انسانی عقل ودانش کا تقاضہ یہ ہے کہ وہ موت آنے سے پہلےہی موت کا
انتظام اور اس کی تیاری کرے،کیو نکہ موت کب اور کس وقت آئے گی ،یہ ہر ایک کو معلوم
نہیں،اسی لیے ہر وقت ہر لمحہ یہ خیال رکھےکہ ہم موت کے شکنجے میں ہیں نہ
جانے وہ ہمیں کب دبوچ لے۔
صوفیائے
کرام کی حیات کا تابناک گوشہ یہی ہے کہ وہ موت کی بات سنکر مسکرا اٹھتے،اور اسے
وصال محبوب کا پیغام و ذریعہ سمجھتے ہیں۔ان کے اقوال وافعال سے یہ سبق ملتا ہےکہ
ہر شخص توشئہ آخرت جمع رکھےاور موت کو خوشی سے گلے لگا نے کو تیار
رہے۔ نبی کریم ﷺارشاد فرماتے
ہیں. عقلمند وہ شخص ہےجو اپنے نفس کا محاسبہ کرے اور موت کے بعد کے لیے عمل
کرے ۔عاجز وہ شخص ہے جو اپنے نفس کی پیروی کرےپھر اللہ تبارک وتعالی ٰسے لمبی لمبی
امیدیں رکھے۔(تنبیہ الغافلین (اللہ وتبارک وتعالیٰ مختلف آیات میں یہ بیان فرمایا کہ موت ہر ایک
نفس کے لیے ہے ،اور ہر ایک کے موت کا وقت متعین ہے،انسان جہاں کہی بھی رہے اگر موت
ہے تو ان کو ضرور آنی ہےاور موت سے کبھی بھی چھٹکارا نہیں ہے۔تم فرماؤ وہ موت جس
سے تم بھاگتے ہو وہ تو ضرور تمہیں ملنی ہے ، پھر اس کی طرف پھیرے جاؤ گے جو چُھپا
اور ظاہر سب کچھ جانتا ہے پھر وہ تمہیں بتادے گا جوکچھ تم نے کیا تھا۔ (سورہ
جمعہ،آیت ۸)تم جہاں کہیں ہو موت تمہیں آئے گی اگرچہ مضبوط قلعوں میں ہو(سورہ
النساء) انسان جب موت کو بھول جاتا ہے تو وہ گناہوں کے دلدل میں پھنس جاتا
ہے اور قدم قدم پر اس سےگناہوں کا صدور ہوتاہے،جس کی وجہ سے اس کا دل کالا ہو جاتا
ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اقدسﷺنے فرمایا
۔مومن جب گناہ کر تا ہے تو اس کے دل میں ایک کالا نکتہ بن جاتا ہے ۔اگر استغفار کر
لیتا ہے تو اس کا دل صاف ہو جاتا ہے۔اور اگر گناہ سے توبہ کے بجائے اس میں زیادتی
کرتا ہے تو وہ نکتہ بھی بڑ ھتاجاتا ہے،یہاں تک کہ دل اس سے بند ہو جاتا ہے وہ وہی
رنگ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے اپنے اس ارشاد میں ذکر کیا۔( كلا بل ران على قلوبهم ما كانوا يكسبون:کوئی نہیں بلکہ ان کے دلوں پر زنگ چڑھادیا ہے ان کی کمائیوں
نے) (المستدرک للحاکم) اس سے معلوم ہوا کہ گناہ کا اثر یہ بھی ہے کے اس سے دل
میں ایک کالا نکتہ وداغ لگ جاتا ہے،اور اگر گناہ پر اصرار کرے تو یہ بڑھتاجاتا
ہےکہ پورا دل کالا ہو جاتاہے۔ عارف ہمیشہ موت
کو یاد کرتا ہے کیو نکہ موت محبوب سے ملاقات کا وقت ہے اور محب محبوب سے ملاقات کے
وقت کو کبھی بھول نہیں سکتا۔(احیا ء العلوم )موت کو یاد کرنے کے ترغیب اللہ
کے رسولﷺنے اپنی امتیوں کو تاکید کے ساتھ یہ تعلیم دیا کہ موت کو زیادہ
سےزیادہ یاد کریں،اور حکم دیا کہ ہر وقت موت کو یاد کریں،اس کو یاد کرنے کے
بہت فائدے ہیں ،چاہے وہ دنیاوی ہوں یا اخروی۔موت کو ہمیشہ یاد کرنے والا انسان
