Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

...

....

وظائف

مختلف وظائف کے لیے کلک کریں

دار المطالعہ

اچھے اچھے عنوانات پر کالم پڑھنے کے لیے کلک کریں

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی

صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی صاحب کی خوبصورت تحریریں پڑھنے کے لیے کلک کریں

گوشہءِ غزل

بہت خوبصورت اردو غزلیں پڑھنے کے لیے کلک کریں

10/18/16

وجودِ باری تعالی کے دلائل

وجودِ باری تعالی کے دلائل:

زندگی اور کائنات کی سب سے اہم حقیقت اللہ تعالیٰ کا وجود ہے۔ اس کے ہونے یا نہ ہونے سے ہر چیز کے معنیٰ بدل جاتے ہیں ۔ اگر اللہ ہے تو زندگی اور کائنات کی ہر چیز بامعنی اور بامقصد ہے اور اگر اللہ موجود ہی نہیں تو پھر کائنات کی ہر چیزبے معنی اور بے مقصد ہے۔ لیکن اسلام میں اہمیت اللہ کے ہونے یا نہ ہونے کو حاصل نہیں بلکہ اللہ کی الوہیت کو حاصل ہے ۔ تاہم دین بیزاری اور الحاد کے اس دور میں کچھ ایسے کورچشم بھی ہیں جو آفاق وانفس کے بے شمار دلائل سے آنکھیں موندکروجود باری تعالیٰ کا انکار کربیٹھتے ہیں ایسے لوگوں کو ہم کیسے مطمئن کرسکتے ہیں ؟
اسی مقصد کے تحت یہ مضمون پیش خدمت ہے یہ زمین ،یہ آسمان، یہ سورج، یہ چاند، یہ ستارے ، یہ کہکشاں ،یہ ندی، یہ پہاڑ،یہ رات اور یہ دن،بلکہ کائنات کا ہر ایک ذرہ اللہ کے وجود پر دلیل ہے۔(ماخذ مضمون:ماہنامہ مصباح:14نومبر2009)
آب دوزکشتی
امام ابو حنیفہؒ کی خدمت میں کچھ منکرین خدا نے اس مسئلہ پر بحث کرنا چاہی تو آپ نے نہایت حکیمانہ انداز میں ان کی تشفی فرمائی۔ آپ نے فرمایا مجھے ذرا چھوڑو کیونکہ میں ایک بات میں فکر مند ہوں جس کا مجھ سے امتحان لیا گیاہے مجھ سے لوگوں نے بیان کیا ہے کہ دریا میں سامان بھری ہوئی ایک بوجھل کشتی ہے اس میں طرح
طرح کے تجارتی سامان ہیں کوئی اس کشتی کی نگرانی نہیں کرتاہے اور نہ اس کو چلانے والا کوئی ہے اس کے باوجود کشتی اپنے آپ آتی جاتی اور چلتی پھرتی ہے بڑی بڑی موجوں کو چیر پھاڑکر نکل جاتی ہے کسی ناخدا کے بغیر اپنے آپ چلتی پھرتی رہتی ہے لوگوں نے کہا یہ بات کوئی عقل والا نہیں کہے گا تب امام صاحب نے فرمایا افسوس ہے تمہاری عقلوں پرکہ ایک کشتی کے متعلق تمہارا گمان ایساہے تو یہ موجودات جن میں آسمان و زمین اور دوسری مستحکم اشیاءہیں کیا ان کا کوئی صانع نہیں ہے؟ یہ سن کر قوم لا جواب ہوگئی حق کی طرف رجوع کیا اور امام صاحب کے ہاتھ پر اسلام قبول کرلیا۔
زبانوں کا اختلاف
امام مالکؒ سے خلیفہ ہارون الرشید نے پوچھا کہ اللہ کے وجود پر کیا دلیل ہے؟ آپ نے فرمایا: زبانوں کا مختلف ہونا، نغموں کا الگ ہونا اور آوازوں کا جدا ہونا ثابت کرتا ہے کہ اللہ ہے۔
توت کے پتے
امام شافعیؒ سے کسی نے وجود باری تعالی پر دلیل مانگی تو انہوں نے کہا  توت کے پتے کو دیکھو! اس کا ایک ہی مزا ہے اسکو کیڑا کھاتاہے تو اس سے ریشم نکلتاہے شہد کی مکھی کھاتی ہے تو شہد بنتاہے بکری گائے چوپائے کھاتے ہیں تو مینگنی اور گوبر نکلتاہے اس کو ہرن کھاتے ہیں تو مشک بنتاہے حالانکہ چیز ایک ہی ہے یہ سب کس کی  کاریگری ہے؟۔
انڈا
