ہمیں
ضرورت ہے اپنی اصلاح کی:
اس حقیقت کو جان
لینا اتنا مشکل کام ہے کہ تیر کمان سے
نکلا ہوا واپس آ جائے ۔ کائنات کی ساری الجھنیں اسی وجہ سے ہیں۔ ہر شخص دوسرے کو
غلط کہ کر خود میں فرشتہ بنا بیٹھا ہے۔ کسی دوسرے کی رائے اور فکر کو کتنے آرام
سے ہم غلط کہ دیتے ہیں اور اس کے بڑے سے
بڑے کام کو پاؤں تلے روند کر خاک میں ملا دیتے ہیں۔ کسی کے کام یا محنت کی قدر
کرنا ہم نے اس کے اپنے سے واقفیت اور تعلق کے ساتھ مشروط کر دیا ہے۔ میرٹ اور
حقیقت کو پسِ پشت ڈال کراگر اس کام کے کرنے والے کے ہمارے ساتھ تعلقات اچھے
ہیں تو ہم اس کی تعریف بھی کریں گے قدر بھی کریں گے اور اس کی حوصلہ افزائی بھی
کریں گے اگر بد قسمتی سے تعلقات اچھے نہ ہوں تو ممکن ہی نہیں کہ اس کا اچھے سے
اچھا کام بھی ہماری نگاہوں میں بھا جائے۔
ہر
انسان کے سوچنے ، سمجھنے ، دیکھنے ، سننے اور فیصلہ کرنے اور رائے قائم کرنے کی
صلاحیت مختلف ہے ہر ایک کے تجربات اور
معلومات مختلف ہیں جن کی بنا پر انسان رائے قائم کرتا ہے اور غلط صحیح اور نفع و نقصان کا فیصلہ کرتا ہے۔اصلاح اور
تربیت کا دروازہ اس وقت بند ہو جاتا ہے جب انسان خود کو دنیا کا عقلمند اور ہوشیار
انسان سمجھنے لگ جائے اور ہر بات کو حقیقت ِ حال جانے بغیر اپنے انداز میں دیکھ کر
اس پر ردِ عمل کا اظہار کرے اور اپنی رائے کو ہی سب سے اعلی اور اچھی رائے کہ
کر دوسروں کی رائے کو ہنس کر جاتا کرتا ہے۔
جب کسی انسان کی کیفیت ایسی ہو جاتی ہے تو اس پر نصیحت کاا ثر بہت کم ہوتا ہے یہاں تک کہ نصیحت کرنے والے کو بھی نادان کہ کر ٹال دیتا ہے۔
ضروری
امر:
سب سے پہلے اس حقیقت کا ماننا بہت ضروری
ہے کہ ہمیں اصلاح اور نصیحت کی ضرورت ہر وقت رہتی ہے۔ دوسری بات یہ کہ ضروری نہیں کہ
جو بات میرے نزدیک درست اور سود مند ہے وہ اوروں کے لیے بھی ویسے ہی نفع بخش ہو۔تیسری
بات یہ ہے کہ ہر بات میں منفی اور مثبت پہلو موجود ہوتے ہیں اب یہ بات بندے کی
ذہنی تربیت پر منحصر ہوتی ہے کہ وہ معاملہ کو کس رخ سے دیکھتا ہے۔
ایک
واقعے کا منظر:
ایک کمرے کے اندر ایک آدمی شور کی وجہ سے
کھڑکی بند کرواتا ہے۔ اور اس کے اپنے اوپر ایک پنکھا چل رہا ہوتا ہے ۔ ایک
دوسرا آدمی آتا ہے اسے بھی پنکھے کی طلب
ہوتی ہے جب وہ کھڑکیوں کو بند دیکھتا ہے تو جو پنکھا چل رہا ہوتا وہ بھی بند کر
دیتا ہے۔ جب پوچھا جاتا ہے کہ ایسا کیوں کیا تو جواب دیتا ہے کہ کھڑکیاں بند ہیں
اور باقی کچھ اور پنکھے بھی بند ہیں تو
یہ پنکھا بھی بند کر دیتے ہیں۔
چند
اہم سوال:
اس منظر میں کچھ سوال پیدا ہوتے ہیں کہ اس
شخص کو پنکھا چلانے کی حاجت تھی اب :
1: اس نے جو پنکھا چل رہا تھا اسے بند
کیوں کیا؟
2:اپنے ساتھ والی کھڑکی کیوں نا کھولی؟
3: دوسرا کوئی پنکھا کیوں نا چلایا؟
4: کسی ذمہ دار شخص سے کھڑکیوں اور پنکھوں
کے بند ہونے کی وجہ معلوم کیوں نا کی؟
یہ
چار سوال بڑے بنیادی سے ہیں جوبنا کسی تگ و دو کے عام ذہن میں ابھرتے ہیں ۔ اب ان سوالوں کے جواب
نفسیات کی زبان میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔۔۔۔۔ جیسا کہ اوپر کہا گیا اور ماہرینِ نفسیات کا
کہنا بھی یہی ہے کہ ہر انسان کی سوچنے سمجھنے اور فیصلہ و رائے قائم کرنے کی صلاحیت
مختلف ہوتی ہے ہر بندہ اپنے مخصوص انداز میں چیزوں کو سوچتا ہے اور ان پر رائے قائم کر کے اظہار کی کوشش کرتا
ہے۔اسی منظر کو دیکھا جائے اور اس کا تجربہ لوگوں پر کیا جائے تو لوگوں کا ردِ عمل
مختلف ہو گا ۔ کوئی آئے گا اور اپنے لیے ایک پنکھا چلا لے گا ، کوئی آئے گا وہ
کھڑکی کھول دے گا ، کوئی آئے گا اور اسی طرح
رہے گا ۔، نہ کھڑکی کھولے گا اور نہ ہی پنکھا چلائے گا ۔ یہ درج بالا چاروں
ردِ عمل مثبت ہیں اور ردِ عمل کے اظہار کرنے والے کی دماغی تربیت کا پتہ دیتے ہیں۔بعض
لوگ ہر بات کو منفی پیرائے میں سوچتے ہیں اور اس پر ردِ عمل کا منفی اظہار بھی
کرتے ہیں ۔ درج بالا منظر میں آدمی کا چلتے ہوئے پنکھے کو روکنا اور بند کرنا اس
کی ذہنی کیفیت کا پرتو ہے۔ وہ آدمی کسی مقابلہ بازی کا شکار ہے ، کسی حسد میں مبتلا
ہے ، نفرت کرتا ہے ۔ یہ بھی ممکن
ہے کہ اس کی ذہنی صلاحیت ہی اتنی ہے کہ وہ اس طرح سے ذمہ دار کو سبق سکھانا چاہتا
ہے ، اس بات سے در کنار کہ اس کی یہ حرکت
عام لوگوں یا اکثر لوگوں کے لیے بری ہو سکتی ہے ، اس نے اس وقت اپنے حساب سے سب سے
اچھا فیصلہ کیا ۔کان کو سیدھا پکڑنے کی بجائے الٹا پکڑنا بادیٔ النظر میں اچھا
نہیں سمجھا جاتا۔ہر بات کا اس کی حقیقت
جانے بغیر الٹ مطلب لینا یہ سب سے بڑی
غلطی ہوتی ہے اور عموما ً لڑائیاں اور فساد اسی کا نتیجہ ہوا کرتے ہیں۔
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You