زندگی اور کائنات کی سب سے اہم حقیقت اللہ تعالیٰ کا وجود ہے۔ اس کے ہونے یا نہ ہونے سے ہر چیز کے معنیٰ بدل جاتے ہیں ۔ اگر اللہ ہے تو زندگی اور کائنات کی ہر چیز بامعنی اور بامقصد ہے اور اگر اللہ موجود ہی نہیں تو پھر کائنات کی ہر چیزبے معنی اور بے مقصد ہے۔ لیکن اسلام میں اہمیت اللہ کے ہونے یا نہ ہونے کو حاصل نہیں بلکہ اللہ کی الوہیت کو حاصل ہے ۔ تاہم دین بیزاری اور الحاد کے اس دور میں کچھ ایسے کورچشم بھی ہیں جو آفاق وانفس کے بے شمار دلائل سے آنکھیں موندکروجود باری تعالیٰ کا انکار کربیٹھتے ہیں ایسے لوگوں کو ہم کیسے مطمئن کرسکتے ہیں ؟
اسی مقصد کے تحت یہ مضمون پیش خدمت ہے یہ زمین ،یہ آسمان، یہ سورج، یہ چاند، یہ ستارے ، یہ کہکشاں ،یہ ندی، یہ پہاڑ،یہ رات اور یہ دن،بلکہ کائنات کا ہر ایک ذرہ اللہ کے وجود پر دلیل ہے۔(ماخذ مضمون:ماہنامہ مصباح:14نومبر2009)
آب دوزکشتی
امام ابو حنیفہؒ کی خدمت میں کچھ منکرین خدا نے اس مسئلہ پر بحث کرنا چاہی تو آپ نے نہایت حکیمانہ انداز میں ان کی تشفی فرمائی۔ آپ نے فرمایا مجھے ذرا چھوڑو کیونکہ میں ایک بات میں فکر مند ہوں جس کا مجھ سے امتحان لیا گیاہے مجھ سے لوگوں نے بیان کیا ہے کہ دریا میں سامان بھری ہوئی ایک بوجھل کشتی ہے اس میں طرح
طرح کے تجارتی سامان ہیں کوئی اس کشتی کی نگرانی نہیں کرتاہے اور نہ اس کو چلانے والا کوئی ہے اس کے باوجود کشتی اپنے آپ آتی جاتی اور چلتی پھرتی ہے بڑی بڑی موجوں کو چیر پھاڑکر نکل جاتی ہے کسی ناخدا کے بغیر اپنے آپ چلتی پھرتی رہتی ہے لوگوں نے کہا یہ بات کوئی عقل والا نہیں کہے گا تب امام صاحب نے فرمایا افسوس ہے تمہاری عقلوں پرکہ ایک کشتی کے متعلق تمہارا گمان ایساہے تو یہ موجودات جن میں آسمان و زمین اور دوسری مستحکم اشیاءہیں کیا ان کا کوئی صانع نہیں ہے؟ یہ سن کر قوم لا جواب ہوگئی حق کی طرف رجوع کیا اور امام صاحب کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا۔
زبانوں کا اختلاف
امام مالکؒ سے خلیفہ ہارون الرشید نے پوچھا کہ اللہ کے وجود پر کیا دلیل ہے؟ آپ نے فرمایا: زبانوں کا مختلف ہونا، نغموں کا الگ ہونا اور آوازوں کا جدا ہونا ثابت کرتا ہے کہ اللہ ہے۔
توت کے پتے
امام شافعیؒ سے کسی نے وجود باری تعالی پر دلیل مانگی تو انہوں نے کہا توت کے پتے کو دیکھو! اس کا ایک ہی مزا ہے اسکو کیڑا کھاتاہے تو اس سے ریشم نکلتاہے شہد کی مکھی کھاتی ہے تو شہد بنتاہے بکری گائے چوپائے کھاتے ہیں تو مینگنی اور گوبر نکلتاہے اس کو ہرن کھاتے ہیں تو مشک بنتاہے حالانکہ چیز ایک ہی ہے یہ سب کس کی کاریگری ہے؟۔
انڈا
امام احمد بن حنبلؒ سے ایک مرتبہ وجود ِباری تعالیٰ پر دلیل طلب کی گئی تو آپ نے فرمایا: سنو یہاں ایک مضبوط قلعہ ہے جس میں نہ کوئی دروازہ ہے نہ کوئی راستہ بلکہ سوراخ تک نہیں ۔ یہ قلعہ باہر سے چاندی کی طرح چمک رہا ہے اور اندر سے سونے کی طرح دمک رہا ہے۔ یہ قلعہ ہر طرف سے بند ہے۔ ہوا تک کا اس میں سےگزرنہیں ۔ اچانک اس قلعے کی ایک دیوار گرتی ہے اور ایک جاندار آنکھوں کانوں والا، نہایت خوبصورت پیاری بولی والا چلتا ہوا باہر نکل آتا ہے۔بتاؤ ! اس بنداورمحفوظ مکان میں اسے پیدا کرنے والا کوئی ہے یا نہیں ؟ اور وہ ہستی انسانی ہستیوں سے بالاتر اور اس کی قدرت غیر محدود ہے یا نہیں ؟