امام احمد بن حنبلؒ سے ایک مرتبہ وجود ِباری تعالیٰ پر دلیل طلب کی گئی تو آپ نے فرمایا: سنو یہاں ایک مضبوط قلعہ ہے جس میں نہ کوئی دروازہ ہے نہ کوئی راستہ بلکہ سوراخ تک نہیں ۔ یہ قلعہ باہر سے چاندی کی طرح چمک رہا ہے اور اندر سے سونے کی طرح دمک رہا ہے۔ یہ قلعہ ہر طرف سے بند ہے۔ ہوا تک کا اس میں سےگزرنہیں ۔ اچانک اس قلعے کی ایک دیوار گرتی ہے اور ایک جاندار آنکھوں کانوں والا، نہایت خوبصورت پیاری بولی والا چلتا ہوا باہر نکل آتا ہے۔بتاؤ ! اس بنداورمحفوظ مکان میں اسے پیدا کرنے والا کوئی ہے یا نہیں ؟ اور وہ ہستی انسانی ہستیوں سے بالاتر اور اس کی قدرت غیر محدود ہے یا نہیں ؟
اس مثال کا مطلب یہ تھا کہ انڈے کو دیکھو چاروں طرف سے بند ہوتا ہے مگر اس کے باوجود اللہ تعالیٰ اس میں چوزہ پیدا کردیتا ہے۔
اللہ کے وجود کی نشانیاں انسان کے اپنے نفس اور کائنات کے ذرے ذرے میں پائی جاتی ہیں:
اللہ تعالی کا فرمان ہے:عنقریب ہم ان کو اپنی نشانیاں آفاق میں بھی دکھائیں گے اور انکے نفس میں بھی، یہاں تک کہ ان پر یہ بات کھل جائے گی کہ یہ قرآن واقعی بر حق ہے۔(حم السجدہ ۳۵)
جمادات ، نباتات،حیوانات، اور تخلیق انسانی میں نظم وترتیب، کمال خلاقی اور حسن وجمال کی تصویر کشی یہ سب خالق کائنات کے وجود کی نشانیاں ہیں ۔
تلخ وشور سمندرکے بیچ آب شیریں
یہ سمندر جس کے تلخ وشور پانی کے بیچ میٹھے پانی کا چشمہ پایاجاتاہے اور تلخ پانی کے درمیان بھی اپنی مٹھاس پر قائم رہتاہے۔ یہ خالق کائنات کا تخلیقی شاہکار نہیں تو اور کیا ہے قرآن مجید میں ہے:
اور وہی ہے جس نے دو سمندروں کو ملا رکھا ہے، ایک لذیذ شیریں اور دوسرا تلخ وشور اور دونوں کے درمیان ایک پردہ حائل ہے،ایک رکاوٹ ہے جو انہیں  گڈمڈہونے سے روکے ہوئے ہے۔ ( الفرقان ۳۵)
کیا یہ تعجب کی بات نہیں کہ ایک ہی سمندر میں لذیذ اور شور پانی بھی ہو اور دونوں آپس میں مل نہ سکے۔کبھی سوچا کہ کس ذات نے تلخ پانی کے بیچ میٹھے پانی کا چشمہ جاری کیا اور دونوں کے بیچ ایسی رکاوٹ ڈال دی کہ دونوں ملنے نہ پائے؟
آب باراں
بارش کے اس پانی پر غور کیجےے! جو مختلف جگہوں پر نہایت توازن کے ساتھ برستاہے۔ کون ہے جو سمندر کے اس تلخ وشور پانی میں سے انتہائی احتیاط کے ساتھ پانی کشید کرتاہے اور بادلوں کے پیٹھ پر سوار کرکے بالائی علاقوں تک پہنچادیتا ہے؟
فرمان باری تعالی ہے:اچھا یہ بتاؤکہ جس پانی کو تم پیتے ہو ۔کیا تم نے اسے بادلوں سے اتارا ہے یا اس کے برسانے والے ہم ہیں اگر ہم چاہیں تو اس میٹھے پانی کو کھاری بنادیں ۔پھر تم ہماری شکر گزاری کیوں نہیں کرتے ؟  ۔ ( الواقعہ ۸۶۔ ۰۷)
شمس وقمر
یہ چاند ہماری زمین کا سب سے قریب ترین سیارہ ہے کیونکہ اس کا فاصلہ ہماری زمین سے صرف دو لاکھ چالیس ہزار میل ہے۔سائنس دانوں کا بیان ہے کہ یہ سورج ہماری زمین سے نو کروڑ تیس لاکھ میل بلندی پر ہے وہاں تک خلائی راکٹ سے سفر کریں تو مستقل پرواز میں سات سال کی مدت درکار ہوگی  ۔سائنس دانوں کا بیان ہے کہ سورج کا حجم اتنا زیادہ ہے کہ اگر وہ کھوکھلا ہوتا تو اس میں موجودہ زمین جیسی تیرہ لاکھ زمینیں سماجاتیں  ۔ذرا سور ج کا حجم دیکھیں کہ اگر وہ کھوکھلا ہوتا تو اس میں موجودہ زمین جیسی تیرہ لاکھ زمینیں سماجاتیں ۔ دنیا کا قاعدہ ہے کہ صانع اپنی صنعت سے پہچاناجاتاہے۔اب آپ خودہی فیصلہ کریں کہ ایسی بھاری بھر کم چیز خلامیں کس کے کنٹرول سے قائم ہے ؟ آخر کس نے سورج کو زمین سے نو کروڑ تیرہ لاکھ کی بلندی پر پہنچایا ؟ کس کی قدرت سے سورج خلا میں معلق ہے ؟ اللہ تعالی نے سورہ حج میں اس کا جواب دے دیا ہے:
اللہ تعالی سماوی کائنات کو روکے ہوے ہے اور اپنے کنٹرول میں لئے ہوے ہے کہ وہ زمین پر گرنہ جائیں مگر جب اس کی اجازت ہوجاے گی تو زمین وآسمان باہم ٹکراجائیں گے، بیشک اللہ تعالی اپنے اس کنٹرول کے ذریعہ لوگوں پر رحمت وشفقت فرمارہاہے ۔ (سورة الحج ۵۶)
تخم
ایک جگہ اللہ تعالی نے انسان کو یاد دلایا:کیا تم نے دیکھاہے جو تم کاشت کرتے ہو کیا تم اگاتے ہو یا اسے اگانے والے ہم ہیں ؟ اگر ہم چاہیں تو اسے خاک کرڈالیں ، اور تم ہاتھ ملتے رہ جا، اور یوں کہو کہ ہم پہ تو تاوان پڑگیا بلکہ ہم تو محروم ہیں ۔ (سورہ الواقعہ ۳۶)
پتہ یہ چلا کہ کاشت کرنا انسان کے بس میں ہے لیکن کھیتی کا اگانا اور پودے کی افزائش انسان کے بس میں نہیں ۔
دود ھ کی تخلیق
حیوانات کی زندگی میں عقلمندوں کے لئے وجود باری تعالی کی بے شمار نشانیاں ہیں اگر دودھ کی پیدائش پر ہی غور کیا جائے تو انسان شسدر رہ جاتاہے۔ پیٹ میں ایک طرف ناپاک اور غلیظ گوبر، اور دوسری طرف بدبودار خون لیکن ان دونوں کے درمیان جو چیز پیداہورہی ہے وہ انتہائی صاف اور انسانی جسم کے لئے نہایت ضروری ہے۔قرآن مجید میں ہے:
 یقینا تمہارے لئے چوپایوں میں عبرت ہے ان کے پیٹوں میں گوبراور خون کے درمیان سے خالص دودھ ہم تجھے پلاتے ہیں جو پینے والوں کےلئےخوشگوارہے۔(النحل:۶۶)
یہ سب کس ذات کی کاریگری ہے ؟ انسان کی بساط تو اتنی ہے کہ وہ ایک مکھی تک پیدا نہیں کرسکتا، پیدا تو کیا کرے گا اگر مکھی اس کے کھانے میں سے چھین لے جاے تو وہ بھی واپس نہیں لا سکتا۔
 اے لوگو ! ایک مثال دی جاتی ہے ذرا غوسے سنو !جنہیں تم اللہ کے علاوہ دوسروں کو پکارتے ہو وہ مکھی بھی پیدا نہیں کرسکتے چاہے سارے اس کام کے لئے اکٹھےکیوں نہ ہوجائیں اور اگر کوئی مکھی ان سے کوئی چیز چھین کر لے جائے تو وہ واپس بھی نہیں لے سکتے۔طلب کرنے والے اور طلب کےے جانے والے یعنی عابد ومعبود سب کمزور ہیں  ۔ ( الحج ۲۷)
کائنات کا تنوع
اللہ کے وجود کی ایک عظیم نشانی کائنات کی تمام چیزوں میں تنوع کا پایاجاناہے دنیا کی ہر چیز چاہے وہ جمادات ہو ں یا نباتات ہوں یا حیوانات۔ ان میں سے ہر ایک اپنا ذاتی حسن لئے ہوئے ہے۔ جو اس سے پہلے کسی دوسری کو نصیب نہ ہوا۔ نباتات ہی کولیجئے ! ایک ہی زمین ہے، ایک ہی آب وہوا، ایک ہی موسم لیکن مختلف رنگوں ،مختلف ذائقوں اور مختلف شکلوں کی نباتات اُگ رہی ہیں ۔ یہی حال حیوانات کا ہے ہر علاقے میں مختلف قسم کے حیوانات پائے جاتے ہیں ، لیکن ہر حیوان کی شکل ایک
دوسرے سے الگ ہوتی ہے یہاں تک کہ ایک ہی حیوان سے پیداہونے والے بچے سب الگ الگ رنگ وروپ اور شکل کے ہوتے ہیں ۔
