اپنے
شیدائیوں سے نہ آنکھ چراؤ ، چھوڑو!
نہ
صنم آج نہ تم روٹھ کے جاؤ ، چھوڑو!
سر
ہلا کر مجھے کہہ دو کہ میں تمہارا ہوں
اس
بھری بزم میں دامن نہ چھڑاؤ ، چھوڑو!
جانے
کیا تجھ کو سمجھ کر تیرےدروازے پر
آ
کے جو بیٹھ گیا ہے نہ اٹھاؤ، چھوڑو!
پھر
اسی بات کاہے تذکرہ میخانے میں
ہو
گئی بات اسے بھول بھی جاؤ ، چھوڑو!
وہ
ستم گر نہیں چاہتا کہ نشاں باقی ہو
اے
عزیزو ! میری تربت نہ بناؤ ، چھوڑو!
لگ
گئی ہے اسے خاکِ درِ جاناں اے اسیرؔ
اب
جبیں غیر کے آگے نہ جھکاؤ ، چھوڑو!
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You