کئی
سو برس گزر گئے کہ یہ دنیا نبی آخرالزماں صلی اللہ علیہ والہ وسلم کے جسمانی دیدار سے محروم ہوچکی ہے مگر آج
بھی ہزاروں حدیث کی کتابیں پڑھیں اور دیکھیں کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ و سلم
آرہے ہیں جارہے ہیں، نصیحت فرما رہے ہیں، خوشخبریاں سنا رہے ہیں ،غلطیوں پر تنبیہ
فرما رہے ہیں، برائیوں سے روک رہے ہیں، بھلائیوں کی دعوت دے رہے ہیں ،کسی یتیم کے
سر پر ہاتھ پھیر رہے ہیں، کسی بڑھیا کا سودا خرید رہے ہیں، میدان جہاد میں لشکر کا
انتظام کر رہے ہیں ہاں ذرا کان لگا کر سنو شہنشاہ کونین صلی اللہ علیہ والہ وسلم
مالک حقیقی کی بارگاہ میں دعا مانگ رہے ہیں امت کے لئے استغفار فرما رہے ہیں یہ
حدیثِ رسول ﷺ کی دنیا کیا ہے؟ سرکار کے دربار کا پورے کا پورا نقشہ ہے ۔
اصول حدیث میں چند ایک
اصطلاحات جو زیادہ استعمال ہوتی ہیں:
محدثین
کی اصطلاح میں خاتم الانبیاء جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم کے قول
و فعل اور تقریر کو حدیث کہتے ہیں جو کچھ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے
زبان مبارک سے ارشاد فرمایا اس کو قول اور
جو عمل فرمایا اس کو فعل کہتے ہیں اور تقریر کا مطلب یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ
علیہ وسلم کے سامنے کوئی کام کیا گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کا
علم بھی ہوا مگر آپ نے اس سے منع نہیں فرمایا اس کو تقریر کہتے ہیں ۔
سندحدیث :
جو
لوگ حدیث کو روایت کرتے ہیں ان روایت کرنے والوں کے سلسلہ کو سند کہتے ہیں۔
حدیث
کی روایت کرنے والوں کے سلسلہ کے ختم ہونے کے بعد جہاں احادیث کا اصل مضمون شروع
ہوتا ہے اس کو متن حدیث کہتے ہیں ۔
حدثنا ابو اليمان قال اخبرنا شعيب قال حدثنا
ابو الزناد عن الاعرج عن ابي هريره ان
رسول الله قال والذي نفسي بيده لا يؤمن احدكم حتى اكون احب اليه من والده وولده
پہلا حصہ سند اور دوسرا
حصہ متن ہے۔
(صحیح بخاری باب حب رسول
من الایمان جلد نمبر 1)
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ
تعالی عنہ سے روایت ہے کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قسم ہے اس
اللہ کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں سے کوئی بھی ایماندار نہ ہو گا جب تک
میں اس کے والد اور اولاد سے بھی زیادہ اس کا محبوب نہ بن جاؤں۔
صحابی:
صحابی وہ ہیں جن کو ایمان کی حالت میں نبی صلی
اللہ علیہ وسلم سے ملاقات یا آپ کا دیدار نصیب ہوا اور ایمان پر ان کی وفات ہوئی
جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے تمام صحابہ عادل ہیں ان کے عادل ہونے کا
مطلب یہ ہے کہ جناب محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف جان بوجھ کر انہوں
نے کبھی کوئی غلط بات منسوب نہیں کی صحابہ کی مجموعی تعداد کے متعلق متعدد اقوال
میں سے مشہور ترین قول مشہور محدث ابوزرعہ رازی کا ہے فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی
اللہ علیہ وسلم کی وفات ہوئی تو 114000 صحابہ ایسے ملتے ہیں جنہوں نے آپ سے سماع کیا
