مہاجر ہیں مگر ہم ایک
دنیا چھوڑ آئے ہیں
تمہارے پاس جتنا ہے
ہم اتناچھوڑ آئے ہیں
کہانی کا یہ حصہ آج
تک سب سے چھپایا ہے
کہ ہم مٹی کی خاطر
اپنا سونا چھوڑ آئے ہیں
نئی دنیا بسا لینے کی
اک کمزور چاہٹ میں
پرانے گھر کی دہلیزوں
کو سوتا چھوڑ آئے ہیں
عقیدت سے کلائی پر جو
اک بچی نے باندھی تھی
وہ راکھی چھوڑ آئے
ہیں وہ رشتہ چھوڑ آئے ہیں
کسی کی آرزو کے
پاؤں میں زنجیر ڈالی تھی
کسی کی اون کی تیلی
میں پھندا شھوڑ آئے ہیں
پکا کر روٹیاں رکھتی
تھی ماں جس میں سلیقے سے
نکلتے وقت وہ روٹی کی
ڈلیا چھوڑ آئے ہیں
جو اک پتلی سڑک اُناو
سے موہان جاتی ہے
وہیں حسرت کے خوابوں
کو بھٹکتا چھوڑ آئے ہیں
ہمارے لوٹ آنے کی
دعائیں کرتا رہتا ہے
ہم اپنی چھت پہ جو
چڑیوں کا جتھا چھوڑ آئے ہیں
سبھی تہوار مل کر
مناتے تھے وہاں جب تھے
دوالی چھوڑ آئے ہیں
دسہرا چھوڑ آئے ہیں
ہمیں سورج کی کرنیں
اس لیے تکلیف دیتی ہیں
اودھ کی شام کاشی کا
سویرا چھوڑ آئے ہیں
منور رانا
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You