منم بہ خانہ تن اینجا و جاں بجائے دگر
بہ دل توئی و سخن بر زباں بجائے دگر
میرا جسم یہاں پر ہے
اور جان کسی اور جگہ پر ہے دل میں تو ہی تو ہے اور زباں پر بات کسی اور جگہ کی ہے
بہ بوستاں رَوَإ ازغم ، ولے چہ سود کہ ہست
دلم بجائے دگر ، بوستاں بجائے دگر
غم کی وجہ سے میں باغ
میں چلا جاتا ہوں ، لیکن کیا فائدہ کہ میرا دل تو کسی اور جگہ ہے اور باگ کسی اور
جگہ ہے
کجا بہ کوئے تو ماندِ نسیمِ باغِ بہشت
زمینست جائے دگر، آسماں بجائے دگر
جنت کے باغ کی ہوا
تیرے کوچے کی مانند کس طرح ہو سکتی ہے کہ زمین کسی اور جگہ ہے اور آسماں کسی اور جگہ ہے
نشاں زکوئے تو پرسند و من ز بس غیرت
تو جائے دیگر و گویم نشاں بجائے دگر
تیرے کوچے کا پتہ مجھ
سے پوچھتے ہیں اور میں غیرت کی وجہ سے کسی اور جگہ کا پتہ بتا دیتا ہوں جبکہ تو ہے
کسی اور جگہ ۔
مگو کہ یارِ دگر کن ، کنم اگر بینم
لطافتے کہ تو داری ہماں بجائے دگر
یہ مت کہہ کہ کوئی اور
دوست بنا لے، میں بنا ہی لوں اگر دیکھوں تیرے جیسی لطافت کسی اور جگہ
بگو، چگونہ تواں گفت زندہ خسرو را
کہ او بجائے دگر ماند و جاں بجائے دگر
تو خود ہی بتا کہ خسرو
کو کس طرح زندہ کہا جا سکتا کہ وہ تو کسی
اور جگہ ہے اور اس کی جان کسی اور جگہ ہے
Allama Sohail Arif Moeeni sb...Good efforts.
ReplyDeletemay Allah bless you