گورنمنٹ اقبال ماڈل ہائی سکول کے ہیڈ ماسٹر ظفر اقبال وٹو کے ساتھ
کمٹمنٹ پر مجھے 11 بجے سکول پہنچنا تھا۔ اس روز لاہور میں ہمارے گھر میں ماہانہ
ختم تھا جس میں فیصل آباد سے آئے مہمان بھی موجود تھے، اس لئے میں اکیلا لاہور
سے چلا اور مقررہ وقت سے پون گھنٹہ قبل بچیکی میں ڈاکٹر شیر محمد کے پاس تھا۔ظفر
اقبال وٹو کی دعوت پر اقبال صاحب نے لاہور اور خالد صاحب نے شور کوٹ سے آنا تھا۔
دونوں مصروفیت کے باعث شریک نہ ہو سکے۔ہمارے گائوں بندیکی جاگیر سے پرائمری کے بعد
سات آٹھ لڑکے اقبال ماڈل سکول میں داخل ہوتے، اتنے ہی برخور دارگائوں سے آتے۔
برخوردار کے سٹوڈنٹ بڑے ذہین اورہونہار ہوا کرتے تھے۔یہ سب انکے اُستاد طفیل صاحب
کے طفیل تھا۔
لاہور سے نکلتے ہی،یادوں کا سماں بندھ گیا۔ بچپن، لڑکپن اور سکول لائف کی فلم دماغ کے پردہ سکرین پر چلنا شروع ہو گئیں۔بچپن میں سردیوں میں لباس لنگی اور قمیص ہوتا، گرمیوں میں صرف لنگی رہ جاتی، زیادہ سردی ہونے پر دو قمیصیں، شدیدسردی میں تیسری قمیص کی ضرورت محسوس ہوتی مگر تیسری قمیص ہوتی ہی نہیںتھی۔ مجھے وہ کتا اور اسکی ’’چانگریں‘‘ نہیں بھولتیں جس نے ایک بار مجھے سکول سے واپسی پر کاٹنے کی کوشش کی۔ اسکے دانت پاجامے میں پھنس کر رہ گئے۔ ٹانگ محفوظ رہی مگر پاجامے میں لاسٹک تھی، کتے کی ’’کتیائی‘‘ سے پاجامہ گھٹنوں تک آ گیا۔میرے روئیں روئیں سے انتقام کی صدا آرہی تھی۔میں گھر گیا، بستہ رکھا،ایک روٹی اُٹھائی،کتے کو تلاش کیااور ٹکڑا ڈالتے ڈالتے اسے گھر تک لے آیا۔غیر محسوس طریقے سے اسکی دُم پر مٹی کے تیل کا دیا انڈیلا اور موقع پا کر تیلی لگا دی۔ شعلہ بار دُم کو لہراتا اور چلاتا ہواکتا یہ جا وہ جا،یہ کتا غیرت مند نکلا دوبارہ گائوں میں نظر نہیں آیا۔ میں چوتھی میں تھا جب میرے ساتھ یہ واقعہ اور کتے کے ساتھ سانحہ پیش آیا۔ پرائمری جماعت گائوں کے سکول سے پاس کی۔ پرائمری سکول میں سید یٰسین شاہ گیلانی (مرحوم) ہمارے شروع سے آخر تک استاد رہے۔ اس دوران ماسٹر دین محمد اور ماسٹر شوکت(جسلانی واربرٹن سے) بھی کچھ عرصہ سکول میں تعینات رہے۔ دین محمد پیری فقیری اور لوگوں سے استادی کرنے کے بھی ماہر تھے۔ پرائمری کے بعد اقبال ماڈل ہائی سکول میں داخلہ لیا۔ یہ ہمارے گائوں سے سات کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔ سکول تک زیادہ عرصہ پیدل جاتے رہے۔ بھٹو دورمیں گورنر غلام مصطفی کھر کے حکم پر سٹوڈنٹ کا کرایہ دس پیسے ہواتو دو کلومیٹر پیدل چل کر بجلی گھر سٹاپ سے بس میں سوار ہو کر جانا شروع کر دیا۔ گھر والوں نے ایک مرتبہ پرانی سائیکل لیکر دیدی، جس نے ایسی سائیکل نہیں چلائی، اسے سائیکل کے کتے فیل ہونے کی کیا سمجھ آئیگی۔ یوں سمجھ لیں یہ گاڑی کے کلچ پلیٹ جیسا کام کرتے ہیں۔پطرس بخاری اور میری سائیکل میں کچھ زیادہ فرق نہ تھا۔
