Rabi.ul.awal gives us the message of unity, love , forgiveness, determination and devotion

5/21/21

قبلہ اول بیت المقدس || القدس || آگ ، نمرود اور اولادِ ابراہیم علیہ السلام

آگ، نمرود اور اولاد ابراہیم ؑ

تحریر: سید زید زمان حامد

قبلہءاول مسجد اقصیٰ اور بیت المقدس شریف کے دفاع میں شروع ہونیوالا معرکہءفلسطین آج پوری امت کیلئے گہرا پیغام رکھتا ہے۔ جہاں ایک جانب فلسطینی مجاہد دلیری، شجاعت اور قربانیوں کی ناقابل یقین داستانیں رقم کررہے ہیں وہیں دوسری جانب طاقتور مسلمان حکومتیں بے شرمی، بے غیرتی اور ذلت و رسوائی کی ناقابل فراموش تصاویر بنی ہوئی ہیں۔

سیدی رسول اللہﷺ نے امت کے زوال و ذلت و تباہی کی وجہ یہ بیان فرمائی تھی کہ امت میں حب الدنیا و کراہیت الموت کی بیماری پھیل جائے گی۔ آج تمام مسلمان ممالک کی فوجوں کو جمع کرلیں تو کل تعداد پچاس لاکھ سے بھی زائد بنتی ہے، ایٹمی ہتھیاروں، میزائلوں اور طیاروں، ٹینکوں کی تعداد بے شمار ہے۔ اس کے مقابلے میں اسرائیل کی مسلح افواج کی کل تعداد 2 لاکھ سے بھی کم ہے۔ یعنی 50 لاکھ مسلمانوں کے مقابلے میں 2 لاکھ یہودی۔ اور اس کے باوجود مسلمان ریاستوں اور حکمرانوں کی ٹانگیں کانپ رہی ہیں۔

فلسطینی مجاہدین نے امت کا قرض ادا کیا ہے۔ دنیا کے پچاس اسلامی ممالک کی بے شرم حکومتوں کی جانب سے دکھائی گئی بزدلی پر ہر مسلمان کا سر شرم سے جھکا ہوا تھا، مگر فلسطینی مسلمانوں کی جانثاری، سرفروشی اور قوت ایمانی نے اس جھکے ہوئے سر کو ایک مرتبہ پھر اٹھا دیا۔ یہودی ریاست کا جو خوف و دبدبہ پوری دنیا میں قائم تھا، فلسطینی مسلمانوں نے اسے اپنے پیروں تلے روند کر رکھ دیا۔ دنیا کو یہ بتا دیا کہ مشرق وسطیٰ کی واحد ایٹمی طاقت بھی ہو اور سفاکانہ قتل عام بھی کرے، تب بھی سیدی رسول اللہﷺ سے محبت کرنے والے نہ سیدیﷺ کو تنہا چھوڑیں گے، نہ امت کے دفاع سے پیچھے ہٹیں گے، نہ بیت المقدس شریف یہودیوں کو دیں گے اور نہ ہی الاقصیٰ کو گرنے دینگے، چاہے ذبح ہی کیوں نہ کردیئے جائیں۔

آج کے دور کے ”اصحاب الاخدود“ کی طرح گروہ در گروہ فلسطینی مسلمانوں، عورتوں اور بچوں کو آگ میں ڈالا جارہا ہے، اور یہ ہنسی خوشی اللہ کے دین کی خاطر خود چلتے ہوئے اس آگ میں داخل ہوجاتے ہیں، اور پوری مسلمان امت کے حکمرانوں کا حال یہ ہے کہ ان کو جلتے دیکھ رہے ہیں، مگر حب الدنیا و کراہیت الموت کی ایسی لعنت میں مبتلا ہیں گویا سکتے میں ہوں۔۔۔

حکمرانوں کی ذلت، مسلمان ملت کا دکھ، فلسطینی مسلمانوں کی قربانیاں اور یہودیوں کی جانب سے سفاکانہ مظالم کے مظاہروں کے درمیان معرکہءفلسطین ہمیں انتہائی اہم سبق بھی سکھا رہا ہے۔

 

