...
....
وظائف
مختلف وظائف کے لیے کلک کریں
دار المطالعہ
اچھے اچھے عنوانات پر کالم پڑھنے کے لیے کلک کریں
صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی
صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی صاحب کی خوبصورت تحریریں پڑھنے کے لیے کلک کریں
گوشہءِ غزل
بہت خوبصورت اردو غزلیں پڑھنے کے لیے کلک کریں
8/4/16
Important Steps for The Social Reforms :: قرآن مجید اور معاشرتی اصلاح کے رہنما اصول :: مسجد کی معاشرتی اہمیت:: مسجد کی اہمیت
ہمارےے
نزدیک اصلاح کے لئے درج ذیل اقدام نہایت مؤثر ثابت ہو سکتے ہیں۔
1۔سب سے پہلے افراد کے ذہنوں میں خدا کا صحیح تصور اور عقیدۂ آخرت
کی اہمیت پر زور دیا جائے۔ نیز شرک سے اجتناب کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ تاکہ لوگ
اپنی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے افعال میں خداوند کریم کے سامنے جواب دہی کے
تصور کو مردہ نہ ہونے دیں اور صحیح نصب العین اور اعلیٰ و ارفع اقدارِ حیات کے
حصول کی خاطر کوشاں رہیں۔
2۔معاشرے کے اندر کسی ایسے ادارہ کی تشکیل کی جائے جو اصلاح و فساد
کا تعین کرے اور ان تدابیر کو قابلِ عمل بنائے جن سے بگاڑ کی روک تھام ہو سکے۔
دینی نقطۂ نظر سے اس کو ادارہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کہہ سکتے ہیں۔ کیونکہ
امت مسلمہ کی خصوصیت میں یہی بات بیان فرمائی گئی ہے۔
کنتم خیر امت اخرجت للناس
تامرون بالمعروف وتنھون عن المنکر (آل عمران: ۱۱۵)’’تم
وہ بہترین امت ہو جو لوگوں کو بھلائی کا حکم دیتی اور برائی سے روکتی ہے۔‘‘
امت
کے ایک گروہ کیلئے امر بالمعروف ونہی عن المنکر کو فریضہ قرار دیا ہے۔
ولتکن منکم امۃ یدعون الی
الخیر ویامرون بالمعروف وینھون عن المنکر واولئک ھم المفلحون۔
(آل عمران: ۱۰۴)
’’تم
میں سے ایک گروہ ایسا ہونا چاہئے جو بھلائی کی طرف بلائے، اچھے کاموں کا حکم دے
اور برائی سے روکے یہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔‘‘
اس
طرح اگر امت مسلمہ اپنے فریضہ کو پہچانے، اس کا صالح عنصر مجتمع ہو جائے اور اس کا
اپنا ذاتی اور اجتماعی رویہ خالص راستبازی، انصاف، حق پسندی، خلوص اور دیانت پر
مضبوطی سے قائم ہو جائے تو منظم نیکی کے سامنے منظم بدی اپنے لشکروں کی کثرت کے
باوجود شکست کھا جائے گی اور اگر خیر کے علمبردار سرے سے میدا ن میں ہی نہ آئیں
تو میدان لا محالہ علمبردارانِ شر کے ہاتھ میں رہے گا۔
3۔حکومت کو ان صالح لوگوں کے ہاتھ میں ہونا چاہئے جو خیر کو قائم
کریں اور شر کو روک سکیں۔ ’’النَّاسُ عَلٰی دِیْنِ مُلُوْکِھِمْ‘‘
