دین اسلام میں صلہ
رحمی کے فضائل اور قطع رحمی پر بہت ساری وعیدیں بیان کی گئی ہیں، صلہ رحمی کا
نبھانا ایک پر سکون معاشرے کی اہم ضرورت ہے۔ اسلام انسانوں کا ایک انتہائی باہمی
رحم و کرم اور مہربانی والا معاشرہ تعمیر کرنا چاہتا ہے جس کی قیادت و سیادت محبت
و بھائی چارے کے ہاتھ میں ہو۔ خیرو بھلائی اور عطا و کرم کا اس پر راج ہو ، خاندان
معاشرے کی اکائی ہوتا ہے۔ اسلمام نے خاندان کی جڑیں مضبوط کرنے اور اس کی عمارت کو
پائیدار بنانے کا خاص اہتمام کیا ہے۔
اللہ کی توحید اور والدین کی اطاعت کئ حکم کے ساتھ جس چیز
کا حکم دیا گیا ہے وہ یہی صلہ رحمی ہے۔ چنانچہ ارشاد بارئ تعالی ہے : ترجمہ: اللہ
تعالی کی عبادت و بندگی کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور والدین کے ساتھ
حسن سلوک سے پیش آؤ اور قرابت داروں سے بھی حسن سلوک کرو۔ (سورہ النساء )
نبی کریم ﷺ نے عبادت میں توحید الہی
اور نماز و زکوۃ کے ساتھ صلہ رحمی کو بھی شمار فرمایا ہے چنانچہ حضرت ابو ایوب
انصاری ؓ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا
مجھے کوئی ایسا عمل بتائیں جو مجھے جنت میں داخل کر دے۔ تو رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اللہ کی عبادت کرو اور اس کی
ساتھ کسی کو شریک نہ کرو ، نماز قائک کرو اور زکوۃ ادا کرو اور صلہ رحمی کرو۔ (
متفق علیہ) ہم سے پہہلے بھی قوموں کو رشتہ داریوں اور صلہ رحمی کا حکم تھا چنانچہ
ارشاد باری تعلی ہے : ترجمہ: اور جب ہم نے بنی اسرائیل سے یہ عہد لیا کہ تم اللہ
کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو گے اور والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنا ، اور قرابت
داریوں کو قائم رکھنا ۔ (البورہ)
نبی کریم ﷺ نے صلہ رحمی کی وصیت
فرمائی تھی۔ حضرت ابو ذر غفاری ؓ کہتے ہیں رسول اکرم ﷺ نے مجھے وصیت فرمائی کہ میں
صلہ رحمی کروں اگرچہ رشتہ دار میرے ساتھ بے رخی کا سلوک ہی کیوں نہ کریں۔ ( معجم
طبرانی کبیر) قرابت داروں سے تعلقات جوڑنا اور صلہ رحمی کرنا ایمان کی نشانی ہے۔
نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے ترجمہ: جو شخص اللہ پر اور آخرت پو ایمان رکھتا ہے اسے
چاہیے کہ وہ صلہ رحمی کرے۔ (متفق علیہ) اللہ تعالی نے قطع رحمی پر قریش کی مذمت
فرمائی ، چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے: یہ تو کسی مسلمان کے حق میں کسی رشتہ داری یا
عہد کا مطلق لحاظ نہیں کرتے۔ (التوبہ)
صلہ رحمی قائم کرنے کیلیے سب سے پہلی
چیز یہ ہے کہ اپنے والدین کے ساتھ نیکی و
حسن سلوک کریں۔ ایک آدمی نبی کریم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا اور اس نے پوچھا !
والدین کے فوت ہو جانے کے بعد بھی میرے لیے کوئی ایسا کام ہے کہ میں ان کے ساتھ
حسن سلوک کر سکوں؟ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا ‘‘ہاں’’ ان کیلیے رحمت کی دعائیں
مانگو۔ ان کیلیے اللہ سے مغفرت و بخشش کی دعا کرو اور اپنے قرابت داروں سے رشتہ
قائم رکھو جن کا تعلق تم سے صرف والدین کی طرف سے ہی ہے۔ (ابو داؤد)
والدین کے بعد اپنے قریبی رشتہ داروں
اور دوسرے دوست احباب کے ساتھ اچھا سلوک
رکنا اور ان کی ضروریات کا خیال رکھنا اور ضرورت کے وقت ان کے کام آنا اس سے
متعلق اسلام نے بہت زیادہ نصیحت کی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : صلہ رحمی
کرنے والا وہ نہیں جو بدلے میں برابری کر لے بلکہ صلی رحمی کرنے والا وہ ہے کہ
رشتہ دار اس سے قطع تعلقی کریں اور وہ ان سے اپنا رشتہ جوڑے رکھے (صحیح بخاری)
قطع تعلقی انسان کو معاشرے کے اندر تنہا کر دیتی ہےاور
انسان معاشرے کے اندر کمزور ، رسوا اور پریشان ہو جا تاہے ۔ آج اس دور میں
معاشرتی بگاڑ اور معاشرتی بے راہ روی کا جو سلاب امڈ رہا ہے وہ اس قطع تعلقی کا ہی
کیا دھرا ہے ۔ اگر آج ہم معاشرے کی اصلاح چاہتے ہیں اور پاکستان کو ایک پر امن
معاشرہ دینا چاہتے ہیں تو ہمیں مل کر قطع تعلقی کے خلاف جہاد کرنا ہو گا اور صلہ
رحمی کی صحابہ کرام کے دور کی روایت کو جاری کرنا ہو گا ۔
اللہ تعالی ہم سب کو
صلہ رحمی کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You