وقت سے پہلے
حادثوں سے لڑا
ہوں
میں اپنی
عمر سے کئی سال بڑا
ہوں
جانے کس جرم کی سزا پائی ہے
سرِ ساحل
میں پیاسا ہی کھڑا ہوں
دو پل کی عمر لیے شبنم بھی ہے خوش
عمر ِدراز لیے رنج و الم میں گھرا
ہوں
بتا بھی نہیں سکتا ،
کر دوا
بھی نہیں سکتا
مثلِ مرجان ، شبِ
غم میں جَڑا ہوں
تمنا نہیں موت کی، آرزوئے حیات بھی نہیں
بے نام سی الجھنوں کے گرداب میں گِرا ہوں
رونقیں سب جہاں کی بے معنی سی ہیں
میں سوز و الم
میں سر شار بڑا
ہوں
شاید ہو یہ بھی دستور ِ حیات
معینیؔ
اوروں کی لڑائی
میں اپنے وار سے مرا ہوں
awesome
ReplyDelete