پرائیویٹ سکول نیشنلائز ہوا تو تمام اساتذہ کا سرکاری سٹیٹس ہو گیا اور مزید اساتذہ بھی آنے لگے۔ مرزا اقبال محمد بیگ، خالد لطیف خالد اور محمد ادریس سکول کے بانی مبانی تھے۔ ان کو ہم نے شبانہ روز محنت کرتے اور ویل ڈریسڈدیکھا۔ اس قافلے میں چودھری ریاض احمد، عبدالستار، محمود علی اور محمد اسلم بھی شامل تھے ۔خالد لطیف صاحب تو سکول کے انسائیکلو پیڈیا ہیں، کسی بھی معاملے حتیٰ کے کسی ساتھی کے بارے میں کچھ جاننا ہو تو ان سے مکمل معلومات مل جاتی ہیں۔ نیشنلائز ہونے کے بعد آنیوالے استاد میاں لطیف گراں مایا سرمایہ ثابت ہوئے۔ ہمارے یہ اساتذہ صرف تدریس ہی نہیں ہماری اخلاقی اور معاشرتی تربیت بھی کرتے، خصوصی طور پر خالد لطیف خالد زندگی گزارنے کے طریقے اور سلیقے بھی ذہن نشین کراتے۔انہی کا سبق ہے ، چائے ’’سڑکا‘‘ لگائے بغیر پئیں۔ چائے میں بسکٹ ڈبو کر کھانا آداب مجلس کیخلاف ہے۔ جتنی بھی سردی ہو سینڈل یا کھیڑی کے ساتھ جرابیں نہیں پہننی، شدید گرمیوں میں بھی اگر بوٹ پہنے ہیں تو جرابیں ضروری ہیں۔ تسموں کے بغیر بوٹ چپل کے زمرے میں آتے ہیں،تاہم یہ بھی چل جاتے ہیں۔وہ کہا کرتے غربت قدرت کی طرف سے ہوسکتی ہے صفائی ہر انسان کے اپنے بس میں ہے۔
ڈاکٹر شیر محمد مجھ سے ایک کلاس آگے تھے تاہم 1975ء میں سکائوٹنگ کیلئے ایک ساتھ شاہکوٹ گئے۔ میں اپنے اندر اگر کوئی خوبی ڈھونڈ پایا ہوں تو وہ وقت کی پابندی ہے۔ مقررہ وقت سے چند منٹ پہلے ہم لوگ سکول کے گیٹ پر ہوتے تھے۔ سکول اب چھوٹی سے بڑی بلڈنگ میں شفٹ ہو گیا ہے جو پہلے لاہور جڑانوالہ روڈ پر تھا اب ننکانہ روڈ پر شہر سے تین چار کلو میٹر دور ہے۔ ظفر اقبال وٹو نوجوان اور انرجیٹک ہیڈ ماسٹر ہیں۔ وہ اور دیگر اساتذہ کرام کو میں نے سلام عرض کیا۔ سکول انتظامیہ نے متعدد مقامی اشرافیہ کو بھی مدعو کیا، ان میں سے ایک نے خود تو آنے سے معذرت کی تاہم 40 طلباء کیلئے یونیفارم خرید کر بھجوا دیں۔ یہ 23 اپریل کا دن تھا تاہم موسم خوشگوار تھا۔بجلی کی بندش ناگوار نہیں گزری۔ سکول کے طلبا کی تعداد تین سو تیس جبکہ اساتذہ 18 ہیں۔ سکول 3 ایکٹر میں ہے۔ ایسی تفصیلات کے بعد ایک کھلے کمرے میں طلباء و سٹاف سمیت ہم 60 افراد اکٹھے ہوئے۔انکے ساتھ گفتگو میں میرا نہ صرف بچوں بلکہ اساتذہ پر بھی زور تھا کہ وہ تعلیم کو زندگی کے کسی بھی مرحلے پر ’’بس!‘‘ نہ سمجھیں۔ تعلیم آپ کا کچھ نہیں بگاڑتی البتہ زندگی کے کسی بھی مرحلے پر آپکے عروج کا سبب بن سکتی ہے۔ اس کمرے میں ڈاکٹر اے کیو خان کی تصویر لگی تھی میں نے شرکاء کی اس تصویر پر توجہ دلائی۔ ڈاکٹر اے کیو خان نے یہ مقام تعلیم اور محنت سے حاصل کیا، وہ ہم پاکستانیوں کے دلوں میں بستے ہیں۔ ایسا یا اسکے قریب تر مقام تعلیم اور محنت سے حاصل کرنا عین ممکن ہے۔انسان کا غریب کے گھر پیدا ہونے میںقصور نہیں مگر وہ غریب مرتا ہے تو اس کا قصور ہے۔ اس میٹنگ کے بعد ہیڈ ماسٹرصاحب کے دفتر میں سکول اور اساتذہ کے مسائل پر بات ہوئی۔ ان لوگوں نے مجھ سے بچوں کو سزا کے بارے سوال کیا تو میراجواب تھا۔ ’’ضرورت پڑنے پربچوں کو اتنی سزا ملنی چاہیے جتنی ہمیں ملتی رہی ہے۔ مرغا بننا، چپیڑ،سوٹی۔ سزا کے نام پر بچے کی ’’لَت بانہہ‘‘ توڑنا ظلم ہے۔ اب معمولی مار پر بھی کئی والدین استاد پر پرچہ کرا دیتے ہیں۔ ایسی قانون سازی، ماحول سے نابلد لوگ کرتے ہیں۔ ایچی سن،ہاورڈاور آکسفورڈ کے فارغ التحصیل قانون سازی کرینگے تو دیہی علاقوں کے اساتذہ مسائل کا شکار رہیں گے۔ محکمہ تعلیم کے کرتا دھرتا اساتذہ اور طلباء کی 90 فیصد حاضری کی پابندی لگاتے ہیں، اساتذہ سے یہ پابندی کرائی جا سکتی ہے: طلباء سے ممکن نہیں۔ آج کل والدین اپنے بچوں کو گندم کی کٹائی میں لگا لیتے ہیں، استاد کی ایک نہیں سنتے، نام کا کاٹا جائے تو ماسٹر کو دھمکاتے ہیں۔اساتذہ کا ایک یہ بھی شکوہ ہے کہ نصاب میں تسلسل نہیں ہے۔کبھی انگلش اور کبھی اردونصاب مسلط کردیا جاتا ہے۔سکول میں ڈیڑھ دو گھنٹے حسیں ،دلنشیں اور یادگار لمحات گزارنے کے بعد سہ پہر کو لوٹ کے لاہور آگئے اور آج پتہ ہی نہیں چلا کہ سکول کب لگا اور کب چھٹی ہوگئی۔
لاہور سے نکلتے ہی،یادوں کا سماں بندھ گیا۔ بچپن، لڑکپن اور سکول لائف کی فلم دماغ کے پردہ سکرین پر چلنا شروع ہو گئیں۔بچپن میں سردیوں میں لباس لنگی اور قمیص ہوتا، گرمیوں میں صرف لنگی رہ جاتی، زیادہ سردی ہونے پر دو قمیصیں، شدیدسردی میں تیسری قمیص کی ضرورت محسوس ہوتی مگر تیسری قمیص ہوتی ہی نہیںتھی۔ مجھے وہ کتا اور اسکی ’’چانگریں‘‘ نہیں بھولتیں جس نے ایک بار مجھے سکول سے واپسی پر کاٹنے کی کوشش کی۔ اسکے دانت پاجامے میں پھنس کر رہ گئے۔ ٹانگ محفوظ رہی مگر پاجامے میں لاسٹک تھی، کتے کی ’’کتیائی‘‘ سے پاجامہ گھٹنوں تک آ گیا۔میرے روئیں روئیں سے انتقام کی صدا آرہی تھی۔میں گھر گیا، بستہ رکھا،ایک روٹی اُٹھائی،کتے کو تلاش کیااور ٹکڑا ڈالتے ڈالتے اسے گھر تک لے آیا۔غیر محسوس طریقے سے اسکی دُم پر مٹی کے تیل کا دیا انڈیلا اور موقع پا کر تیلی لگا دی۔ شعلہ بار دُم کو لہراتا اور چلاتا ہواکتا یہ جا وہ جا،یہ کتا غیرت مند نکلا دوبارہ گائوں میں نظر نہیں آیا۔ میں چوتھی میں تھا جب میرے ساتھ یہ واقعہ اور کتے کے ساتھ سانحہ پیش آیا۔ پرائمری جماعت گائوں کے سکول سے پاس کی۔ پرائمری سکول میں سید یٰسین شاہ گیلانی (مرحوم) ہمارے شروع سے آخر تک استاد رہے۔ اس دوران ماسٹر دین محمد اور ماسٹر شوکت(جسلانی واربرٹن سے) بھی کچھ عرصہ سکول میں تعینات رہے۔ دین محمد پیری فقیری اور لوگوں سے استادی کرنے کے بھی ماہر تھے۔ پرائمری کے بعد اقبال ماڈل ہائی سکول میں داخلہ لیا۔ یہ ہمارے گائوں سے سات کلو میٹر کے فاصلے پر تھا۔ سکول تک زیادہ عرصہ پیدل جاتے رہے۔ بھٹو دورمیں گورنر غلام مصطفی کھر کے حکم پر سٹوڈنٹ کا کرایہ دس پیسے ہواتو دو کلومیٹر پیدل چل کر بجلی گھر سٹاپ سے بس میں سوار ہو کر جانا شروع کر دیا۔ گھر والوں نے ایک مرتبہ پرانی سائیکل لیکر دیدی، جس نے ایسی سائیکل نہیں چلائی، اسے سائیکل کے کتے فیل ہونے کی کیا سمجھ آئیگی۔ یوں سمجھ لیں یہ گاڑی کے کلچ پلیٹ جیسا کام کرتے ہیں۔پطرس بخاری اور میری سائیکل میں کچھ زیادہ فرق نہ تھا۔
پرائیویٹ سکول نیشنلائز ہوا تو تمام اساتذہ کا سرکاری سٹیٹس ہو گیا اور مزید اساتذہ بھی آنے لگے۔ مرزا اقبال محمد بیگ، خالد لطیف خالد اور محمد ادریس سکول کے بانی مبانی تھے۔ ان کو ہم نے شبانہ روز محنت کرتے اور ویل ڈریسڈدیکھا۔ اس قافلے میں چودھری ریاض احمد، عبدالستار، محمود علی اور محمد اسلم بھی شامل تھے ۔خالد لطیف صاحب تو سکول کے انسائیکلو پیڈیا ہیں، کسی بھی معاملے حتیٰ کے کسی ساتھی کے بارے میں کچھ جاننا ہو تو ان سے مکمل معلومات مل جاتی ہیں۔ نیشنلائز ہونے کے بعد آنیوالے استاد میاں لطیف گراں مایا سرمایہ ثابت ہوئے۔ ہمارے یہ اساتذہ صرف تدریس ہی نہیں ہماری اخلاقی اور معاشرتی تربیت بھی کرتے، خصوصی طور پر خالد لطیف خالد زندگی گزارنے کے طریقے اور سلیقے بھی ذہن نشین کراتے۔انہی کا سبق ہے ، چائے ’’سڑکا‘‘ لگائے بغیر پئیں۔ چائے میں بسکٹ ڈبو کر کھانا آداب مجلس کیخلاف ہے۔ جتنی بھی سردی ہو سینڈل یا کھیڑی کے ساتھ جرابیں نہیں پہننی، شدید گرمیوں میں بھی اگر بوٹ پہنے ہیں تو جرابیں ضروری ہیں۔ تسموں کے بغیر بوٹ چپل کے زمرے میں آتے ہیں،تاہم یہ بھی چل جاتے ہیں۔وہ کہا کرتے غربت قدرت کی طرف سے ہوسکتی ہے صفائی ہر انسان کے اپنے بس میں ہے۔
