...
....
وظائف
مختلف وظائف کے لیے کلک کریں
دار المطالعہ
اچھے اچھے عنوانات پر کالم پڑھنے کے لیے کلک کریں
صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی
صاحبزادہ محمد عاصم مہاروی چشتی صاحب کی خوبصورت تحریریں پڑھنے کے لیے کلک کریں
گوشہءِ غزل
بہت خوبصورت اردو غزلیں پڑھنے کے لیے کلک کریں
10/28/19
جلوہ خدا کا جلوۂِ خیر البشر میں ہے
10/25/19
تاریخ میلاد النبی ﷺ پر بحث
اسلام میں راستے کے آداب اور راستے کے حقوق || راستے کا حق || راستوں میں کھڑے ہونا یا بیٹھنا || راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا
1: عَنْ اَنَسِ بْنِ مَالِکٍ
رضی اللہ عنہ ، قَالَ: کَانَتْ شَجَرَۃٌ فِی طَرِیْقِ النَّاسِ تُؤْذِیْ
النَّاسَ، فَاَتَاھَا رَجُلٌ فَعَزَلَھَا عَنْ طَرِیْقِ النَّاسِ، قَالَ: قَالَ
النَّبِیُّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم : ((فَلَقَدْ رَاَیْتُہُ یَتَقَلَّبُ فِی
ظِلِّھَا فِی الْجَنَّۃِ۔)) (مسند احمد: 9145)
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،
وہ کہتے ہیں: لوگوں کے راستے میں ایک درخت تھا، اس سے لوگوں کو تکلیف ہوتی تھی، پس
ایک آدمی آیا اور اس کو لوگوں کی گزرگاہ سے ہٹا دیا، پھر انھوں نے کہا کہ نبی کریم
صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پس تحقیق میں نے اس بندے کو دیکھا کہ وہ
جنت میں اس درخت کے سائے میں حسب ِ منشا زندگی گزار رہا تھا۔
2: عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى
اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: نَزَعَ رَجُلٌ لَمْ يَعْمَلْ خَيْرًا قَطُّ
غُصْنَ شَوْكٍ عَنِ الطَّرِيقِ، إِمَّا كَانَ فِي شَجَرَةٍ فَقَطَعَهُ وَأَلْقَاهُ،
وَإِمَّا كَانَ مَوْضُوعًا فَأَمَاطَهُ، فَشَكَرَ اللَّهُ لَهُ بِهَا،
فَأَدْخَلَهُ الْجَنَّةَ .ابو داود 5245
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی
عنہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک شخص نے جس نے کبھی کوئی بھلا کام نہیں کیا
تھا کانٹے کی ایک ڈالی راستے پر سے ہٹا دی، یا تو وہ ڈالی درخت پر ( جھکی ہوئی )
تھی ( آنے جانے والوں کے سروں سے
ٹکراتی تھی ) اس نے اسے کاٹ کر الگ ڈال دیا،
یا اسے کسی نے راستے پر ڈال دیا تھا اور اس نے اسے ہٹا دیا تو اللہ اس کے اس کام
سے خوش ہوا اور اسے جنت میں داخل کر دیا ۔
3: عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ: قَالَ
رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: اتَّقُوا الْمَلَاعِنَ الثَّلَاثَةَ:
الْبَرَازَ فِي الْمَوَارِدِ، وَقَارِعَةِ الطَّرِيقِ، وَالظِّلِّ .ابو داود 26
حضرت معاذ بن جبل رضی
اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لعنت کی تین چیزوں سے بچو: مسافروں کے اترنے کی
جگہ میں، عام راستے میں، اور سائے میں پاخانہ پیشاب کرنے سے ۔
4: عَنْ سَهْلِ بْنِ
