خواجہ شاہ محمد سلیمان
تونسوی
برصغیر پاک و ہند میں
بارہویں صدی ہجری کے آخر ایک عظیم مصلح اور روحانی پیشوا تھے۔ آپ کا تعلق سلسلہ
عالیہ چشتیہ سے تھا۔ہندوستان، پاکستان اور افغانستان میں سینکڑوں مشائخ آپ کو اپنا
روحانی مورث تسلیم کرتے ہیں۔ آپ کی رشدوہدایت سے برصغیر پاک و ہند کا کونہ کونہ منور
ہوا، برصغیر سے باہر افغانستان، وسط ایشیا، ایران، عراق، شام اور حجازمقدس تک آپ
کا فیض پہنچا۔
خواجہ شاہ محمد سلیمان
تونسوی
مذہب
اسلام
دیگر نام
پیر پٹھان
ذاتی تفصیل
پیدائش
1770ء
ڈیرگ ٹاؤن، بلوچستان،
پاکستان
وفات
1850ء
تونسہ شریف، پنجاب،
پاکستان
بلند مرتبہ
مقام
تونسہ شریف، پنجاب،
پاکستان
دور
اٹھارویں صدی کے آخر
اور انیسوین صدی کے شروع میں
ولادت و خاندان
آپ کا نام محمد سلیمان
ہے لوگ آپ کو “پیرپٹھان” کے نام سے پکارتے ہیں۔ آپ کے والد کا اسم مبارک زکریا بن
عبد الواہاب اور والدہ کا نام بی بی زلیخا ہے۔ آپ کے والد علم و فضل میں یکتا تھے۔
آپکی ولادت 1183ھ، 1769ء کو ضلع لورالائی کے گاؤں گڑگوجی میں ہوئی۔
تعلیم و تربیت
آپ نے علم دینی کی
تعلیم گڑگوجی، تونسہ شریف، کوٹ مٹھن اور مہار شریف میں حاصل کی اور علوم باطنی کے
لیے خواجہ نور محمد مہاروی ( چشتیاں) کے دست مبارک پر بیعت کی اور خلافت حاصل سے
سرفراز ہوئے۔
قیام تونسہ
مرشد کے انتقال کے بعد
1214ھ بمطابق 1799ء میں گڑگوجی سے ہجرت کر کے تونسہ شریف (ضلع ڈیرہ غازی خان) میں
مقیم ہو گئے اور خلق خدا کی رہنمائی کرنے لگے۔ آپ کا فیض عام ہو گیا اور لوگ جوق
در جوق بیعت کرنے لگے۔ آپ کے تشریف لانے سے قبل تونسہ شریف سنگھڑ ندی کے کنارے چند
گھروں پر مشتمل ایک غیر معروف گاؤں تھا۔ جب آپ تونسہ میں آ کر مقیم ہوئے تو یہ غیر
معروف گاؤں علم و عرفان کا مرکز بن گیا اور طاؤسہ سے تونسہ شریف کہلانے لگا۔
دینی خدمات
تیرہویں صدی ہجری و اٹھارویں
صدی عیسوی میں ہندوستان میں مسلمانوں کا ہزار سالہ دور حکومت ختم ہونے کو تھا آخری
مسلم حکومت یعنی مغلیہ سلطنت اپنی آخری سانس لے رہی تھی اس کی حدود صرف دہلی تک
محدود ہو چکیں تھیں۔ مرہٹوں، جاٹوں اور سکھوں نے افراتفری مچا رکھی تھی۔ حکومت
کابل کی شوکت روبہ زوال تھی۔ اس سے فائدہ اٹھا کر سکھوں نے پنجاب پر اپنا قبضہ
جمانا شروع کر دیا۔ انگریز کی نظر تخت دہلی پر لگی ہوئی تھی۔ آپ نے تونسہ شریف میں
عظیم علمی و دینی درسگاہ قائم کی جہاں پچاس سے زائد علما و صوفیا فارسی، عربی،
حدیث، تفسیر، فقہ، تصوف، سائنس، طب و ہندسہ وغیرہ کی تعلیم دیتے تھے۔ طلبہ کی
تعداد ان مدارس میں ڈیڑھ ہزار سے زائد تھی۔ طلبہ، علما و فقراء کو لنگرخانہ سے
کھانا، کپڑے، جوتے،کتابیں، ادویہ اور دیگر تمام ضروریات زندگی ملتی تھیں۔ آپ کو
درس و تدریس کا بے حد شوق تھا۔ مریدین و خلفاء کو کتب تصوف کی تعلیم دیتے تھے۔ آپ
