پردہ
رخِ زیبا سے اٹھا کیوں نہیں دیتے
بیمار
محبت کو دوا کیوں نہیں دیتے
آوارگیِٔ
شوق بڑھا کیوں نہیں دیتے
جذبات
کو آنچل کی ہوا کیوں نہیں دیتے
شبنم
ہو تو آرائش گل کیوں نہیں کرتے
شعلہ
ہو تو محفل کو جلا کیوں نہیں دیتے
خشبو
ہوں تو سانسوں میں بسانے میں ہے ڈر کیا
دھڑکن
ہوں تو پھر دل میں جگہ کیوں نہیں دیتے
فرقت
کے سمندر میں کوئی ڈوب رہا ہے
ساحل
ہو تو پھر ہاتھ بڑھا کیوں نہیں دیتے
منصف
ہو تو انصاف کرو جورو جفا کا
قاتل
ہو تو پھر خون بہا کیوں نہیں دیتے
بے
جا ہے شب و روز کا شکوہ و شکایت
وہ
دشمنِ جاں ہے تو دعا کیوں نہیں دیتے
عاشق
نے تجھے ٹوٹ کے چاہا تو خطا کی
جب
وہ ہے خطا وار سزا کیوں نہیں دیتے
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You