مُعَاذِ بْنِ أَنَسٍ الْجُهَنِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: غَزَوْتُ
مَعَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزْوَةَ كَذَا وَكَذَا،
فَضَيَّقَ النَّاسُ الْمَنَازِلَ وَقَطَعُوا الطَّرِيقَ، فَبَعَثَ
نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُنَادِيًا يُنَادِي فِي
النَّاسِ أَنَّ مَنْ ضَيَّقَ مَنْزِلًا
أَوْ قَطَعَ طَرِيقًا فَلَا جِهَادَ لَهُ
.ابو داود2629
حضرت سہل بن معاذ بن انس اپنے
والد سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ
فلاں اور فلاں غزوہ کیا تو لوگوں نے پڑاؤ کی جگہ کو تنگ کر دیا اور راستے مسدود کر
دیئے ۱؎
تو اللہ کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک منادی کو بھیجا جو لوگوں میں اعلان
کر دے کہ جس نے پڑاؤ کی جگہیں تنگ کر دیں، یا راستہ مسدود کر دیا تو اس کا جہاد نہیں
ہے۔
5: عَنْ أَبِي سَعِيدٍ
الْخُدْرِيِّ عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ إِيَّاكُمْ
وَالْجُلُوسَ فِي الطُّرُقَاتِ قَالُوا يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا لَنَا بُدٌّ مِنْ
مَجَالِسِنَا نَتَحَدَّثُ فِيهَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ
وَسَلَّمَ فَإِذَا أَبَيْتُمْ إِلَّا الْمَجْلِسَ فَأَعْطُوا الطَّرِيقَ حَقَّهُ
قَالُوا وَمَا حَقُّهُ قَالَ غَضُّ الْبَصَرِ وَكَفُّ الْأَذَى وَرَدُّ السَّلَامِ
وَالْأَمْرُ بِالْمَعْرُوفِ وَالنَّهْيُ عَنْ الْمُنْكَرِ مسلم 5563
حضرت ابو سعید خدری رضی
اللہ تعالیٰ عنہ سے ، انھوں نے رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ،
کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
راستوں میں بیٹھنے سے بچو ۔
لوگوں نے عرض کی : اللہ کے رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم !ہمارے لیے اپنی
مجلسوں میں بیٹھے بغیر چارہ نہیں وہیں ہم ایک دوسرے سے گفتگو کرتے ہیں ۔ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے فر ما یا
: اگر تم بیٹھے بغیر نہیں رہ سکتے
تو راستے کا ( جہاں مجلس ہے ) حق ادا کرو ۔ لوگوں نے پو چھا :
راستے کا حق کیا ہے ؟ آپ نے فر ما یا :
نگا ہیں جھکا کر رکھنا ( چلنے
والوں کے لیے ) تکلیف کا سبب بننے والی چیزوں کو ہٹانا سلام کا
جواب دینا ، اچھی بات کا حکم دینا اور برا ئی سے روکنا ۔
6: عَنْ أَبِي ذَرٍّ، عَنِ
النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: «عُرِضَتْ عَلَيَّ أَعْمَالُ
أُمَّتِي حَسَنُهَا وَسَيِّئُهَا، فَوَجَدْتُ فِي مَحَاسِنِ أَعْمَالِهَا الْأَذَى
يُمَاطُ عَنِ الطَّرِيقِ، وَوَجَدْتُ فِي مَسَاوِي أَعْمَالِهَا النُّخَاعَةَ
تَكُونُ فِي الْمَسْجِدِ، لَا تُدْفَنُ»مسلم 1233
حضرت ابو ذر
رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم ﷺ
سے روایت کی ، آپ نے فرمایا
: میرے سامنے میری امت کے
