علم کی محفل سجی ہے۔ معلم
علم کی دولت بانٹ رہاہے اور متعلم سو جان سے نثار لفظوں کے سحر میں کھوئے ہیں۔عقل
و دانش کی باتیں ہورہی ہیں ، چاروں طرف کتابوں کے ڈھیر لگے ہیں اور فقہ و دین کی
بحث چھڑی ہے۔ ایسے میں کہیں سے کوئی دیوانہ ، قلندرانہ شان سے چلاآتاہے
ہیچ کس در نزد خود چیزے نہ شد
ہیچ آہن خنجر چیزے نہ شد
کوئی لوہا خودبخود تیزخنجر
نہیں بن سکتا جب تک وہ کسی لوہار کے ہاتھ نہیں آتا
مولوی ھر گز نہ شدمولائے روم
تاغلامِ شمس تبریزے نشد
میں خود بھی مولانا روم
نہ بن سکا جب تک کہ میں نے شاہ شمش تبریز
کی غلامی اختیارنہیں کی
علم کی محفل سجی ہے۔ معلم علم کی دولت
بانٹ رہاہے اور متعلم سو جان سے نثار لفظوں کے سحر میں کھوئے ہیں۔عقل و دانش کی
باتیں ہورہی ہیں ، چاروں طرف کتابوں کے ڈھیر لگے ہیں اور فقہ و دین کی بحث چھڑی
ہے۔ ایسے میں کہیں سے کوئی دیوانہ ، قلندرانہ شان سے چلاآتاہے۔ ہوش سے بیگانہ، خرد
سے بے خبر، اپنی ہی چال میں مست، اپنے ہی حال میں مست۔ علمی مباحثے میں مداخلت
کرتاہے اور کتابوں کے ڈھیر کی طرف اشارہ کرکے معلم سے گویاہوتاہے،”یہ کیاہے؟۔“
معلم کو اس درویش کی مداخلت ناگوار گزرتی ہے اور اک تجاہلِ عارفانہ سے کام لیتے
ہوئے کہ ڈالتاہے،”یہ وہ ہے جس سے تو واقف نہیں۔“ گویا اس قلندر کو جتادینا چاہتاہے
کہ بھیا! جا تیرا اس دانش کدے میں کیاکام؟ عقل والوں کی محفل میں دیوانے کی آمد
نامنظور۔ ابھی معلم یہ کہ کے اپنے شاگردوں کی طرف متوجہ ہوا ہی چاہتاہے کہ درویش کی
انگلی کی اک جنبش سے علم کاخزانہ نذرِ آتش ہوجاتاہے۔ معلم حیرا ں وپریشاں بے ساختہ
پکار اُٹھتاہے ۔” یہ کیاہے؟ ۔“اب کے درویش اک ادائے بے نیازی سے جواب دیتاہے ،” یہ
وہ ہے جس سے تو واقف نہیں۔“ اتنا کہ کے وہ اپنی راہ لیتاہے اور معلم کی حالت
دگرگوں ہونے لگتی ہے۔ کیسا علم، کہاں کی دانش؟ کیا عقل کی باتیں؟ کہاں کی سوچ اور
سمجھ؟ سب کچھ جیسے اس درویش کے ساتھ رخصت ہوجاتاہے۔ چین، قرار، سکون کی دولت، سبھی
کچھ۔علم و حکمت کی باتیں بے کار لگنے لگتی ہیں، وہ دانائی اور عقل سے کنارہ کش
ہوتاہے اور اسی درویش کی تلاش میں صحرا نوردی اختیارکرتاہے۔ گلی گلی، قریہ قریہ اسی
کی جستجو تن من کو بھٹکائے پھرتی ہے۔ دانش کدے سے حیرت کدے کا سفر شروع ہوتاہے گویا
خرد تیاگ دی گئی اور جنوں کا لبادہ اُوڑھ لیاگیا۔
وہ معلم کوئی اور نہیں مولانا جلال الدین رومی
تھے اور وہ بزرگ اور درویش اُن کے پیر و مرشد شمس تبریز تھے ، جوپیر باباکمال الدین
جندیؒ کے ایک اشارے پر روم کے سفر پر روانہ ہوئے اور صاحبِ قال کو صاحب ِ حال میں
بدل دیا۔مولانارومؒی کاطرزِ زندگی فقیر کے ایک اشارے سے یکسر بدل گیا۔ بیشتر وقت
مجاہدے و ریاضت میں گزرنے لگا۔ نماز کا وقت ہوتاتو اورکچھ نہ سوجھتاقبلہ رو کھڑے
ہوجاتے، استغراق کا یہ عالم تھا کہ عشا کے بعد دو رکعت نماز کی نیت باندھتے بسا
اوقات اسی دوران رات کی تاریکی ،دن کے اجالے میں بدل جاتی اور ان کی محویت میں فرق
نہ آتا۔ایک روز ایسے ہی عالم میں خود سے غافل تھے ،نماز کے بعد اس قدر روئے کہ
چہرہ تمام کا تمام آنسووٴں سے تر ہوگیا، بیگانگی کے عالم میں اُٹھ کھڑے ہوئے اور
رقص کرنے لگے۔ اسی حالت میں دور نکل گئے۔ مرید پکڑ پکڑ کے لاتے ، بٹھاتے ، وہ پھر
