غمِ دو جہاں دیا ہے عنایت
ہے آپ کی
روتے پہ ہنس دیا ہے ظرافت
ہے آپ کی
تو نے جو رکھ دیا ہے دلِ
ناتواں بالائے طاق
کہہ دیا ہے اس پہ یہ کہ
حفاظت آپ کی
راہوں میں بیٹھ کر ہم
تکتے رہے تمہیں
منہ پھیر کر گزرنا عادت
ہے آپ کی
بے شک نہ بات ہم سے کرنا
سرِ بازار
نظریں اٹھا کے دیکھنا
سخاوت ہے آپ کی
پردہ کیا نہ ہم سے آئے
نہ رو برو
اشاروں سے کرنا باتیں
روایت ہے آپ کی
دو گھڑیاں ساتھ بیٹھ کے
دامن چھڑا لیا
یہ جو مدہوشیاں ہیں رفاقت
ہے آپ کی
معلوم
ہے معینیؔ کے دل کا جو حال ہے
تجاہل
یہ عارفانہ عادت ہے آپ کی
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You