ایک عام سی بات کہ جب کلہاڑی اپنے ہاتھ سے چلائی ہو تو
شکایت دوسروں سے نہیں ہوتی اور نہ کسی پر اعتراض ہوتا ہے۔
مجھے شکوہ ہے
اہل علم سے:
درج بالا
دو سطروں میں ایک بات کو بڑی اچھی طرح بیان کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ کہ معاشرے کی ابتری اور معاشرتی بگاڑ کی بڑی وجہ جہالت ہے
اور عمل سے دوری ہے۔ جہالت صرف اس بات کا نام نہیں کہ انسان نے علم حاصل نہ کیا ہو
بلکہ یہ صورت جہالت کی سب سے بد ترین اور خطرناک ترین صورت ہوتی ہے کہ جب اہل علم
بھی جاہل جیسا رویہ اپنائیں اور علم ہونے کے باوجود جاہل بنیں یعنی عالم نما جاہل۔
جب اہل
علم اپنا مقام گنوا دیں اور اپنے مقام پر جہلاء کو بیٹھا دیں ، جب جہاں ان کی
ضرورت ہو اور وہ اپنی جگہ جہلاء کو ترجیح دیں ، جب اہل علم اپنی قوم کی جہالت پر
فخر کرنے لگ جائیں تو حالات ایسے پیدا
ہوتے ہیں جیسے پاکستان کے ہیں تو مجھے
شکوہ اہل علم سے ہے کہ خود قیادت کرنے کی بجائے خود غرض، کرپٹ ، بے غیرت، بے دین،
ننگ دنیا و ننگ عقبی ، شراب پینے والے ، انسان کو انسان نہ سمجھنے والوں ، انسانی
اقدار کی پامالی کرنے والوں اور اہل تکبر
کو اپنا قائد بنائیں اور پھر بات کریں کہ
ہمارے حالات خراب کیوں ہیں ۔ یاد رہے قصور جہلاء کا نہیں اہل علم کا ہے ۔
صوفیاء سے:
آج
اس دور میں داڑھی والے کی کیا قدر ہے، آج ایک دین دار کی کیا قدر ہے، آج خدا کا
نام لینے والوں کی کیا قدر ہے ، آج دین کے پہرے داروں کی کیا قدر ہے، آج دین کے
رکھوالوں کا کیا حشر ہے ؟ کیا کوئی اس کے حل کا سوچ رہا ہے ؟ صرف خدا سے دعائیں کی
جا رہی ہیں ، ہر محفل اور مجلس میں ، ہر اص و عام کی زباں پر فقط دعا اور تمنا ہے
۔۔۔۔۔۔۔ مجھے بتائیں کیاآسمان سے فرشتے آئیں گے جو ان حالات کو درست کریں گے
۔۔۔۔ ایسا کچھ نہیں ہونے والا بلکہ اللہ
تعالی نے ارشاد فرما دیا ہے کہ :
لیس للانسان الا ماسعی ( انسان کیلیے
کچھ نہیں مگر جتنی اس نے کوشش کی)
ارشاد باری تعالی :
ان اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیروا ما بانفسھم ( بے شک اللہ
تعالی کسی قوم کی حالت نہیں بدلنا جب تک وہ خود نہ بدل دے)
دین کی ذمہ داری اور اس کی آبیاری ، دین کی فہم و فراست ، دین کی حقیقت ، دین کی
اصل ، رسول اللہ ﷺ کی سیرت کا حقیقی آئینہ یہ صوفیا ہیں مگر آج کیوں چھپ کر بیٹھ
گئے اور ایک سادہ لوح انسان کو نام نہاد دین کے ٹھیکے داروں کے حوالے کر گئے جس کا
نتیجہ یہ نکلا کہ لوگ دین سے متنفر ہونے لگے ۔ مجھے شکوہ صوفیا سے ہے کہ کیوں چھپ
گئے خدا کیلیے سامنے آؤ معاملات کی اصلاح تمہاری منتظر ہے۔
پاکستان
کے حالات آج اب تر ہیں مذہبی حوالے سے۔ ہر عالم دین ، ہر دین دار ، ہر مذہبی
پیشوا حالات کا شکوہ کرتے ہوئے نظر آتا ہے ۔ اور پاکستاں میں اسلام کے نظام کے
نفاذ کا خواہاں ہے اور دن رات دعا کرتا ہے