ایک پرانا مقولہ ہے اور غالباً حدیث نبوی سے ہی اخذ کیا گیا ہے۔ حضور ﷺ کا ارشاد
ہے:
اَلْاِسْلَامُ
وَالسُّلْطَانُ اَخَوَانِ تَوْأَمَانِ لَا یَصْلُحُ وَاحِدٌ مِّنْھُمَا اِلَّا
بِصَاحِبِہ فَالْاِسْلَامُ اُسٌّ وَالسُّلْطَانُ حَارِسٌ وَّمَا لَا اُسَّ لَہُ
ھَادِمٌ وَّمَا لَا حَارِسَ لَہ ضَائِعٌ (کنز العمال)
اسلام
اور حکومت و ریاست، دو جڑواں بھائی ہیں۔ دونوں میں سے کوئی ایک دوسرے کے بغیر زندہ
نہیں رہ سکتا۔ پس اسلام کی مثال ایک عمارت کی ہے اور حکومت گویا اس کی نگہبان ہے
جس عمارت کی بنیاد نہ ہو ،گر جاتی ہے اور جس کا نگہبان نہ ہو وہ لوٹ لیا جاتا ہے۔
ایک
اور حدیث ہے:
اِنَّ اللہَ لَیَزَعُ
بِالسُّلْطَانِ مَا لَا یَزَعُ بِالْقُرْآنِ (تفسیر
ابن کثیرؒ ج ۳
ص ۵۹)
’’اللہ
تعالیٰ حکومت کی طاقت سے ان چیزوں کا سد باب کر دیتا ہے جن کا سد باب قرآن سے
نہیں ہو سکتا۔‘‘
حدیث
میں قوم کے بناؤ اور بگاڑ کی ذمہ داری اس کے علماء اور امراء پر رکھی گئی ہے۔
کیونکہ زمامِ کار انہی لوگوں کے ہاتھ ہوتی ہے۔ اگر فرمانروا خدا پرست اور صالح ہوں
تو زندگی کا سارا نظام خیر و صلاح پر چلے گا۔ اور حکومتِ وقت ‘‘ادارہ امر بالمعروف
و نہی عن المنکر‘‘ کی سفارشات پر غور کرے گی۔
4۔معاشرے کا اجتماعی شعور بیدار کیا جائے کہ کوئی شخص بھی بگاڑ کی
طرف مائل نہ ہو۔ اس کے شعور کی تعمیر و ترقی کے لئے ’’ادارہ امر بالمعروف و نہی عن
المنکر‘‘ مندرجہ ذیل طریق اختیار کر سکتا ہے۔
(الف) تعلیم و تبلیغ کے زریعے وہ تمام صورتیں اختیار کی جا سکتی ہیں۔ جو
دورِ حاضر میں نشر و اشاعت کے کام میں لائی جاتی ہیں۔ مثلاً اخبارات، ریڈیو، ٹیلی
ویژن مذاکرات وغیرہ کے ذریعہ سے دینی اقدار اور اسلامی طرزِ حیات کی تفہیم کو فروغ
دینے کی کوشش کی جائے، حقیقت یہ ہے کہ دورِ حاضر میں یہ ذرائع عوامی رجحانات کو
بدلنے اور نیا رخ دینے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ معاشرے کے اندر غلط رجحانات کی
ترویج میں ان اداروں کا بڑا حصہ ہے۔
(ب)
یہ ادارہ معیاری معاشرت
کے لئے عمدہ نمونہ اور مثال پیش کرے جس کی نہج پر پورے معاشرے کو ڈھالا جا سکے۔
نبی کریم ﷺ نے جن اصولوں کو بیان کیا تھا، ان اصولوں پر مبنی ایک سوسائٹی مدینہ
طیبہ میں تشکیل دی تھی اس معاشرہ کا ہر فرد ان اصولوں کی جیتی جاگتی تصویر تھا۔
لہٰذا اصلاح معاشرہ کے لئے یہ ضروری ہے کہ نمونے کے چند افراد پر مشتمل ایک ایسی
وحدت قائم ہونی چاہئے جس کو سامنے رکھ کر پورے معاشرے کو استوار کیا جا سکے۔
5۔معاشرے میں مسجد کی دینی اور سماجی حیثیت کو اجاگر کیا جائے اور
اصلاح معاشرہ کے لئے مسجد کو مرکزی حیثیت دی جائے کیونکہ نظمِ اجتماعی کے لئے ایک
