اصلاحِ معاشرہ کے لیے سورہ حجرات میں بیان کردہ
رہنما اصول:
1: فتبینوا:
چھان بین کرنا، تحقیق کرنا۔ یعنی
جو بھی انسان کو خبر ملے اس کو مان اور
یقین کرنے سے پہلے خوب تحقیق کی جائے۔ ہو سکتا ہے کوئی حاسد دو بھائیوں ، دوستوں ،
رشتہ داروں کے درمیان دراڑیں ڈالنا چاہتا ہو اور اگر اس کی خبر کی بنا تحقیق تصدیق
کر دی جائے اور یقین کر لیا جائے تو لڑائی جھگڑا فتنہ و فساد کا دروازہ بڑی آسانی
سے کھل جاتا ہے۔ عموماً یہ بات دیکھنے میں آئی ہے کہ لڑائی جھگڑے کے بعد جب بات
کھل کر سامنے آ جاتی ہے تب کہتے ہیں مجھے تو یہ بات فلاں آدمی نے بتائی تھی مجھے اس نے یوں یوں کہا تھا اور معلوم ہوتا ہے
کہ وہ بات سرے سے تھی ہی نہیں۔اللہ تعالی فرماتا ہے کہ تحقیق کر لیا کرو یوں نہ ہو
کہ تمہیں بعد میں اپنے کیے پر پچھتانا پڑے۔
2:فاصلحوا:
صلح کروا دو، اصلاح کر دو۔ جب کہیں لڑائی
جھگڑا اور فتنہ و فساد نظر آئے تو بجائے اس فتنہ کو ہوا دینے کی غرض سے یا فریقین
میں سے ہر ایک کی نظر میں اپنی اہمیت اور قرب پانے کے لیے دوسرے کے بارے میں غلط
باتیں کی جائیں جس سے ایک فریق کے دل میں دوسرے کے بارے میں نفرت اور زیادہ ہو
جاتی ہے اور یوں لڑائی اور جھگڑا طول پکڑ جاتا ہے۔ اللہ تعالی فرماتا ہے کہ جب
دو فریق جھگڑ پڑیں تو ان کے درماین صلح
کروا دو اصلاح کر دو اور اگر کوئی ایک دوسرے پر زیادتی کرے تو اس پر اتنی ہی سختی
کی جائے جتنی اس نے کی ہے نہ کہ اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے۔ اصلاح اسی میں ہے۔
3: واقسطوا:
اور انصاف کرو۔ بہت طویل مضمون ہے کہ
انصاف کرو۔ مثلاً اپنی اولاد کے درمیان، بہن بھائیوں کے درمیان، دوست احباب کے
درمیان، اپنے ملازمین کے درمیان ، کہیں لڑائی جھگڑے کا معاملہ ہو تو فیصلہ کرنے
میں انصاف کیا جائے۔ جب انسان کا جھکاؤ ایک طرف ہوتا ہے تو دوسرے پلڑے میں پڑے
بھائی، بہن، رشتہ دار، ملازمین، ماں باپ، میاں بیوی المختصر کوئی بھی ہو تو اس کے
دل میں وسوسے پیدا ہوں گے غیر یقینی کی کیفیت پیدا ہو گی اور انتشار پیدا ہو گا
فتنہ و فساد کو ہوا ملے گی۔ لہذا انصاف بہت ضروری ہے۔
4: لا یسخر:
مذاق نہ اڑاؤ۔ ایک دوسرے کا مسخرہ نہ
بناؤ۔ یہ بہت بڑا فتنہ ہے کہ انسان اپنے بھائی کا مذاق بنائے اسے حقیر جانے اس کی
بات کا مسخرہ بنائے اللہ فرماتا ہے کہ ایک دوسرے کا ٹھٹھہ نہ بناؤ یعنی ایک دوسرے
کو حقیر نا جانو۔ معاشرے میں بگاڑ کی ایک بہت بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ انسان دوسرے کو
حقیر سمجھتا ہے اور اس کی بات کو اہمیت نہیں دیتا اور یوں دوسرے میں احساس کمتری
اور فریسٹریشن پیدا ہوتی ہے اور منفی خیالات پیدا ہوتے ہیں جس سے لڑائی جھگڑا فتنہ
و فساد کا دروازہ کھل جاتا ہے۔ لہذا ایک دوسرے ٹھٹھہ نہ بنایا جائے۔
5: ولاتلمزو:
ایک دوسرے کو طعنہ نہ دو۔ہر انسان اللہ
تعالی کی مخلوق ہے اللہ تعالی نے ہر کسی کی خلقت میں فرق رکھا ہے صورت و رنگ وغیرہ سب کے مختلف ہیں۔ مال و دولت کی تقسیم
اللہ تعالی نے کی ، معاشرے میں انسان کی حیثیت میں فرق رکھے ہیں تو سب کچھ اللہ
تعالی کی طرف سے ہے جب انسان تکبر کا شکار ہوتا ہے تو یہ صورت حال پیدا ہوتی ہے کہ
انسا ن ایک دوسرے کو اپنی حیثیت ، مال و متاع
