حدیث
مقبول کے بعد حدیثِ مردود کے دو اسباب ہوتے ہیں جس وجہ سے ہم کسی بھی حدیث کو رد
کر سکتے ہیں یا
انکار کر سکتے ہیں۔
۱:
راوی کا سند سے حذف ہونا
۲:
راوی میں طعن ہونا
منقطع: اگر ایک یا متعدد راوی متفرق مقام سے چھوٹ
گئے ہو تو اس حدیث کو منقطع کہتے ہیں۔
حکم:
علماء کا اتفاق ہے کہ حدیث ضعیف ہوتی ہے۔مدلس:
اس کی صورت یہ ہے کہ راوی اپنے شیخ کا نام
نہ لے بلکہ اس سے اوپر کا نام لے حالانکہ اس سے حدیث نہیں سنی مگر الفاظ ایسے استعمال
کر رہا ہے کہ اوپر والے راوی سے سننے کا شبہ ہو رہا ہے۔
مثال: قال لنا بن عییمہ عن الزھری فقبل لہ
سمعتہ من الزھری فقال لا: و لا ممن سمعہ من الزھری حدثنی عبد الرزاق عن معمر عن
الزھری۔
معلوم ہوا کہ ابن عیینہ نے اس مثال میں اپنے اور
زہری کے درمیان سے عبدالرزاق اور معمر دو راویوں
کو حذف کیا ہے۔
تدلیس کا حکم:
جس کے متعلق
ثابت ہوجائے کہ وہ تدلیس کرتا ہے تو اس کی
روایت قبول نہیں لیکن اس کا ثقہ ہونا یقینی طور پر معلوم ہو تو روایت مقبول ہوگی۔
معلق:
اگر
راوی شروع سند سے چھوٹا ہے تو اس کو معلق کہیں
گے۔ جیسے امام بخاری نے باب ما یذکرفی الفخذ کے آغاز میں ذکر کیا ہے۔وقال ابو
موسى غطى النبي صلى الله عليه وسلم على ركبتيه حين دخل عثمان
یہ معلق حدیث ہے کیونکہ امام بخاری نے صحابی ابو موسی کے علاوہ اس کی مکمل سند کو حذف
کردیا۔
معلق کاحکم:
جو
محدثین ہمیشہ لازمی طور پر صحیح احادیث بیان کرتے ہیں اور وہ یقین کے ساتھ تعلیقات
کو بیان کریں تو یہ تعلیق قبول ہے۔ اگر غیر یقینی صورت سے بیان کریں یا جو محدیثین
صحیح اور غیر صحیح سب روایت کرتے ہیں تو انکی تعلیقات مقبول نہیں۔
مرسل: جس حدیث میں صحابی کا نام حذف ہو۔ جیسے کوئی تابعی فرمائے
قال رسول اللہ ﷺ
مثال:
عن سعيد ابن المسيب عن رسول الله
نهى عن بيع المزابنه مسلم
کتاب البیوع
ترجمہ:
رسول اللہ ﷺ نے بیع مزابنہ سے منع فرمایا ہے۔
مرسل
خفی: وہ
حدیث جس کا راوی اپنے ایسے ہمعصر سے روایت کرے جس سے اس کی ملاقات ثابت نہ ہو یا
اس کی ملاقات تو ثابت ہے لیکن جو حدیث بیان
کر رہا ہے وہ اس سے نہیں سنی تاہم وہ ایسا لفظ بولتا ہے جس میں سماع اور عدم سماع کا
احتمال ہو جیسے قال اور ذکر وغیرہ وغیرہ۔
مثال: عمر بن عبد العزيز عن عقبه بن عامر مرفوعا
بیان کرتا ہے۔ رحم الله حارس الحرس
ابن ماجه كتاب الجهاد
ترجمہ:
اللہ رحم فرمائے اسلام کے چوکیداروں کی پہرے داری کرنے والے پر۔
معضل: جس کی سند میں دو یا دو سے
زائد راوی ایک ہی مقام سے چھوٹ گئے ہوں اس
کو معضل کہتے ہیں۔
مثال:
للمملوك طعامه و كسوته بالمعروف ولا يكلف من العمل الا ما يطيق معرفه
علوم الحديث للحاكم ص ۴۶
ترجمہ:
سیدنا ابوہریرہ فرماتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا غلام کو معروف
کے مطابق کھانا اور لباس دینا چاہئے اور اس سے اس کی طاقت کے مطابق
کام لینا چاہیے۔ یہ حدیث معضل ہے کیونکہ اس کے سند میں امام مالک اور سیدنا ابوہریرہ
کے درمیان مسلسل دو راوی محمد بن
عجلان اور اس کا والد عجلان حذف ہیں اس میں
مسلسل دو راویوں کا سقوط ہمیں مؤطا کے علاوہ دوسرے مصادر سے معلوم ہوا جو اس حدیث کی
سند میں پے در پے دو راوی ساقط ہیں۔ صحیح سند اس طرح ہے:
عن مالك عن محمد بن عجلان عن ابيه عن ابي هريره