اچھے اور برے اعمال پیش کیے گئے ، میں
نے اس کے اچھے اعمال میں راستے سے تکلیف
دہ چیز ہٹانے کو دیکھا ، اس کے برے اعمال میں بلغم کو پا یا جو مسجد میں
ہوتا ہے اور اسے دفن نہیں کیا جاتا ۔
10/24/19
غزل کی تعریف اور ارتقاء
غزل کا ارتقاء:
غزل
عربی زبان کا لفظ ہے۔ عربی قصیدے کا پہلا حصہ تشبیب فارسی میں قصیدے سے الگ ہو کر
غزل کے روپ میں جلوہ نما ہوا۔ یہ بات تو واضح ہے کہ غزل پہلے عربی زبان سے فارسی میں
آئی اس کے بعد فارسی سے اردو تک کا سفر اس نے امیر خسرو کے عہد میں ہی کر لیا۔پھر
اردو میں غزل واحد صنفِ سخن ہے جو غمِ جاناں ، غمِ ذات اور غمِ دوراں کو تخلیقی
اظہار دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ایک روایت یہ بھی ہے کہ یہ ایک ایرانی صنف ہے جو
فارسی کے ساتھ ہندوستان میں رونما ہوئی اور اب اردو میں مقبول ہے۔
غزل کی تعریف:
غزل
ایک مقبول ترین صنفِ شاعری ہے۔ اس کے لغوی معنی عورتوں سے باتیں کرنا ۔ یا
پھرعورتوں کے متعلق باتیں کرنا ہیں۔ہرن کے بچے کے منہ سے نکلنے والی درد بھری آواز
کو بھی غزل کا نام دیا جاتا ہے۔قیس رازی نے العجم میں غزل کے سلسلے میں یہ نشاندہی
کی ہے کہ لفظ غزل دراصل غزال سے ہے۔ ڈاکٹر سٹن گاس نے کہا ہے کہ غزل سے مراد سوت
کاتنے کے ہیں۔
غزل کی تشریح و توضیح:
ہیت
کے لحاظ سے غزل ایک ایسی صنفِ سخن ہے جو چند اشعار پر مشتعمل ہو۔ اس کا ہر شعر ہم
قافیہ و ہم ردیف ہوتا ہے۔ ردیف نہ ہونے کی صورت میں ہم قافیہ ہوتا ہے۔ پہلا شعر جس
کے دونوں مصرعے ہم قافیہ ہوں مطلع جبکہ آخری شعر جس میں تخلص اسرعمال ہوتا ہے مقطع
کہلاتا ہے۔ غزل کا ہر شعر ایک مستقل اکائی کی حیثیت رکھتا ہے۔کیونکہ اس کے ہر شعر
میں الگ ہی مفہوم باندھا جاتا ہے۔بعض اوقات ایک پوری غزل بھی ایک مضمون پر مبنیٰ
ہو سکتی ہے۔ غزل ایک بحر میں لکھی جاتی ہے ۔
غزل
میں تین اہم کردار خاص اہمیت کے حامل ہوتے ہیں۔ جس میں عاشق، محبوب اور رقیب شامل
ہیں۔ شاعر ہمیشہ اپنے محبوب کے حسن و جمال کی عکاسی کرتا نظر آتا ہے۔ پھر اس کے
بعد اپنے محبوب کے ظلم و ستم پر بھی روشنی ڈالتا ہے۔ اور بعد ازاں اپنے رقیب کو بھی
برا بھلا کہ جاتا ہے۔ شاعر یہ تمام صورتِ حال ایک خاص ترتیب سے بیان کرتا ہے۔جیسے
ایک شعر میں اگر محبوب کے حسن کی کیفیت بیان کر دی جاتی ہے تو دوسرے شعر میں ظلم و
ستم اور تیسرے میں ہجر کا دکھ بیان کیا جاتا ہے۔ اس طرح دل کے جذبات کا اظہار ،
ہجر و وصال کی کیفیت ، شکایت زمانہ، تصوف اورحقیقت و عرفان کے موضوعات سے بحث کی
جاتی ہے۔غزل کا دائرہ وسیع ہے اس میں آج کے دور میں ہر طرح کا موضوع ڈالا جاسکتا
ہے۔ اور اقبال کی شاعری میں تو غزل نے ایک نئی اکائی کی صورت جنم لیا ہے۔آج کے دور
میں بھی اس میں درخشاں تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ حالیؔ نے کیا خوب کہا ہے۔
ہے جستجو
خوب سے خوب
تر کہاں
اب ٹھہرتی ہے دیکھیے جا
کر نظر کہاں