اسے
جوکرنا تھا سو وہ کرتا چلا گیا
فصل
خزاں تھا ، پتا تھا گرتا چلا گیا
دل
غم زدہ تھا ہمارا ، اسے کیا مطلب
وہ
تھوڑا پریشان تھا سو کہتا چلا گیا
اک
آنسو بچا کے رکھا تھا وقتِ رخصت کیلیے
یاد
آنے پہ ان کی وہ بھی بہتا چلا گیا
سن
سن کے درد میرے آسماں بھی کیسے رویا
موسم
برسات کی مانند روتا چلا گیا
پھٹ
جائے گی زمیں جو سن امیرا حالِ دل
اک
دل ہے جو زخم پہ زخم سہتا چلا گیا
دردِ
الفت بھی ہے کیسا شیریں یارو!
چاندچاندنی
بن کر میرے گھراترتا چلا گیا
آنکھوں
کی دہلیز پہ انہوں نے قدم جو رکھے ساجدؔ
اک
پر سکوں سمندر تھا بپھرتا چلا گیا
15/02/2009
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You