ہوائیں تیز تھیں یہ
تو فقط بہانے تھے
سفینے یوں بھی کنارے
پہ کب لگانے تھے
خیال آتا ہے رہ رہ
کر لوٹ جانے کا
سفر سے پہلے ہمیں
اپنے گھر جلانے تھے
گمان تھا کہ سمجھ لیں
گے موسموں کا مزاج
کھلی جو آنکھ تو زد
پر سبھی ٹھکانے تھے
ہمیں بھی آج ہی کرنا
تھا انتظار اس کا
اسے بھی آج ہی سب
وعدے بھول جانے تھے
نہ جانے کون سی دنیا
میں وہ خزانے تھے
چلن تھا سب کے غموں
میں شریک رہنے کا
عجیب دن تھے عجب سر
پھرے زمانے تھے
آشفتہ چنگیزی
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You