ڈاکٹر شیر محمد مجھ سے ایک کلاس آگے تھے تاہم 1975ء میں سکائوٹنگ کیلئے ایک ساتھ شاہکوٹ گئے۔ میں اپنے اندر اگر کوئی خوبی ڈھونڈ پایا ہوں تو وہ وقت کی پابندی ہے۔ مقررہ وقت سے چند منٹ پہلے ہم لوگ سکول کے گیٹ پر ہوتے تھے۔ سکول اب چھوٹی سے بڑی بلڈنگ میں شفٹ ہو گیا ہے جو پہلے لاہور جڑانوالہ روڈ پر تھا اب ننکانہ روڈ پر شہر سے تین چار کلو میٹر دور ہے۔ ظفر اقبال وٹو نوجوان اور انرجیٹک ہیڈ ماسٹر ہیں۔ وہ اور دیگر اساتذہ کرام کو میں نے سلام عرض کیا۔ سکول انتظامیہ نے متعدد مقامی اشرافیہ کو بھی مدعو کیا، ان میں سے ایک نے خود تو آنے سے معذرت کی تاہم 40 طلباء کیلئے یونیفارم خرید کر بھجوا دیں۔ یہ 23 اپریل کا دن تھا تاہم موسم خوشگوار تھا۔بجلی کی بندش ناگوار نہیں گزری۔ سکول کے طلبا کی تعداد تین سو تیس جبکہ اساتذہ 18 ہیں۔ سکول 3 ایکٹر میں ہے۔ ایسی تفصیلات کے بعد ایک کھلے کمرے میں طلباء و سٹاف سمیت ہم 60 افراد اکٹھے ہوئے۔انکے ساتھ گفتگو میں میرا نہ صرف بچوں بلکہ اساتذہ پر بھی زور تھا کہ وہ تعلیم کو زندگی کے کسی بھی مرحلے پر ’’بس!‘‘ نہ سمجھیں۔ تعلیم آپ کا کچھ نہیں بگاڑتی البتہ زندگی کے کسی بھی مرحلے پر آپکے عروج کا سبب بن سکتی ہے۔ اس کمرے میں ڈاکٹر اے کیو خان کی تصویر لگی تھی میں نے شرکاء کی اس تصویر پر توجہ دلائی۔ ڈاکٹر اے کیو خان نے یہ مقام تعلیم اور محنت سے حاصل کیا، وہ ہم پاکستانیوں کے دلوں میں بستے ہیں۔ ایسا یا اسکے قریب تر مقام تعلیم اور محنت سے حاصل کرنا عین ممکن ہے۔انسان کا غریب کے گھر پیدا ہونے میںقصور نہیں مگر وہ غریب مرتا ہے تو اس کا قصور ہے۔ اس میٹنگ کے بعد ہیڈ ماسٹرصاحب کے دفتر میں سکول اور اساتذہ کے مسائل پر بات ہوئی۔ ان لوگوں نے مجھ سے بچوں کو سزا کے بارے سوال کیا تو میراجواب تھا۔ ’’ضرورت پڑنے پربچوں کو اتنی سزا ملنی چاہیے جتنی ہمیں ملتی رہی ہے۔ مرغا بننا، چپیڑ،سوٹی۔ سزا کے نام پر بچے کی ’’لَت بانہہ‘‘ توڑنا ظلم ہے۔ اب معمولی مار پر بھی کئی والدین استاد پر پرچہ کرا دیتے ہیں۔ ایسی قانون سازی، ماحول سے نابلد لوگ کرتے ہیں۔ ایچی سن،ہاورڈاور آکسفورڈ کے فارغ التحصیل قانون سازی کرینگے تو دیہی علاقوں کے اساتذہ مسائل کا شکار رہیں گے۔ محکمہ تعلیم کے کرتا دھرتا اساتذہ اور طلباء کی 90 فیصد حاضری کی پابندی لگاتے ہیں، اساتذہ سے یہ پابندی کرائی جا سکتی ہے: طلباء سے ممکن نہیں۔ آج کل والدین اپنے بچوں کو گندم کی کٹائی میں لگا لیتے ہیں، استاد کی ایک نہیں سنتے، نام کا کاٹا جائے تو ماسٹر کو دھمکاتے ہیں۔اساتذہ کا ایک یہ بھی شکوہ ہے کہ نصاب میں تسلسل نہیں ہے۔کبھی انگلش اور کبھی اردونصاب مسلط کردیا جاتا ہے۔سکول میں ڈیڑھ دو گھنٹے حسیں ،دلنشیں اور یادگار لمحات گزارنے کے بعد سہ پہر کو لوٹ کے لاہور آگئے اور آج پتہ ہی نہیں چلا کہ سکول کب لگا اور کب چھٹی ہوگئی۔
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You