امت
مسلمہ کے جمیع
مکاتب فکر کا یہ مسلمہ اجماع کہ جو مسئلہ بھی قرآن و سنت یا صرف قرآن یا سنت سے
ثابت ہو جائے اس پر عمل واجب ہوتا ہے۔ وہ احادیث جو اس برأت کی رات کی فضیلت کو
اجاگر کرتی ہیں بہت سے صحابہ کرام سے مروی ہیں ان میں حضرت سیدناابوبکرصدیق ،سیدنا
مولا علی مرتضی، ام المومنین عائشہ صدیقہ،عبداللہ بن عمر وبن العاص ،معاذ بن جبل ،ابوہریرہ
،ابو ثعلبہ بن مالک ،ابو موسی اشعری ،عثمان بن ابی العاص کے نام شامل ہیں۔ سلف
صالحین اور اکابر علماء کے احوال سے پتہ چلتا ہے کہ اس رات کو عبادت کرنا ان کے
معمولات میں سے تھا ،لیکن بعض لوگ اس رات عبادت ،ذکر اور وعظ و نصیحت پر مشتمل
محافل منعقد کرنے کوبدعت ضلالہ کہنے سے بھی نہیں ہچکچاتے، جو سراسر احادیث نبویہ کی
تعلیمات کے خلاف ہے ۔ذیل میں شب برات کی فضیلت اور اس میں اہتمامِ عبادت کا احادیث
مبارکہ کی روشنی میں جائزہ لیا جاتا ہے اس کے ساتھ ان احادیث مبارکہ کی اسانید کا
مطالعہ کرتے ہوئے ان کی ثقاہت بھی واضح کی جائے گی انشاء اللہ:
1: عن ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہ قال : قال رسول
اللہ ﷺ اذا کان لیلۃ النصف من شعبان ینزل اللہ تبارک و تعالی الی سماء الدنیا
فیغفر لعبادہ الا ماک کان من مشرک او مشاحن لاخیہ ( مسند بزار حدیث
نمبر80)
حضرت ابوبکر صدیق رضی
اللہ تعالی عنہ سے مروی ہے جب ماہِ شعبان کی پندرہویں رات ہوتی ہے تو اللہ تبارک و
تعالی آسمان دنیا پر اپنے شان کے مطابق نزول فرماتا ہے پس مشرک اور اپنے بھائی سے
عداوت رکھنے والے کے سوا اپنے سارے بندوں کی بخشش فرمادیتا ہے۔
وضاحت:
ابوبکر احمد بن عمرو المعروف بزار نے اپنی مسند میں لکھا ہے کہ ’’ اہل علم نے اس
حدیث کو روایت کیا ہے نقل کیا ہے اور اس پر اعتماد کیا ہے لہذا ہم نے اس کو ذکر کر
دیا‘‘ اس کے علاوہ ہیثمی نے مجمع الزوائد
میں لکھا کہ ابن ابی حاتم نے اپنی ’’کتاب الجرح و تعدیل‘‘ میں ذکر کیا ہے اور اس کو ضعیف نہیں کہا جو اس
کے حجت ہونے پر دلالت ہے جبکہ اس کے باقی راوی ثقہ ہیں۔
2: عن علی قال رسول
اللہﷺ: اذا کانت لیلۃ النصف من شعبان فقوموا لیلھا و صوموا نھارھا فان اللہ ینزل
فیھا لغروب الشمس الی سماء الدنیا فیقول : الا من مستغفر لی فاغفر لہ، الا مسترزق
فارزقہ؟ الا مبتلی فاعافیہ؟ الا کذا؟ الا کذا؟ حتی یطلع الفجر۔ (سنن ابن
ماجہ باب ما جاء فی لیلۃ النصف من شعبان)
حضرت
علی رضی اللہ تعالی عنہ فرماتے ہیں حضور نبی کریم علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد
فرمایا جب شعبان کی پندرہویں رات ہو تو تم اس کی رات کو قیام کرو اور اس کے دن کو
روزہ رکھو بیشک اللہ تعالی اس رات اپنی شان کے مطابق غروب آفتاب کے وقت آسمان دنیا
پر نزول فرماتا ہے تو وہ کہتا ہے کیا کوئی مجھ سے مغفرت طلب کرنے والا نہیں ہے؟ کہ
میں اسے بخش دوں ۔کوئی رزق طلب کرنے والا نہیں ہے؟ کہ میں اسے رزق دوں۔ کوئی بیماری
میں مبتلا تو نہیں ہے؟ کہ میں اسے عافیت دوں۔ کوئی ایسا نہیں؟ کیا کوئی ویسا نہیں؟
یہاں تک کہ طلوع فجر ہوجاتی ہے۔
وضاحت: اس حدیث میں ابن ابی سبرہ کے علاوہ تمام راوی
ثقہ ہیں
3:
ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا فرماتی ہیں کہ ایک رات میں نے
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پایا۔ میں آپﷺ کی تلاش میں باہر نکلی تو دیکھا کہ آپ آسمان کی
طرف اپنا سر اٹھائے ہوئے جنت البقیع میں تشریف فرما ہیں آپ ﷺنے فرمایا کیا تجھے ڈر
ہوا کہ اللہ اور اس کا رسول تم پر ظلم کرے گا۔ میں نے عرض کیا یارسول اللہ مجھے
گمان ہوا کہ آپ کسی دوسری زوجہ کے ہاں تشریف لے گئے ہیں تو آپ نے فرمایا :
ان اللہ عزّ و جل ینزل
لیلۃ النصف من شعبان الی السماء الدنیا فیغفر لاکثر من عدد شعر غنم کلب۔(مسند احمد بن حنبل )
ترجمہ: یقینا اللہ جل شانہ شعبان کی پندرہویں رات آسمان
دنیا پر نزول فرماتا ہے پس وہ بنو کلب کی بکریوں کے بالوں سے بھی زیادہ لوگوں کو
بخش دیتا ہے۔
I.
