین ہے ، اللہ کا دیا بہت
کچھ ہے جو میری قسمت میں ہوگا مجھے مل جائے گا " ۔
اب اس شخص میں میرا تجسس اور بڑھ گیا اور میں نے اس کے کاٹ کے رکھے
ہوئے امرود کھاتے ہوئے اس سے سوال کیا کہ " بابا جی آپ کب سے یہ کام کر رہے
ہیں " ۔
اس نے جواب دیا کہ صاحب جی ! مجھے پینتیس سال ہو گئے اس کام کو
کرتے ہوئے ۔
میں نے اس سے سوال کیا کہ کیا آپ اس سائیکل پر ہی چھابڑی لگا کر
کام کر رہے ہیں ، دنیا نے بڑی ترقی کر لی ، آپ بھی ترقی کرتے سائیکل سے فروٹ کی
کوئی بڑی دوکان بناتے ، اور مہنگے داموں چیزیں فروخت کر کے کوئی محل کھڑا کرتے ۔
اس نے جواب دیا کہ صاحب جی میرے تین بیٹے ہیں ایک بیٹی ہے ۔ بیٹی
اپنے گھر کی ہوچکی ہے اور بہت خوش ہے ۔ پتوکی کے قریب گاؤں میں میری بارہ ایکڑزرعی
زمین ہے ۔ اللہ کے فضل سے دو بیٹے شادی شدہ ہیں ۔ ایک کاشت کاری کرتا ہے جب کہ
دوسرا بیوپار کا کام کرتا ہے ۔ سب چھوٹا ا بھی پڑھتا ہے ۔ گھر میں خدا کا کرم ہے ۔
خوشحالی ہے ۔ ٹریکٹر ہے ۔
میرے بیٹے اب مجھے کہتے ہیں کہ ابا تم اب یہ کام چھوڑ دو تم اب
بوڑھے ہو گئے ہو ۔ وہ بولا صاحب جی میں اس چھوٹے سے کام کا ساتھ کیسے چھوڑ دوں جب
اس نے مجھے نہیں چھوڑا ۔
اس معمولی کام نے مجھے خوشحالی دی ، خوشی دی ۔ میں غریب آدمی تھا ۔
اب زمین والا ہوں۔ ٹریکٹر والا ہوں اور سب سے بڑی بات یہ کہ میری اولاد بڑی
فرمانبردار ہے ۔ میں نے اپنے بچوں کو ہمیشہ حلال رزق کھلایا ہے ۔
اب میرا جی چاہتا ہے کہ اس چھابڑی کو لے کر مرتے دم تک پھرتا رہوں
۔
صبح سویرے اٹھتا ہوں ، منڈی جاتا ہوں ، وہاں سے اوسط درجے کا فروٹ خریدتا ہوں اور گلی گلی پھرتا ہوں ۔ شام کو یہ ختم ہو جاتا ہے ۔
کبھی میں نے بھاؤ پہ تکرار نہیں کی ۔
میری پوری زندگی میں کسی سے تلخ کلامی نہیں ہوئی ۔
نوجوان میرے پاس کھڑے ہو کر فروٹ کھاتے ہیں ، اور مجھ سے محبت سے پیش آتے ہیں ۔
وہ مجھے بڑے اچھے لگتے ہیں ۔
اس نے مجھے بتایا کہ چاہے وہ سارا دن اپنی چھابڑی میں سے لوگو ں کو مفت کھلاتا رہے کبھی گھاٹا نہیں پڑا ۔ اور شام کو پیسے اس رقم سے زیادہ ہوتے ہیں جن سے اس نے منڈی میں پھل خریدا ہوتا ہے ۔
صبح سویرے اٹھتا ہوں ، منڈی جاتا ہوں ، وہاں سے اوسط درجے کا فروٹ خریدتا ہوں اور گلی گلی پھرتا ہوں ۔ شام کو یہ ختم ہو جاتا ہے ۔
کبھی میں نے بھاؤ پہ تکرار نہیں کی ۔
میری پوری زندگی میں کسی سے تلخ کلامی نہیں ہوئی ۔
نوجوان میرے پاس کھڑے ہو کر فروٹ کھاتے ہیں ، اور مجھ سے محبت سے پیش آتے ہیں ۔
وہ مجھے بڑے اچھے لگتے ہیں ۔
اس نے مجھے بتایا کہ چاہے وہ سارا دن اپنی چھابڑی میں سے لوگو ں کو مفت کھلاتا رہے کبھی گھاٹا نہیں پڑا ۔ اور شام کو پیسے اس رقم سے زیادہ ہوتے ہیں جن سے اس نے منڈی میں پھل خریدا ہوتا ہے ۔
اشفاق احمد زاویہ 3 باب " قناعت پسندی " صفحہ 211، 212
a
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You