خود انسان کے وجود پر ہی نگاہ ڈال کر دیکھ لیجئے ! دنیا میں ہزاروں سال سے انسان پیدا ہوتے آرہے ہیں جن کامادہ تخلیق ایک ہی قسم کا ہے، بناوٹ میں بھی ترتیب پائی جاتی ہے اسکے باوجود ہر انسان الگ الگ رنگ وروپ لے کر پیدا ہوتاہے۔ آواز مختلف، بولیاں مختلف،زبانیں مختلف،گفتگوکاانداز مختلف ۔
پوری دنیا کی خا ک چھان ڈالیں لیکن ایک شکل وصورت کا انسان نہیں پاسکتے٬ آج فنگر پرنٹ انسان کی پہچان بنی ہوئی ہے ۔کیوں کہ پورے کائنات میں اس کے مشابہ کوئی انسان نہیں پایاجاتا ۔ آج انسان بڑی سی بڑی فیکٹری کا مالک ہو پھر بھی اس کی مصنوعات کے ڈیزائن محدود تعداد میں ہوتے ہیں ، اور بار بار انہیں ڈیزائن پرمصنوعات سانچے میں ڈھل کر تیار ہوتی ہیں ….ذرا سوچیں کہ آپ کے پاس جس نوعیت کا موبائل ہے اگر سروے کریں تو ہزاروں انسانوں کے پاس بالکل ویساہی موبائل پائیں گے۔
ایسی دو چیزوں کو نشان لگائے بغیر ایک ساتھ رکھ دیں تو ان میں پہچان کرنا مشکل ہے۔ لیکن قدرت کی فیکٹری کا کمال دیکھےے کہ اس کے سانچے میں ڈھلنے والی مصنوعات ایک دوسری سے بالکل الگ الگ ہیں ۔ یہ اس ذات کی وجودکی نشانی نہیں تو اور کیا ہے۔ارشاد باری تعالی ہے:
اور اس کی نشانیوں میں آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور زبانوں اور رنگوں کا اختلاف بھی ہے بے شک اس میں جاننے والوں کے لئے اللہ کے وجود کی نشانیاں ہیں(الروم ۲۲)
یعنی زبانوں اور رنگوں کا اختلاف یونہی نہیں بلکہ اس میں قدرت کے وجود کی نشانی ہے۔فتبارک اللہ احسن الخالقین پس نہایت شان والاہے وہ اللہ جو تمام صناعوں سےبڑھ کر صناع ہے۔
تربیت ونشوونما
کسی ماں سے پوچھئے جس کے پیٹ میں بچہ ہے کیا اس کی غذا اور زندگی کی نشونما کا انتظام خود وہ کررہی ہے یا کوئی اور ذات کی یہ کاریگری ہے ….؟ پھر جب بچہ پیدا ہوتاہے٬ تو پیدا ہونے سے پہلے ماں کے پستان میں اس کی غذا پیدا کردی گئی ، ماں کے دل میں محبت ورحمت ڈال دی گئی، جس نے اسے اپنے سینے سے چمٹایا اور اس کی تربیت شروع کردی۔
انسان تو در کنار جانوروں کی زندگی میں بھی اسی تربیت کو وجود بخشا چنانچہ بچہ پیدا ہوتے ہی ماں کے پستانوں کو چوسنا شروع کردیتاہے۔ اسی طرح اللہ تعالی نے ہر جانور کو اس کی ضرورت کے مطابق ہدایت فرمائی چیونٹی کو سونگھنے کی دور رس قوت بخشی تاکہ وہ دور دور جاکر اپنی غذا حاصل کرسے۔ چیل اور عقارب کو تیز نگاہ عطا فرمائی تاکہ بلندی پر اڑتے ہوئے اپنا شکار دیکھ سکے۔ پھر شہد کی مکھیوں کو ایک خاص قسم کا گھر بنانے کی تربیت دی ایسا گھر کہ جسے دیکھ کر انسان عش عش کرنے لگتاہے پھر اسے ہزاروں میل دور جاجاکر شہد تلاشنے کی قوت عطا فرمائی ۔ سبحان اللہ یہ سب کس نے کیا ؟ہائے تعجب کیسے لوگ اللہ کی نافرمانی کرتے ہیں اور کیسےمنکرین اس کا انکار کرتے ہیں  جبکہ ہر حرکت وسکون میں اللہ کی ہستی پر کوئی نہ کوئی دلیل موجود ہے ہر چیز میں اللہ کے وجود پر نشانی ہے جو اس کے ایک ہونے کا پتا دیتی ہے ۔
 اے لوگو ! اللہ نے جو نعمتیں دی ہیں انہیں یاد تو کرو….کیا اللہ کے علاوہ کوئی اور پیدا کرنے والابھی ہے جو تمہیں آسمان اور زمین سے رزق پہنچارہاہے؟ اسکےسواکوئی معبود بر حق نہیں ۔پس تم کہاں الٹے پھرے جاتے ہو؟
Share:

وجود باری تعالی || نظریہ ارتقاء اور وجودِ باری تعالی || کائنات کے عجائبات || What a Universe



نظریہ ارتقاء کو ماننے والے بقائے اصلح (Survival of the Fittest) کا نظریہ پیش کر کے زمینی مخلوقات میں اللہ تعالی کی نشانیوں کو ماننے سے انکار کر دیتے ہیں لیکن اس بات کا ان کے پاس کوئی تسلی بخش جواب نہیں ہے کہ زمین سے لاکھوں کلومیٹر دور سورج میں وہ تمام خوبیاں کیسے پیدا ہو گئیں جو زمین پر زندگی کی بقا کے لیے ضروری ہیں۔مثلًا سورج کی کشش سمندر میں مدوجزد کا سبب بنتی ہے جس سے سمندری پانی متحرک رہتا ہے اور اس میں وہ بو اور سرانڈ پیدا نہیں ہوتی جو کھڑے پانی میں پیدا ہو جاتی ہے،اگر ایسا نہ ہوتا تو سمندری پانی کی بو پوری زمین کو متعفن بنا دیتی ۔ پودوں میں ضیائی تالیف (Photosynthesis) کا عمل سورج کی روشنی کے بغیر ممکن نہیں۔دنیا میں پیدا ہونے والی تمام خوراک بالواسطہ یا بلاواسطہ اسی ضیائی تالیف کا نتیجہ ہے۔ سورج سے آنے والی الٹرا وائلٹ ریز کا ایک حصہ زمین کے درجہ حرارت کو مناسب سطح پر رکھتا ہے۔ انسانی آنکھ روشنی کے سپیکٹرم کے اس حصے کے لیے حساس ہے جو سورج سے آتی ہے۔سورج کی روشنی چاند سے ٹکرا کر زمین کی طرف پلٹتی ہے اور رات کے وقت اسے مکمل اندھیرے سے بچاتی ہے۔ سورج کا زمین سے فاصلہ(تقریبًا 150 ملین کلو میٹر) اتنا متناسب ہے کہ اگر تھوڑا زیادہ ہو تا تو زمین ٹھٹھر کر رہ جاتی اور دریا برف بن جاتے اور اگر کم ہوتا تو قطب شمالی اور جنوبی پر موجود برف پگھل جاتی اور ساری زمین زیرِ آب آ جاتی۔ فَبِاَيِّ آلَاء رَبِّكَ تَتَمَارَى (سورۃ النجم۔55)''پس(اے انسان) تُو اپنے رب کی کن کن نعمتوں میں شک کرے گا۔''سورج جس کہکشاں (Galaxy) میں واقع ہے اس کا نام مِلکی وے (Milky Way) ہے ، ملکی وے میں 400 بلین ستاروں کے موجود ہونے کا اندازہ لگا یا گیا ہے یہ ستارے ایک دوسرے سے اتنے زیادہ فاصلے پر واقع ہیں کہ اسے ناپنےکے لیے روایتی پیمانے کم پڑ جاتے ہیں۔ ان کی پیمائش کے لیے ہیئت دانوں نے نوری سال (Light Year) کی اصطلاح وضع کی ہے۔نوری سال کو سمجھنے کے لیے ذہن میں یہ بات تازہ کر لیجیے کہ روشنی ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے سفر کرتی ہے۔ سورج سے زمین تک 150 ملین کلو میٹر فاصلہ طے کرنے میں اسے تقریبًا آٹھ منٹ لگتے ہیں۔اگر روشنی اسی رفتار سے ایک سال تک چلتی رہے تو اسے ایک نوری سال کہا جاتا ہے۔ مِلکی وے کا قطر(Diameter) ایک لاکھ نوری سال ہے۔ جبکہ کہکشاں کے مرکز سےسورج تک کا فاصلہ 26٫000 نوری سال ہے۔ اس میں موجود ستاروں میں سے بعض سورج سے کروڑہا گنا بڑے ہیں۔ مثلاً ستارہ Antares سورج سے 3500 گنا زیادہ روشن ہے اور اپنے اندر چھ کروڑ سورج سمو سکتا ہے۔ یہ ہم سے تقریباً 400 نوری سال دور ہے۔ اس سے بھی بڑا ایک اور ستارہ Betelgeuse سورج سے 17000 گنا زیادہ روشن اور ہم سے 310نوری سالوں کی دوری پر ہے۔ Scheat, Riegel, W. Cephai, Aurigai اور Hereules ان سے بھی بڑے ستارے ہیں، انھیں Super giants کہتے ہیں۔ ان سے اٹھنے والے کروڑہا کلومیٹر بلند شعلے اللہ تعالی کی جلالی قدرت کے مظہرہیں۔ اگر ان ستاروں کو سورج کی جگہ پر رکھ دیا جائے تو نہ صرف ہماری دنیا بلکہ ہمارے سارے نظام شمسی میں سوائے آگ کے کچھ نہ ہو۔ مثلاً اگر Scheat کو سورج کے مقام پر رکھ دیا جائے تو زہرہ اس کے محیط میں آجائے اور اگر Betelguse سورج کی جگہ آجائے تو ہماری زمین اور مریخ تک کی جگہ کو اپنے اندر نگل لے اور اگر Aurgai سورج کے مقام پر آجائے تو سیارہ Uranus اس کے محیط میں آجائے گا۔ یعنی سورج سے لے کر یورینس تک آگ ہی آگ ہوگی اور نظام شمسی کی آخری حدود تک شعلے ہی شعلے ہوں گے۔ اس سے آگے چلیں تو خود ہماری کہکشاں کا کائنات میں کوئی مقام نہیں ہے۔ اینڈرومیڈا کہکشاں (Andromeda Galaxy) ہم سے اکیس لاکھ اسی ہزار نوری سال دور ہے۔ اس میں 300 سے 400 بلین ستاروں کے موجود ہونے کا اندازہ لگایا گیا ہے۔جبکہ اربوں کہکشائیں ایسی بھی ہیں جنھیں محض عام انسانی آنکھ سے نہیں دیکھا جا سکتا، بلکہ انھیں دیکھنے کے لیے انتہائی طاقت ور دوربینیں درکار ہیں۔ ان کے درمیان لاکھوں کروڑوں نوری سال کے فاصلے ہیں۔ یہ سب ساکن نہیں، بلکہ اپنے مرکز کے گرد گھوم رہی ہیں اور خلا میں بھی چل رہی ہیں۔ ان میں سے بعض کی رفتار کروڑ ہا میل فی گھنٹا ہے ۔ ہیئت دانوں کا خیال ہے کہ کائنات میں موجود کہکشاؤں کی تعداد 125 بلین کے قریب ہے۔ ان لاتعداد کہکشاؤں کے گھومنے اور ناقابل یقین رفتار سے سفر کرنے کا حیرت انگیز منظر دوربینوں کی مدد سے دیکھا جا سکتا ہے۔ سائنس دان کہتے ہیں کہ اگر ہم اپنی دوربینیں لے کر اس فاصلے کے آخر تک پہنچ جائیں تب بھی یہی نظارہ ہوگا کیونکہ کائنات میں مسلسل وسعت ہو رہی ہے۔ اللہ تعالی نے کتنی سچی بات فرمائی ہے:وَالسَّمَاء بَنَيْنَاھَا بِايْدٍ وَاِنَّا لَمُوسِعُونَ (الذاریات۔47)''آسمان کو ہم نے اپنے زور سے بنایا ہے اور ہم اِسےوسیع کرتے جا رہے ہیں۔'' (الذاریات۔47)یہ سب کچھ دیکھ کر ایک سلیم الفطرت آدمی یہ کہنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ یہ کائنات کسی بنانے والے کے بغیر نہیں بن سکتی، اس میں ستاروں اور سیاروں کے مدار اتنی درستگی سے بنائے گئے ہیں کہ اگر ان میں چند ڈگری کا بھی فرق آ جائے تو کائنات ہل کر رہ جائے۔ ارب ہا ستارے کائنات میں گردش کر رہے ہیں لیکن ایک دوسرے سے ٹکراتے نہیں۔مقرر شدہ راستے سے ہٹتے نہیں۔اگر Antares ستارے کے حجم کے برابر کوئی ستارہ ہمارے نظام شمسی کے قریب سے گزر جائے تو اس کی کشش کی وجہ سے سارا نظام شمسی اس میں جا گرے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا۔ کوئی تو ہے جو لاکھوں اربوں سال سے زمین کی حفاظت کرتا چلا آتا ہے اور اسے اس طرح کی خلائی آفتوں سے بچا کر رکھتا ہے۔ کائنات میں پایا جانے والا توازن، اور اس میں پایا جانے والا نظم کسی خالق کے وجود کی خبردے رہا ہے۔ اَفِي اللّہِ شَكٌّ فَاطِرِ السَّمَاوَاتِ وَالاَرْضِ يَدْعُوكُمْ لِيَغْفِرَ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُؤَخِّرَكُمْ اِلَى اَجَلٍ مُّسَمًّى (سورۃ ابراھیم۔آیت 10)'' کیا اللّٰہ کے بارے میں شک ہے جو آسمانوں اور زمین کا خالق ہے؟ وہ تمہیں بلا رہا ہے تا کہ تمہارے قصور معاف کرے اور تم کو ایک مدتِ مقرر تک مہلت دے۔''علاوہ ازیں اگر اسے چلانے والےایک سے زیادہ ہوتے تو یہاں جنگ و جدل برپا رہتا مگر یہاں کا امن، سکون اور ہر ایک کی اطاعت و فرمانبرداری شہادت دیتی ہے کہ ان کا خالق و مدبر ایک ہی ہے۔لَوْ كَانَ فِيھِمَا آلِھۃٌ اِلَّا اللَّہُ لَفَسَدَتَا فَسُبْحَانَ اللَّہِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا يَصِفُونَ (سورۃ الانبیاء۔22)''اگر زمین و آسمان میں اللہ کے سوا بھی الٰہ ہوتے تو ان کا نظام بگڑ جاتا۔ پس پاک ہے اللہ رب العرش اُن باتوں سے جو یہ لوگ بنا رہے ہیں۔''اس میں ان لوگوں کے لیے بھی سوچنے کا سامان ہے جن کے خیال میں اللہ تعالٰی نے زمین پر کچھ لوگوں کو اپنا نائب یا حاجت روا بنا کر حاجتیں پوری کرنے کا اختیار دے دیا ہے۔ میرے بھائی! جو اللہ اتنی بڑی کائنات بنا سکتا ہے وہ بلا شرکتِ غیرے اسے چلا بھی سکتا ہے اور بلاشبہ اکیلے ہی چلاتا ہے۔

