علماء کے فضائل ، اہلِ
علم کی فضیلت:
1: مدینہ سے ایک شخص ابو دردہ رضی اللہ تعالی عنہ کے پاس آیا جب وہ دمشق میں تھے- تو انھوں نے
پوچھا:
اوہ میرے بھانجے! کیا بات تمھیں یہاں لائی ہے؟اسنے جواب دیا:
" ایک حدیث مجھ تک پہنچی ہے جسے آپ نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت
کیا ہے.
" آپ رضی الله نے فرمایا
: " تو تم ادھر اپنے کسی ضرورت کی وجہ سے نہیں آئے ہو؟ اس نے جواب دیا:
"نہیں"- آپ نے پوچھا: " کیا تم ادھر تجارت کے لئے آئے ہو؟- اسنے
کہا : " نہیں، میں صرف اس حدیث کی جانکاری کے لئے یہاں آیا ہوں"- تو آپ
رضی الله عنہ نے فرمایا : بے شک میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا کہ:
مَنْ سَلَكَ طَرِيقًا
يَبْتَغِيفِيهِ عِلْمًا سَلَكَ اللَّهُ بِهِطَرِيقًا إِلَى الْجَنَّةِ
وَإِنَّالْمَلاَئِكَةَ لَتَضَعُ أَجْنِحَتَهَارِضًا لِطَالِبِ الْعِلْمِ
وَإِنَّالْعَالِمَ لَيَسْتَغْفِرُ لَهُ مَنْفِي السَّمَوَاتِ وَمَنْ فِي
الأَرْضِحَتَّى الْحِيتَانُ فِي الْمَاءِوَفَضْلُ الْعَالِمِ عَلَى
الْعَابِدِكَفَضْلِ الْقَمَرِ عَلَى سَائِرِالْكَوَاكِبِ إِنَّ
الْعُلَمَاءَوَرَثَةُ الأَنْبِيَاءِ إِنَّالأَنْبِيَاءَ لَمْ يُوَرِّثُوا
دِينَارًاوَلاَ دِرْهَمًا إِنَّمَاوَرَّثُوا الْعِلْمَ فَمَنْ أَخَذَ بِهِ
أَخَذَبِحَظٍّ وَافِرٍ(جامع ترمذی :2682)
ترجمہ: اگر کوئی شخص علم
کا راستہ اختیار کرے گا تو الله اس کے لئے جنت کا راستہ آسان کر دے گا اور فرشتے
طالب علم کی رضا کے لئے (اسکے پاؤں کے نیچے) اپنے پر بچھاتے ہیں – عالم کے لئے
آسماں ؤ زمین میں موجود ہر چیز مغفرت طلب کرتی ہے- یہاں تک کہ مچھلیاں پانی میں اس
کے لئے استغفار کرتی ہیں- عالم کو عابد پر اسطرح فضیلت ہے جیسے چاند کو فضیلت
ستاروں پر- علماء انبیاء کے وارث ہیں اور بےشک انبیاء کی وراثت درہم ؤ دینار نہیں
ہوتے بلکہ انکی میراث علم ہے- پس جس نے اسے حاصل کیا اس نے انبیاء کی وراثت سے بہت
سارا حصہ حاصل کر لیا-
2: ابو امامہ باہلی رضی
الله عنہ فرماتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے سامنے دو آدمیوں کا تذکرہ
کیا گیا جن میں سے ایک عابد تھا اور دوسرا عالم- آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:
فَضْلُ الْعَالِمِ عَلَى
الْعَابِدِ كَفَضْلِي عَلَى أَدْنَاكُمْ " .ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ
صلى الله عليه وسلم " إِنَّ اللَّهَ وَمَلاَئِكَتَهُ وَأَهْلَ السَّمَوَاتِ
وَالأَرْضِ حَتَّى النَّمْلَةَ فِيجُحْرِهَا وَحَتَّى الْحُوتَ لَيُصَلُّونَ عَلَى
مُعَلِّمِ النَّاسِ الْخَيْرَ " . قَالَ أَبُو عِيسَى هَذَا حَدِيثٌ
حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ . قَالَ سَمِعْتُ أَبَا عَمَّارٍ الْحُسَيْنَ بْنَ
حُرَيْثٍ الْخُزَاعِيَّ يَقُولُ سَمِعْتُ( الْفُضَيْلَ بْنَ عِيَاضٍ يَقُولُ
عَالِمٌ عَامِلٌ مُعَلِّمٌ يُدْعَى كَبِيرًا فِي مَلَكُوتِ السَّمَوَاتِ)
.