بکثرت احادیث روایت کرنے والے صحابہ کرام چند ایک ہیں :
1:سیدناابوہریرہ انہوں نے
5374 احادیث روایت کیں اور ان میں سے 325 متفق علیہ ہیں۔ ان کے 300 شاگردہیں۔
2: سیدنا عبداللہ ابن عمر
انہوں نے 2630 احادیث روایت کیں۔
3: سیدنا انس بن مالک نے
2286 احادیث روایت کیں۔
4: ام المومنین سیدہ
عائشہ صدیقہ نے 2210 احادیث روایت کیں۔
5:سیدنا ابن عباس نے 1660
حدیث روایت کیں۔
6:سیدنا جابر بن عبداللہ
نے 1500 چالیس احادیث روایت کیں۔
تابعی:
وہ
ہیں جن کو بحالت ایمان صحابی کی ملاقات دیدار نصیب ہوا ہوںاور بحالت ایمان وفات بھی
ہوئی ہو
سعید بن مسیب سعید بن جبیر
رضی اللہ تعالی عنہ افضل ترین تابعی سعید بن مسیب ہیں اور افضل ترین تابعیہ حفصہ
بنت سیرین رحمھا اللہ ہیں
مخضرمین:
صحابہ
کرام علیہم اجمعین اور تابعین کے درمیان ایک طبقہ مخضرمین کا ہے یہ وہ لوگ ہیں
جنہوں نے دور جاہلیت اور دور اسلام دونوں کو دیکھا مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم سے شرف ملاقات حاصل نہ کرسکے ان کا شمار بڑے درجہ کے تابعین میں ہے خواہ وہ
عہد نبوی میں ایمان لائے ہو یا بعد میں جیسے اصحمہ نجاشی ابو عثمان نہدی ابو مسلم
خولانی ابوالرجاء العطاردی ان کی تعداد 20 سے کچھ زیادہ ہے ۔
تبع تابعی:
وہ
ہیں جن کو صرف تابعی سے بحالت ایمان ملاقات یا دیدار حاصل ہوا ہو مثلا سہیل ،عبداللہ،
محمد اور صالح یہ چاروں ابو صالح تابعی کے بیٹے ہیں۔
مرفوع :
جس
حدیث کی سند جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچتی ہو اس کو مرفوع حدیث
کہیں گے حدیث کا مرفوع ہونا کبھی بہت صاف اور واضح ہوتا ہے مثلا کہا جائے کہ رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اور کبھی صریح تو نہیں مگر صریح کے حکم میں
ہوتا ہے مثلا صحابہ اور تابعین کوئی ایسی بات نقل فرمائیں کہ بغیر رسول اللہ سلم
سے سنے ہوئے عقل و قیاس کے اصول اور اجتہاد سے وہ بات معلوم نہ ہو سکے مثلا آخرت
کے حالات عذاب قبر حشراجسادپل صراط جنت دوزخ وغیرہ۔
مثال: عن ابن
عمر رضي الله تعالى عنهما قال قال رسول الله صلى الله عليه واله وسلم بني الاسلام
على خمس حديث البخاري كتاب الايمان
سیدنا ابن عمر رضی اللہ
تعالی عنہ نے ارشاد فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ
اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے۔
حدیث موقوف:
جس
حدیث کی انتہا صحابہ کرام رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین تک ہو اس کو موقوف کہتے
ہیں جیسے سیدنا علی رضی اللہ تعالی عنہ کا فرمان ہے
موقوف کی مثال :حَدِّثُوا
النَّاسَ بِمَا يَعرِفُونَ اَتُحِبُّونَ اَن يُّكَذَّبَ اللهُ ورسولُه
بخاري باب من
خَصَّ بالعلم قوماً دون قوم
لوگوں کو وہ چیز بیان کرو
جسے وہ سمجھ سکیں کیا تم چاہتے ہو کہ اللہ تعالی اور اس کے رسول کو جھٹلایا جائے۔
مقطوع :
وہ
حدیث ہوتی ہے جس کی انتہا کسی تابعی تک ہو یعنی صحابی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ
وسلم کی طرف بیان کو منسوب نہ کیا گیا ہو۔
مقطوع کی مثال: قول حسن بصري ’’صَلِّ
