خاموش ستاروں سے کچھ کہنے ہی دو
خود کلامی کی دنیا میں خوش رہنے ہی دو
رونے کا کہتے ہو کیوں، چپ بیٹھے ہیں جو
یہ راہِ الفت کا درد
سہنے ہی دو
اک جان ہے باقی ،تمہیں اور کیا چاہیے
رگِ جاں میں بس ، خون بہنےہی دو
بھری محفل میں رسوا کیا میرے ہمدم
جینے کا ساماں میرا کچھ رہنے ہی دو
مانا کہ سچ ہمارے جھوٹ سہی لیکن
آج سرِ شام یہ جھوٹ کہنے ہی دو
تیرے غم بنے میرا سرمایہءِ حیات
میرے پاس یہ سوغات رہنے ہی دو
مانا ہی کب تھا میری الفت کو تو نے
جنازہ ہے ارمانوں کا بس رہنے ہی دو
دہلیزِ لب معینیؔ بند رہنے ہی دو
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You