حضرت ابو مسعود عقبہ بن عمرو انصاریؓ بدری صحابی ہیں، روایت
کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺنے فرمایا ”پچھلی نبوت کی باتوں میں سے جو باتیں لوگوں تک
پہنچی ہیں، ان میں سے ایک یہ ہے کہ جب تم میں شرم ہی نہ رہے تو جو چاہو کرتے
پھرو۔“ (رواہ البخاری)
یہ بھی پڑھیں۔۔۔۔۔ حیا سارے کا سارا ایمان ہے
حیاءانسان کا وہ فطری وصف ہے جو ہر انسان میں پیدائشی اور طبعی طور پر موجود ہوتا ہے جس سے اس کی کتنی ہی روحانی، اخلاقی اور معاشرتی بھلائیوں میں اضافہ ہوتا ہے اور عفت و پاک دامنی اس کی وجہ سے باقی رہتی ہے، سخاوت و فیاضی کی صفت پیدا ہوتی ہے اور باہمی رواداری اور مروت اسی کی وجہ سے باقی رہتی ہے۔ اگرچہ ہر انسان فطری طور پر حیاءکے زیور سے آراستہ ہوتا ہے لیکن جس معاشرے میں وہ رہتا ہے اور اس میں حیاءکی جو اقدار ہوتی ہے اس کے مطابق یہ صفت گھٹتی بڑھتی ہے، جہاں اس وصف کا چرچا اور چلن ہو، وہاں پر یہ بڑھتی ہے اور جہاں بے حیائی اور بے شرمی عام ہو تو وہاں کے لوگ اس سے آہستہ آہستہ محروم ہو جاتے ہیں اور انسانی فطرت سے کم ہو کر آخرکار محو ہو جاتی ہے۔ حیا کی صفت تمام رسولوں اور نبیوں کی تعلیم میں شامل رہی ہے چنانچہ اسی بات کا تذکرہ مذکورہ بالا حدیث میں آیا ہے اسی طرح یہ خلق تمام ادیان و مذاہب میں پایا جاتا ہے جس سے انسانی زندگی میں اس کی اہمیت اور ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ علماءنے حیاءکی کئی تعریفیں بیان کی ہیں، ان میں سے دو کا تذکرہ کیا جاتا ہے۔ امام راغب اصفہانیؒ لکھتے ہیں:”حیا وہ وصف ہے جس کی وجہ سے برا کام کرنے سے نفس میں تنگی محسوس ہوتی ہے۔“جمہور علماءکے ہاں ”حیا وہ خلق ہے جو انسان کو نیکی کرنے اور برائی سے روکنے پر ابھارتا ہے۔“ دین اسلام میں حیا کی فطری صفت کو نہ صرف باقی رکھنے پر زور دیا گیا ہے بلکہ اس کے بڑھانے کا بھی مناسب بندوبست کیا گیا ہے جیسے نظریں پست رکھنا، بے حیائی کی باتیں نہ کرنا، بے حیائی کے کاموں سے کنارہ کشی کرنا، ستر نہ کھولنا حتیٰ کہ تنہائی اور غسل خانے میں بھی ضرورت سے زیادہ ستر نہ کھولنا، یہ سب بندوبست اس لیے کئے گئے ہیں کہ حیا کا جوہر نہ صرف باقی رہے بلکہ بڑھتا رہے۔ حیا کی ضد بے حیائی، بے شرمی اور فحاشی ہے جس سے قرآن و حدیث میں بڑی شدت سے روکا گیا ہے اور ایسے کاموں پر آخرت کی سزا و عذاب کے ساتھ دنیا میں بھی بھاری سزائیں رکھی گئی ہیں۔ اگر انسان سے یہ صفت ختم ہو جائے تو پھر ہر قسم کی برائی کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ شیطان لعین نے سب سے پہلے آدم اور حوا علیہما السلام سے ان کا لباس اتروایا لیکن ان میں فطری حیا کا غلبہ تھا لہٰذا وہ جنت کے پتوں سے اپنے جسم کو ڈھانکنے لگے۔ حیا اور اخلاق کے تعلق کے بارے میں مشہور کہاوت ہے ”بے حیا باش و ہرچہ خوا ہی کن“ یعنی بے حیا بن جاؤ پھر جو چاہو کرتے رہو۔“ جس شخص میں یہ صفت ہو اسے گھٹانے کی کوشش نہ کی جائے بلکہ اس کی ہمت افزائی کی جائے۔