وعليه بِدعَتُه‘‘ بخاری باب امامۃ المفتون و المبتدع
ترجمہ بدعتی کے پیچھے
نماز پڑھ لو اس کی بدعت کا وبال اسی پر ہو گا
اثر : حدیث موقوف اور مقطوع کو اثر کہتے ہیں کبھی
حدیث مرفوع کو بھی اثر کہتے ہیں اسی طرح امام طحاوی کے کتاب کا نام شرح معانی
الآثار اس میں مرفوع احادیث بھی ہیں
خبر :1:جمہور
علماء کے نزدیک خبر حدیث کے ہم معنیٰ ہے
2:خبر حدیث کی مخالف ہے حدیث وہ ہے جو نبی کریم
صلی وسلم سے منقول ہوکر آئے اور خبروںہ ہے جو غیر سے منقول ہوں۔
3:خبر حدیث سے عام ہے
یعنی حدیث وہ ہے جو نبی کریم صلی وسلم سے منقول اور خبر وہ ہے جو آپ سے منقول ہو
یا آپ کے سوا کسی اور سے گویا ہر حدیث خبر ہے مگر ہر خبر حدیث نہیں ہوتی یہ
حدیث اور خبر میں عموم خصوص مطلق کی نسبت ہوتی ہے۔
متواتر:
وہ حدیث
ہے کہ جس کو ہر طبقہ میں ایک بڑی جماعت نے روایت کیا ہو اور وہ جماعت اتنی زیادہ
ہو کہ ان سب کا جھوٹ پر اتفاق کر لینا ممکن نہ ہو روایت شروع سے آخر تک برابر پائی
جائے متواتر کی حسب ذیل چار شرائط ہیں
1: اس خبر کو کثیر تعداد
روایت کرے کم از کم دس اشخاص ہوں۔
2:یہی کثرت تمام طبقوں میں موجود ہو۔
3: عادت ان کے جھوٹ پر
متفق ہونے کو محال جانے ۔
4: خبر کا اعتماد صیغہ حس
پر ہو جیسے وہ کہیں ہم نے سنا ،ہم نے دیکھا، ہم نے چھوا ۔
جب متواتر کی تمام شرائط
پائی جائیں تو ایسی حدیث سے جو بات معلوم ہو گئی وہ یقینی ہوگی اور متواتر حدیث
میں روایت کرنے والوں کی تفتیش کی ضرورت نہیں ہوتی ۔ مثال قَالَ
النَّبِيّ صَلَّى الله عليه وسلم مَن كَذَبَ عَلَيَّ متَعَمِّدًا فَليَتَبَوَّا
مَقعَده مِنَ النَّارِ رواه بضعه وسبعون صحابيا(حدیث صحیح بخاری )
ترجمہ نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم نے فرمایا جس نے جان بوجھ کر کوئی جھوٹی بات میری طرف منسوب کی وہ اپنا
ٹھکانہ جہنم میں بنالے اس حدیث کو ستر سے کچھ اوپر صحابہ کرام نے بیان کیا ہے ۔
تعریف اخبار آحاد :
1: لغوی
تعریف احاد واحد کی جمع ہے جس کا معنی ہے ایک یعنی واحد اور خبر واحد وہ ہے جسے
ایک شخص روایت کرے
2: اصطلاحی تعریف جس میں متواتر حدیث کی
شرطیں جمع نہ ہوں یا جس نے متواتر کی شرطوں کو جمع نہ کیا ہو
خبر واحد کا حکم :یہ علم نظری کا
فائدہ دیتی ہے اور علم نظری سے مراد وہ علم ہے جس کا دارومدار غوروفکر اور نظروں
استدلال پر مبنی ہو
خبر آحاد کی سند کی نسبت کے
اعتبار سے اقسام اپنے عددطرق سندوں کی تعداد کے اعتبار سے خبر واحد کی تین اقسام
ہیں
1:مشہور2:
عزیز 3: غریب
مشہور:
وہ حدیث ہے جس کے ہر طبقہ میں کم از کم تین
روایت کرنے والے ہوں اور اس میں متواتر کی تمام شرطیں نہ پائی جائے یعنی تواتر کی
حد کو نہ پہنچے حدیث مشہور کو بعض مستفیض بھی کہتے ہیں۔
مستفیض: اس حدیث کو کہتے ہیں کہ اس کی سند کے دونوں
طرف برابر ہوں اور مشہور میں یہ شرط عائد نہیں یہ مشہور کے مترادف ہے
مشہور
حدیث کی مثال ان الله لا يقبض العلم انتزاعا ينتزعه من العباد ولكن يقبض العلم
بقبض العلماء صحیح بخاري
ترجمہ:
اللہ علم کو چھین لینے کی شکل میں نہیں
اٹھائے گا لیکن علماء کو موت دے کر علم اٹھائے گا۔
