آپ پولینڈ کے
لوگوں سے پوچھیں یہ آپ کو بتائیں گے جنگ کیا ہوتی ہے۔۔۔ یا کسی یورپی خاندان سے
پوچھ لیں جنگ کیا ہے؟ آپ اسکی آنکھوں میں آنسو دیکھیں گے، جرمن فوج نے یکم
ستمبر1939 کو پولینڈ پر حملہ کیا، یہ دوسری جنکِ عظیم کا آغاز تھا، جارح فوج کو
4959 توپوں ، 3647 ٹینکوں اور3300 جنگی طیاروں کی سپورٹ حاصل تھی، یہ آۓ اور پولینڈ میں ایک لاکھ99 ہزار
700 لاشیں بچھادیں،75 سال بعد بھی اس شہر کی دیواروں پر جنگ کے زخم ہیں، یورپ نے
1939 سے 1945تک مسلسل 6برس تک جنگ بھگتی، یورپ امریکہ اور جاپان کے چھ کروڑ لوگ
ہلاگ ہوۓ، امریکہ نے آخر میں ہیروشیما اور ناگاساکی پر 2 ایٹم بم داغے، 2 منٹ
میں 1 لاکھ 40ہزار لوگ، جبکہ ناگاساکی میں 75ہزار لوگ ہلاک ہوۓ، اور جو زندہ بچے وہ عمر بھر کیلۓ معذور ہوگۓ،جنگِ عطیم دوم میں یورپ کا کوئ
شہر سلامت نہیں بچا تھا، بجلی، پانی، سڑکیں، سکول و کالج، ریلوے کا نظام اور خوراک
ہر شے مفقود ہوگئ تھی، آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ جنگ سے پہلے یورپ میں سور
نہیں کھایا جاتا تھا، لوگ پورک سے نفرت کرتے تھے، خوراک کی قلت کی وجہ سے پورک
کھایا جانے لگا وہ دن ہے اور آج کا دن۔ پورک اب پورے یورپ کی خوراک بن چکا ہے،جنگ
کے بعد مرد ختم ہوگۓ، چنانچہ یورپ شادی کا سسٹم ختم کرنے پر مجبور ہوگیا،عورت صرف عورت اور
مرد صرف مرد بن کر رہ گیا۔ آپ جنگوں کے دوران یہودیوں کی داستانیں پڑھیں، آپ اندر سے
دکھی ہوجائیں گے، سینکڑوں ہزاروں یہودی خاندان دو دوبرس گٹروں میں رہے انکی ایک
پوری نسل گٹروں میں رہی، اور سیوریج کا پانی پی کر کھڑا ہونا سیکھا، آپ یورپ کی
پہلی جنگِ عظیم بھی دیکھۓ، یہ جولائ 1914 سے 11نومبر 1918 تک،4 سال 3ماہ تک چلی،یورپ نے ان 4 برسوں
میں سوا 4 کروڑ لوگوں کی قربانی دی،یہ جنگ آسٹریلیا اور نیوزی کی ہر ماں کی گود اجاڑ
گئ، ترکی کا جزیرہ گیلی پولی قبرستا بن گیا، آپ آج بھی وہاں کی مٹی کی مٹھی بھریں
تو انسان کی باقیات ملیں گی، آپ ان باقیات سے پوچھیں جنگیں کیا ہوتی ہیں؟ یہ آپکو
جنگ کا مطلب سمجھائیں گی اگر پھر بھی پتہ نہ چلے تو آپ ویتنام، افغانستان اور
افریقہ کے جنگ ذدہ علاقوں سے پوچھ لیں، ویتنام کے لوگوں نےساڑھے 19 سال جنگ بھگتی،
افغانستان پچھلے35 برسوں سے لاشیں اٹھا رہا ہے،جبکہ افریقہ کے ملکوں نائیجیریا،
لائبیریا، سیرالیون، صومالیہ، یوگنڈا، گنی اور سوڈان میں جنگ نے قحط کو جنم دیا،
اور یہ قحط افریقہ کے ہر شخص کی آنکھ میں لکھا ہے، آپ انکی آنکھوں سے پوچھ لیں،