Share:

10/16/16

Noor ul Din Zangi


Share:

10/12/16

سلام یا حسین


قال رسول اللہ ﷺ
حسین منی و انا من حسین


Share:

نوافل اور سنتیں حدیث کی نظر میں


ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
فجر کی دو رکعتیں دنیا و مافیہا سے بہتر ہیں۔ [مسلم:۷۶۵]
فوائد:
اس حدیث سے فجر کی دو سنتوں کیا ہمیت و فضیلت کا اندازہ بخوبی لگایا جا سکتا ہے بلکہ صحیح مسلم کی روایت ان الفاظ سے بھی ہے کہ آپ نے فرمایا: (لھما أحب إلي من الدنیا جمیعاً) مجھے ساری دنیا سے زیادہ محبوب و پیاری یہ دو رکعتیں (فجر کی سنتیں )ہیں[مسلم :
۷۶۵/۹۷]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ہی مروی ہے کہ نبی ﷺ جس قدر (خصوصی) اہتمام فجر کی دو سنتوں کا کرتے تھے اتنا کسی اور نفلی نماز کا نہیں کرتے تھے۔ [بخاری:۱۱۶۹ ، مسلم : ۷۲۴]
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ : نبی ﷺ چار رکعتیں ظہر سے پہلے اور دو رکعتیں (سنتیں ) فجر سے پہلے کبھی نہ چھوڑتے تھے۔[بخاری:۱۱۸۲]
ان سب احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ ان دو رکعتوں کا خود رسول اللہ ﷺ کتنا زیادہ خیال رکھتے تھے لہذا ہمیں بھی کوشش کرنی چاہیئے کہ باقاعدہ اہتمام کے ساتھ فجر کی جماعت سے پہلے دو رکعتیں سنتیں ادا کریں۔ اگر کسی عذر کی بنا پر رہ جائیں تو بعد میں فوراً پڑھ لیں۔
دیگر سنتوں کی فضیلت:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو شخص دن اور رات میں بارہ رکعتوں پر مداومت اختیار کرے تو وہ جنت میں داخل کر دیا جائے گا، چار رکعتیں ظہر سے پہلے اور دو بعد میں اور مغرب کے بعد دو رکعتیں اور عشاء کے بعد دو رکعتیں اور فجر سے پہلے دو رکعتیں۔ [سنن النسائی:
۱۷۹۵، ابن ماجہ: ۲۱۴، الترمذی :۴۱۴ وقال: ‘‘غریب’’]
فوائد:
یہ فضیلت اس شخص کے لئے ہے جو ان بارہ (
۱۲) رکعتوں کو پابندی سے ادا کرتا ہے نہ کہ نفس کی پیروی کرنے والوں کے لئے جب دل چاہے تو پڑھ لیں اور جب طبیعت پہ گراں گزریں تو ترک کر دیں۔ [اعاذنا اللہ منہم]
سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا، نبی ﷺ کی بیوی کہتی ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ فرما رہے تھے: جس شخص نے ظہر سے پہلے اور اس کے بعد چار رکعات (سنتوں) پر مواظبت اختیار کی تو اللہ اس پر جہنم کی آگ کو حرام کر دے گا۔ [ابو داؤد :
۱۲۶۹، نسائی: ۱۸۱۷، ترمذی: ۴۲۷، وقال:‘‘حدیث حسن صحیح غریب’’]
فوائد:
اس حدیث میں ظہر کے فرضوں سے پہلے اور بعد کی سنتوں کی فضیلت بیان کی گئی ہے اور دعوتِ فکر ہے ایسے حضرات کے لئے جو سنت کی ادائیگی میں ہمیشہ کوتاہی برتتے ہیں اور ‘‘یہ سنت ہے کوئی فرض تو نہیں’’ کہہ کر جان چھڑانے کی کوشش کرتے ہیں۔
نماز چاشت کی فضیلت:
سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مجھے میرے خلیل(نبی ﷺ ) نے تین چیزوں کے بارے میں وصیت فرمائی کہ ہر مہینے میں تین روزے رکھوں اور (نماز) چاشت کی دو رکعتیں پڑھوں اور سونے سے پہلے وتر ادا کروں۔[بخاری :
۱۷۸، مسلم:۷۲۱]
فوائد:
ہر مہینے میں تین روزے رکھنے سے مراد ایام بیض کے روزے ہیں  یعنی قمری مہینے کی
۱۳ ، ۱۴ ، ۱۵کے۔ جیسا کہ دوسری روایات بھی اس پر دلالت کرتی ہیں۔ نماز چاشت بھی بہت فضیلت والا عمل ہے جو اس کے بعد والی حدیث سے واضح ہے اور یہ اس وقت ادا کی جاتی ہے جب دھوپ خوب واضح ہو جائے۔
یاد رہے کہ نماز اشراق ، نماز چاشت اور نماز اوابین ایک ہی نماز کے نام ہیں جیسا کہ صحیح مسلم(۷۴۸) کی حدیث سے ثابت ہے۔ وتر نماز عشاء کے بعد کسی بھی وقت پڑھا جا سکتا ہے لیکن بہتر یہی ہے کہ رات کے آخری حصے میں پڑھا جائے جیسا کہ  امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ‘‘والا یتار قبل النوم إنما یستحب لمن لا یثق بالا ستیقاظ آخر اللیل فإن وثق فآخر اللیل إفضل’’ سونے سے پہلے وتر پڑھنا ایسے شخص کے لئے مستحب ہے جو رات کے آخری حصے میں جاگنے کے بارے میں پر اعتماد نہ ہو۔ پس اگر (جاگنے کا) یقین ہو تو رات کے آخری حصے میں (وتر پڑھنا) افضل ہے۔[ریاض الصالحین :۱۱۳۹، کتاب الفضائل ، باب فضل صلاۃ الضحی ، طبع دارالاسلام]
سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ، نبی ﷺ سےبیان کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: تم میں سے ہر کوئی اس حال میں صبح کرتا ہے کہ ہر جوڑ پر صدقہ ضروری ہوتا ہے۔ پس ہر تسبیح(سُبْحَانَ اللہِ کہنا) صدقہ ہے،ہر تمحید(اَلْحَمْدُلِلہِ کہنا) صدقہ ہے، ہر تہلیل(لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کہنا) صدقہ ہے اور ہر تکبیر (اللہ اکبر کہنا) صدقہ ہے، نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے اور برائی سے روکنا صدقہ ہے اور جو چاشت کی دو رکعتیں ادا کرتا ہے اسے ان سب کے مقابلے میں یہی دو رکعتیں کافی ہیں۔[مسلم :
۷۲۰]
فوائد: یہ حدیث نماز چاشت کی ا ہمیت و فضیلت کو واضح کر رہی ہے۔
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: مجھے میرے حبیب ﷺ نے تین چیزوں کے بارے میں وصیت کی ہے جب تک جیتا رہا ان کو کبھی نہ چھوڑوں گا۔ ہر مہینے میں تین روزے، چاشت کی نماز اور سونے سے پہلے وتر کی ادائیگی۔[مسلم:
۷۲۲]
فوائد:
یہ حدیث بھی نماز چاشت کی اہمیت پر دلالت کناں ہے اور یہ کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی رسول ﷺ سے محبت اور جذبہ اتباع کس قدر زیادہ ہے۔
بارہ(
۱۲)رکعات کی فضیلت:
سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا: نبی ﷺ کی زوجہ محترمہ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جو مسلمان بندہ اللہ کے لئے فرائض کے علاوہ ہر روز بارہ (
۱۲) رکعات نوافل ادا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے لئے جنت میں گھر بنا دیتا ہے۔ [مسلم ۷۲۷]
سیدنا نعیم بن ھمار فرماتے ہیں میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا آپ فرما رہے تھے کہ اللہ عزوجل فرماتا ہے: اے ابن آدم دن کے شروع میں چار رکعات نماز پرھنے میں غفلت نہ کر میں تجھے (بقیہ) آخر دن تک کافی رہوں گا۔[ابو داؤد:
۱۲۸۹]
فوائد:
اس حدیث کو حافظ المقدسی رحمہ اللہ نے دوسرے علیحدہ باب‘‘فضل صلاۃ الضحی’’ کے تحت بیان کیا ہے۔ معلوم ہوا کہ جو شخص نماز چاشت ادا کرتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کی کفالت میں آ جاتا ہے۔ مزید دیکھئے حدیث(
۵۴ ، ۵۵)وغیرہ۔
عصر سے پہلے چار رکعات پڑھنے کی فضیلت:
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ رحم فرمائے اس شخص پر جو عصر سے پہلے چار رکعات (سنتیں ) ادا کرتا ہے۔[ابو داؤد:
۱۲۷۱، ترمذی:۴۳۰وقال:‘‘حدیث حسن غریب’’]
فوائد:
نمازِ عصر سے قبل چار رکعات نماز اد اکرنے والا شخص رسول اللہ ﷺ کی دعا اپنے حصے میں سمیٹتا ہے۔ اور نبی ﷺ کا  عمل مبارک بھی تھا کہ آپ عصر کی فرض نماز سے پہلے چار رکعات ادا فرماتے۔ دیکھئے سنن ترمذی:
۴۲۹، وقال: ‘‘حدیث حسن’’
Share:

10/10/16

سمندر کی پُراسرار دنیا


زمین پر آباد دنیا سے سب واقف ہیں اور سمندری دنیا کے بارے میں لوگ یہی جانتے ہیں کہ اس میں بڑی بڑی مچھلیاں اور دیگر سمندری مخلوق پائی جاتی ہے۔لیکن ان تمام چیزوں کے علاوہ بھی سمندر میں بہت طرح کی مخلوق پائی جاتی ہیں۔
وہ کیا مخلوق ہیں؟ اور کیسی دیکھتی ہیں؟ یہ آج ہم آپ کو بتائیں گے، یقینا ان تمام مخلوق کو دیکھ کے آپ بھی حیران اور ڈروخوف ضرور محسوس کریں گے۔
















Share:

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Online People

Blog Archive

Blog Archive