حکم:
معضل حدیث ضعیف ہے اور یہ حدیث مرسل اور حدیث منقطع سے خستہ
اور بری حالت میں ہے۔
کسی
حدیث کے ناقابل عمل ہونے کا دوسرا سبب طعن ہے
اور طعن کئی طرح سے ہوتا ہے مثلا:
کذب: یعنی جان بوجھ کر جناب رسول
اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے کوئی جھوٹی بات بیان کرے جس حدیث کا راوی قصداً
جھوٹ بنا کر بیان کرے اس حدیث کو موضوع کہتے ہیں۔
مثال: سر اج ا متى ابو
حنيفه و على خير البشر و من شك فيہ کفر( تیسیر مصطلح الحدیث ص ۹۰)
ترجمہ: ابوحنیفہ میری امت کے چراغ ہیں اور جو علی
خیر البشر ہے اور اس کی خیرالبشر ہونے میں شک کرے وہ کافر ہے۔
حکم:
یہ حدیث ضعیف روایات میں سے سب سے بری اورقبیح
قسم ہے۔
متروک: راوی ایسی روایت بیان کریں
جو قواعد شریعہ کے خلاف ہو یا دنیوی باتوں میں اس کا جھوٹا ہونا ثابت ہوجائے جس حدیث
کا راوی ایسا ہو تو اس کو متروک کہتے ہیں۔
مثال:
عمرو بن شمر الجعفي الكوفي الشيعي عن جابر عن ابي الطفيل عن علي و عمار قالا
كان النبي صلى الله عليه والہ و سلم یقنتُ في الفجر ويكبرُ يوم عرفه من صلاه
الغداه ويقطع صلاه العصر اخر ايام التشريق۔ (تیسیر
مصطلح الاحدیث عربی ص ۹۳،۹۴)
ترجمہ:علی
اور عمار نے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر میں قنوت پڑھتے تھے اور عرفہ
کے دن صبح کی نماز سے تکبیر پڑھنا شروع کر دیتے اور ایام تشریق کے آخری دن عصر کی نماز
پر ختم کر تے تھے۔
امام
نسائی اور دار قطنی وغیرہ نے عمرو بن شمر
شیعی کو متروک الحدیث کہا ہے۔
مرتبہ
و مقام: یہ بات لکھی جاچکی ہے کہ ضعیف حدیث کی سب سے بری قسم موضوع ہے اس کے بعد متروک ہے پھر منکر ہے پھر معلل
ہے۔ پھر مدرج پھر مقلوب پھر مضطرب۔ حافظ ابن حجر نے یہی ترتیب بیان کی ہے۔
جہالت راوی:
راوی
کا حال معلوم نہ ہو کہ وہ معتبر ہے یا غیر معتبر۔ اگر راوی کا نام ہی معلوم نہیں تو اس کی حدیث قابل قبول نہیں
اگر راوی کا نام تو معلوم ہے مگر اس کا نام
لے کر ایک ہی روایت کی گئی ہے تو وہ روایت بھی قابل اعتماد نہیں ہاں البتہ اگر کسی
نقاد نے اس کو معتبر بتلایا ہے تو قابل قبول
ہوگی۔ اور اگر اس کا نام لے کر ایک سے زائد نے روایت کی ہے مگر کسی نے اس کی توثیق
نہیں کی تو جمہور کے نزدیک جب تک اس کا ثقہ ہونا معلوم نہ ہو جائے تو اس کی حدیث مقبول
نہ ہوگی۔
جہالت
کے حسب ذیل تین اسباب ہیں:
1:
راوی کی صفات کا زیادہ ہونا:
نام کنیت لقب صفت پیشہ یا نسب ان سب میں سے کسی کے
ساتھ مشہور ہونا۔مثلاً محمد بن سائب بن بشر الکلبی بعض نے دادا کی طرف منسوب کرتے ہوئے
محمد بن بشر بعض نے محمد بن سائب اور بعض نے
ابوالنضر بعض نے ابوسعید اور بعض نے ابو ہشام کہہ دیا۔ یہ راوی بظاہر یوں معلوم ہوتا
کہ ایک بڑی جماعت ہے حالانکہ اکیلا اور واحد ہے۔
2:
قلت روایت راوی کی مثال: ابو العشراء الدارمی، تابعین میں سے ہے ان سے حماد بن سلمہ کے علاوہ کسی
نے بیان نہیں کیا۔
3:
نام کی عدم صراحت : مثال راوی کا یوں کہنا مجھے خبر دی فلاں نےیا
شیخ نے یا رجل وغیرہ نے۔
مجہول کی تعریف:
وہ راوی جس کی ذات یا اس کی شخصیت اور وصف معلوم
معروف نہ ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ راوی جس کی ذات اور شخصیت معلوم ہو لیکن عدالت اور ضبط میں سے کوئی وصف بھی
معلوم نہ ہو۔
