الحمد للہ رب العالمین
و الصلاۃ والسلام علی اشرف الانبیاء و المرسلین۔و علی آلہ و اصحابہ اجمعین۔
کرونا وائرس : ایک مسلمان ہونے کی
حیثیت سے ہمارا عقیدہ ہے کہ یہ، اللہ کے عذاب میں سے ایک عذاب بھی ہو سکتا اور اللہ تعالی کی آزمائشوں میں
سے ایک آزمائش بھی ہو سکتی ہے۔دونوں صورتوں میں اللہ تعالی کی طرف رجوع کرنا
استغفار کا کثرت کرنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔ یہ کیوں پھیلتا ہے ، کیسے پھیلتا
ہے، کیا کھایا ، کیا نہیں کھایا کہ جس کی
وجہ سے یہ بیماری پھیلی ایک مسلمان کو یہ ساری بحثیں زیب نہیں دیتیں۔ بس ضروری ہے
کہ ہم اللہ تعالی کی طرف سچے دل سے مخلص ہو کر رجوع کریں اور اپنے گناہوں کی معافی
مانگیں۔
اللہ تعالی کا امر ہو کر رہتا ہے اللہ
تعالی کی مرضی ، اور اس کے حکم کے سامنے انسان کی ساری تدبیریں ناکام و نا مراد
ہوتی ہیں ۔ مگر جہاں تک تعلق احتیاطی تدابیر کرنے کا حکم ہے تو ہمیں رسول اللہ ﷺ
کی تعلیمات اور فرامین سے واضح ہدایات ملتی ہیں ۔ یہاں پر ایک تذبذب کی سی صورت یہ ہے کہ اللہ جل شانہ کی تقدیر یعنی اس کی قضا ء اور تدبیر کرنے کو اکثر ملایا
جاتا ہے ،تو یاد رہے یہ دونوں الگ الگ عنوان ہیں جیسے موت اللہ تعالی کا حکم اور
قضاء ہے مگر ایک بیمار آدمی کے لیے علاج معالجہ کا اہتمام کرنا یہ تدبیر ہے ۔اب
اگر بیمار کو چھوڑ دیا جائے اورعلاج نا کروایا جائے یہ کہا جائے کہ موت تو آ کر رہے گی یا شفاء
اللہ کی طرف سے اگر ملنی ہے تو مل جائے گی تو یہ بھی تعلیماتِ اسلامیہ کے خلاف ہے۔
اللہ تعالی کی ذات پر بھروسہ کرنا اور تدبیر اختیار نہ کرنا رسول اللہ ﷺ نے اس سے
منع فرمایا جیسے : ایک آدمی آیا اس سے
رسول اللہ ﷺ نے پوچھا سواری کا کیا کیا تو عرض کیا کہ میں اسے کھلا چھوڑ آیا ہوں اللہ پر توکل کر کے،
تو رسول اللہ ﷺ نے ارشادفرمایا یہ توکل نہیں پہلے اس کو باندھو پھر اللہ تعالی پر
توکل کرو ۔ تو اس روایت یہ امر واضح ہوا کہ احتیاطی تدابیر لینا یہ اسلامی تعلیمات
میں ایک اہم معاملہ ہے۔
اس کرونا بیماری کے حوالے سے لوگوں میں یہ الجھن پائی جاتی ہے
کہ لوگوں سے ملنے کو کیوں منع کیا جا رہا
ہے، مساجد سے کیوں روکا جا رہا ہے، سلام اور مصافحہ کرنے سے منع کیا جا رہا ہے،
طواف کو روک دیا گیا، جمعہ اور مذہبی اجتماعات پر پابندی لگا دی گئی ، لوگوں کے
سماجی اجتماعات پر پابندی لگا دی گئی ، ایسا کیوں کیا جا رہا جبکہ رسول اللہ ﷺ نے
ارشاد فرمایا کہ کوئی بیماری متعدی نہیں ہے کہ ایک انسان سے دوسرے انسان کو لگ
جائے ایسا نہیں ہے تو یہ بیانیہ مذہبی طبقہ کی طرف سے ہی پیش کیا جا رہا ، جبکہ
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ رسول اللہ ﷺ کی سنت کے مطابق ہم لوگوں کو نصیحتیں کرتے
نظر آتے جیسے مدینہ میں رات کے وقت ایک گھر میں آگ لگ گئی تو صبح رسول اللہ ﷺ نے
لوگوں کو بڑے پیارے انداز میں نصیحت فرمائی کہ رات کو آگ بجھا کر سویا کرو، کیا
محبت اور درد ہے ان الفاظ میں اور کیا محبت کے امت سے۔
جہاں تک بات متعدی ہونے یا نہ ہونے کی تو وبا کے معاملے میں
رسول اللہ ﷺ کی احادیث مبارکہ پیش خدمت ہیں:
فاِذا کان بِارض
و انتم بھا فلا تخرجوا منھا و اذا بلغکم انہ بارض فلا تدخلوا ھا (مسلم)
ترجمہ:
پس جب یہ (طاعون) وبا کسی علاقے میں پھیل جائے اور تم اس میں موجود ہو تو اس علاقے
سے باہر نہ جاؤ اور اگر تم اس سے باہر ہو اور تمہیں معلوم ہووبا کا تواس شہر میں
داخل نہ ہو۔
ایک
اور متفق علیہ حدیث پاک میں ہے رسول اللہ ﷺ نےا رشاد فرمایا : اِ ذا سمعتم بہ بارض
فلاتقدموا علیہ (مسلم
و بخاری)
یعنی
جب تم سنو کہ کسی علاقے میں وبا پھیل گئی ہے تو اس علاقے کی طرف نہ جاؤ۔
درج بالا احادیث میں رسول اللہ ﷺ کے واضح
ارشادات ہیں کہ نہ اس علاقے میں جاو اور نا وہاں سے نکلو۔ نکلنے اور داخل ہونے سے
کیوں منع کیا جا رہا ہے ۔ یہ بات ضرور غور سے سمجھیں اور سوچیں کہ کیوں۔۔۔۔۔۔۔
ایک
حدیث پاک یہ بھی ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد
فرمایا : لاعدوی ولا طیرۃ ترجمہ: بیماری
کا لگنا یعنی متعدی ہونا اور بد شگونی لینا لغو کام ہیں۔
صحیح حدیث پاک کی تعلیم ہے کہ کوئی مرض اڑ کر یا ایک سے
دوسرے کو نہیں لگتا۔ اس حدیث پاک میں بیماری کے متعدی ہونے کی نفی کی گئی ہے مگر
جب ہم جدید دور میں میڈیکل کی ترقی یافتہ شکل میں اس چیز کو دیکھتے ہیں تو ہمیں
پتہ چلتا ہے کہ بہت سی ایسی بیماریاں ہیں مثلا چیچک، خارش، جذام، منہ اور بغل کی
بو، اور آشوبِ چشم وغیرہ ایسی بیماریان ہیں جو ایک سے دوسرے کو منتقل ہو جاتی
ہیں۔ اب یہاں ایک الجھن یہ پیدا ہوتی ہے کہ ہم رسول اللہ ﷺ کے فرمانِ عالی شان کو
جھٹلا نہیں سکتے اور دوسرے طرف ایک چیز جسے آج انسان اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہے
وہ بھی حقیقت ہے اب ان دونوں صورتوں میں کیا
کیا جائے؟۔
دراصل یہ حدیثِ پاک جس میں فرمایا
گیا ’’لاعدوی‘‘ (کوئی چھوت چھات
نہیں) اس حدیث پاک میں اس باطل عقیدے کا
رد کیا گیا ہے کہ ایک بیمار کے پاس بیٹھنے
سے یا پاس رہنے سے دوسرا تندرست
آدمی بھی بیمار ہو جاتا ہے ۔ چونکہ اسلام کا نقطہ نظر یہ ہے کہ بیماری اور شفاء
اللہ تعالی کی طرف سے ہوتی ہے اور اسی بات کو راسخ کرنے کے لیے فرمایا گیا ہے کہ
کوئی چھوت کی بیماری نہیں ہوتی بلکہ سب بیماریاں اللہ تعالی کی طرف سے ہوتی ہیں۔
لیکن اس بات کی نفی نہیں کی گئی کہ ایک بیماری کے اسباب کی وجہ سے دوسرے تندرست کو
بیماری لگ جائے جیسےبخاری شریف میں ہے رسول
اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : بیمار اونٹوں والاشخص اپنے اونٹوں کو ہمارے تندرست
اونٹوں کے قریب نہ لائے۔ اسی طرح ایک اور حدیث پاک میں ہے کہ ’’ جذام
کے بیماری والے سے اس طرح بھاگو جیسے شیر سے بھاگتے ہو‘‘ اور اسی طرح ابتداء
میں ذکر کی گئی احادیث میں کہ نہ
شہر سے نکلو اور نہ باہر والے شہر میں داخل ہوں ان احادیث میں ان اسباب (جرثوموں) سے بچنے کی تلقین ہے جن سے بیماری لگ سکتی ہے۔ تو ان وبائی
بیماریوں میں احتیاط کرنا اور ان وبائی بیماریوں والوں سے بچنا اور احتیا ط برتنا بھی عین اسلامی تقاضا ہے ۔
اختتامیہ: جن احادیث میں نفی کی گئی ہے وہاں عقیدہ کی اصلاح
مقصود تھی کہ سب بیماریاں اللہ تعالی کی طرف سے ہوتی ہیں اگر اللہ چاہے تو بیماری کو نہ پھیلنے دے اور جن
احادیث میں بچنے کی تلقین کی گئی ہے وہاں ان اسباب سے بچنے کی تلقین کی گئی جن سے
بیماریاں پھیلنے کا خدشہ ہوتا ہے۔
محمد سہیل عارف معینیؔ
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You