دنیا وآخرت دونوں میں کامیاب ہوتا ہے۔موت کی یاد نفسانی خواہشات کو ختم کر دیتی
ہے،غفلت کو جڑوں سے اکھاڑ کر پھینک دیتی ہے،دل کو اللہ کے وعدے کے ذریعہ طاقت
بخشتی ہے،انسان کے مزاج کو نرم کرتی ہے،حرص کی آگ کو بجھا دیتی ہے،اور دنیا کو
حقیر دکھاتی ہے۔ ایک مرتبہ نبی
کریم ﷺ کا ایک مجلس سے گزر ہوا جہاں سے ہنسنے کی آوازیں آرہی تھی سرکار دوعالم ﷺنے
ارشاد فرمایاکہ! اپنے مجالس میں
لذتوں کو ختم کر نے والی چیز کا تذکرہ شامل کر لیا کرو:صحابۂکرام رضی اللہ عنہم نے
عرض کیا ! یا رسول اللہ !لذتوں کو ختم کرنے والی چیز کیا ہے؟آپ نے فرمایا!لذتوں کو
توڑنے والی چیز موت ہے اس کو یاد کر لیا کرو۔(ترمذی شریف)حضرت عبد اللہ ابن
مسعود رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ حضور ﷺ سے پوچھا گیا ،سب سے افضل مومن
کون ہے ؟آقا فرماتے ہیں !جس کے اخلاق اچھے ہوں،پھر پوچھا گیا ،عقلمند کون ہے ؟آپ
نے فرمایا !جو موت کو بکثرت یاد کرتا ہےاور موت کی تیاری کرتاہے۔(تنبیہ
الغافلین ) نبی کریم ﷺایک مرتبہ
مسجد کی طرف تشریف لا ئے ،تو آپ نے دیکھا کے کچھ لوگ باتیں کر رہے ہیں،اور ہنس بھی
رہےہیں۔آپ نے فرمایا:موت کو یاد کیا کرو سنو!وہ ذات جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان
ہے ”اگر تم وہ بات جانتے جو میں جانتا ہوں تو تم کم ہنستے اور زیادہ
روتے۔(الدرمنثور) حدیث کی روایات
میں آتا ہے کہ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ جب کسی قبر پر جاتے تو بہت روتے حتی کے
آپ کی ڈاڑھی مبارک تر ہو جاتی تھی،آپ سے اس سلسلہ میں معلوم کیا گیا کہ آپ جنت یا
دوزخ کے ذکر پر اس قدر نہیں روتے ،اور قبر پر اس قدر روتے ہیں؟تو آپ نے فرمایا ،کہ
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:قبر آخر ت کی منزلوں میں سے اول ہے پس اگر اس
سے نجات پا گیا تو اس کے بعد کی منزلیں اس سے آسان ہوگی۔ اور اگر اس سے نجا ت نہیں
پایا تو اس کے منزلیں اس سے زیادہ سخت ہوگی،(مرقاة المفاتيح شرح مشكاة
المصابيح(اقوال علماء)
پانچ خصلتیں جس شخص میں ہوں وہ تمام لوگوں سے افضل ہیں:
موت کو یاد
کر نے کے تعلق سے فقیہ ابو اللیث سمر قندی رحمۃاللہ فرماتے ہیں
1:اپنے رب کی
اس طرح عبادت کرے کہ وہ مقبول ہوں
2:خلق خدا کے
لیے اس کا نفع ظاہر ہوں۔
3:لوگ اس کے شر سے مامون
ومحفوظ ہوں۔
4: لوگوں
کے پاس جو کچھ ہے اس کی توقع نہ رکھے۔
5: موت
کے لیے ہمیشہ تیار رہے۔(تنبیہ الغافلین )
حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃاللہ علیہ ہر رات فقہاء کرام کو جمع کر کے ان سے موت
،قیامت اور آخرت کے بارے میں مذاکرہ کرتے پھر وہ سب روتے حتی کے یوں معلوم ہوتا کہ
