حیرت
عشق نہیں شوق جنوں گوش نہیں
بے حجابانہ چلے آؤ مجھے ہوش نہیں
رند
جو مجھ کو سمجھتے ہیں انہیں ہوش نہیں
میکدہ ساز ہوں میں میکدہ فرموش نہیں
کہہ
گئی کان میں آکر تیرے دامن کی ہوا
صاحبِ ہوش وہی ہے کہ جسے ہوش نہیں
کبھی
ان مد بھری آنکھوں سے پیا تھا اک جام
آج تک ہوش نہیں ہوش نہیں ہوش نہیں
محو تسبیح تو سب ہیں مگر ادراک کہاں
زندگی
خود ہی عبادت ہے مگر ہوش نہیں
مل
کے جس دن سے گیا ہے کوئی اک بار جگر
مجھ
کو یہ وہم ہے جیسے میرا آغوش نہیں
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You