اے
میرے ہم نشیں چل کہیں اور چل اس چمن میں اب اپنا گزارانہیں
بات
ہوتی گلوں کی تو سہہ لیتے ہم اب تو کانٹوں پہ بھی حق ہمارا نہیں
تم
ابھی آئے ہو اور چلے جاؤ گے یہ طبیعت کو اپنی گوارا نہیں
عمر
بھر کا سہارا بنو تو بنو چار دن کا سہارا ، سہارا نہیں
جانے
کس کی لگن کس کی دھن میں مگن جا رہے تھے مگر مڑ کے دیکھا نہیں
میں
نے آواز پر ان کو آواز دی پھر بھی کہتے ہیں مجھ کو پکارا نہیں
چمن
والوں کو جب بھی ضرورت پڑی خون ہم نے دیا گردنیں پیش کیں
پھر
بھی کہتے ہیں مجھ کو یہ اہلِ چمن یہ چمن ہے ہمارا تمہارا نہیں
جوش
دریا میں تھا اس قدر الاماں اونچا ساحل سے طوفاں کا دھار آ گیا
اس
کو کہتے ہیں قسمت کی ناکامیاں پہلے کشتی گئی پھر کنارہ گیا
بڑے
نازوں سے پالا تھا میں نے اسے ایک انداز میں اس نے لے ہی لیا
آپ
ہنستے رہے میں تو روتا رہا آپ کا کیا گیا دل ہمارا گیا
آج
ناداں نا جانے کہاں کھو گیا کوچے کوچے میں اس کو ہے ڈھونڈا مگر
دوستوں
سے جو پوچھا توکہنے لگے وہ حسینوں کی
گلیوں میں مارا گیا
آسماں
پھٹ گیا عرش ہلنے لگا آج میدان میں اتار آ گیا
آج
محفل میں ہل چل سی کیوں ہے مچی نام کافر کا شاید پکارا گیا
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You