نہ
تو بت کدے کی طلب مجھے نہ حرم کے در کی تلاش ہے
جہاں
لٹ گیا ہے سکونِ دل اسی رہ گزر کی تلاش ہے
میرے
ذوقِ سجدۂِ بندگی کو عطا ہوئی ہے وہ بے خودی
تیرے
سنگِ در پہ پہنچ کے بھی تیرے سنگ ِدر کی تلاش ہے
تو
حرم میں جس کو ہے ڈھونڈتا مجھے بتکدے میں وہ مل گیا
تجھے
کیا ملال ہے زاہدا یہ نظر، نظر
کی تلاش ہے
اے
طبیب ہٹ جا پرے ذرا میں مریضِ عشق ہوں لا دوا
مجھے
جس نے درد عطا کیا
اسی چارہ گر کی تلاش ہے
اسے
پا سکے کہ نہ پا سکے یہ نظر نظر کی تلاش ہے
جو
کسی بھی راہ میں کھو گئی مجھے اس نظر کی تلاش ہے
مجھے
سب قبول فلک مگر غمِ دوست مجھ سے طلب نہ
کر
اسے
کیسے دل سے جدا کروں میری عمر بھر کی تلاش ہے
نہ
نگاہِ لطف کی آبرو نہ تیرے کرم کی ہے جستجو
تیرے
نقشِِ پا کی قسم مجھے تیری راہ گزر کی تلاش ہے
تیرے
غم کو دل
سے بھلا سکوں مگر اس خیال کو کیا کروں
کہ
یہی متاع ِحیات ہے یہی عمر بھر کی تلاش ہے
کہ
وہ ہیں مقام جس جگہ جو امیر صابری کھو گیا
نہ رہی ہے جلوے کی آرزو نہ ہی جلوہ گر کی تلاش ہے
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You