عزیز
:
وہ حدیث ہے جس کے ہر طبقہ میں کم از کم دو راوی
ہو اور اگر کسی طبقہ میں دو سے زائد ہو تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔
مثال:
ا ما رواه الشيخان من حديث انس والبخاري من حديث ابي هريره ان رسول الله
صلى الله عليه وسلم قال لا يؤمن احدكم حتى اكون احب اليه من والده وولده والناس
اجمعين (صحيح البخاري كتاب الايمان)
ترجمہ :
سیدنا ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے
کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک وہ مجھے اپنے والد اولاد اور تمام لوگوں
سے زیادہ محبوب نہ جانے۔
غریب:
و ہ حدیث
ہے جس میں روایت کرنے والا ایک ہی ہو خواہر طبقہ میں ایک ہو یا کسی طبقہ میں زائد
ہو جاۓ
حدیث غریب کو فرد بھی کہتے ہیں ۔ غریب
یا فرد کی دو اقسام ہیں
1:
فرد
مطلق وہ حدیث ہے جس کی سند میں صحابی سے روایت
کرنے والا تنہا ہوں دوسرے راوی تنہا تنہا ہو یا نہ ہو کبھی ایسا ہوتا ہے کہ فرد
مطلق کے تمام راوی یااکثر راوی تنہا ہوتے ہیں مسند بزار اور المعجم الاوسط میں اس
کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ مثال جیسے حدیث نھی النبی عن بیع
الولاءترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ولاء
کی بیع سے منع فرمایاہے ۔ اسے صرف حضرت
عبد اللہ بن دینار نے سیدنا ابن عمر رضی
اللہ تعالی عنہ سے روایت کیا ہے ۔
2:
فرد نسبی جس کی سند میں صحابی سے روایت کرنے والا نہیں
بلکہ اس کے بعد کا راوی منفردہو ۔ فرد
مطلق کو عمومافرد اور نسبی کو غریب کہا جاتا ہے۔ مثال : حديث مالک
عن الزهري عن انس ان النبي دخل
مكه وعلى راسه المغفر
ترجمہ:
سیدنا انس سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی
اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے اور آپ کے سر پر خول تھا۔
حدیث
آحاد کی دو اقسام ہیں1: مقبول اور2: مردود
مقبول
کی دو اقسام ہیں جن میں 1:محکم 2: مختلف
الحدیث
محکم
:
ٍ وہ حدیث ہے جس کی مخالف کوئی حدیث مقبول نہ ہو تو ایسی حدیث پر
عمل ضروری ہے صحاح ستہ وغیرہ میں اس کی بہت سی مثالیں موجود ہیں۔ كل
بيمينك وكل مما يليك (مسلم الاطعمه)
مختلف الحدیث :
ٍ وہ ہوتی ہے جس کی
مخالف دوسری حدیث موجود ہو مگر دونوں حدیثوں میں تطبیق ممکن ہو اس کو علم مختلف
الحدیث کہتے ہیں ۔ لا عدوى ولا طيره (صحيح مسلم باب لا
عدوى ولا طيره)کوئی بیماری متعدی نہیں اور فال بد لینا
درست نہیں۔
متعارض: من المجذوم كما تفر من الاسد (البخاري
باب الجذامي) جزام کی بیماری والے سے اس طرح بھاگ جس طرح
تو شیر سے بھاگتا ہے ۔یہ دونوں حدیثیں صحیح ہیں ان کا ظاہر آپس میں متعارض ہے
کیونکہ پہلی حدیث بیماری کے متعدی ہونے کی نفی کرتی ہے جبکہ دوسری حدیثاسے ثابت
کرتی ہے علماءحدیث
نے انہیں جمع کیا ہے اور ان کے معنوں میں متعدد طریقوں سے موافقت ڈالی ہے جس کا
خلاصہ یہ ہے کہ کوئی چیز کسی چیز کو متعدد نہیں بناتی اور آپ کا وہ فرمان بھی ہے
کہ جب آپ سے معارضہ کرتے ہوئے ایک اعرابی نے کہا کہ جب ایک خارشی اونٹ صحیح انٹوں