وضاحت:
حجاج بن ارطاۃ کو محدثین نے مدلس کہا ہے لیکن
اس سے حدیث لینا جائز قرار دیا ہے ۔ ( معرفۃ الثقات 1:284)
II.
سیوطی
نے اس کو بعض رواۃ سے احادیث لینے کی بناء پر حافظ شمار کیا ہے۔ (طبقات
الحفاظ 88)
III.
یحی
بن ابی کثیر کوعجلی اور ابنِ حبان نے ثقہ اور ایوب نے زہری کے بعد اہل مدینہ میں
سے حدیث کو سب سے زیادہ جاننے والا یحی کو قرار دیا ہے اورعروہ بن زبیر سے اس کی
سماعت پر اختلاف کیا گیا ہے۔ یحییٰ بن معین نے اس کی سماعت کوعروہ سےثابت کیا ہے ۔
(جامعہ تحصیل 1: 299)
اہل اصول اور فقہا کرام
نے ایک متفقہ قاعدہ بیان کیا ہے کہ:
المثبت مقدم علی النافی (شرح
عمدۃ الحکام)، (عسقلانی فتح الباری)
ترجمہ: مثبت منفی پر مقدم ہوتا ہے ۔ لہذا ابن معین
کے قول پر عمل کرتے ہوئے یحی کی سماعت کو عروہ سے درست کہا جائے گا۔
4: عن عبد الله بن عمرو
ان رسول الله صلى الله عليه واله وسلم قال يطلع الله عز وجل الى خلقه ليله النصف
من شعبان فيغفر لعباده الا لاثنین: مشاحن وقاتل نفس ۔( المسند :احمد بن
حنبل حدیث نمبر6335)
ترجمہ:
حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ
علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا ماہ شعبان کی نصف
شب کو اللہ تعالی اپنی مخلوق کی طرف متوجہ ہوتا ہے پس وہ اپنے بندوں کو معاف کر
دیتا ہے سوائے دو لوگوں کے سخت کینہ رکھنے والے اور قاتل ۔
امام
ہیثمی نے مجمع الزوائد میں کہا ہے کہ اس روایت میں ابن لہیعۃ ہے جو کہ لین الحدیث ہے۔
عبداللہ بن ابن لہیعۃ بن عقبہ المصری کو سیوطی
نے طبقات الحفاظ میں ذکر کیا اور کہا کہ امام احمد وغیرہ نے اسے ثقہ اور یحییٰ بن سعید القطان وغیرہ نے ضعیف کہا
ہے۔
5:
عن معاذ بن جبل عن النبیﷺ قال : يطلع الله الى خلقه في ليله النصف من شعبان فيغفر
لجميع خلقه الا لمشرك او مشاحن۔(ابن حبان حدیث نمبر 5665)
ترجمہ:
حضرت معاذ بن جبل سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ماہ
شعبان کی نصف شب کو اللہ تعالی اپنی مخلوق کی طرف متوجہ ہوتا ہے پس وہ مشرک اور
بغض رکھنے والے کے سوا اپنی تمام مخلوق کو بخش دیتا ہے ۔
امام
ہیثمی نے مجمع الزوائد میں کہا ہے کہ اس روایت کو طبرانی نے المعجم الکبیر و الاوسط میں روایت کیا ہے اور ان کے رجال ثقہ ہیں۔
6:
درج بالا الفاظ کے ساتھ یہ حدیث حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
اذا کان لیلۃ النصف
من شعبان یغفر اللہ لعبادہ الا لمشرک او مشاحن۔ (مسند بزار)
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے مروی ہے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ
وسلم نے ارشاد فرمایا ماہ شعبان کی نصف شب اللہ تعالی اپنے بندوں کو معاف کر دیتا
سوائے شرک کرنے والے اور بغض رکھنے والے کے ۔
امام