ان کے سامنے کوئی جنازہ پڑا ہے۔حضرت ابراہیم تیمی رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں”دو
چیزوں نے مجھے دنیا کی لذت ختم کر دی۔ایک موت کا ذکر اور دوسرا اللہ تعالیٰ
کے سامنے کھڑا ہونا۔حضرت اشعث رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں ”کہ ہم حضرت حسن بصری
رحمۃاللہ علیہ کے پاس جایا کرتے تھے تو صرف آپ کے پاس جہنم کی آگ ،آخرت کے
معاملے اور موت کا ذکر ہوتا۔حضرت عمر بن عبد العزیز رحمۃاللہ علیہ نے حضرت عنبسہ
رحمۃاللہ علیہ سے فرمایا ”موت کا ذکر کثرت سے کیا کرو ،اگر تمہیں عیش کی وسعت حاصل
ہو تویہ ذکر اسے تنگ کردیگا۔اوراگر تم تنگ زندگی گزار رہے ہوتو اس میں وسعت آجائے
گی(مطلب یہ ہے کہ دنیا کی فراوانی تمہیں اللہ تعالیٰ سے غافل نہیں کرے گا اوروسعت
رزق بھی ہوگی۔(احیاءالعلوم)موت کو یاد کرنے کے فضائلجو انسان موت کو کثرت سے
یاد کرتا ہے وہ کبھی دنیا میں پریشان نہیں ہوتا ۔جو موت کو جتنا یاد کر ے گا اسی
قدر پریشانیوں سے نجات پائے گا ۔حضرت کعب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں ،جو شخص موت کو
پہچان لے اس پر دنیا کے مصائب اور غم ہلکے ہو جاتے ہیں۔“موت کو یاد کرنےسے
دنیا کی لذتوں اور اس کے دلچسپیوں میں کمی آتی ہے ،قلب انسا نی مالک حقیقی کی طرف
متوجہ ہوتا ہے۔موت کی یاد سے اللہ تعالیٰ کا خوف پیدا ہوتا ہے۔توبہ میں پختگی آتی
ہے۔ حضرت ابو حامد لفاف فرماتے
ہیں جو شخص کثرت سے موت کو یاد کرتا ہے تو اسے تین باتوں میں تکریم دی جاتی ہے(۱) توبہ
میں عجلت(۲) رزق میں قناعت (۳)اور عبادت میں فرحت ۔اور جس کو
موت کا خیال نہیں آتا ہےاسے تین چیزوں میں تکلیف دی جاتی ہے۔(۱)توبہ
میں دیری (۲)معمولی رزق پر عدم رضا(۳) اور عبادت میں سستی۔(تنبیہ
الغافلین) حضرت انس رضی اللہ عنہ
فرماتے ہیں کہ رسو ل اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا،موت کا ذکر زیادہ کیا کرو کیوں کہ یہ
گناہوں کو مٹاتاہے اور دنیا سے بے رغبتی پیدا کرتاہے۔(کنزالعمال)بے شمار احادیث
میں سرور کونین ﷺ نے امت کو تلقین فرمائی کہ وہ موت کو کثرت سے یاد
کریں۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ
عنہا نے جناب رسول ﷺسے دریافت کیا ،کہ کوئی شخص بغیر شہادت کے بھی شہیدوں میں شامل
ہو سکتا ہے؟آپ ﷺنے فرمایا، جو شخص دن رات میں بیس مرتبہ موت کو یاد
کرے ،وہ بغیر شہادت کی موت کے شہیدوں میں شامل ہو سکتا
ہے۔(مشکوٰۃشریف) خلاصہ یہ ہے کہ
ہم زندگی کہ ہر ایک لمحے میں موت کو یاد رکھیں اور اپنے آپ کو گناہوں سے باز
رکھیں۔اور اللہ کی نعمتوں کا صحیح استعمال کریں۔اگر ہم نے اللہ کی نعمتوں کا صحیح
استعما ل نہ کیا ،دنیا کی آسائش سے اپنے آپ کو دور نہ کیا ،تو ہمیں آخرت میں ذلت و
رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You