یہ بھی پڑھیں۔۔۔۔۔ حیا سارے کا سارا ایمان ہے
ایک مرتبہ رسول
اللہ ﷺ کا ایک انصاری کے پاس سے گزر ہوا جو اپنے بھائی کو حیا کم کرنے کے بارے میں
سمجھا رہا تھا۔ آپ ﷺ نے فرمایا:”اسے چھوڑ دو کیونکہ حیا ایمان کا حصہ ہے۔“ایک اور
حدیث میں آیا ہے: ”یعنی حیا ایمان کا حصہ ہے۔“
شریعت میں حیا کا تصور بہت وسیع ہے یعنی انسان اللہ اور
رسول اللہ ﷺ سے حیا کر کے ان کی نافرمانیوں اور برائیوں سے بچے۔ ترمذی کی ایک حدیث
میں ہے نبی رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”اللہ تعالیٰ سے حیا کرو جیسا کہ حیا کرنے کا حق
ہے۔“ صحابہؓ کہتے ہیں کہ ہم نے عرض کیا ”یا رسول اللہ ﷺ ہم اللہ سے حیا کرتے ہیں“آپ
ﷺ نے فرمایا:”صرف اتنا نہیں (یعنی زبان سے کہنا کافی نہیں ہے) لیکن اللہ تعالیٰ سے
پوری طرح حیا کرنا یہ ہے کہ تم اپنے سر کو اور جو کچھ اس میں ہے، کان، آنکھ اور
زبان کی حفاظت کرو اور پیٹ اور جو کچھ اس میں ہے، اسے (حرام سے) بچاؤ اور موت اور
فنا کو یاد رکھو جو شخص آخرت بنانا چاہتا ہے سو دنیا کی زندگی کے ٹھاٹھ باٹھ کو
چھوڑ دے (تاکہ اس میں مشغول ہو کر اپنی ذمہ داریوں سے غافل نہ ہو) اور آخرت کو دنیا
پر ترجیح دے جس شخص نے ایسے کیا، اس نے اللہ سے حیا کرنے کا حق ادا کیا۔“
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حیا کا دائرہ کتنا وسیع ہے لہٰذا انسان کو ہر وقت خیال رکھنا چاہئے کہ کہیں مجھ سے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی نہ ہو اور کل قیامت کے دن میں ان کے سامنے کیسے پیش ہوں گا اور کیا جواب دوں گا۔ تاہم انسان کو دعوت و تبلیغ، پند و نصیحت، رشد و ہدایت، تعلیم و تربیت اور نیکی کا حکم کرنے اور برائی سے روکنے میں شرم کرنے سے نقصان ہوگا لہٰذا ایسے موقع پر حق بات کہنے، حق بتانے، پوچھنے اور سوال کرنے میں عار اور شرم محسوس نہیں کرنی چاہئے جیسے ایک حدیث میں آیا ہے:”انصاری عورتیں کیسی اچھی ہیں کہ انہیں دین سیکھنے اور سمجھنے سے حیاءنہیں روکتی۔“(مسلم شریف) مطلب یہ ہے کہ نیکی کا کام کرتے ہوئے آدمی کو جھجک نہ ہونا چاہئے کیونکہ کسی کو برائی سے روکنا اور حق بات کہنے میں شرم کرنا حیا نہیں ہے بلکہ بزدلی اور ڈرپوکی ہے۔ الغرض حیا کی وصف میں خیر و بھلائی ہے، دونوں جہانوں کے سردار ﷺ نے فرمایا: ”یعنی حیا سے تو بھلائی ہی آتی ہے۔“(بخاری کتاب الادب باب الحیائ) اور ایک دوسری حدیث میں ہے: ”ہر ایک دین کا ایک خلق ہوتا ہے اور اسلام کا خاص خلق حیا ہے۔“ لہٰذا ہر ایک مسلمان کو چاہئے کہ اپنے اندر حیا کی صفت پیدا کرے اور اسے بڑھاتا رہے تاکہ کامل مومن بن جائے.
یہ بھی پڑھیں۔۔۔۔۔ حیا سارے کا سارا ایمان ہے
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You