قرآن حکیم فرقان حمید اللہ تعالی کی وہ لا ریب اور بلند رتبہ کتاب ہے جو
کائنات ارضی و سماوی کے علاوہ دیگر علوم کی جامع ہے اور اپنے اس دعوی کی دلیل بھی
خود قرآن حکیم ہے چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے ( سورہ نحل آیہ 89) ترجمہ: اور ہم
نے تم پر یہ قرآن اتارا کہ ہر چیز کا روشن بیان ہے اور ہدایت اور رحمت اور بشارت
مسلمانوں کیلیے۔(کنز الایمان)۔
(سورہ یوسف آیہ 111) ترجمہ: اور ہر چیز کا مفصل بیان اور مسلمانوں کیلیے
ہدایت اور رحمت۔(کنز الایمان)
(سورہ انعام آیہ 38) ترجمہ: اور نہیں
کوئی زمین میں چلنے والا اور نہ کوئی پرندہ کہ اپنے پروں پر اڑتا ہے مگر تم جیسی
امتیں ہم نے اس کتاب میں کچھ اٹھا نہ رکھا۔ (کنز الایمان)
سورہ انعام آیہ 59 ترجمہ: اور نہ
کوئی تر اور خشک جو ایک روشن کتاب میں لکھا ہوا عالم پست و بالا تر چیز کا تصور
کریں آپ کو وہ قرآن حکیم میں ضرور پر ضرور ملے گی گویا قرآن کا اعزاز ہے ان دو
لفظوں لا رطب اور یابس کے ذریعے ساری کائنات کے ایک ایک ذرے کی موجودگی اور علم کا
اظہار کر دیا ہے بلکہ پندھرویں پارہ کی (سورت
بنی اسرائیل آیہ 14) میں ہے کہ ترجمہ: اور ہم نے ہر چیز خوب جدا جدا ظاہر فرما
دی۔ (کنز الایمان)
چنانچہ علوم قرآنیہ کے بارے میں
مفسرین و محققین نے اپنی اپنی خدادا صلاحیتیوں کے مطابق بہت کچھ لکھا ہے۔ قاضی ابو
بکر بن عربی نے کہا ہے کہ قرآنی علوم کی تعداد تقریباً تین لاکھ نو ہزار آٹھ سو
ہے اور الحمد للہ سے والناس تک استعمال ہونے والا ہر کلمہ کسی نہ کسی مستقل علم
اور فن کی بنیاد ہے۔ (قانون التاویل)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ
نے فرمایا کہ قرآن کےہر حرف کا ایک ظاہر ہے اور ایک باطن ہے۔ پھر ہر ظاہر و باطن
کیلیے ایک حد آغاز اور ایک حد اختتام ہے۔
حضرت امام فخر الدین رازی رحمۃ اللہ
علیہ نے اعوذ باللہ اور بسم اللہ میں لاکھوں مسائل کا ذکر فرمایا ہے۔ الغرض قرآن
حکیم میں علم الارض ، علم الادب، علم ہوا، علم آتش، علم ہئیت، علم ریاضی ، علم
النفس، علم الانسان، علم طب، فن و تشریح، علم زبان، علم بلاغت و فصاحت، علم
معدنیات، علم تجارت، علم الرویا، علم تفسرین قرآن، علم المیراث، علم حدیث، علم
الہیات، علم تعبیر، علم فقہ، علم الرجال، علم دعوت، علم تصوف، علم رموز قرآن
فلکیات وغیرہ تمام علوم قرآن میں موجود ہیں ۔ لہذا مرضی الہی یہ ٹھہری کہ انسان
جو آئینہ رحمان ہے۔ جو میرا بھید اور میں اس کا بھید ہوں بلکہ مجھے انسان سے اتنی
محبت ہے کہ ان اللہ خلق آدم علی صورۃ کا اعزاز وشرف صرف
اور صرف حضرت انسان کو حاصل ہے لہذا وہ انسان میرے رازوں اور بھیدوں کو پائے۔
چنانچہ اللہ تعالی نے انسان کو متعدد
بار یہ دعوت دی کہ وہ اس کی کھلی نشانیوں میں غور و فکر کرے اس قدرت کاملہ کا
مشاہدہ کرے جو انسان کا ابدی اور دائمی حق ہی نہیں بلکہ اس کی تخلیق کا مقصد حیات ہے۔
چنانچہ ہر موقع پر رب العالمین نے حجرت انسان کی توجہ اپنی نشانیوں اور اس میں غور
و فکر کی جانب مبذول کرائی ہے۔
(سورہ النحل آیہ 89) ترجمہ: بے شک اس
میں نشانیاں ہیں ایمان والوں کے لیے۔
(سورہ یونس آیہ 67) ترجمہ: بے شک اس
میں نشانیاں ہیں سننے والوں کیلیے ۔
(سورہ البقرہ آیہ آیہ 221) ترجمہ:
اور اپنی آیتیں لوگوں کیلیے بیان کرتا ہے کہ کہیں وہ نصیحت مانیں۔
(سورہ یونس آیہ 101) ترجمہ: تو کیا
وہ قرآن کو سوچتے نہیں بعض دلوں پر ان کے قفل لگے ہیں۔
(سورہ آل عمران آیہ 190 ) ترجمہ: بے
شک آسمانوں اور زمینوں کی پیدائش اور رات اور دن کی باہم بدلیوں میں نشانیاں ہیں
عقل مندوں کیلیے۔
(سورہ ص آیہ 29) ترجمہ: یہ ایک کتاب
ہے کہ ہم نے تمہاری طرف اتاری برکت والی تا کہ اس کی آیتوں کو سوچیں اور عقل مند
نصیحت مانیں۔
(سورہ آل عمران آیہ 191) ترجمہ: جو
اللہ کی یاد کرتے ہیں کھڑے اور بیٹھے اور کروٹ پر لیٹے اور آسمانوں اور زمین کی پیدائش
میں غور کرتے ہیں اے رب ہمارے تو نے یہ بیکار نہ بنایا۔
(سورہ الاعراف آیہ 179) ترجمہ: بے شک
ہم نے جہنم کیلیے پیدا کیے بہت جن اور آدمی وہ دل رکھتے ہیں جن میں سمجھ نہیں ،
اور وہ آنکھیں جن سے دیکھتے نہیں اور وہ کان جن سے سنتے نہیں وہ چوپایوں کی طرح ہیں
بلکہ ان سے بھی بڑھ کر گمراہی و غفلت میں پڑے ہوئے ہیں۔
(سورہ الاعراف آیہ 185) ترجمہ: کیا
ناہوں نے نگاہ نہ کی آسمانوں اور زمین کی سلطنت میں اور جو چیز اللہ نے بنائی اور یہ کہ شاید ان کا وعدہ نزدیک آگیا
ہو تو اس کے بعد اور کونسی بات پر یقین لائیں گے۔
(سورہ الغاشیہ آیہ 17 تا 20) ترجمہ:
تو کیا اونٹ کو نہیں دیکھتے کیسا بنایا گیا ، آسمان کو کیسا اونچا کیا گیا اور
پہاڑوں کو کیسے قائم کیا گیا اور زمین کو کیسے بچھاہا گیا ۔ دیگر آیات مذکورہ
بالا میں غور و فکر کرنے کی دعوت ہے مگر ان آیات میں مشاہدہ کا ذکر ہے۔
سبق ملا ہے یہ معراج مصطفے سے مجھے
کہ عالم بشریت کی زد میں ہے گردوں
(ندائے اہلسنت فروری 1995 صفحہ
193،194،195)