در
فرید میں جو سر جھکائے جاتے ہیں
جبینِ
شوق کے سجدے لٹائے جاتے ہیں
کرم
کی بات ہے عقل و خرد کی بات نہیں
مقامِ
سخت ہے نا لب ہلائے جاتے ہیں
ہماری
بزم اور اس بزم میں ہے فرق اتنا
وہاں
چراغ یہاں دل جلائے جاتے ہیں
یہ
کہہ آگ وہ دل میں لگائے جاتے ہیں
چراغ خود نہیں جلتے جلائے جاتے ہیں
کہیں
یہ پھولوں کی چڑھتی ہیں ڈالیاں دیکھیں
یہاں
پہ عاشقوں کے دل جلائے جاتے ہیں
امیر
صابری ہوں تو گناہ گار مگر
کرم
ہے ان کا لگی کو نبھائے جاتے ہیں
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You