کے خلفاء نے برصغیر پاک وہند کے طول وعرض میں اور اس سے باہر اپنی خانقاہیں قائم
کیں۔ دینی مدارس کا اجرا کیا لنگر خانے قائم کیے۔ پاکستان میں تونسہ شریف،
مکھڈشریف، ترگھ شریف، میرا شریف، گڑھی افغانان، سیال شریف، جلال پور، گولڑہ شریف
اور بھیرہ شریف وغیرہ کے مدارس قابل ذکر ہیں۔ ان مدارس میں نہ صرف اعلٰی درجہ کی
تعلیم دی جاتی بلکہ اعلٰی درجہ کی تربیت بھی کی جاتی۔
تونسہ شریف کی خانقاہ
برصغیر پاک و ہند میں صوفیا کی خانقاہوں میں ایک امتیازی حیثیت رکھتی ہے۔ آپ کی
علمی، دینی، اصلاحی، اخلاقی و روحانی تعلیمات نے معاشرے کے ہر طبقہ فکر کو متاثر
کیا ان میں عام مسلمانوں کے علاوہ علما و صوفیا اور رؤساء بھی شامل ہیں۔ علما اور
عوام کے بڑے بڑے والیاں ریاست اور جاگیردار آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے اکثر والیاں
ریاست گدی پر بیٹھتے وقت آپ کے دست مبارک سے پگڑی بندھوانے کی خواہش کرتے مگر آپ
راضی نہ ہوتے۔ سنگھڑ، ڈیرہ غازی خان، ڈیرہ اسماعیل خان اور ریاست بہاولپور کے
نواب، افغانستان سے والی ریاست شاہ شجاع محمدپوتے احمد شاہ ابدالی و میر دوست محمد
والی افغانستان اور پنجاب، سرحدو افغانستان کی چھوٹی بڑی ریاستوں کے نواب کئی
مرتبہ آپ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آپ کی شان میں علما، صوفیا اور شعرا نے عربی،
فارسی، اردو اور ہندی زبان میں بے شمار تذکرے، مناقب، قصائد اور سلام عقیدت لکھے۔
سلسلہ
محمد صلی اللہ علیہ و
آلہ و سلم
علی بن ابی طالب
حسن بصری
عبدالواحد بن زید
فوزيل بن اياز
ابراہیم بن ادہم
سعدی الدین حذیفہ
امین الدین حبیرا
کریم الدین ممشاد
ابو اسحاق شمی
ابو احمد عبد ال
ابو احمد
ناصر الدین ابو یوسف
قطب الدین مودود
حاجی شرف زندانی
عثمان حروانی
معین الدین حسن
قطب الدین بختیار کاکی
بابا فرید الدین گنج
شکر
نظام الدین اولیاء
نصيرالدین محمود چراغ دہلوی
کمال الدین علامہ
سراج الدین
المودين
محمود راجن
جمال الدین جُمن
محمد حسن
شیخ محمد
معین الدین یوسف يحيىٰ
مدنی
شاہ کلیم اللہ
جيہانبادی
نظام الدین دہلوی اورنگ
آبادی
فخرالدین محمد
نور محمد مہاروی
شاہ محمد سلیمان تونسوی
خلفاء ترميم
چند مشہور خلفاء کے
اسماء گرامی یہ ہیں۔
صاحبزادہ خواجہ گل محمد
خواجہ اللہ بخش تونسوی
مولانا محمد علی مکھڈی
حافظ سید محمد علی خیر
آبادی
سید حسن عسکری دہلوی
مولانا شمس الدین
سیالوی
مولانا فیض بخش الہی
خواجہ میاں باران صاحب
میاں گامنڑ صاحب
وفات
آپ نے ماہ صفرالمظفر کی
7 تاریخ 1267ھ کو سحری کے وقت 84 برس کی عمر میں انتقال فرمایا اور اپنے حجرہ
عبادت میں دفن ہوئے۔ آپ کے مزار پر نواب بہاولپور ثالث (1825ء تا 1852ء) مرید
خواجہ تونسوی نے 85 ہزار روپے کی لاگت سے ایک عالیشان مقبرہ 1270ء میں مکمل کرایا۔
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You