قدرت کی تقسیم:
پروفیسرصاحب، آپکے کتنے بچے
ہیں؟ میں نے کہا ‘‘تین’’۔
انہوں نے پھرپوچھا’’انکی عمریں
کیاہیں؟میں نے جوا ب دیا ’’نوسال،سات سال اورتین سال‘‘۔
یہ سن کر انہوں نے کہا ’’
پھر تو یقیناآپ یونیورسٹی سے واپسی پر ان کے لیے کچھ نہ کچھ لے کرجاتے ہوں گے؟‘‘ میرے
اثبات میں جواب دینے پر انہوں نے پھر استفسار کیا ’’آپ ان چیزوں کو ان میں کیسے تقسیم
کرتے ہیں؟
میں نے کہا ’’میرا ایک بیٹا
اور دو بیٹیاں ہیں اور چونکہ بیٹا بڑا ہے اس لیے میں اپنی لائی ہوئی تمام چیزیں اس
کے حوالے کر دیتا ہوں اوراس سے کہتا ہوں کہ انہیں آپس میں بانٹ لو‘‘۔
یہ سن کر انہوں نے فرمایا
’’پروفیسرصاحب،اگر آپ کو کسی دن یہ پتا چلے کہ آپکاصاحبزادہ آپکی لائی ہوئی چیزیں آپکی
ہدایت کے مطابق تقسیم نہیں کرتا یا انہیں بانٹنے میں انصاف سے کام نہیں لیتاتوآپ کیا
کریں گے؟
میں نے ہنستے ہوئے کہا’’ اگرکبھی
ایسا ہوا تو ا سکا حل تو بہت آسان ہے، میں اگلی بار اس کو صرف اسی کا حصہ دوں گا اور
بیٹیوں کا حصہ انہیں خود الگ سے دے دیاکروں گا‘‘۔
یہ سن کر ان کے چہرے پر ایک
معنی خیز مسکراہٹ ابھری اور انہوں نے ایک ٹھنڈی سانس بھرتے ہوے کہا’’پروفیسر صاحب!
آپکی اس بات میں وہی فلسفہ کارفرما ہے جسکی بنیاد پر اللہ پاک نے اپنی عنایات تقسیم
کرنے کا فارمولا طے کر رکھا ہے
۔اللہ پاک آپ کوجو رزق اور نعمتیں عطا فرماتا ہے وہ صرف اور صرف آپ
کے لئے نہیں ہوتیں‘ ان میں بہت سے لوگوں کا حصہ ہوتا ہے اور جب تک آپ وہ حصہ ان حقداروں
تک پوری ایمانداری اور انصاف سے پہنچاتے رہتے ہیں ‘آپ کو وہ حصہ اسی تناسب سے ملتا
رہتا ہے اور آپ بھی دنیا کی نظرمیں مالدار‘ سیٹھ‘ جاگیردار اورسرمایہ دار بنے رہتے
ہیں۔لیکن جب اس تقسیم میں کوتاہی یا بداعتدالی ہوتی ہے تو اللہ پاک آپ کو صرف آپکے
حصے تک محدود کر دیتا ہے اور اس ریل پیل سے محروم کر دیتا ہے۔
دیکھا
جائے تو اللہ کی تقسیم کا یہ معاملہ صرف رزق تک ہی محدود نہیں ہے۔ اس میں عزت ‘ سکون‘
امن اور آسانیاں بھی شامل ہیں۔ خاص طور پر عزت کا معاملہ بڑا خاص الخاص ہے اور اس کو
بہت اچھی طرح سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اللہ پاک عزت کے معاملے میں بہت حساس ہے۔ ہم نے اللہ
کی دی ہوئی عزت کو اپنی ذاتی کمائی سمجھ لیا ہے۔ہم اس گمان میں مبتلا ہیں کہ اس عزت
کے ہم بلا شرکت غیر مالک ہیں۔یہ ساری کی ساری ہماری ذاتی میراث اور ہماری اہلیت اور
صلاحیتوں کا ثمر ہے۔حالانکہ ایسا قطعاََ نہیں ہے۔۔
آپ
اپنے گردواطراف میں نظردوڑائیں تو آپ کو بے چین‘ بے سکون اور ہیجانی کیفیت مین مبتلا
لوگوں کا ہجوم نظر آئے گا۔بد قسمتی سے ہم من حیث القوم بھی انہی کیفیات کا شکار ہیں۔
ایسا کیوں ہے؟باقی اقوام عالم کے مقابلے میں ہم اتنے محروم کیوں ہیں؟ کیا یہ ہماری
بداعمالیوں اور گناہوں کا نتیجہ ہے یا کوئی اور معاملہ ہے؟
ہم
نے رب کی دی ہوئی عزت سے لوگوں کا حصہ نکالنا چھوڑ دیا ہے اوراس طرح عزت کی ترسیل میں
کمی واقع ہو گئی ہے‘ ہم نے اپنے رب کی دی گئی آسانیوں کو بانٹنا چھوڑ دیا ہے اور وہ
آسانیاں بھی ہم سے چھن رہی ہیں
ہم
اپنے غریب ہمسائے کے مجرم ہیں‘ اس غریب بچی کے مجرم ہیں جس کی شادی کا کل خرچ ہمارے
بچے کی سالانہ پاکٹ منی کے برابر ہے۔ ان طعنوں میں برابر کے شریک جرم ہیں جووہ تمام
عمر کم جہیز لانے پر سہتی ہے۔ہم اس بیمار بچے کے مجرم ہیں جس کے علاج کا خرچ ہمارے
گھر میں کھڑی بہت سی گاڑیوں میں سے کسی ایک کی قیمت میں ہو سکتا ہے۔ ہم اس عرضی خواں
کے مجرم ہیں جو قرض لیکر دور دراز کے گاؤں سے ہمارے دفتر اس غلط وقت پہنچتا ہے جب ہم
اپنے کسی عزیز یا دوست سے گپ شپ میں مصروف ہوتے ہیں اور وہ اگلے دن کیلئے ٹال دیا جاتا
ہے۔ ہم اس گھریلو ملازمہ کے مجرم ہیں جس کا بیٹا ہمارے گھر کھڑی ٹوٹی سائیکل‘ پرانے
کپڑوں اور جوتوں کو حسرت کی نگاہ سے دیکھتا ہے جنہیں ہم استعمال کرتے ہیں اور نہ ہی
کسی کو دینے کی ہمت رکھتے ہیں۔
اس اجتماعی بے چینی‘ بے سکونی‘بے
برکتی اور ہیجان سے نکلنے کا بس ایک ہی راستہ ہے۔
ہمیں اپنے روزمرہ کے رویوں
کو بدلنا ہوگا‘
ہمیں
یہ سمجھنا پڑے گاکہ مخلوق کی عزت دراصل اسکے خالق کی عزت اور مخلوق سے پیار دراصل اس
کے خالق سے پیار ہے۔ کیا ہم ان اقوام کا مقابلہ کر سکتے ہیں جہاں انسان تو انسان ‘
جانور بھی اپنے حصے کی عزت‘ پیار اور سہولیات کا حصہ پوری ایمانداری اوردھڑلے سے وصول
کرتا ہے۔ جب ہم پیار کی جگہ نفرت‘ عزت کی جگہ حقارت اور بخشش کی بجائے محرومیوں کا
بیوپار کریں گے تو پھر ہمیں یقین کر لینا چاہیئے کہ وہ خالق دو جہاں جلد یا بدیر ہمیں
ہٹا کر کوئی نیا ’’ڈسٹری بیوٹر‘‘ مقرر کر دے گا۔۔
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You