اللہ رب العزت نے ہمیں اس دنیا میں بھیجا ور ساتھ سامان
دیا۔ ہمیں نفس دیا، دل دیا ، روح دی اور
ہمیں عقل دی تو یہ سارا سامان دیا۔ جس کے ساتھ ہماری زندگی چلتی ہے۔ کچھ چیزیں نفس
کے زریعے ہوتی ہیں کچھ چیزیں روح کے ذریعے
کچھ عقل کے ذریعے اور کچھ دل کے ذریعے۔ جسم آیا تو جسم تو خاک میں چلا جائے گا
اور باقی چیزیں اللہ کے ہاں چلی جائیں گی ، جب آپ قبر میں رکھیں گے میت کو تو جسم
خاک سے آیا تھا اور خاک میں چلا جائے گا ۔مل کے، گھل کے ختم ہو جائے گا ۔ روح اللہ کی طرف سے
آئی تھی اللہ کی طرف جانا ہے۔ آپ ایک روح پر ہی توجہ مرکوز کر لیں تا کہ سمجھنا
آسان ہو جائے۔ جسم اور روح دو چیزیں ہیں جسم آ پ آنکھوں سے دیکھتے ہیں آپ مٹی میں رکھ آتے ہیں وہ مٹی میں مٹی ہو
جاتا ہے اور روح خاک نہیں ہوتی وہ اللہ کی طرف چلی جاتی ہے۔تقوی کا معنی یہ ہے کہ
اللہ تعالی چاہتا ہے کہ اے میرے بندے جب میں نے تجھے دنیا میں بھیجا تو اپنی طرف
سے روح دی تھی تجھے و نفخت فیہ من روحی۔ میں نے اپنی طرف سے روح دی تھی تمہیں۔تمہارے اندر روح
پھونکی تھی ۔ تقوی یہ ہے کہ جو روح میں نے تجھے جس حال میں دی تھی اسی حال میں
مجھے واپس لوٹا۔اسے کرپٹ کر کے داغدار کر کے، تاریک کر کے نا لوٹا،خراب کر کے نا
لوٹا۔ جس طرح روشن ، منور ، مزین ، پاکیزہ، طاقت ور، میرا ذکر کرتی ، چمکتی، دمکتی
روح میں نے تیرے اندر ڈالی تھی میری روح
یعنی میرا سامان مجھے اسی حال میں لوٹا جس حال میں میں نے تجھے عطا کیا تھا ۔ جو
بندہ اس روح کو اسی حال میں بر قرار رکھے جس حال میں اللہ سے لی تھی اس حال میں
پلٹائے یہ اصلِ تقوی ہے۔
مثال کے طور آپ نے
کسی سے کار یا موٹر سائیکل لی تو یہ قاعدہ اور کلیہ ہے کہ جس حال میں لی تھی اسی
حال میں اسے واپس کی جائے حتی کی اس کی
ٹینکی میں پیٹرول اور ڈیزل بھی اتنا ہی ڈلوا کے واپس کیا جائے۔اور اگر اس کا کوئی
نقصان ہو جائے اکسیڈینٹ ہو جائے تو اس کے بدلے میں اس کا خرچ اس کو ادا کرتے ہیں
اور اس کے نقصان کو پورا کرتے ہیں بس وہ نقصان کو پورا کرنا اور رقم کی ادائیگی یا
اس گاڑی کی ڈینٹنگ پینٹنگ ہی عذاب ہوتا ہے۔
مالک سے جو چیز آپ لیتے ہیں استعمال کے لیے تو قاعدہ یہ ہے
کہ اسی حال میں چیز اس کو لوٹاتے ہیں۔ اگر خراب ہوتی ہے تو اس پر جرمانہ ہوتا ہے
اس کا معاوضہ دینا ہوتا ہے ۔ اسی طرح اے بندے اللہ نے تمہیں عقل دی پاکیزہ جوہر کے
طور پر اس کو آپ نے گندہ کر دیا خراب کر
دیا ، اس کو مکار بنا دیا ، عیار بنا دیا، اس کو بے ایمان بنا دیا تو اللہ قبول
نہیں کرے گا فرمائے گا میں نے یہ ایسی عقل
تو نہیں دی تھی ،مجھے اس حا ل میں پاکیزہ عقل لوٹا، جس حال میں پاکیزہ روح دی تھی
اسی حال میں لوٹا ، جس حال میں نفس دیا تھا اسی حال میں لوٹا ، جیسا روشن دل دیا
تھا اسی طرح منور دل لوٹا ،لہذا جس بندے کو یہ فکر رہے کہ یہ چیزیں اللہ نے مجھے
امانت کے طور پر دی ہیں میں تو کرائے دار ہوں ، میں تو بس استعمال کر رہا ہوں اللہ
نے استعمال کے لیے دی ہیں اللہ نے مجھے اس کا مالک نہیں بنایا ، اگر مالک ہوتے تو
جیسے چاہتے غلط، صحیح استعما ل کرتے کوئی
پوچھنے والا نہیں تھا ، مگر ہم تو کسی چیز کے مالک ہی نہیں ہیں۔ ہمیں تو امانت دی ہے
استعمال کرنے کے لیے مالک تو اللہ ہے جس نے دیا اسی کو جانا ہے یہ مانا ہے اس جملہ
قرآنی کا
اناللہ واناالیہ راجعون
ہم اس جملے کو استعمال کرتے ہیں صرف موت کے لئے، کہ ہم اللہ
کی طرف سے آئے اللہ کے لیے تھے اور اللہ کی طرف لوٹ کے جانا ہے۔ ہم نے استعمال موت
کے ساتھ کر دیا اگر موت سے نکال کر اس کو زندگی پر استعمال کیا جائے کہ ہم اللہ کی
طرف سے آئےاور اللہ کی طرف ہی پلٹ کر جانا ہےتو تقویٰ نصیب ہو جائے۔ اللہ کی طرف سے
آئے تھے اور اللہ کی طرف ہی لوٹ کر جانا ہے
تو چونکہ اللہ کی طرف پلٹ کر جانا ہے تو ہر چیز کو اللہ دیکھے گااے بندے میں نے تمہیں
آنکھیں دی تھیں آنکھیں کیسے استعمال کیں، کان دیے تھے کیسے استعمال کئے، دل کو کیسے
رکھا، نفس کو کیسے رکھا، عقل کو کیسے رکھا، ظاہر و باطن کو کیسے رکھا، مالک کو ہر چیز
جانی ہےلہذا اس دنیا میں استعمال کرتے ہوئے ہر چیز کا خیال رکھیں کہ اللہ کی ملکیت
ہے اس کو بگڑنے نہ دیں نا ظاہر کو نا باطن کو۔ اگر یہ اس حال پر برقرار رکھنے کی فکر
آجائے تو اس کو ہی تقوی کہتے ہیں۔
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You