آپ سے ہم ہمیشہ کہتے رہے ہیں کہ آنے والی دور کی جنگیں شہروں میں لڑی جائیں گی۔ چاہے غزہ کی تباہی ہو یا تل ابیب پر راکٹ برس رہے ہوں، جنگیں اب شہروں میں ہی لڑی جارہی ہیں۔ وہ روایتی بوسیدہ تصور کہ محاذ پر جا کر جنگ لڑیں اب ماضی ہوچکا ہے۔ سویلین اور فوجی کا فرق بھی مکمل طور پر ختم ہوچکا ہے اور یہ کہ سامنے چاہے ایٹمی طاقت ہی کیوں نہ ہو، سرفروشی، جانبازی اور غیر روایتی جنگ سے اس کو بھی گھٹنوں پر گرایا جاسکتا ہے۔

اگر آج دو چار مسلمان ممالک بھی براہ راست اس جنگ میں شامل ہوجاتے تو اسرائیل کی ریاست ایک ہفتے میں صفحہءہستی سے مٹا دی جاتی، مگر شاید اللہ کو ابھی اس امت سے اور قربانیاں طلب کرنی ہیں، اور اس کے بے شرم حکمرانوں کو مزید ذلیل کرنا ہے۔

جو کچھ آج غزہ میں ہورہا ہے، اس سے پہلے عراق، شام، لیبیا اور یمن میں ہوبھی چکا ہے اور ہو رہا ہے۔ جو مسلمان حکومتیں اپنے آپ کو بچانے کیلئے آج بزدلی اور بے غیرتی کا راستہ چن رہی ہیں ان کو اچھی طرح معلوم ہونا چاہیے کہ کل وہ اپنے آپ کو اور ملک و قوم کو اسی تباہی سے دوچار کریں گی۔ جغرافیائی اور سیاسی حالات بھی اس کی تصدیق کررہے ہیں اور فطرت کی مکافات عمل کی سنت بھی۔

آنے والے وقتوں میں پاکستانی قوم کو بھی غزہ کے مسلمانوں کی طرح ایسی ہی آزمائش سے گزرنا ہوگا۔ ہم برسوں سے حکومت، فوج اور قوم کو انہی خطرات سے آگاہ کرنے کی کوشش کررہے ہیں، مگر واضح ہے کہ ان کے دلوں پر مہریں لگ چکی ہیں اور اب یہ بغیر سزا کے بیدار ہونے والے نہیں۔ ہمارا مشرک دشمن مسلسل تلواریں تیز کررہا ہے، اور وہ وقت دور نہیں ہے کہ جب آج کے غزہ کے مسلمانوں کو خاک و خون میں لتھڑے تنہا چھوڑنے والی قوم کو خود اپنی گلیوں میں اسی طرح لاشیں اٹھانی پڑیں گی۔ جب بغداد کے مسلمانوں نے خوارزم کے مسلمانوں کو تاتاریوں کے آگے ڈال کر ذبح کروادیا تو کچھ ہی عرصے کے بعد انہی تاتاریوں نے بغداد کا بھی وہ حشر کیا کہ دجلہ پہلے سرخ ہوا اور پھر سیاہ۔

فطرت اور تاریخ کبھی بزدلی اور بے غیرتی کو معاف نہیں کرتے۔۔۔ کبھی ایسی قوم نے بقاءحاصل نہیں کی جو موت سے ڈرتی ہو۔ جنت تلواروں کے سائے میں ہے، حب الدنیا و کراہیت الموت کی ذلت میں نہیں۔۔۔!

مسلمان حکمرانوں پر آج حجت تمام ہوچکی ہے۔ ان کے خلاف فلسطین کے جلتے ہوئے مسلمان اپنا مقدمہ لیکر دربار نبویﷺ میں جاچکے ہیں۔ اب اگر اللہ فیصلہ کردے کہ باقی امت کو بھی اسی آگ و خون کے دریا سے گزرنا ہوگا تو پھر ہمارے پاس کوئی عذر باقی نہیں رہے گا۔

آج آگ بھی ہے، نمرود بھی ہے اور ”اولاد ابراہیمؑ“ فلسطین میں جل بھی رہی ہے۔۔۔ مگر مسلمان حکمران اور امت اس ”امتحان“ میں جس ذلت کے ساتھ ناکام ہوئے ہیں اس کا کفارہ اب آگ و خون کے دریا ہی ہوسکتے ہیں۔۔۔

اب اللہ سے شکوہ نہ کرنا۔۔۔!!!

آگ ہے، اولاد ابراہیمؑ ہے، نمرود ہے

کیا کسی کو پھر کسی کا امتحاں مقصود ہے


 

Share:

0 comments:

Post a Comment

Please Give Us Good Feed Back So that we can do more better for man kind. Your Comments are precious for US. Thank You

Followers

SUBSCRIBE BY EMAILL

Join Forsage

Online People

Blog Archive

Blog Archive