[جامع ترمذی :2685]
عالم کی فضیلت عابد پر اسطرح ہے جسطرح میری
تمہارے ادنی ترین آدمی پر - پھر فرمایا کہ یقیناّ الله، فرشتے اور تمام اہل زمین ؤ
آسماں یہاں تک کہ چیونٹی اپنے سوراخ میں اور مچھلیاں بھی، اس شخص کی لئے دعائے خیر
کرتے ہیں اور رحمت بھیجتے ہیں جو لوگوں کو بھلائی کی باتیں سکھاتا ہے۔ فضیل بن
عیاض رضی اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ مالا اعلی میں عالم باعمل اور طالب علم کو بہت بڑا
مرتبے والا سمجھا جاتا ہے۔
3: قَالَ
عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: «لَمَوْتُ أَلْفِ عَابِدٍ قَائِمٍ
اللَّيْلَ صَائِمٍ النَّهَارَ أَهْوَنُ مِنْ مَوْتِ الْعَاقِلِ الْبَصِيرِ
بِحَلَالِ اللَّهِ وَحَرَامِهِ (جامع
البیان العلم و فضلہ ، جلد 1.صفحہ 65)
ترجمہ: ان ایک ہزار عبادت
گزاروں کی موت کا غم برداشت کرنا آسان ہےجو دن میں روزے رکھتے ہیں اور رات میں قیام
کرتے ہیں بنسبت اس ایک عالم کے موت کے جو حرام اور حلال کا فرق سمجھتا ہو-
4: عبد
الله ابن مسعود رضی الله عنہ نے فرمایا:
عَنْ سَعِيدِ بْنِ وَهْبٍ
عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا أَخَذُوا الْعِلْمَ
عَنْ أَكَابِرِهِمْ وَعَنْ أُمَنَائِهِمْ وَعُلَمَائِهِمْ فَإِذَا أَخَذُوا مِنْ
صِغَارِهِمْ وَشِرَارِهِمْ هَلَكُوا (نصیحه
الخطیب البغدادی 8 صحیح الالبانی)
ترجمہ: لوگ ہمیشہ اچھائی
پر رہیں گےجبتک وہ علم لیں اپنے بڑوں سے، قابل اعتماد اور ثقہ لوگوں سے اور علماء
سے- اگر لوگ اپنے نوجوانوں اور برے خیانت
دار لوگوں سے علم لیں گے تو پھر وہ تباہ ہو جائیں گے-
5: عَنْ أَبِي ذَرٍّ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ لِي رَسُوْلُ
اﷲ صلی الله عليه وآله وسلم: يَا أَبَا ذَرٍّ، لَأَنْ تَغْدُوَ فَتَعَلَّمَ
آيَةً مِنْ کِتَابِ اﷲِ خَيْرٌ لَکَ مِنْ أَنْ تُصَلِّيَ مِاءَةَ رَکْعَةٍ،
وَلَأَنْ تَغْدُوَ فَتَعَلَّمَ بَابًا مِنَ الْعِلْمِ عُمِلَ بِهِ أَوْ لَمْ
يُعْمَلْ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تُصَلِّيَ أَلْفَ رَکْعَةٍ. (ابن
ماجہ حدیث نمبر 219)
ترجمہ:
حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے
مجھے ارشاد فرمایا: اے ابو ذر! تم اس حال میں صبح کرو، کہ تم (رات بھر جاگ کر)
اللہ تعاليٰ کی کتاب میں سے ایک آیت سیکھ لو تو یہ تمہارے لئے سو رکعات نفل پڑھنے
سے بہتر ہے۔ تم اس حال میں صبح کرو، کہ (اس دوران) تم علم کا ایک باب سیکھ لو چاہے
اس پر عمل کیا گیا ہو یا نہ کیا گیا ہو تو یہ تمہارے لئے ایک ہزار رکعت نوافل ادا
کرنے سے بہتر ہے۔
علماء قیامت کے دن شفاعت
کریں گے:
6: عَنْ
عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲ صلی الله عليه
وآله وسلم: يَشْفَعُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثَـلَاثَةٌ: أَلْأَنْبِيَاءُ، ثُمَّ
الْعُلَمَاءُ، ثُمَّ الشُّهَدَاءُ. (رَوَاهُ
ابْنُ مَاجَه حدیث نمبر 4313)
ترجمہ: حضرت عثمان بن
عفان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
روزِ ِقیامت تین گروہ شفاعت کریں گے: انبیاء، پھر علماء اور پھر شہداء۔
7: وَفِي
رِوَايَةِ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اﷲِ رضی الله عنهما قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲ صلی
الله عليه وآله وسلم: يُبْعَثُ الْعَالِمُ وَالْعَابِدُ. فَيُقَالُ لِلْعَابِدِ:
ادْخُلُ الْجَنَّةَ. وَيُقَالُ لِلْعَالِمِ: اثْبُتْ حَتَّی تَشْفَعَ لِلنَّاسِ
بِمَا أَحْسَنْتَ أَدَبَهُمْ.