میں جاتا ہے تو وہ ان کو بھی خارش کر دیتا ہے تو آپ نے فرمایا کہ پہلےکو کس نے
بیماری لگائی تھی ۔مطلب واضح ہے کہ یقیناً اللہ تعالی نے ہی دوسرے اونٹ میں ابتداء
میں بیماری پیدا کی جس طرح اللہ تعالی نے پہلے اونٹ کو لگائی تھی ۔باقی رہی بات
مجذوم سے بھاگنے کے حکم کی تو یہ باب سد الذرائع سے ہے کہ ایسا نہ ہو کہ کوئی شخص اس کے پاس رہتا
ہے تقدیر من جانب اللہ اس وقت اس کو
بیماری لگ جاتی ہے تو وہ سمجھے گا کہ شاید اس نے مجھے بیماری لگائی ہے اور وہ
بیماری کے متعدی ہونے کا عقیدہ رکھ لے جس کی نفی کی گئی ہے ۔
حدیث آحاد میں سے مقبول حدیث کی مزید 4 اقسام حسب ذیل ہیں۔
الصحیح لذاتہ:
وہ حدیث ہے جس کے راوی
عادل کامل الضبط ، اس کی سند متصل ہو ، معلل و شاذ نہ ہو، ۔ اس موقع پر عادل، کامل
الضبط ، معلل اور شاذ نئی اصطلاحیں استعمال کی گئی ہیں ان کا مفہوم بھی ذہن نشین کر
لینا چاہیے۔
عادل:
عادل وہ ہے جو کبیرہ گناہ سے بچتا ہو اور ایسی باتوں سے بچتا رہے جس سے اس کے تقوی
پر دھبہ آتا ہو۔
کامل الضبط:
کامل الضبط راوی وہ ہے جو روایت کو خوب اچھی طرح یاد رکھے ۔ جب چاہے بے تکلف بیان
کر دے رکاوٹ نہ ہو۔
متصل:
اگر حدیث کے راویوں میں سے کوئی چھوٹ نہیں گیا تو اس حدیث کو متصل السندکہتے ہیں
معلل
: وہ راوی ہے جو اپنے وہم سے کچھ تغیر و تبدل کر دے۔
صحیح لذاتہ کی مثال: عن جبير بن مطعم
قال سمعت رسول الله قرا في المغرب بالطور (صحيح البخاري)
ترجمہ: سیدنا جبیر بن
مطعم رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے
سنا کہ آپ مغرب کی نماز میں سورۃ طور کی تلاوت فرما رہے تھے ۔
حکم: حدیث صحیح لذاتہ پرعمل کرنا واجب ہے۔
صحیح لغیرہٖ :
وہ
حدیث ہے جس میں صحیح لذاتہ کی تمام شرائط
پورے طور پر جمع نہ ہوں اگرچہ کثرت طرق نے
اس کمی کو پورا کردیا ہو ۔
مثال: عن زيد
بن خالد ان رسول الله قال لولا ان اشق على امتي لامرتهم بالسواك عند كل صلاه (سنن ابي
داود باب السواك)
ترجمہ: سیدنا زید بن خالد
سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر میری امت پر مشکل نہ
ہوتا تو میں انہیں ہر نماز کے وقت مسواک کا حکم دیتا۔
صحیح لغیرہٖ کا مرتبہ حسن
لذاتہ ہی سے بلند مرتبہ ہوتی ہے لیکن صحیح لذاتہ یا سے نچلے درجے پر ہوتی ہے۔
حسن لذاتہ:
وہ
حدیث ہے جس کے راویوں میں صرف ضبط ناقص ہو اور صحیح لذاتہ کی باقی دوسری شرائط
موجود ہوں۔
مثال: قال رسول
الله صلى الله عليه وسلم ان ابواب الجنه تحت ظلال السيوف
جامع
ترمذی
ترجمہ: جنت کے دروازے
تلواروں کے سائے تلے ہیں۔
حسن لغيره:
اگر
حدیث ضعیف میں تعدد طرق نے اس کے ضعف کے نقصان کو دور کر دیا ہے تو اس کو حسن لغیرہ
کہیں گے۔
مثال: عن عامر
بن ربيعه ان امراه من بني فراره تزوجت على نعلين فقال رسول الله رديتي من نفسك
ومالك بنعلين قالت نعم في اجازه (حسن صحیح الترمذي باب ما جاء في مهور
النسائي)
ترجمہ: بنو فزارہ کی ایک عورت نے دو جوتوں پر
نکاح کرایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تو اپنے بارے میں اس
حال پر راضی ہے اور خوش ہے تو وہ کہنے لگی ہاں تو آپ نے اس نے نکاح کو جائز قرار
دیا۔