اک عالم ہے یہ اضطراب
کا
ہے منظر عیاں سب
گرداب کا
کیا زخم ہیں کیا درد
ہے
کوئی حال نہیں اجتناب
کا
وہ دیکھ کر یوں گزر
گئے
جیسے سایہ ہو وہ
مہتاب کا
کوئی جل کے شمع سی
بجھ گئی
نہ پوچھ حال دلِ بے
تاب کا
میری رات میں ہے سحر
نہیں
تو جانے گر حال میری
رات کا
کیا گرج ہے کیا برق
ہے
گویا وقت ہے یہ برسات
کا
ہے مے میں کوئی سکوں
نہیں
کیوں ڈھنگ بدلا ہے
شراب کا
اک معینی ہے نگری
اندھیر سی
محمد سہیل عارف معینی
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You