مرکز کا ہونا ضروری ہے۔ جب تک مسلم سوسائٹی مسجد سے اپنا تعلق مضبوط نہیں کرتی اور
مسجدیں پورے معاشرے پر اثر انداز ہونے کی صلاحیتوں کی حامل نہیں بن جاتیں، اس وقت
تک اصلاح کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔
6۔تعلیمی ادارے معاشرے میں اہمیت کے حامل ہیں۔ معاشرے کے اجتماعی
شعور اور انفرادی تشخص کے ارتقاء کا دارومدار تعلیمی اداروں پر ہے جہاں اساتذہ اہم
کردار ادا کر سکتے ہیں اس لئے ایسے اساتذہ کا انتظام کیا جائے جو طالب علموں میں
اسلامی اقدار کو راسخ کر دیں۔ اس کے علاوہ تعلیمی اداروں میں نصابات کی بھی جانچ
پڑتال کی جائے اور ایسی تمام چیزیں جو روحِ دین کے منافی ہوں، ان کو پڑھاتے وقت
تنقیدی طریقہ اختیار کیا جائے تاکہ طالب علم ان کی حقیقت سے واقف ہو جائیں، نیز ان
داروں میں بنیادی دینی تعلیمات کا انتظام کیا جائے تاکہ طلباء اسلام کی اصلیت اور
اس کی روح سے مکمل واقفیت حاصل کر سکیں۔
7۔دولت اور وسائلِ دولت پر تصرف اس طرح ہو کہ معاشرے میں معاشی نا
انصافی، اسراف، بتذیر، بخل و ظلم اور ارتکازِ دولت نہ ہونے پائے۔ حکومت ان تمام
ذرائع پر پابندی عائد کر دے جو عوامی بہبود کے لئے ضرر رساں ہیں۔ معاشی نظام میں
سود، احتکار و اکتناز، رشوت اور لوٹ کھسوٹ کی تمام صورتیں قانوناً اور حکماً بند
کر دی جائیں تاکہ معاشرہ طبقاتی معاشرت کا شکار نہ ہو۔
8۔معاشرے کی اصلاح کی خاطر حدود و تعزیرات کا نظام بھی قائم کیا
جائے۔ جن کے ذریعے معاشرہ کو ان افراد سے محفوظ کیا جائے جو تعلیمی ترغیبات اور
اخلاقی ذرائع سے اصلاح قبول نہ کریں اور معاشرے کے قانون کی خلاف ورزی کریں۔ حدود
و تعزیرات کے نفاذ سے سماجی جرائم کا انسداد ہو گا اور معاشرہ غیر صالح عناصر کی
فتنہ انگیزیوں سے محفوظ رہے گا۔
9۔سب سے آخر میں اور سب سے اہم بات یہ ہے کہ ملک کا پورا نظام
اسلامی ہو جس میں افراد اور معاشرہ روحِ دین سے سرشار ہو اور غیر اسلامی نظریات سر
نہ اُٹھا سکیں۔ نظام کی تشکیل اس طرح ہو کہ غیر اسلامی نظریات کی بجائے اسلامی
تعلیمات کی گرفت مضبوط ہو۔
لیکن
اس کے ساتھ اتنی ہی اہم بات یہ ہے کہ ہر فرد ’’اپنی اصلاح آپ‘‘ کے اصول کو اپنائے
اور دوسروں کی اصلاح کرنے کے بجائے اپنی اصلاح کرے۔ اصلاح معاشرہ کا آغاز انسان
کی اپنی ذات سے ہوا ہے۔ اس سے وہ پیچیدگی دور ہو جائے گی جو دوسروں کی اصلاح کرنے
کی صورت میں پیش آتی ہے۔ ’’اپنی اصلاح آپ‘‘ کے اصول کا ایک فائدہ یہ بھی ہو گا کہ
افراد کے سامنے معیار کا تصور واضح ہو گا اور ہر شخص اس معیار کے مطابق اپنے آپ
کو ڈھالتا چلا جائے گا۔