( أخرجه
البيهقي في شعب الإيمان، 2/ 268، الرقم/ 1717، والديلمي في مسند الفردوس، 5/ 465،
الرقم/ 8773، وذکره المنذري في الترغيب والترهيب، 1/ 57، الرقم/ 134، والذهبي في
ميزان الاعتدال، 6/ 506.)
ترجمہ: حضرت جابر بن عبد
اللہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: عالم اور
عابد کو (روزِ قیامت) اٹھایا جائے گا۔ عابد سے کہا جائے گا: تو جنت میں داخل ہوجا۔
اور عالم سے کہا جائے گا: ٹھہر جا حتی کہ تو لوگوں کی اچھی تربیت کے بدلے اُن کی
سفارش کرے۔
قیامت کے دن علماء کے
سارے گناہ معاف کر دیے جائیں گے:
8: عَنْ
ثَعْلَبَةَ بْنِ الْحَکَمِ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲ صلی الله عليه
وآله وسلم: يَقُوْلُ اﷲُ تَعَالٰی لِلْعُلَمَاءِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِذَا قَعَدَ
عَلٰی کُرْسِيِّهِ لِقَضَاءِ عِبَادِهِ: إِنِّي لَمْ أَجْعَلْ عِلْمِي وَحُکْمِي
فِيْکُمْ إِلَّا وَأَنَا أُرِيْدُ أَنْ أَغْفِرَ لَکُمْ عَلٰی مَا کَانَ
فِيْکُمْ وَلَا أُبَالِي. رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ
وَرُوَاتُهُ ثِقَاتٌ.
(أخرجه
الطبراني في المعجم الکبير، 2/ 84، الرقم/ 1381، وذکره المنذري في الترغيب
والترهيب، 1/ 57، الرقم/ 131، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1/ 126، وقال: رواه
الطبراني في الکبير ورجاله موثقون، وابن کثير في تفسير القرآن العظيم، 3/ 142،
وقال: إسناده جيد.) ترجمہ: حضرت ثعلبہ بن حکم رضی اللہ
عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: روزِ قیامت
جب اللہ تعاليٰ اپنے بندوں کے بارے میں فیصلہ فرمانے کیلئے اپنی کرسی پر (اپنی شان
کے لائق) تشریف فرما ہو گا تو علماء سے فرمائے گا: میں نے تمہیں اپنا علم اورحکمت
و دانائی صرف اس لئے عطا فرمائی تھی کہ تمہارے تمام گزشتہ گناہ معاف فرما دوں اور
مجھے (ایسا کرنے میں) کچھ پرواہ نہیں۔
9: وَفِي رِوَايَةِ
أَبِي مُوْسَی الْأَشْعَرِيِّ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲ صلی الله
عليه وآله وسلم: يَبْعَثُ اﷲُ الْعِبَادَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ ثُمَّ يُمَيِّزُ
الْعُلَمَاءَ فَيَقُوْلُ: يَا مَعْشَرَ الْعُلَمَاءِ، إِنِّي لَمْ أَضَعْ
فِيْکُمْ عِلْمِي وَأَنَا اُرِيْدُ أَنْ أُعَذِّبَکُمُ. اذْهَبُوْا فَقَدْ
غَفَرْتُ لَکُمْ. رَوَاهُ
الطَّبَرَانِيُّ وَالْبَيْهَقِيُّ. أخرجه الطبراني في المعجم الأوسط، 4/ 302،
الرقم/ 4264، وفي المعجم الصغير، 1/ 354، الرقم/ 591، والروياني في المسند، 1/
353، الرقم/ 542، والبيھقي في المدخل إلی السنن الکبری، 1/ 343، الرقم/ 567، وذکره
المنذري في الترغيب والترهيب، 1/ 57، الرقم/ 132، والهيثمي في مجمع الزوائد، 1/
126.
ترجمہ: حضرت ابو موسيٰ
اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا:
اللہ تعاليٰ قیامت کے روز اپنے بندوں کو اٹھائے گا پھر علماء کو ان سے الگ کرکے
فرمائے گا: اے گروهِ علماء! میں نے تمہیں اپنا علم اس لیے نہیں دیا تھا کہ تمہیں
عذاب دوں۔ جاؤ میں نے تمہیں بخش دیا۔
0 comments:
Post a Comment
Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You