سے اُٹھ کھڑے ہوتے ، ہوش سے بیگانہ ، دیوانہ وار محو ِ رقص ہوتے۔ رفتہ رفتہ ان کی
اس سکری حالت کی اتباع ان کے مرید بھی کرنے لگے ۔ان کی یاد میں کیے جانے والے اس
رقص کا یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور اس فرقے کے پیروکار”مولویہ یا جلالیہ “ کے نام
سے جانے جاتے ہیں۔ہندوستان سے شاہ بو علی قلندر پانی پتیؒ بھی مولانا کی صحبت میں
رہے ۔یہی وجہ ہے کہ ہندوستان میں فرقہٴ قلندریہ بھی ایک درجہ میں مولانا رومی سے
منسوب کیاجاتاہے۔
مولانا رومیؒ کی وجہ ٴ شہرت ان کی ”مثنوی“ ہے جس
کے کل ۲۶۶۶
اشعار ہیں ۔آپؒ کے کلام میں تصوف، اخلاقیات، فلسفیانہ خیالات اور قرآنی تفسیر و
تشریح جابجا دکھائی دیتی ہے۔ عشق کی وارفتگی کا بیان جس خوبصورتی سے ان کے کلام میں
نظر آتاہے کہیں اور کہاں مل پائے گا۔فرماتے ہیں:
چوں
قلم اندر نوشتن می شتافت
چوں
بعشق آمد قلم برخود شگافت
چوں
سخن در وصف ایں حالت رسید
ہم
قلم بشکست و ہم کاغذ درید
یعنی عشق کا جذبہ اس قدر طاقتور ہے کہ جب قلم نے
لکھنے کا قصد کیا اور جب لفظ ”عشق“ لکھنے لگا تو اس میں شگاف پڑ گیااور جب عشق کے
رستے پر چلنے سے پیش آنے والے حالات کا ذکر آیا تو قلم ٹوٹ گیا اور کاغذ پھٹ گیا۔
اُن
کے نزدیک اصل عشق ، عشقِ حقیقی ہے ۔ وہ عشق جو پائیدار ہے اُس میں نجات ہے ۔ظاہری
حسن سے عشق میں ذلت و رسوائی ہے۔ انھوں نے یہ نصیحت اُس لونڈی کے عشق کی حکایت میں
کی ، جو کہ سنار کے ظاہری حسن پر فریفتہ تھی اور جب اُس کا حسن باقی نہ رہا تو عشق
کا جذبہ سرد پڑ گیا۔ مولانا اس موقع پر فرماتے ہیں:
عشق
ہائے کز پئے رنگے بود
عشق
نبود عاقبت ننگے بود
مولانا رومی کے نزدیک عشق کی تشریح میں عقل
ناکام رہتی ہے اور عشق و عاشقی کی شرح بھی خود عشق کرتا ہے ۔گویا اس مقام پر
مولانا عقل کو عشق کے مقابلے میں محدود اور کم تو قرار دیتے ہیں ۔ان کے نزدیک عشق
عقل سے برتر ہے:
عقل
در شرحش چو خر در گِل بخُفت
شرحِ
عشق و عاشقی ہم عشق گفت
عشق کے جذبے سے سرشار یہ فلسفی شاعر 1273ء
بمطابق ۶۷۲ھ
کو اس جہانِ فانی سے کوچ کرگیالیکن عشق کی یہ شمع بجھی نہیں ۔روحانیت کا یہ سلسلہ
تھما نہیں بلکہ ہندوستان کے ایک اور فلسفی شاعر کے دل کو گرماگیا۔ ہندوستان کا وہ
شاعر اور کوئی نہیں شاعر مشرق علامہ محمداقبال ہے۔مولانا رومی اقبال کے روحانی پیر
ومرشد تھے ۔ اقبال نے بارہا اس بات کا اظہار کیا کہ وہ انھیں اپنا روحانی مرشد
مانتے ہیں اور انھوں نے بارہا اپنے کلام میں ان کاتذکرہ کیاہے ۔انھوں اپنے کلام میں
پیرِ رومی ، پیر یزدانی، پیرِ حقیقت سرشت اور پیرِ عجم کے نام سے یاد کیااور ان سے
عقیدت کا اظہار کیا جیسے:
رازِ
سمنی مرشد رومی کشود
فکر
من آستانش در سجود
اقبال
کے یہاں اکثر و بیشتر مقامات پر مولانا رومی کے موضوعات پر کلام دکھائی دیتا ہے جیسے
عشق و عقل میں عشق کو ترجیح دینا، جبر وقدر کے موضوع میں عمل اور جہد مسلسل کو
بہتر جاننایا اخلاقی موضوعات کا بیان ۔ اقبال بڑی حد تک ایسے موضوعات میں مولانا
رومی سے متاثر دکھائی دیتے ہیں ۔اقبال نے اپنی نظم پیر و مرید میں مولانا رومی کے
اشعار میں اپنی الجھنوں کا حل تلاش کیا ہے ۔ جیسے ایک مقام پر فرماتے ہیں:
اقبال:
زندہ
ہے مشرق تری گفتار سے
اُمتیں
مرتی ہیں کس آزار سے؟
پیر رومی:
ہر
ہلاک ِ اُمت پیشیں کہ بود
زانکہ
بر جندل گماں بردند عود
اقبال
رومی کی مثنوی کے عظیم خیالات سے بے حد متاثر تھے ۔ مولانا رومی کی طویل مثنوی میں
خیالات کا ایک جہاں آباد ہے جسے اقبال نے حرفاً حرفاً پڑھا اوراپنے دل میں اُتار لیا
۔ اسی لیے ان کے کلام میں مولانا رومی کے کلام کا رنگ نمایاں نظر آتا ہے ۔ دونوں
بزرگوں کے کلام میں مماثلت پائی جاتی ہے ۔ دونوں اعلیٰ درجے کے شاعر ہیں، دونوں
اسلامی شاعر ہیں ، دونوں کی شاعری میں حکمت کا رنگ نمایاں ہے، فلسفیانہ عقائد
جھلکتے ہیں ۔دونوں خودی کی نفی کے بجائے خودی کی تقویت کے قائل ہیں ۔دونوں کی شاعری
میں سوز وگداز کی کیفیت پائی جاتی ہے ۔ قرآنی واقعات کا حوالہ ہے ، اللہ اور نبی
کریم سے محبت کا اظہار ہے، پند و نصائح کے موضوعات دکھائی دیتے ہیں اور دونوں کا
کلام ذوق و شوق سے پڑھا جاتا ہے ۔
دنیامیں
دو طرح کے شاعر ہوتے ہیں ۔پہلی قسم کے شعرا وہ ہوتے ہیں جوشاعری کے اسرار ورموز سیکھتے
ہیں پھر موضوعات کی تلاش میں بھٹکتے ہیں اور بالآخر لفظوں کی تراش خراش کرکے انھیں
اوزان و بحور کے تانے بانے بن کے قرطاس کی زینت بناتے ہیں اور دوسری طرح کے شاعر
وہ ہوتے ہیں جنھیں ایسے کسی تردد کی ضرورت پیش نہیں آتی ۔ لفظ ان کے ذہن کی سطح پر
اس طرح اُترتے ہیں جیسے بارش کا پانی روانی سے آگرتا ہے ۔ایسے شاعروں کا نام صدیوں
تک زمانہ یاد رکھتا ہے ۔ بلاشبہ فارسی زبان میں جلال الدین رومی کا شمار بھی ایسے
ہی شعرا میں ہوتا ہے ۔جن کا کلام سالوں کی گرد اُڑنے کے بعد بھی دھندلا نہیں ہوا
بلکہ جن کے اشعار کو پڑھ کے دلوں کے آئینے شفاف تر ہوجاتے ہیں اور روحوں کی کثافتیں
دور ہو جاتی ہیں ۔ مولانا رومی کا کلام شاعری کے محاسن سے پُرہے ۔ اُن کے کلام میں
تغزل بھی ہے ، موسیقیت بھی، غنائیت بھی ہے اور سادگی بھی، سوزو گداز بھی ہے ، عشق
کی وارفتگی بھی، داخلیت بھی ہے اور خارجیت بھی، وحدت کا اظہاربھی ہے اور عشقِ نبویﷺ
کا پرچار بھی، لفظوں کی پُرکاری بھی ہے، لفظی صناعی بھی، پیکر تراشی کا فن بھی ہے
اور حیات و کائنات کے مسائل کا بیان بھی، واقعت نگاری ہو یا قصہ گوئی ، وعظ و نصیحت
ہو یا درسِ اخوت و مساوات ، ہر فن میں طاق ہیں ۔اُن کے اشعار معنویت کا گہرا دریا
ہیں اور تصوف کی نئی جہتوں کے عکاس۔ اُنھوں نے تصوف کی لگی بندھی راہوں پر چلنے کی
بجائے نئے خیالات کو رواج دیا۔زبان کی شستگی اور بیان کی سادگی نے انھیں اپنے دور
کے شعرا میں بھی ممتاز رکھااور بعد میں آنے والے شعرا کو بھی متاثر کیا۔
صحبتِ
صالح تُرا صالح کُند
صحبتِ
طالح تُرا طالح کند
دور
شُو از احتلاطِ یارِ بد
یارِ
بد بدتر بُوَد از مارِ بد
مار
بد تنہا ہمیں بر جان زند
یار
بد بر جان و بر ایمان زند
نیک
آدمی کی صحبت نیک کرتی ہے اور برے بندے کی صحبت برا بنا دیتی ہے۔بد یار کی صحبت
سے دور بھاگو، کیونکہ بَد یار، بَدمار (سانپ) سے بھی خطرناک اور جان لیوا ہے۔ کیونکہ
سانپ کے ڈسے ہوئے کو صرف جان کا خطرہ ہے، اور بد یار کے ڈسے ہوئے کو جان کے ساتھ ایمان
کا بھی خطرہ ہے۔
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You