میرا
خاموش رہ کر بھی انہیں سب کچھ سنا دینا
زبان
سے کچھ نہ کہنا دیکھ کر آنسو بہا دینا
نشیمن
ہو نہ ہو یہ تو فلک کا مشغلہ ٹھہرا
کہ دو
تنکے جہاں پر دیکھنا بجلی گرا دینا
میں
مجرم ہوں مجھے اقرار ہے جرم محبت کا
مگر
پہلے خطا پر غور کرنا پھر سزا دینا
اجازت
ہو تو کہہ دوں قصۂ الفت سر محفل
مجھے
کچھ تو فسانہ یاد ہے کچھ تم سنا دینا
ہٹا
کر رخ سے گیسو صبح کر دینا تو ممکن ہے
مگر
سرکار کے بس میں نہیں تارے چھپا دینا
میں
اس حالت سے پہنچا حشر والے خود پکار اٹھے
کوئی
فریاد والا آرہا ہے راستہ دینا
قمرؔ
وہ سب سے چھپ کرآ رہے فاتحہ پڑھنے
کہوں
کس سے کہ میری شمعِ تربت کو بجھا دینا
Nice
ReplyDelete