اس مثال کا مطلب یہ تھا کہ انڈے کو دیکھو چاروں طرف سے بند ہوتا ہے مگر اس کے باوجود اللہ تعالیٰ اس میں چوزہ پیدا کردیتا ہے۔
اللہ کے وجود کی نشانیاں انسان کے اپنے نفس اور کائنات کے ذرے ذرے میں پائی جاتی ہیں:
اللہ تعالی کا فرمان ہے:عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور انکے نفس میں بھی، یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن واقعی بر حق ہے۔(حم السجدہ ۳۵)
جمادات ، نباتات،حیوانات، اور تخلیق انسانی میں نظم وترتیب، کمال خلاقی اور حسن وجمال کی تصویر کشی یہ سب خالق کائنات کے وجود کی نشانیاں ہیں ۔
تلخ وشور سمندرکے بیچ آب شیریں
یہ سمندر جس کے تلخ وشور پانی کے بیچ میٹھے پانی کا چشمہ پایاجاتاہے اور تلخ پانی کے درمیان بھی اپنی مٹھاس پر قائم رہتاہے۔ یہ خالق کائنات کا تخلیقی شاہکار نہیں تو اور کیا ہے قرآن مجید میں ہے:
اور وہی ہے جس نے دو سمندروں کو ملا رکھا ہے، ایک لذیذ شیریں اور دوسرا تلخ وشور اور دونوں کے درمیان ایک پردہ حائل ہے،ایک رکاوٹ ہے جو انہیں گڈمڈہونے سے روکے ہوئے ہے۔ ( الفرقان ۳۵)
کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ ایک ہی سمندر میں لذیذ اور شور پانی بھی ہو اور دونوں آپس میں مل نہ سکے۔کبھی سوچا کہ کس ذات نے تلخ پانی کے بیچ میٹھے پانی کا چشمہ جاری کیا اور دونوں کے بیچ ایسی رکاوٹ ڈال دی کہ دونوں ملنے نہ پائے؟
آب باراں
بارش کے اس پانی پر غور کیجےے! جو مختلف جگہوں پر نہایت توازن کے ساتھ برستاہے۔ کون ہے جو سمندر کے اس تلخ وشور پانی میں سے انتہائی احتیاط کے ساتھ پانی کشید کرتاہے اور بادلوں کے پیٹھ پر سوار کرکے بالائی علاقوں تک پہنچادیتا ہے؟
فرمان باری تعالی ہے:اچھا یہ بتاؤکہ جس پانی کو تم پیتے ہو ۔کیا تم نے اسے بادلوں سے اتارا ہے یا اس کے برسانے والے ہم ہیں اگر ہم چاہیں تو اس میٹھے پانی کو کھاری بنادیں ۔پھر تم ہماری شکر گزاری کیوں نہیں کرتے ؟ ۔ ( الواقعہ ۸۶۔ ۰۷)
شمس وقمر
یہ چاند ہماری زمین کا سب سے قریب ترین سیارہ ہے کیونکہ اس کا فاصلہ ہماری زمین سے صرف دو لاکھ چالیس ہزار میل ہے۔سائنس دانوں کا بیان ہے کہ یہ سورج ہماری زمین سے نو کروڑ تیس لاکھ میل بلندی پر ہے وہاں تک خلائی راکٹ سے سفر کریں تو مستقل پرواز میں سات سال کی مدت درکار ہوگی ۔سائنس دانوں کا بیان ہے کہ سورج کا حجم اتنا زیادہ ہے کہ اگر وہ کھوکھلا ہوتا تو اس میں موجودہ زمین جیسی تیرہ لاکھ زمینیں سماجاتیں ۔ذرا سور ج کا حجم دیکھیں کہ اگر وہ کھوکھلا ہوتا تو اس میں موجودہ زمین جیسی تیرہ لاکھ زمینیں سماجاتیں ۔ دنیا کا قاعدہ ہے کہ صانع اپنی صنعت سے پہچاناجاتاہے۔اب آپ خودہی فیصلہ کریں کہ ایسی بھاری بھر کم چیز خلامیں کس کے کنٹرول سے قائم ہے ؟ آخر کس نے سورج کو زمین سے نو کروڑ تیرہ لاکھ کی بلندی پر پہنچایا ؟ کس کی قدرت سے سورج خلا میں معلق ہے ؟ اللہ تعالی نے سورہ حج میں اس کا جواب دے دیا ہے:
اللہ تعالی سماوی کائنات کو روکے ہوے ہے اور اپنے کنٹرول میں لئے ہوے ہے کہ وہ زمین پر گرنہ جائیں مگر جب اس کی اجازت ہوجاے گی تو زمین وآسمان باہم ٹکراجائیں گے، بیشک اللہ تعالی اپنے اس کنٹرول کے ذریعہ لوگوں پر رحمت وشفقت فرمارہاہے ۔ (سورة الحج ۵۶)
تخم
ایک جگہ اللہ تعالی نے انسان کو یاد دلایا:کیا تم نے دیکھاہے جو تم کاشت کرتے ہو کیا تم اگاتے ہو یا اسے اگانے والے ہم ہیں ؟ اگر ہم چاہیں تو اسے خاک کرڈالیں ، اور تم ہاتھ ملتے رہ جاﺅ، اور یوں کہو کہ ہم پہ تو تاوان پڑگیا بلکہ ہم تو محروم ہیں ۔ (سورہ الواقعہ ۳۶)
پتہ یہ چلا کہ کاشت کرنا انسان کے بس میں ہے لیکن کھیتی کا اگانا اور پودے کی افزائش انسان کے بس میں نہیں ۔
دود ھ کی تخلیق
حیوانات کی زندگی میں عقلمندوں کے لئے وجود باری تعالی کی بے شمار نشانیاں ہیں اگر دودھ کی پیدائش پر ہی غور کیا جائے تو انسان شسدر رہ جاتاہے۔ پیٹ میں ایک طرف ناپاک اور غلیظ گوبر، اور دوسری طرف بدبودار خون لیکن ان دونوں کے درمیان جو چیز پیداہورہی ہے وہ انتہائی صاف اور انسانی جسم کے لئے نہایت ضروری ہے۔قرآن مجید میں ہے:
یقینا تمہارے لئے چوپایوں میں عبرت ہے ان کے پیٹوں میں گوبراور خون کے درمیان سے خالص دودھ ہم تجھے پلاتے ہیں جو پینے والوں کےلئےخوشگوارہے۔(النحل:۶۶)
یہ سب کس ذات کی کاریگری ہے ؟ انسان کی بساط تو اتنی ہے کہ وہ ایک مکھی تک پیدا نہیں کرسکتا، پیدا تو کیا کرے گا اگر مکھی اس کے کھانے میں سے چھین لے جاے تو وہ بھی واپس نہیں لا سکتا۔
اے لوگو ! ایک مثال دی جاتی ہے ذرا غوسے سنو !جنہیں تم اللہ کے علاوہ دوسروں کو پکارتے ہو وہ مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے چاہے سارے اس کام کے لئے اکٹھےکیوں نہ ہوجائیں اور اگر کوئی مکھی ان سے کوئی چیز چھین کر لے جائے تو وہ واپس بھی نہیں لے سکتے۔طلب کرنے والے اور طلب کےے جانے والے یعنی عابد ومعبود سب کمزور ہیں ۔ ( الحج ۲۷)
کائنات کا تنوع
اللہ کے وجود کی ایک عظیم نشانی کائنات کی تمام چیزوں میں تنوع کا پایاجاناہے دنیا کی ہر چیز چاہے وہ جمادات ہو ں یا نباتات ہوں یا حیوانات۔ ان میں سے ہر ایک اپنا ذاتی حسن لئے ہوئے ہے۔ جو اس سے پہلے کسی دوسری کو نصیب نہ ہوا۔ نباتات ہی کولیجئے ! ایک ہی زمین ہے، ایک ہی آب وہوا، ایک ہی موسم لیکن مختلف رنگوں ،مختلف ذائقوں اور مختلف شکلوں کی نباتات اُگ رہی ہیں ۔ یہی حال حیوانات کا ہے ہر علاقے میں مختلف قسم کے حیوانات پائے جاتے ہیں ، لیکن ہر حیوان کی شکل ایک
دوسرے سے الگ ہوتی ہے یہاں تک کہ ایک ہی حیوان سے پیداہونے والے بچے سب الگ الگ رنگ وروپ اور شکل کے ہوتے ہیں ۔
خود انسان کے وجود پر ہی نگاہ ڈال کر دیکھ لیجئے ! دنیا میں ہزاروں سال سے انسان پیدا ہوتے آرہے ہیں جن کامادہ تخلیق ایک ہی قسم کا ہے، بناوٹ میں بھی ترتیب پائی جاتی ہے اسکے باوجود ہر انسان الگ الگ رنگ وروپ لے کر پیدا ہوتاہے۔ آواز مختلف، بولیاں مختلف،زبانیں مختلف،گفتگوکاانداز مختلف ۔