کہ پاکستاں میں نظام مصطفے ﷺ کا نفاذ ہو اور فتنہ فساد بھی نہ۔ مگر صورت حال کیا
ہے کہ خود اس کی کوشش نہیں کرتا سیاست سے بھاگتے ہیں اور اسمبلی میں جانے سے اور
الیکشن لڑنے سے اس طرح بھاگتے ہیں جیسے کوئی تیر ہو جو ان کے سینے کو چھلنی کر
جائے گا ۔ اور خود کو غیر سیاسی کہلانے میں فخر محسوس کرتے ہیں ۔ اور جب خود آتے
نہیں تو پھر آئیں گے وہ سب لوگ جن سے نالاں ہیں اور پھر آئیں گے جو ناموس رسالت
ﷺ کے آئین میں ترمیم کی بات کریں گے ، پھر آئیں گے وہ لوگ جو دفاتر میں نماز
پڑھنے سے روکیں گے ، پھر آئیں گے وہ لوگ سیکیورٹی کیلیے مساجد کی تالا بندی کریں
گے اور نماز میں لوگوں کو پڑھنے نہیں دیں گے ، پھر آئین گے جو شراب کو حلال کہیں
گے، پھر آئیں گے وہ لوگ سود کو حلال قرار دینے کی بات کریں گے ۔ کیوں حالات کی
خرابی کا شکوہ کرتے ہو جبکہ تم نے خود ان حالات کو پید اکیا ہے اور تم خود اس کے
ذمہ دار ہو مجھے شکوہ ہے دینی جماعتوں سے کہ وہ آگے کیوں نہیں آتیں۔
آج کے علماءسے:
آج سب
معیشت کی بات کرتے ہیں اور پاکستان میں معاشی بدحالی سے نالاں نظر آتے ہیں ۔ سود
کی گرم بازاری سے تنگ ہیں اور سودی نظام کی مخالفت میں گھنٹوں تقریر کرتے نہیں
تھکتے ۔ سودی نظام کے خاتمے کی لیے جان و
مال کی قربانی کی بات کرتے ہیں مگر وہ لوگ عملاً کچھ بھی نہیں کرتے اور تجارت کرنے
اور بزنس کرنے کو اپنے لیے گناہ سمجھتے ہیں اور معاش کیلیے تگ و دو کو دنیا داروں کا
شیوہ قرار دیتے ہیں اور خود جو سوکھی تر مل جائے اس پر قناعت کر کے بیٹھ جاتے ہیں
اور ہر وقت صبر اور شکر کے لیکچر دیتے نہیں تھکتے ۔ مجھے بتائیں کہ جب دیانتدار ،
امانتدار ، دیندار اور اسوہ رسول ﷺ کے پیکر اور نبوی طریق پر تجارت کرنے والے خود
کو تجارت سے دور کر لیں گے تو بتاؤ کہ کون تجارت اور کاروبار اور معاشی نظام کو
درست کرے گا اور کیسے ہمیں سودی نظام سے نجات ملے گی۔ ہمیں فقر کی حالت اہل صفہ
میں نظر آتی ہے تو سیدنا عثمان غنی ؓ کی سیرت پاک کو کیوں بھول جاتے ہیں ، ہم
حضرت ابوبکر ؓ کو تجارت کرتے ہوئے ، سیدنا فاروق اعظم ؓ کو تجارت کرتے ہوئے، امام
اعظم ابو حنیفہ کو کپڑے کی دکان چلاتے ہوئے
کیوں نہیں دیکھتے۔ ہم محنت کیوں نہیں کرتے ۔ کیا اسلام ہمیں یہ تعلیم دیتا
ہے کہ تم محنت نہ کرو اور معاش کے لیے محنت نہ کرو۔ کیا ہو گیا ہے علما ء کو اور
مساجد کے ائمہ اور خطباء کو کہ وہ محنت سے عاری ہو گئے اور پھر خود معاشرے کے رحم
و کرم پر بیٹھ گئے ۔ مجھے شکوہ ہے دین داروں سے کہ خود معاشی سر گرمیوں سے دور
بیٹھ کر اس کی اصلاح کی دعا کرتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر
از : محمد سہیل عارف معینی
تقدیر الہی کے نوشتے بھی
وہی ہیں
اللہ بھی وہی اس کے
فرشتے بھی وہی ہیں
اتریں گے ملائک آج بھی امداد کو تیری