دھواں بنا کے فضا میں
اڑا دیا مجھ کو
میں جل رہا تھا کسی بجھا دیا مجھ کو
ترقیوں کا
فسانہ سنا
دیا مجھ
کو
ابھی ہنسا بھی نہ
تھا اور رلا دیا مجھ
کو
کھڑا ہوں آج بھی روٹی کے چار حرف لیے
سوال یہ ہے کتابوں
نے کیا دیا مجھ کو
جسے رہا
ہے میری زندگی
پہ حق برسوں
غضب تو یہ ہے اسی نے بھلا
دیا مجھ کو
سفید سنگ کی چادر
لپیٹ کر مجھ
پر
فصیل ِ شہر پہ
کس نے سجا دیا مجھ کو
میں ایک ذرہ
بلندی کو
چھونے نکلا تھا
ہوا نے تھم کے زمیں پر گرا دیا مجھ کو
نہ جانے
کون سا جذبہ تھا جس
نے خود ہی نظیر
مری ہی ذات کا دشمن بنا
دیا مجھ کو
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You