پوری دنیا کی خا ک چھان ڈالیں لیکن ایک شکل وصورت کا انسان نہیں پاسکتے٬ آج فنگر پرنٹ انسان کی پہچان بنی ہوئی ہے ۔کیوں کہ پورے کائنات میں اس کے مشابہ کوئی انسان نہیں پایاجاتا ۔ آج انسان بڑی سی بڑی فیکٹری کا مالک ہو پھر بھی اس کی مصنوعات کے ڈیزائن محدود تعداد میں ہوتے ہیں ، اور بار بار انہیں ڈیزائن پرمصنوعات سانچے میں ڈھل کر تیار ہوتی ہیں ….ذرا سوچیں کہ آپ کے پاس جس نوعیت کا موبائل ہے اگر سروے کریں تو ہزاروں انسانوں کے پاس بالکل ویساہی موبائل پائیں گے۔
ایسی دو چیزوں کو نشان لگائے بغیر ایک ساتھ رکھ دیں تو ان میں پہچان کرنا مشکل ہے۔ لیکن قدرت کی فیکٹری کا کمال دیکھےے کہ اس کے سانچے میں ڈھلنے والی مصنوعات ایک دوسری سے بالکل الگ الگ ہیں ۔ یہ اس ذات کی وجودکی نشانی نہیں تو اور کیا ہے۔ارشاد باری تعالی ہے:
اور اس کی نشانیوں میں آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور زبانوں اور رنگوں کا اختلاف بھی ہے بے شک اس میں جاننے والوں کے لئے اللہ کے وجود کی نشانیاں ہیں(الروم ۲۲)
یعنی زبانوں اور رنگوں کا اختلاف یونہی نہیں بلکہ اس میں قدرت کے وجود کی نشانی ہے۔فتبارک اللہ احسن الخالقین پس نہایت شان والاہے وہ اللہ جو تمام صناعوں سےبڑھ کر صناع ہے۔
تربیت ونشوونما
کسی ماں سے پوچھئے جس کے پیٹ میں بچہ ہے کیا اس کی غذا اور زندگی کی نشونما کا انتظام خود وہ کررہی ہے یا کوئی اور ذات کی یہ کاریگری ہے ….؟ پھر جب بچہ پیدا ہوتاہے٬ تو پیدا ہونے سے پہلے ماں کے پستان میں اس کی غذا پیدا کردی گئی ، ماں کے دل میں محبت ورحمت ڈال دی گئی، جس نے اسے اپنے سینے سے چمٹایا اور اس کی تربیت شروع کردی۔
انسان تو در کنار جانوروں کی زندگی میں بھی اسی تربیت کو وجود بخشا چنانچہ بچہ پیدا ہوتے ہی ماں کے پستانوں کو چوسنا شروع کردیتاہے۔ اسی طرح اللہ تعالی نے ہر جانور کو اس کی ضرورت کے مطابق ہدایت فرمائی چیونٹی کو سونگھنے کی دور رس قوت بخشی تاکہ وہ دور دور جاکر اپنی غذا حاصل کرسے۔ چیل اور عقارب کو تیز نگاہ عطا فرمائی تاکہ بلندی پر اڑتے ہوئے اپنا شکار دیکھ سکے۔ پھر شہد کی مکھیوں کو ایک خاص قسم کا گھر بنانے کی تربیت دی ایسا گھر کہ جسے دیکھ کر انسان عش عش کرنے لگتاہے پھر اسے ہزاروں میل دور جاجاکر شہد تلاشنے کی قوت عطا فرمائی ۔ سبحان اللہ یہ سب کس نے کیا ؟ہائے تعجب کیسے لوگ اللہ کی نافرمانی کرتے ہیں اور کیسےمنکرین اس کا انکار کرتے ہیں جبکہ ہر حرکت وسکون میں اللہ کی ہستی پر کوئی نہ کوئی دلیل موجود ہے ہر چیز میں اللہ کے وجود پر نشانی ہے جو اس کے ایک ہونے کا پتا دیتی ہے ۔
اے لوگو ! اللہ نے جو نعمتیں دی ہیں انہیں یاد تو کرو….کیا اللہ کے علاوہ کوئی اور پیدا کرنے والابھی ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے رزق پہنچارہاہے؟ اسکےسواکوئی معبود بر حق نہیں ۔پس تم کہاں الٹے پھرے جاتے ہو؟