مجہول
کی اقسام : مجہول کی تین اقسام ہیں؛
مجہول
العین: وہ راوی جس کا نام ذکر کیا جائے لیکن اس سے روایت کرنے والا صرف ایک راوی ہو
۔
حکم: اس کی روایت غیر مقبول ہے ہاں اگر اس کی توثیق
و تعدیل کی جائے تو مقبول ہوگی۔
مجہول الحال:
اس
کو مستور بھی کہا جاتا ہے وہ راوی جسے بیان کرنے والے دو یا زیادہ ہوں لیکن اس کی
توثیق و تعدیل بیان نہ ہو۔ روایت کا حکم مردود
اور غیر مقبول ہے۔
مبہم : وہ راوی جس کا نام حدیث میں واضح اور
صراحت سے بیان نہ ہو
حکم:
غیر
مقبول ہے مگر ہاں جب اس کا شاگرد اس کے نام کے صراحت کردے تو مقبول ہوگی اگر شاگرد تعدیل و توثیق کے الفاظ
سے ابہام کرے راوی کو مبہم رکھے اور یوں کہے کہ مجھے فلاں ثقہ نے خبر دی یا مجھے
فلاں عاد ل نے خبر دی تو صحیح اور درست قول کے مطابق اس کی روایت قبول نہیں ہوگی۔
ثقہ:
ثقات کی مخالفت کی کئی اقسام ہے اس کی دو بڑی اقسام ہیں۔
1:ادراج: راوی متن
حدیث میں کوئی چیز اس طرح بڑھادے کے اصل
حدیث اورا س کی زائد عبارت میں کوئی
امتیاز نہ رہے۔ جان بوجھ کر ایسا کرنا حرام ہے اور اس کو ادراج کہتے ہیں۔ سیدنا ابو
ہریرہ ؓ سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ
والہ وسلم نے فرمایا: اسبغوا الوضوء ويل للاعقاب
اس حدیث میں اسبغوا الوضوء
مدرج کلمہ ہے جیسا کہ صحیح بخاری میں واضح اور ظاہر ہے محمد بن زیاد ابوہریرہ سے روایت
بیان کرتا ہے اسبغوا
الوضوء فان ابا القاسم صلى الله عليه واله وسلم قال ويل للاعقاب
سیدنا ابو ہریرہ ؓ نے فرمایا وضوء مکمل اور
پوری طرح کرو کیوں کے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے فرمایا خشک ایڑیوں والوں
کے لئے آگ سے ہلاکت اورویل ہے (ویل جہنم کی وادی کا نام ہے)۔
مدرج
کا حکم: محدثین اور فقہاء وغیرہ علماء کے اجماع کے مطابق
ادراج حرام ہے۔ لیکن جو غریب اور مشکل الفاظ کی تشریح کے لئے ہو وہ اس حکم سے مستثنیٰ
ہے۔
اضطراب :
راوی سندھ میں یا متن میں اس طرح تبدیلی کردے کہ کسی کو ترجیح نہ دی جاسکے۔ اس کو اضطراب کہتے ہیں۔
مضطرب المتن کی
مثال: عن فاطمه بنت قيس قالت في سوق الى رسول الله صلى
الله عليه واله وسلم عن الزكاه فقال ان في المال لَحَقّاً سوی الزكاۃ۔ ترجمہ: سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے زکوۃ کے بارے میں
پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا زکوۃ کے علاوہ بھی مال میں حق ہے۔ اور امام ابن ماجہ نے
اس حدیث کو اسی سند سے بیان کیا ہے مگر اس
کے الفاظ یوں ہیں لیس فی المال حق سوی الزکوۃ
ترجمہ: زکوۃکے سوا مال میں کوئی حق نہیں۔ امام
عراقی فرماتے ہیں یہ ایسا اضطراب ہے جس میں کسی تاویل کا احتمال نہیں۔
مضطرب سند کی مثال :
سیدنا ابو بکر صدیق ؓ کی طرف منسوب حدیث : انه قال يا رسول
الله اراك شبت قال شب شيبتني هود واخواتها (رواہ الترمذی فی
التفسیر)
سیدنا
ابوبکرصدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں اللہ کے
رسول میں دیکھتا ہوں کہ آپ بوڑھے ہو گئے ہیں آپ نے فرمایا مجھے سورہ ھود اور اس جیسی
دوسری سورتوں وغیرہ جن میں قیامت کا نقشہ اور احوال ذکر ہیں نے مجھے بوڑھا کر دیا ہے۔
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
ReplyDeleteامید ہے کہ آپ بخیر آفیت سے ہونگے