ہیثمی نے مجمع الزوائد میں کہا ہے کہ اسے بزار نے روایت کیا ہے اور اس میں ایک راوی
ہشام بن عبدالرحمن کو میں نہیں جانتا اس کے باقی راوی ثقہ ہیں۔
7:
حضرت ابو ثعلبہ سے روایت
ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ رب العزت شعبان کی پندرہویں
رات کو اپنے بندوں پر مطلع ہوتا ہے اور وہ حاسد کو ان کے حسد میں چھوڑ دیتا ہے یہاں
تک کہ وہ اسے ترک کر دیں۔(طبرانی حدیث نمبر 590)،(
ابن ابی عاصم السنۃ حدیث نمبر 511)
ہیثمی
نے مجمع الزوائد میں اس کے ایک راوی احوص بن حکیم کو ضعیف کہا ہے۔
شیخ
محمد ناصر الدین البانی نے اپنی کتاب ’’ ظلال الجنۃ فی تخریج سنن ابن ابی عاصم‘‘ میں اس حدیث کے بارے میں کہا ہے کہ یہ حدیث صحیح
ہے اور احوص بن حکیم جو کہ ضعیف الحفظ ہے کہ سوا تمام راوی ثقہ ہیں۔
8:
ترجمہ:حضرت
عثمان بن ابی العاص سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب
شعبان کی پندرہویں رات ہوتی ہے تو منادی ندا دیتا ہے کہ کوئی مغفرت طلب کرنے والا
ہے کہ میں اسے بخش دوں کیا کوئی سوال کرنے والا ہے کہ میں اسے عطا کروں زانیہ اور
مشرک کے سوا ہر سوال کرنے والے کو عطا کردیا جاتا ہے ۔(بیہقی
شعب الایمان حدیث نمبر 38)
خلاصہ بحث:
اس بحث کو درجہ نقاط میں سمیٹا جا سکتا ہے
1 : تمام احادیثِ مبارکہ سے شب برات کی فضیلت و
خصوصیت اجاگر ہوتی ہے اور اس شک و شبہ کا قلع قمع ہوتا ہے کہ اس باب میں تمام احادیث
ضعیف ہیں۔ ہر دن سے یہ نتیجہ اخذ ہوا ہے کہ تمام احادیث ایک دوسرے سے تقویت پا کر
حسن کے درجے پر فائز ہیں نمبر سب سے اہم بات یہ ہے کہ شب برات پر احادیث کو روایت
کرنے والے صحابہ کرام کی سطح تک تعداد حد تواتر تک پہنچتی ہے لہٰذا اتنے صحابہ کا
کسی مسئلہ پر احادیث روایت کرنا ہے ضعیف بھی ہوں تو محدثین کرام نے خود اس بات کی
تصریح کی ہے کہ ضعیف احادیث متعدد طرق سے تقویت پا کر حسن کے درجے پر فائز ہوتی ہے
نمبر تیسرا اہم قاعدہ محدّثین نے اپنی کتابوں میں یہ درج کیا کہ فضائل میں
بالاتفاق ضعیف روایات بھی قابل قبول ہو جاتی ہیں جب کہ شب برات پر احادیث ہنسنا
مروی ہیں
علامہ ابن تیمیہ نے اس
رات میں عبادت اور قیام پر لکھا ہے ابن تیمیہ سے نصف شعبان میں نفل نماز ادا کرنے
کے بارے سوال کیا گیا تو انہوں نے کہا کہ جب کوئی بھی انسان نے سب شعبان کی رات کو
اکیلا یا جماعت کے ساتھ نماز پڑھے جیسا کہ صرف میں سے بہت سارے گھروں اس کا اہتمام
کرتے تھے تو یہ بہت خوب ہے اچھا ہے
حافظ ابن رجب حنبلی لکھتے
ہیں کہ شعبان کی پندرھویں شب کو اہل شام کے تابعین خالد بن معدان علاوہ دیگر اثرات
کی تعظیم کرتے تھے اور اس میں بے حد عبادت کرتے وہ اس رات مسجد میں قیام کرتے اس
پر امام اسحاق بن راہویہ نے ان کی موافقت کی ہے اور کہا ہے کہ اس رات کو مساجد میں
قیام کرنا بدعت نہیں ہے لطائف المعارف 263۔