اس رحمت عالم کا قصیدہ
کہوں کیسے؟
جو مہرِ عنایت بھی ہو
ابرِ کرم بھی
کیا اس کے لیے نذر کروں
جس کی ثنا میں
سجدے میں الفاظ بھی سطریں
بھی قلم بھی
چہرہ ہے کہ انوارِ دو
عالم کا صحیفہ
آنکھیں ہیں کہ بحرینِ
تقدس کے نگیں ہیں
ماتھا ہے کہ وحدت کی تجلی
کا ورق ہے
عارض ہیں کہ والفجر کی آیات
کے امیں ہیں
گیسو ہیں کہ واللیل کے
بکھرے ہوئے سائے
ابرو ہیں کہ قوسینِ شبِ
قدر کھلے ہیں
گردن ہے کہ بر فرقِ زمیں
اوجِ ثریا
لب صورتِ یاقوت شعاعوں میں
دھلے ہیں
قد ہے کہ نبوت کے خدو خال
کا معیار
بازو ہیں کہ توحید کی
عظمت کے علم ہیں
سینہ ہے کہ رمزِ دل ہستی
کا خزینہ
پلکیں ہیں کہ الفاظِ رخِ
لوح و قلم ہیں
باتیں ہیں کہ طوبی کی چٹکتی ہوئی کلیاں
لہجہ ہے کہ یزداں کی زباں
بول رہی ہے
خطبے ہیں کہ ساون کے
امنڈتے ہوئے دریا
قرأت ہے کہ اسرارِ جہاں
کھول رہی ہے
یہ دانت یہ شیرازہ شبنم
کے تراشے
یاقوت کی وادی میں دمکتے
ہوئے ہیرے
شرمندہ تابِ لب و دندانِ
پیمبر ﷺ
حرفے بہ ثنا خوانی و خامہ
بہ صریرے
یہ موجِ تبسم ہے کہ رنگوں
کی دھنک ہے
یہ عکس ِ متانت ہے کہ
ٹھہرا ہوا موسم
یہ شکر کے سجدے ہیں کہ آیات
کی تنزیل
یہ آنکھ میں آنسو ہیں
کہ الہام کی رم جھم
یہ ہاتھ یہ کونین کی تقدیر
کے اوراق
یہ خط یہ خدو خالِ رخ،
مصحف و انجیل
یہ پاؤں یہ مہتاب کی
کرنوں کے معاہد
یہ نقشِ قدم بوسہ گہِ رف
رف و جبریل
یہ رفعتِ دستار ہے یا
اوجِ تخیل
یہ بند قبا ہے کہ شگفتِ
گلِ ناہید
یہ سایہ داماں ہے کہ پھیلا
ہوا بادل
یہ صبح گریباں ہے کہ خمیازۂِ
خورشید
یہ دوش پہ چادر ہے کہ
بخشش کی گھٹا ہے
یہ مہرِ نبوت ہے کہ نقشِ
دلِ مہتاب
رخسار کی ضَو ہے کہ نمو
صبحِ ازل کی
آنکھوں کی ملاحت ہے کہ
روئے شبِ کم خواب
محسن نقوی کی کتاب موجِ
ادراک سے چند سطور۔۔۔۔۔۔۔۔
پوسٹ : محمد سہیل عارف معینی
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You