اور اعمال کی وجہ سے طعن و تشنیع کرتا اور اپنی برتری کا اظہار کرتا ہے تو اس سے منع
کیا گیا ہے تا کہ مساوات پیدا ہوں اور لوگوں میں محبت اور پیار بڑھے۔
6: ولا تنابزوا بالاقاب:۔
ایک دوسرے کو برے القاب سے نہ پکارو۔ یہ
بھی عموماً ایک دوسرے کا مذاق اڑانے کے لیے، تحقیر کرنے کے لیے غلط غلط القابات سے
پکارا جاتا ہے یا نام کو بگاڑ کر پکارا جاتا ہے۔ تو اس سے منع کیا گیا ہے۔ کہ ایک
دوسرے کو برے ناموں سے برے القابات سے نہ پکارا جائے بلکہ ارشاد باری تعالی ہے: اے
حبیب آپ میرے بندے کو فرما دیجیے اچھی بات کہو۔کیوں کہ شیطان تمہارے درمیان جھگڑا پیدا کرنا چاہتا بے شک شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔ (سورہ بنی
سرائیل آیہ 53)۔ باتوں کے ذریعے شیطان کا کام آسان ہو جاتا ہے ۔
7: لایغتب:۔
غیبت نہ کرو۔ یہ ایک بہت بڑا ناسور ہے جس
نے ہر فتنے کا دروازہ کھول رکھا ہے اور معاشرے میں چغل خوری، جھوٹ، افراتفری،
بے حیائی جیسی بیماریوں کا عام کر رکھا ہے۔ غیبت
سے منع کیا گیا ہے اب سوال اہم یہ ہے کہ غیبت کیا ہے۔ جب کوئی کسی دوسرے بارے میں
بات کرتا ہے تو کہتا ہے کہاس میں یہ گناہ موجود ہے میں اس کے سامنے بھی کہ سکتا
ہوں ، اسے میرے منہ پر لاؤ ، یعنی اس قسم کی باتیں کرتے ہیں تو جان لیں کہ یہی
غیبت ہے کہ ایک کا گناہ دوسرے کے سامنے بیان کیا جائے وہ گناہ جو اس میں پایا جاتا
ہے ۔ اس سے منع کیا گیا۔ قرآن مجید نے غیبت کرنے کو مردہ بھائی کے گوشت کھانے سے
مترادف کہا ہے۔
8: لاتجسسوا:
ایک دوسرے کی ٹوہ میں نہ پڑے رہو۔ تجسس نہ
کرو۔ جاسوسی نہ کرو۔ یہ کہ انسان اپنی بھائی کے عیب ٹٹولنے میں لگا رہے اور اس کی
ذات میں عیب تلاش کرتا رہے ۔ انسان خطا کا پتلا ہے ہر انسان میں کوئی نہ کوئی کمزوری پائی جاتی ہے ۔ تو بجائے دوسروں کی
غلطیاں انسنا ڈھونڈے ، اسے اپنی ذات میں فکر کرنی چاہیے اور اپنی اصلاح کا کوشش
کرے جب ہر انسان اپنی اصلاح کرے گا تو کسی دوسرے کی طرف توجہ کرنے کی ضرورت نہیں پڑے
گی۔
9: اجتنبوا کثیر ا من الظن:
بہت زیادہ گمان باندھنے سے بچو۔ اللہ
تعالی نے اکثر گمانوں کو گناہ قرار دیا ہے ۔ جب انسان برے گمان اپنے اندر پیدا کر
لیتا ہے تو اس سے بہت سے معاشرتی بیماریاں پیدا ہوتی ہیں مثلاً غیبت، چغلی، تجسس،
جھوٹ وغیرہ کیوں کہ انسان سب سے پہلے تصور اور خیال باندھتا ہے اور پھر عمل کی طرف راغب ہوتا ہے اس
طرح گمان عمل کی پہلی سیڑھی ہے۔ تو اللہ تعالی نے فرمایا کہ بہت زیادہ گمان نہ
باندھو ان میں اکثر گناہ ہوں گے اور تم گناہ کی طرف راغب ہو جاو گے ۔ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا میں اپنے بندے کے
گمان کے قریب ہوں وہ مجھے جیسا گمان کرتا میں اس کے ساتھ ویسے ہی عمل کرتا ہوں
جیسا وہ مجھ سے گمان باندھتا ہے۔
ماحاصل:
اللہ تعالی نے سورہ حجرات میں معاشرتی اصلاح کے لیے درج بالا اہم اصول عطا فرمائے کہ جن پر من و عن عمل کر کے ہر قسم کی
معاشرتی بیماریوں سے جان جھڑائی جا سکتی مگر ضرورت عمل کی ہے کہ ہم ان کو اپنائیں
تا کہ معاشرہ ایک فلاحی معاشرہ کا روپ دھار لے جس میں انصاف ، عدل، یگانگت،
اپنائیت، پیار ، محبت، احساس، ایثار وغیرہ کے جذبات پیدا ہوں۔
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You