جنک کیا ہوتی ہے؟ یہ آپکو بتائیں گے انسان جب اپنے والد، اپنے بچے اور اپنی بیوی
کا گوشت ابال کر کھانے پر مجبور ہوجاتا ہے یا اپنے لختِ جگر کو زخموں سے رہائ
دلانے کے لۓ گولی مارتا ہے، اسکا دل اسکی روح کہاں کہاں سےزخمی ہوتی ہے، یہ آپ
کو بتائیں گے۔ ہم برصغیر کے پاک و ہند کے لوگوں نے اصلی اور مکمل جنگ نہیں دیکھی،
ہندوستان کی تمام جنگیں محدود تھیں، ہم ہر پنجابی سنٹرل ایشیا کے حملہ آور کا اٹک
کے پُل پر استقبال کرتے تھے، اسے ہار پہناتے، سپاہیوں کو خوراک اور گھوڑوں کو چارہ
دیتے اور سیدھا پانی پت چھوڑ کر آتے“ یہ ہماری تاریخ تھی، تاریخ نے پلٹا کھایا اور
انگریز پانی پت سے لاہور آگیا، ہم نے اسے بھی ہار پہناۓ، اور سیدھا جلال آباد چھوڑ کر
آگۓ، انگریز باقی زندگی افغاںوں سے لڑتے رہے اور ہم انکے سہولت کار بنے رہے,
ہم 1857 کی جنگِ آزادی کو ہندوستان کی عظیم جنگ سمجھتے ہیں، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ
یہ جنگ دہلی سے 75 کلومیڑ کے فاصلے میرٹھ پر شروع ہوئ اور دہلی پہنچ کر ختم ہوگئ
تھی، یہ پوری جنگ دہلی کے مضافات میں لڑی گئ، اور پنجاب، سندھ، ڈھاکہ، ممبئ کے
لوگوں کو خبر اس وقت ہوئ جب ملبہ سمیٹا جا چکا تھا، اور بہادر شاہ ظفر رنگون میں ”
کہہ دو ان حسرتوں سے کہیں اور جا بسیں” لکھ رہا تھا، ہم اگر 1965 اور 71 کا بھی
تجزیہ کریں تو یہ جنگیں کم اور جھڑپیں ذیادہ محسوس ہونگی۔ 1965 کی جنگ 6 ستمبر کو
شروع ہوئ اور 23 ستمبر کو ختم ہوگئ، پاک و ہند کے لوگ 17 دن کی اس مڈ بھیڑ کو جنگ
کہتے ہیں، یہ دونوں ملک ہر سال اسکی سالگرہ مناتے ہیں، 65 کی جنگ میں 4 ہزار
پاکستانی شہید اور 3 ہزار بھارتی ہلاگ ہوۓ تھے، یہ جنگ بھی کشمیر اور پنجاب
کے بارڈر تک محدود رہی تھی، عوام کو صرف ریڈیو پر جنگ کی اطلاع ملی، 1971 کی جنگ 3دسمبر
کو شروع ہوئ اور 16 دسمبر کو ختم ہوگئ، اس جنگ میں 9 ہزار پاکستانی شہید ہوۓ اور26ہزاربنگالیوبھارتیہلاکہوۓ، آپ کبھی ٹھنڈے ذہن کے ساتھ
13 اور 17 دن کی ان جنگوں کو یورپ کی 4 اور 6 سال لمبی جنگوں کے اور ان تین، چار ہزار
، اور 9 ہزار، 26 ہزار لاشوں کو یورپ کی ساڑھے چار کروڑ اور سات کروڑ لاشوں کے
سامنے رکھ کر دیکھیں، آپ لاہور اور ڈھاکہ پر حملے کو دیکھیں، آپ 1965 کے پٹھان کوٹ
اور چونڈا کے حملے کو دیکھیں پھر ہیروشیما، ناگاساکی، پرل ہاربر، نارمنڈی،
ایمسٹرڈیم، برسلز، پیرس، لندن، وارسا، پولینڈ، برلن اور ماسکو پر حملے کو دیکھیں،
