شام کا پہلا سفر
جب حضرت کی عمر مبارک بارہ سال کی ہوئی تو ابوطالب حسب معمول
قافلہ قریش کے ساتھ بغرضِ تجارت ملک شام کو جانے لگا یہ دیکھ کر آپ اس سے لپٹ گئے اس
لیے اس نے آپ کو بھی ساتھ لے لیا جب قافلہ شہر بصری میں پہنچا تو وہاں بحیرہ راہب نے
آپ کو دیکھ کر پہچان لیااور آپ کا ہاتھ پکڑ کر کہنے لگا یہ سارے جہان کا سردار ہے رب
العالمین کا رسول ہے اللہ اس کو تمام جہان کے لیے رحمت بنا کر بھیجے گا قریشیوں نے
پوچھا تجھے یہ کیوں کر معلوم ہوا اس نے کہا کہ جس وقت تم گھاٹی سے چڑھے کوئی درخت اور
پتھر باقی نہ رہامگر سجدے میں گر پڑا۔ درخت اور پتھر پیغمبر کے سوا کسی شخص کو سجدہ
نہیں کرتے اور میں ان کو مہر نبوت سے پہچانتا ہوں جو ان کے شانے کی ہڈی کے نیچے سیب
کی مانند ہے۔ پھر اس راہب نے کھانا تیار کیاجب وہ ان کے پاس کھانا لایا تو حضرت اونٹوں
کے چرانے میں مشغول تھے اس نے کہا آپ کو بلا لو آپ آئے تو بادل نے آپ پر سایہ کیا ہوا
تھا۔پھر راہب نے کہا تمہیں خدا کی قسم بتاؤ
ان کا ولی کون ہے؟ انہوں نے کہا ابوطالب بس اس نے ابو طالب سےبتاکید کہا کہ ان کو مکہ
واپس لے جاؤ کیونکہ اگر تم آگے بڑھو گے تو ڈر ہے کہیں یہودی ان کو قتل نہ کر دیں لہذا
ابوطالب آپ کو واپس لے آیا اور شہر بصری سے آگے نہ بڑھا اور اس راہب نے حضرت کو خشک
روٹی اور زیتون کا تیل زادِراہ دیا
حرب فجار میں شرکت
آغاز اسلام سے پہلے
عرب میں جو لڑائیاں ان مہینوں میں پیش آتی تھیں جن میں لڑنا ناجائز تھا حرب فجار کہلاتی
تھیں چوتھی یعنی اخیر حرب فجار میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے بھی شرکت
فرمائی تھی۔ اس جنگ کا سبب یہ تھا کہ نعمان بن منذر شاہِ حیرہ ہر سال اپنا تجارتی مال بازار عکاذ میں فروخت کرنے
کے لیےاشرافِ عرب میں سے کسی کی پناہ میں بھیجا کرتا تھا اس دفعہ جو اس نے اونٹ لدوا
کر تیار کئے اتفاقاً عرب کی ایک جماعت اس کے پاس حاضر تھی جن میں بنی کنانہ میں سے
براض اور بنی ہوازن میں سے عروہ رحال موجود تھے۔نعمان نے کہا اس قافلہ کو کون بنا دے
گا؟ براض بولا میں بنی کنانہ سے پناہ دیتا ہوں۔ نعمان نے کہا میں ایسا شخص چاہتا ہوں
جو اہل نجد تہامہ سے پناہ دے یہ سن کر عروہ نے کہا میں اہل نجد تہامہ سے پناہ دیتا
ہوں۔ براض نے کہا کہ کیا تو بنی کنانہ سے پناہ دیتا ہے؟ عروہ نے کہا تمام مخلوق سے۔
پس عروہ اس قافلے کے ساتھ نکلا۔براض بھی اس کے پیچھے روانہ ہوا اور موقع پاکر عروہ کو ماہِ حرام میں قتل کر ڈالا۔ ہوازن نے قصاص میں
براض کو قتل کرنے سے انکار کیا۔ کیونکہ عروہ ہواذان کا سردار تھا۔وہ قریش کے کسی سردار
کو قتل کرنا چاہتے تھے مگر قریش نے منظور نہ کیا۔ اس لیے قریش و کنانہ اور ہوازن میں
جنگ چھڑگئی۔ کنانہ کا سپہ سالار اعظم حرب بن امیہ تھا۔ جو ابو سفیانؓ کا باپ اور حضرت
امیر معاویہؓ کا دادہ تھااور ہوازن کا سپہ سالار اعظم مسعود بن معتب ثقفی تھا۔ لشکرِ
کنانہ کے ایک پہلو پر عبداللہ بن جدعان اور دوسرے پر کریز بن ربیعہ اور قلب میں حرب
بن امیہ تھا اس جنگ میں کئی لڑائیاں ہوئیں ان میں سے ایک میں حضرت کی چچا آپ کو بھی
لے گئے۔ اس وقت آپ کی عمر مبارک 14 سال کی تھی مگر آپ نے خود لڑائی نہیں کی بلکہ تیر
اٹھا اٹھا کر اپنے چچاؤں کو دیتے رہے۔
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You