اِبنِ سعد نے "
الطبقات " میں اِمام زہری سے روایت کرتے ہوئے لِکھا ہے کہ:
" عہدِ رسالت صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم میں ایک یہودی نے
تورات میں موجود آپ صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم کی صِفات پڑھ رکھی تھیں۔اس نے بغور
جائزہ لیا،ہر صِفت بہ تمام و کمال موجود تھی،لیکن وہ بردباری ( تحمّل، برداشت ) کا
مشاہدہ نہ کر سکا تھا۔اس نے صِرف اس صِفت کو آزمانے کا فیصلہ کر لیا۔ "وہ یہودی
خود بیان کرتا ہے:
میں
نے حضور نبی کریم صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم کو تیس دینار اُدھار دیے اور مُدّت
مقرر کر دی۔دِن گُزرتے رہے جب مُدّت ختم ہونے میں ایک دِن باقی رہ گیا تو میں دِل
میں بنائے ہوئے منصوبے کے مطابق دانستہ آپ ( صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم ) کی بارگاہ
میں حاضر ہو گیا اور سخت لہجے میں کہا:
اے محمد ( صلی اللّہ علیہ
وآلہ وسلم )! میرا قرض ادا کیجیے۔ کیونکہ آپ ( صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم ) اولادِ
عبدالمطلب بہت ٹال مٹول کرنے والے لوگ ہیں۔ "
عِشق
و محبّت ڈوبے ہوئے ادب شِعار ( یعنی ادب کی پہچان ) حاضریں صحابہ کرام کو یہ
کُھردرا اندازِ تخاطب بہت بُرالگا۔حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللّہ عنہُ تو حسبِ
معمول غُصّے کو ضبط نہ کر سکے اور سخت جلال میں آ کر یہودی سے مخاطب ہوئے:"
او خبیث یہودی! اگر حضور صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم کی موجودگی کی وجہ سے ادب مانع
نہ ہوتا تو ابھی تیرا یہ سر جُدا کر دیتا جس میں دو آنکھیں چمک رہی ہیں۔ "لیکن
پیکرِ عِلم و حِلم ( عِلم اور نرم طبعی ) نبی صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم نہایت سکون
و قرار سے بیٹھے رہے۔یہودی کی طعن آمیز گفتگو سے آپ صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم کو
بالکل غُصّہ نہ آیا۔حسبِ معمول ضبط و تحمّل اور وقار کے ساتھ تشریف فرما رہے۔اُلٹا
حضرت فاروقِ اعظم رضی اللّہ عنہُ کو فرمایا:" اے عمر( رضی اللّہ عنہُ )! ہمیں
تم سے کسی اور سلوک کی توقع تھی وہ شخص قرض خواہ ہے اسے ہر انداز اپنانے کا حق
پہنچتا ہے، تمہیں چاہیے تھا کہ ہمیں ادائیگی قرض کی تلقین کرتے اور اسے سمجھاتے کہ
اس انداز سے مطالبہ نہیں کِیا کرتے ہیں۔اب جاؤ! جا کر اس کا قرض ادا کرو اور کچھ
زائد بھی دو اور اس کا جو مطالبہ ہو وہ پورا کرو۔ "یہودی اس موقعہ پر اپنے
تاثرات بیان کرتا ہے:" میری بدتمیزی اور ڈھٹائی سے نبی اکرم صلی اللّہ علیہ
وآلہ وسلم کے حِلم ( نرمی ) میں اور اضافہ ہُوا۔ حضرت عمر فاروق اعظم رضی اللّہ
عنہُ مجھے ساتھ لے کر گئے اور حُکم کے مطابق قرض ادا کر دیا اور کچھ زائد بھی دیا۔
میں یہ صورتِ حال دیکھ کر بے ساختہ چِلّا اُٹھا!
میں گواہی دیتا ہوں کہ
اللّہ کے سِوا کوئی معبود برحق نہیں اور وہ اللّہ کے رسول ہیں۔
اے عمر ( رضی اللّہ عنہُ
)! جو کچھ میں نے کہا،
اس پر مجھے اُبھارنے والے
یہ بات تھی کہ میں نے تمام صِفات سرورِ دوعالم صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات میں
دیکھ لی تھیں لیکن حلم و عِلم والی صِفت کا جائزہ نہیں لیا تھا،سو آج آزما لیا اور
بالکل تورات کے مطابق پایا۔ "( الطبقات الکبریٰ:3:1:1 )
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You