اور پھر اپنے آپ سے پوچھیں جنگ کیا ہوتی ہے؟ آپکے جسم کا ایک خلیہ آپکو جنگ کی
ماہیت بتاۓ گا، ہم دونوں ملک جنگ سے ناواقف ہیں، ہم جانتے ہی نہیں کہ جنگ کیا ہوتی
ہے، ہم ہر سال، چھ مہینے بعد ہم ایٹم بم نکال کر دھوپ میں بیٹھ جاتے ہیں، بھارت میں
چڑی بھی مر جاۓ تو الزام پاکیستان پر تھوپ دیتا ہے، ایل او سی پر معصوم شہریوں، ہند
یا کشمیں میں مسلمانوں پر تشدد شروع کردیا جاتا ہے اور ہم ہر معمولی واقعات پر یہ
کہہ کر ٹھنڈے ہوجاتے ہیں کہ ہم نے یہ مواد ایٹم بم “شبِ برات” پر چلانے کیلۓ نہیں بناۓ، ایٹم بم کیا ہے، اور جب یہ پھٹتا
ہےتو کیا ہوتا ہے؟ ہیروشیما اور ناگاساکی کے مکینوں سے پوچھیں، میں بعض اوقات
سوچتا ہوں پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک بڑی جنگ ہونی چاہۓ، جی بھر کر جنگی ارمان پورے کرلیں،
یہ اپنے سارے ایٹم بم چلالیں تاکہ ایک بار برصغیر کے 110شہروں کو موہن جوڈارو بناکر
دیکھ لیں، یہ خیر پور سے گوا تک پانچ ، دس کروڑ لاشیں بھی دیکھ لیں، یہ عوام کو
دوا اور خوراک کے بغیر بلکتا بھی دیکھ لیں، یہ زندگی کو ایک بار پھر بجلی، پانی،
سڑک ، سکول اور ہسپتال کے بغیر دیکھ لیں۔ یہ پچاس سال تک معذور بچے پیدا ہوتے بھی
دیکھ لیں، یہ تب جنگ کو سمجھیں گے، یہ جاپان اور یورپ کے لوگوں کی طرح جنگ کا نام
نہیں لیں گے، یہ اس وقت یورپ کی طرح اپنی سرحدیں کھولیں گے اور بھائ بھائ بن کر
زندگی گزاریں گے، راوی اسکے بعد چین ہی چین لکھے گا ، یہ ہیروشیما اور وارسا بننے
تک جنگ جنگ کرتے رہیں گے۔
2/26/19
Home »
» What is WAR :: جنگ کے نقصانات :: موجودہ دور میں جنگ کے نقصانات
005 YUA
ReplyDeleteایٹم بم اور اولاد آدم
تحریر
علامہ یوسف جبریلؒ
کون ہے جو ایٹم بم کی تباہ کاری سے بے خبر ہے۔ کون ایسا صاحبِ اولاد ہے جو تصور میں سینکڑوں معصوم بچوں کو زندہ آگ میں جلتا دیکھ کر کانپ نہیں اٹھتا۔ ماسکو، واشنگٹن، اور لندن میں بسنے والے علمبردارانِ تہذیب اس عذابِ الہی سے قطعاَ َبے خبر نہیں ہو سکتے۔ یو این او کے جہاں نما ہال میں کرہ ارض کی جملہ انسانیت کی نمائندگی کرنے والی چیدہ اور جہاندیدہ شخصیتیں اس دیو جہاں سوز کی تباہ کاریوں سے لاعلمی کا اظہار کرنے میں حق بجانب نہیں ہو سکتیں لیکن ہر شخص ایٹمی قوت کے پر امن استعمال کا سہارا لے کر شتر مرغ کی طرح اپنے سر کو ریت میں دھنسائے کھڑا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ ہم جو اس خطرے کو نہیں دیکھ سکتے شائید وہ بھی ہماری طرف نہیں آ رہا۔ موثر سے موثر ترین ایٹم بم ایجاد کئے جا رہے ہیں۔ دنیا ایٹمی یا غیر ایٹمی گروہ میں بٹ چکی ہے۔بعض قومیں اندھا دھند دوڑ میں اپنے بھوکے عوام کو ننگا رکھنے کو ترجیح دیتی ہیں مگر دو چار ایٹم بم بنا کر لہو لگا کر شہیدوں میں نام لکھانے کے لئے بے قرار ہیں اور تعجب کی بات یہ ہے کہ جس پر امن ایٹمی استعمال کا ڈھنڈھورا پیٹا جاتا ہے اس کی کوئی اچھی خاصی نشانی سامنے نہیں آ رہی ورنہ اس حقیقت سے کس نابکار کو انکار ہو سکتا ہے کہ ایٹمی قوت اگر انسان کی فلاح وبہبودکے لئے استعمال کی جائے تو انسانیت کے بہت سارے دکھوں میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔تاہم اس بے خیالی کے باوجود ایٹمی تباہ کاری کا خوف ہر جگہہ سائے کی طرح مسلط ہےلیکن آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل،والا مسئلہ ہے۔خطرہ سامنے نہیں،اس لئے دور ہے۔ہر کوئی اپنے اپنے کاروبار میں مصروف ہے۔ایٹمی تباہی بے شک بے حد و حساب ہے۔بنی نوع انسان کو زندہ آگ میں جھونک دینا کوئی معمولی المیہ نہیں، تاہم ایک بہت بڑا پہلو جو اکثر لوگوں کو معلوم نہیں کہ اس ایٹمی تخلیق کے مظاہرے سے خود انسان کی اپنی تخلیق کا مقصود غارت ہو کر رہ جائے گا مگرافسوس کہ حرص کی آگ چہار دانگِ عالم میں اتنی تیز ہو گئی ہے اور باہمی خوف و ہراس اس حد تک پہنچ گیا ہے کہ ہر فرد اور ہر قوم نفسی نفسی کے عالم میں اپنی حفاظت کا سامنا ہر جائز و ناجائزطریقے سے بہم پہنچانے میں سرگرم ہے۔ اس آگ کو سرد کرنے کا طریق کار بھی عجیب ہے کہ ایندھن کے انبار جھونکے جا رہے ہیں۔پانی کے پمپ تک کسی کا ہاتھ نہیں بڑھتا۔ عالم ِاسلام کو یک زبان ہو کر ایٹمی تباہ کاری کے خلاف سینہ سپر ہو جانا چاہیئے۔ اس طرح مسلمانوں کو دوسری تمام قوموں پر فوقیت حاصل ہو گی، یہ انسانیت کا مسئلہ ہے۔ماضی میں مسلمانوں کے دنیا پر بڑے بڑے احسان ہیں لیکن اگر مسلمان ایٹمی خطرے کو دنیا سے دور کریں تو یہ احسان عظیم ہو گا۔قرآن حکیم نے ایٹمی بم کے متعلق سورۃ الھمزہ میں واضح پیشین گوئی کی ہے۔اس طرح سے بھی مسلمانوں کابحیثیت مسلمان یہ فرض بنتا ہے کہ دنیا کے کونے کونے میں اللہ تعالیٰ کاپیغام، نشر کر دیں شائید کہ کسی دل میں اتر جائے تری بات اور اس سے بڑی بات کیا ہوگی۔
علامہ یوسف جبریلؒ
ادارہ افکار جبریل ؒقائد اعظم سٹریٹ نواب آباد واہ کینٹ
یوسف جبریل فاونڈیشن پاکستان
ما شاء اللہ ۔۔ بہت اچھی تحریر
Delete