نہ رکتے ہیں
آنسو نہ تھمتے ہیں نالے
کہو کیسے کوئی محبت
چھپالے
کرے کیا کوئی جو وہ
آئیں یکا یک
نگاہوں کو روکے یا دل
کو سنبھالے
چمن والے بجلی سے
بولے نہ چالے
غریبوں کے گھر بے خطا پھونک ڈالے
قیامت ہیں ظالم کی
نیچی نگاہیں
خدا جانے کیا ہو جو
نظریں اٹھالے
کروں ایسا سجدہ وہ
گھبرا کے کہ دیں
خدا کے لیےاب تو سر
کو اٹھا لے
تمہیں بندہ پرور ہمیں
جانتے ہیں
بڑے سیدھے سادھے بڑے
بھولے بھالے
بس اتنی سی دوری یہ
میں ہوں یہ منزل
کہاں آکے پھوٹے ہیں
پاؤں کے چھالے
قمؔر میں ہوں مختار
تنظیمِ شب کا
ہیں میرے ہی بس میں
اندھیرے اجالے
قمر ؔجلالوی
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You